کیٹیگری: مضامین

معصومین کون لوگ ہوتے ہیں ؟

جو اللہ نے قوانین بنائے ہیں جن پر وہ خود پابند نہیں ہے جیسے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور پہلے ہی نبی آدم صفی اللہ نے گناہ کردیا۔انہی باتوں پر لوگوں نے فتوے بھی لگائے کہ انہوں نے دیکھو نبی کو گناہگار کہا ۔جب اللہ نے آدم صفی اللہ کو جنت میں ایک درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا تو وہ اللہ کے منع کرنے کے باوجود اس درخت کے پاس گئے۔اگر یہ گناہ نہ ہوتا تو اللہ تعالٰی آدم صفی اللہ کو جنت سے زمین پر نہ بھیجتا۔یہ جو میں واقعہ سناتا ہوں جس میں ہم ثابت کرتے ہیں کہ نبی پاکﷺ کا نام آئے تو انگوٹھوں کو چوم لینا آدم صفی اللہ کی سنت ہے۔جب ایک دفعہ آدم صفی اللہ کی کشفی حالت ہوئی تو اس میں دیکھا کہ عرش کے پائے پر اللہ کے نام کے ساتھ محمدﷺ لکھا ہوا ہے تو آدم صفی اللہ نے اللہ سے پوچھا کہ اے اللہ! آپ نے اپنے نام کے ساتھ کس کا نام لگا یا ہے تو اللہ نے فرمایاکہ یہ تمہاری اولاد سے ہوگا اور میرے محبوب ہیں۔یہ بات سن کر آدم صفی اللہ کے نفس کو جلن ہوئی اور حسد ہوا ۔اگر نبی کو حسد ہوسکتا ہے تو پھر کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔
سیدنا گوھر شاہی کی تصنیف روحانی سفر میں لکھا ہے کہ سرکارگوھر شاہی سے گناہ ہوئے تھے اور اگر سرکار امام مہدی سے گناہ نہیں ہونے چاہیئے تھے تو پھر آدم صفی اللہ ، یوسف ؑ اور محمدﷺ سےبھی نہیں ہونے چاہیئے تھے؟ قرآن میں مومنوں کے بارے میں لکھا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ کہ وہ کوئی کام بلامقصد نہیں کرتے۔حضور پاک ستر مرتبہ استغفراللہ کرتے تھے ۔ جو حضور ﷺ ستر مرتبہ استغفار کررہے ہیں تو اب مولوی کہتے ہیں کہ حضور پاک رو رہے ہیں تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ اُمت کیلئے رو رہے ہیں۔ اُمت کیلئے تو رونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کا ایک اُمتی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔ کیونکہ اُمتی وہ ہے جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کا نور آگیا۔امتی کی گارنٹی تو اللہ نے لے لی ہے کہ وہ جہنم میں نہیں جائے گا تو پھر آپ ﷺ کو اُمت کیلئے رونے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں بھی آیا کہ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (سورة الشعراء) امت کی کامیابی کی گارنٹی تو اللہ نے قرآن میں دے دی ہے۔حضوؐر کا امت کیلئے رونا یہ تو کوئی قابلِ فہم بات نہیں ہے۔ حضور ﷺکا کوئی امتی جہنم میں نہیں جائے گا۔ اور جو جنت میں نہیں جائے گا وہ حضور ﷺ کی اُمت میں نہیں ہے جیسے کہ شیعہ ،سنی،دیوبندی،بریلوی،اور وہابی ۔جس کے بھی دل میں اللہ کا نور داخل ہوگیا اور جس کے قلب نے ایک دفعہ بھی کہہ دیا کہ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدُالرَّسُوْلُ اللہ تو اُسے جہنم کی آگ جلانہیں سکتی۔ایک دفعہ بھی دل اللہ ھُو کہہ دے تو تم پر دوزخ حرام ہے کیونکہ اللہ نے تمہیں قبول کیا تو تمہارے دل سے اللہ کی آواز آئی۔ جب اللہ نے تمہیں قبول کر لیا تو تم اللہ والے ہوگئے۔ مولویوں نے یہ بات پھیلائی ہوئی ہے کہ آپ ﷺ امت کیلئے روتے تھے لیکن آپ ﷺ امت کیلئے نہیں روتے تھے ۔اور جو تم آج دیکھ رہے ہو وہ اُمت نہیں ہے کیونکہ کوئی فرقہ ایسا ہے جو محمد الر سول اللہ سے زیادہ آل کو پوجنا شروع ہو گئے۔