- 816وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
راشد محمود کاسوال: سلطان حق باہو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کامل مرشد وہ ہے جو اپنے مرید کو پہلے ہی روز مقام محمد ی پر فائز کر دے ، اسکی وضاحت فرما دیں ؟
سلطان حق باھو کی کتب میں تعلیم عام انسانوں کے لئے نہیں ہے :
لوگوں کی اکثریت مقام محمدی سے نا واقف ہے۔ سلطان حق باہو نے مختلف کتابیں لکھی ہیں اور ہر کتاب میں جو ارشادات اور تعلیم ہے وہ مختلف ایمان اور درجات کے حامل لوگوں کے لئے ہے ۔ مقام محمدی ، عالم ِ وحدت کو کہتے ہیں۔ مقام محمدی عالم احدیت کے سامنے کی جگہ ہے ۔ اور وہ مقام محمدی ، نبی کریم ﷺ کی روح ِ انور کا مقام ہے ۔اورکیا آپ پہلے دن ہی وہاں پہنچ جائیں گے ؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔ ویسے تو سلطان حق باہو نے یہ بھی کہا ہے کہ طالب بیا ، طالب بیا تا رسانم روز اول با خدا ۔۔ کہ پہلے دن ہی تیری رسائی کرادوں اور پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ تیری پہلے روز ہی مقام محمدی میں رسائی کروا دوں ۔اسطرح تو یہ دونوں باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ جن لوگوں کی تیاری ہو گئی ہوتی ہے اور جن لوگوں کی منزل وہاں تک ہو گئی ہوتی ہے پھر اُن لوگوں کے لئے حکم ہوتا ہے جسطرح سیدنا گوھر شاہی سے ایک نجی نشت میں سوال ہوا کہ کیا آپ ایک وقت میں میرے دو چار لطائف چلا سکتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں بالکل چلا سکتے ہیں اور لطائف کیا ہم تو ایک نظر میں اللہ کا دیدار بھی کرا سکتے ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا تم میں تاب ہے ؟
مثال: اچھی گاڑی کون نہیں چلانا چاہتا لیکن گاڑی جتنی اچھی ہو گی اسی مناسبت سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہو گی ۔ اسی طرح ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر ابھی چھ مہینے ہے ، آپ اُس کی شادی کیوں نہیں کرتے ہیں؟ کیونکہ وہ ابھی جوان ہی نہیں ہوا ہے اور مادہ تولید ہی نہیں ہے تو اپنی نسل کیسے آگے بڑھائے گا۔ اسی طرح یہ اصول ہر جگہ کار فرما ہوتا ہے ۔
عبادات کے ساتھ مشقت ظرف میں اضافے کے لئے ہے:
ابتدائی دنوں میں ہمارا یہ خیال تھا کہ جو فقراء اور اولیا گزرے ہیں ، جو یہ جنگلوں میں گئے اور بڑی عجیب و غریب طرح کی عبادتیں کیں تو اس کی کیا ضرورت تھی ۔ جیسے کہ بابا فرید کنوئیں میں اُلٹا لٹک کر عبادت کر رہے ہیں ، غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ پوری رات ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر قرآن شریف کی تلاوت کر رہے ہیں اور وہ پندرہ سال تک ایسا کرتے رہے ۔یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ قرآن ہی اگر پڑھنا ہے تو ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر کیوں پڑھ رہے ہیں ؟ ان باتوں کی سمجھنے کے لئے روحانیت کی تعلیم درکار ہے ، دین کی تعلیم ، محمد ﷺ سے رسائی اور ان سے رابطہ ، اولیاء کرام سے رسائی اور ان سے رابطہ تاکہ اُن سے پوچھیں کہ آپ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر قرآن شریف کیوں پڑھ رہے ہیں ۔ محمد الرسول اللہ نے بھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر قرآن شریف نہیں پڑھا اور نہ ہی آپ ؐ نے فرمایا کہ کنوئیں میں اُلٹا لٹک کر اللہ کا ذکر کرو۔اب جن لوگوں کے پاس تعلیم نہیں ہوتی ہے وہ اسے خرافات گردانتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔بنیادی چیز تو اللہ کا ذکر کرنا ہے لیکن یہ سختیاں ظرف کو بڑھانے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح قرآن پڑھنا تو آسان ہے لیکن ساری رات ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر قرآن پڑھنے سے انسان مشقت میں چلا جاتا ہے ۔ اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ مشقت نفس کے لئے ہے ، جسم کو مشقت و تکلیف اور اذیت میں ڈالنا لیکن سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ سے معلوم ہوا کہ یہ ظرف بڑھانے کے لئے ہوتا ہے تاکہ آپ کی قوت برداشت بڑھ جائے ۔
اگر آپ کو کہا جائے کہ آہستہ آہستہ واک کریں تو آپ کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تیز تیز چلیں تو پھر آپ کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز تیز چلنا شروع ہو جائیں گی اور سانس بھی پھولے گا ۔ پھر اگر یہ کہا جائے کہ اب تیز تیز چلنے کے بجائے بھاگنا شروع کر دیں تو اس میں اور زیادہ محنت ہو گی ۔ تو یہ ساری چیزیں اضافی ہیں جو ظرف کو بڑھانے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ قرآن شریف بھی پڑھ رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر مشقت بھی کر رہے ہیں تو اس سے ظرف بڑھ رہا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی محبت کے ساتھ بلا اور مصیبت کو جوڑ دیا ہے ۔ ۔۔۔بلا اور مصیبت کو اسی لئے لگایا جاتا ہے تاکہ روحانی ظرف میں اضافہ ہو ۔ اسی طریقے سے دل ہے ابھی اس میں کوئی نور نہیں ہے اور اس کی نور کی گنجائش کتنی ہو گی وہ تو نہیں معلوم ہے ۔
“جب پہلی دفعہ ذکر اللہ اندر شروع ہو گا تو نور کی ہلکی سی کرن اندرآئی اور آپ اُچھلنا شروع گئے لیکن جب روزآنہ کی بنیادوں پر اس میں اسی مقدار میں نور جانا شروع ہو جائے گا تو اس سے ظرف میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا ۔اسی طرح اپنے جسم کو مشقت میں ڈالنا ، مجاہدے میں ڈالنا یہ ظرف کو بڑھانے کے لئے ہے ، قوت برداشت کو بڑھانے اور اس باطنی حجم کو بڑھانے کے لئے ہے جہاں نور نے قیام کرنا ہے ۔ فرمان گوھر شاہی ہے کہ انسانی سینہ بشمول لطائف ، ڈیڑھ اونس نور سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا ”
خواجہ باقی باللہ کا واقعہ :
جس طرح خواجہ باقی باللہ کا واقعہ ہے کہ اُن کے مہمان آنے والے تھے تو انہوں نے اپنی گلی کے نان بائی کو کہا کہ میرے مہمان آ رہے ہیں اچھے نان لگانا جو تم کہو گے وہ انعام دوں گا ۔ مہمان آئے ، نان بائی نے اچھے نان لگائے اور باقی باللہ خوش ہو گئے ۔ ایک دن وہ نان بائی آیا اور کہنے لگا آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے جو مانگو گے وہی دوں گا ، تو وہ کہنے لگا پھر آپ مجھے اپنے جیسا بنا دیں ۔خواجہ باقی اللہ نے ایک لمحے کے لئے توقف کیا پھر اپنا وعدہ یاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنو ز ۔۔۔۔ پھر تیرا وقت سفر یاد آیا
انہوں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے اب حجر ے میں گئے اور کچھ دیر کے بعد جب واپس آئے تو خواجہ باقی باللہ اور نان بائی میں بظاہر کوئی فرق نہیں تھا ایک جیسے ہو گئے لیکن اُن میں سے ایک لڑکھڑا کر گرا اور اُس کا دل پھٹ گیا ۔اس کا دل کیوں پھٹا ؟ انہوں نے تو اس کو فنا فی الشیخ بنا دیا لیکن اس میں تاب ہی نہیں تھی اور نان بائی کے سمجھ میں یہ بات آتی نہیں وہ یہ کہتا کہ بزرگ تو جھوٹے ہیں مجھے ٹرخا رہے ہیں کہتے ہیں کہ پہلے قوت برداشت پیدا کرو پھر آنا ۔ پھر انہوں نے یہی سوچا ہو گا کہ چلو ا س کی جان جاتی ہے تو جائے کم از کم مومن کی موت تو مرے گا ۔
بزرگان دین نے جو مشقت کی وہ صحابہ کرام نے کیوں نہیں کی؟
مقام محمدی تو بہت آگے کی بات ہے جب تک آپ کا نفس اور قلب پاک نہ ہو جائے دیدارِ مصطفی کو چھو کر بھی نہیں گزر سکتے ۔ سلطان حق باہو نے اپنی کتاب میں جو باتیں لکھی ہیں وہ عام آدمی کے لئے نہیں لکھیں ہیں وہ روحانی لوگوں کے لئے لکھی ہیں ۔تو پہلے یہ تقاضا کرنے سے پہلے آپ یہ تو جان لیں کہ مقام محمدی کیا ہے ۔ پہلے ظرف پیدا کرنا پڑتا ہے اور ظرف پیدا کرنے کے بعد نور لینے کے لئے تدبیر کرنا پڑتی ہے ۔جنگلوں میں جاکر بزرگان دین نے مشقت کی ، لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر یہ باتیں درست ہیں تو یہ باتیں صحابہ کرام نے کیوں نہیں کیں ، یہ حدیثوں میں کیوں نہیں آئیں ۔لیکن ان لوگوں کو یہ تعلیم ہی نہیں ملی کہ محمد الرسول اللہ ﷺ وہ ذات ہے جن پر ہر وقت تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے جبکہ ولیوں پر دن میں 360 تجلیاں گرتی ہیں ۔ تو جو لوگ حضورکی صحبت میں اٹھتے بیٹھتے تھے ان کے اندر اُن تجلیات کی بناء پر ظرف بھی بڑھتا گیا اور نفس بھی پاک ہوتا گیا ، نہ اُن کو مجاہدہ کرنا پڑا اور نہ ہی جنگل جانا پڑا کیونکہ حضورؐ کی صحبت اُن کو ملی ہوئی تھی ۔ بعد میں جو بزرگان دین آئے وہ حضورؐ کی اُسی صحبت کو ڈھونڈنے کے لئے جنگلوں میں چلے گئے ۔حضورؐ نے اُمت کو بطور نبوت فیض دیا ولایت کا فیض حضور نے نہیں ہو گا ۔ ولایت کا فیض دینے کے لئے حضرت علی کو مقرر کیا پھر حضرت علی نے جو باتیں آگے بتائیں ان کو کو ئی حدیث ہی نہیں مانتا ۔ جبکہ وہاں یہ باتیں موجود ہے کہ نفس اور قلب کو پاک کرنے کے لئے اپنے جسم کو مشقت میں ڈالنا پڑتا ہے ۔ روحانی قوت برداشت جسم کو مشقت میں ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے یا تو بلا آئے کوئی یا پھر مصیبت آتی رہے ۔لیکن آج لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر اصلاح کی جائے تو وہ ان کے سمجھ میں نہیں آتی ہے ناراض ہو جاتےہیں جبکہ روحانی آدمی اسی وقت نصیحت کرتا ہے جب آپ غلط جارہے ہوتے ہیں اور اگر ٹھیک چل رہے ہیں تو پھر وہ روکے گا نہیں ۔ ایسے لوگوں کا روحانیت میں کوئی کام نہیں ہے کہ جن کو ایک نصیحت کی جائے اور وہ رونا شروع کر دیں ۔
مرشد کی بے رخی طہارت نفس کے لئے اکسیر ہے:
روحانیت میں آنا اور نفس کو پاک کرنا تو ہمت والوں کا کام ہے ۔ اب قرآن کی ایک آیت ہے
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 72
ترجمہ : بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے اٹھالی، بیشک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے۔
عالموں اور حافظوں نے اس آیت کا مطلب ہی نہیں سمجھا کہ ہم نے قرآن کو پہاڑوں پر اُتارنا چاہا تو انہوں نے منع کر دیا ، سمندروں پر اُتارنا چاہا تو انہوں نے منع کر دیا لیکن انسان نے قبول کر لیا ۔ جو انسان ظلمت سے لبریز تھا اس کو ظلمت نکالنے کے لئے روشنی کی ضرورت تھی اس لئے اس نے کیا ، پہاڑوں میں ظلمت نہیں تھی ۔ظلمت اور نور ایک دوسرے کی ضد ہیں اندھیرا ہو گا تو روشنی ہو گی ۔ اسی طرح انسان ظالم تھا، اس میں ظلمت تھی اورنور کی ضرورت تھی اس لئے اس نے اسے برداشت کیا ۔روحانیت وہ راستہ ہے ، نفس بہانے خور ہے اسی لئے بہت ساری چیزوں جیسے بلا ، مصیبت ، بے اعتنائی کا ، ، بے رخی کا برتاؤ اس کے ساتھ کرتا ہے تاکہ طہارت نفس اور ظرف میں اضافہ ہو ۔ اگر تم نے سرکار گوھر شاہی کی بے رخی نہیں دیکھی تو ا س کا مطلب ہے سرکار نے تمھیں اپنا پیار ہی نہیں دیا ۔ اگر کبھی ڈانٹا نہیں ، کھبی بے رخی اختیار نہیں فرمائی تو اس کا مطلب ہے اپنائیت ہی نہیں تھی ۔ بے رخی ان کو دکھائی جاتی ہے جن کے نفوس کو سدھارنا مقصود ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میں کسی کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہوں تو اس کے نفس کے عیوب اس پر عیاں کر دیتا ہوں ۔ نبیوں کو اللہ تعالی پاک کر دیتا ہے اور عام انسانوں کو پاک ہونے کے لئے چلے مجاہدے کرنے پڑتے ہیں ۔ نبی بھی پا ک نہیں ہوتے ان کے ساتھ بھی شیطان جن پیدا ہو تا ہے لیکن اللہ تعالی ان کو جبرائیل کے زریعے پاک کر دیتا ہے اور عام انسانوں کو چلے مجاہدے اور مشقت کے زریعے پاک ہونا ہوتا ہے ۔ جن چیزوں میں آپ کو اپنی بے عزتی اور ہتک محسوس ہوتی ہے وہی چیزیں نفس کو پاک کرنے کے لئے اکسیر ہیں ۔ مرشد کی بے رخی سم قاتل ہوتی ہے یہ انسان برداشت نہیں کر سکتا لیکن مرشد کی بے رخی شروع شروع میں نہیں ہوتی ہے اگر شروع میں ہو تو مرید بھاگ جائے ۔جب ایک مقام پر نفس آ جاتا ہے یعنی الہامہ ہو جاتا ہے اب یہاں سے مرشد کی بے رخی شروع ہوتی ہے ۔اب وہ نفس تڑپتا اور سلگتا رہے گا ، کمزور ہوتا رہے گا اور پھر ایک وقت یہ آئے گا کہ پھر وہ ان تمام چیزوں سے ماورا ہو جائے گا۔یہ جو غلاظتیں تھیں کہ میری تعریف و توصیف ہو ، میرا چرچا ہو ، واہ واہ ہو ، میں نے یہ کیا ، میں نے وہ کیا ، مشن کا کام تو اس نے اپنی بھلائی کے لئے کیا پھر مرشد کو کیوں سنایا جائے اور واہ واہ کی امید رکھی جائے ! لہذا ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ مرشد کی بے رخی نفس کو اتنا سیدھا کر دیتی ہے کہ اب اس کو پرواہ ہی نہیں رہی ۔پھر کوئی اچھا کام کر بھی لیا تو نفس کہتا ہے کہ ٹھیک ہے کر بھی لیا تو کیا ہوا ، میری اپنی ہی بھلائی پوشیدہ ہے اس میں ۔ یعنی تعریف و توصیف کی امید نفس کو ختم ہو جاتی ہے ۔کوئی مجھے اچھا کہے گا یہ امید ختم ہو جاتی ہے ۔حضور نے بھی ارشاد فرمایا ہ جو مسلمان اپنی دوسرے مسلمان کی جھوٹی تعریف بیان کرتا ہے وہ اس کے گلے پر چھری پھیر رہا ہے ۔ لیکن امت مسلمہ کا یہ حال ہے کہ حضور کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔تعریف و توصیف انسان کی فطرت میں موجود ہے اور یہ انسان کی فطر ت میں کہاں سے آئی ؟ یہ اللہ تعالی سے ہمیں ورثے میں ملی ہے ۔ قرآن شریف کا پہلا لفظ ہی اس کی عکاسی کر رہا ہے کہ الحمد اللہ رب العالمین ۔لیکن ہماری یہ نصیحت ہے کہ اگر تم سے کوئی اچھا کام ہو جا ئے تو کہو ھذا من فضل ربی ۔۔ کہ میری کیا اوقات ہے کہ میں یہ اچھا کام کر سکوں یہ تو ان کو فضل اور کرم ہے کہ مجھ سے یہ کام لے لیا ۔
مرشد جب نفس پاک کرے گا تو اندر ستائش اور تعریف کا بھوکا نفس جو بیٹھا ہوا ہے اس کی یہ خوراک بند کر دے گا ۔ پھر ابتدائی دور میں انسان چڑچڑا سا ہو جاتاہے ۔ نفس پاک کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔پوری روحانیت میں سب سے پہلا اور مشکل کام ہی نفس کو پاک کرناہے اور پاک ہونے کے باوجود بھی بہانے خور ہے ، ہر نبی اور ولی نے نفس کے شر سے پناہ مانگی ہے ۔ ایک بزرگ تھے وہ اپنے چلوں اور مجاہدوں میں رہتے تھے نفس کی ھالت کو بہتر رکھنے کے لئے بڑی مشقت اور مجاہدہ کرتے تھے ۔ایک دن ان کا نفس ان کو مشورہ دیتا ہے کہ یہاں تو جنگلوں میں بیٹھ کر نفس پاک کر رہا ہے وہاں اللہ کا دین خطرے میں ہے جہاد پر جا ۔ اب بات تو یہ صحیح تھی کہ اللہ کا دین خطرے میں ہے جہاد پر جانا چاہیے لیکن وہ بزرگ اس سوچ میں پڑ گئے کہ یہ میرا نفس اتنی اچھی بات کیسے بول سکتا ہے ۔ اس نے مرشد کے سامنے جب یہ بات بیان کی تو مرشد نے کہا کہ تیرا نفس اس لئے جہاد کی بات کہہ رہا ہے تاکہ تو مر جائے اور اس کی جان چھوٹ جائے کیونکہ تو نے اسے مشقت میں ڈال کر رکھا ہوا ہے ۔ تو یہ نفس کو مشقت میں ڈالنا ، بے رخی ، بے اعتنائی جان بچانے والی ادویات کی طرح انتہائی ضروری ہے ۔اسی طرح ابو بکر شبلی کے مرشد جنید بغدادی تھے ۔ ان کے مرشد نے ان سے تین سال بھیک منگوائی پھر ان کو بیعت کیا ۔ابو بکر شبلی کا نفس پاک ہو چکا تھا اور بہت روحانیت بھی حاصل ہو چکی تھی ایک دن جنید بغدادی اپنے مریدوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو بکر شبلی آئے تو باقی مرید ایک طرف ہو کر اُن کو راستہ دینے لگے سب ان کی عزت کرتے تھے کہ یہ بڑے چہیتے مرید ہیں لیکن جنید بغدادی نے جب یہ دیکھا تو فرمایا کہ اس مردود کے لئے اتنی عزت کرنے کی کیا ضرورت ہے جہاں سارے مریدوں کی چپلیں رکھی ہوئی تھیں کہا کہ جاؤ وہاں جا کر بیٹھ جاؤ۔ تو مرشد کی بے عزتی اور بے رخی نفس کو پاک کرنے کے لئے ہے ۔ یہی بات ہم نے اپنی شاعری میں بھی کہی ہے کہ
برے کو چھوڑنا کیا پیار ہے میرے سرکار
نبھاؤ مجھ کو میرے عیب کو میری سرکار
انسان کےنفس سے بری دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے ، اس نفس کو پاک کرنا ہے ۔ روزہ رکھنا بڑا آسان ہے ، کسی کی گالیاں کھاؤ ، بہتان بھی سہہ جاؤ اور پھر بھی اس کے لئے دل میں میل نہ لاؤ یہ کر کے دکھاؤ ، تم کو تو قرآن کی آیت سنا کر ہی سمجھاتے ہیں لیکن پھر بھی تمھارا میٹر گھوم جاتا ہے ۔ سرکار گوھر شاہی کے فرمودات بتا کر کبھی کبھی تم پر تنقید کرتا ہوں پھر بھی برا لگ جاتا ہے ۔ مرشد اگر نرم لہجے میں اگر ظاہری طور پر پیار دکھائے تو اس کا مطلب ہے کہ مرشد نے تجھ سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے ۔ کیونکہ اگر مرشد پیار سے پیش آئے تو وہ مرید کی روحانی موت ہے ۔
3 جون 2000 چیری ہل امریکہ میں سرکار نے فرمایا کہ ایک روح ایسی ہے کہ ہم نے وہ جو رسی باندھی ہوئی تھی جس سے لاکھوں لوگ لپٹے ہوئے تھے وہ ہم نے توڑ دی ہے ، ہمارا دل نہیں لگتا ہم چاہتے ہیں کہ یہاں سے چلے جائیں لیکن ایک روح ایسی ہے جس نے ہماری روح کا دامن پکڑا ہوا ہے جب بھی ہم پرواز کرنے کے لئے قدم بڑھاتے ہیں وہ ایک روح ہم کو کھینچ لیتی ہے کہتی ہے مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو ؟ اب ہم کوئی ایسی تدبیر کریں گے کہ اس روح کو پتہ ہی نہ چلے اور پھر غیبت کی صورت میں وہ تدبیر ہو بھی گئی ۔سیدنا گوھر شاہی سے یہ گفتگو ہوئے 17 سال ایک مہینہ ہو گیا ہے اور آج تک یقین نہیں ہوتا ۔ لہذا اگر مرشد تم سے بے رخی نہ کرے تو وہ تم سے محبت نہیں کرتا ، بے رخی بے اعتنائی یہ نفس کے لئے دوا ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ مرید مرشد کے ہاتھ میں اس طرح ہوتاہے جیسے مردہ لاش غسال کے پاس ہوتی ہے ، کیا لاش نے غسل دینےوالے کو کبھی یہ کہا کہ مجھے سیدھا کر کے نہلاؤ اسی طرح مرید مرشد کے سامنے اُف نہیں کر سکتا ، سوال نہیں کر سکتا کہ مجھے پیار سے دیکھو ، مجھ سے بے رخی نہ کرو ، بے اتنا ئی نہ برتو ، مجھے قریب بٹھاؤ ۔یہ تمام تو خواہشات ہیں ان سے دست بردار ہونا ہو گا ۔ نفس پاک کرنے کے لئے جہاں مرشد اپنی نظروں کا استعمال کرتا ہے وہاں مرید کو بھی کوششیں کرنا پڑتی ہیں ۔
مندرجہ بالا مضمون نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے10 جولائی 2017 کے یوٹیوب پر کئے گئے براہ راست سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