کچھ فرقےایسے ہیں جو محمد الر سول اللہ سے زیادہ ولیوں کے پیچھے چلے گئے اور حضور پاک ﷺ یاد ہی نہیں ہیں۔ کسی فرقے کو غوث پاک یاد آتے ہیں اور کسی کو خواجہ صاحب یاد آتے ہیں۔ محمد الر سول اللہ کا کوئی نام ہی نہیں لیتا ہے۔کوئی فرقہ توحید میں اتنا آگے نکل گیاکہ وہ صرف توحید کے ذکر میں ہی مستغرق ہے۔ اور جس کے وسیلے سے توحید زمین پر آئی ہے اس کا ذکر ہی نہیں ہے۔یہ سب لوگ اُمت میں نہیں ہیں یہ خوارجین ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ اور آگے جاکر قرآن مجید میں یہ بھی اللہ نے کہا ہے الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ کہ جنت الفردوس ان مومنین کی وراثت ہے۔ قرآن کے مطابق معلوم یہ ہوا کہ ان میں ایسی ہستیاں بھی ہونگی جو جس کو چاہیں فردوس تک اپنے بل بوتے پر بھیج سکتی ہیں۔ فردوس بھی اگر وراثت میں ہے تو جس کو چاہیں اللہ کا دیدار کرادیں تبھی تو جنت الفردوس کا وارث ہوگا۔جب پوری کائنات پر محمد ﷺ اور امام مہدی ؑکا حق ہے تو کسی چیز کو اٹھا کر کھایا تو اپنی ملکیت کھایا تو پھر گناہ نہیں ہوا۔ معصوم کا ترجمہ ہے لافانی معصومیت ۔جو لفظ اسمہ ہے اسمت سے ماخوذ ہے۔اسمہ کو عربی میں حفاظت کہتے ہیں۔ حفاظت یہ ہوتی ہے کہ جیسے موبائل فون کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے موبائل کا احاطہ ہوتا ہے کہ اگر اس سے کوئی گناہ ہو بھی جائے تو اس پر اطلاق نہ ہو اور گناہ کا اثر نہ ہو۔
حدیث شریف میں آیا کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو وہ گناہ کراماً کاتبین کتاب میں درج کر لیتے ہیں اور اِس کے ساتھ دل پر ایک سیا ہ کالا دھبہ لگادیا جاتا ہے۔جب کوئی نبی اپنے اُمتی یا ولی اپنے مرید کی زندگی کو دیکھنا چاہے تو وہ نبی یا ولی فرشتوں کو کہتے ہیں کہ ان کے اُمتی یا ولی کی کتاب لے کر آؤ تا کہ میں دیکھوں کے اس نے زندگی میں کتنے کارنامے کئے ہیں۔لیکن اگر اللہ اُسے دیکھنا چاہے تو وہ کتابوں کو نہیں دیکھتا اللہ دلوں کو دیکھتا ہے۔کتاب میں گناہ اور نیکی اس لیے لکھی جارہی ہے تاکہ تمہارا نبی اگر تم پر مہربان ہو تو اس کی رسائی کتاب تک ہے۔ انبیاء ، مرسلین اور اولیاء کی رسائی آپ کی کتاب تک ہے۔ اس لیے جب گناہ ہوتا ہے تو فرشتے گناہ کتاب پر بھی لکھتے ہیں اور دل پر سیاہ کالا دھبا بھی لگاتے ہیں کہ یہ بندہ اللہ اور رسول دونوں کی نظروں میں ذلیل ہو۔ کتاب میں اس لیے لکھتے ہیں تاکہ اس کا نبی اگر جاننا چاہے کہ اس کی زندگی میں کیا کارگزاری ہے تو وہ کتاب کھولنے سے نبی کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے اتنے گناہ کئے ہیں۔اگر ولی پوچھنا چاہے تو وہ بھی کتاب منگواتا ہے۔کسی کی کتا ب وہ نہ بھی منگوائیں تو جب آپ کی عمر چالیس سال ہوتی ہے تو پھر ہو حال میں اوپر کتاب پیش کی جاتی ہے کہ دیکھیں اس بندے نے کیا کیا ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں کہ کثرتِ گناہ سے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کتاب گناہوں سے بھر جاتی ہے اور دل سیاہ دھبوں سے بالکل سیاہ ہوجاتا ہے۔پھر یہ ہوتا ہے کہ اس بندے کے اوپر نصیحت اثر نہیں کرتی۔جب ایسا ہوجائے تو صحابہ اکرام نے پوچھا تو پھر وہ بندہ کیا کرے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کو دھونے کیلئے کوئی دھونے والی چیز ہوتی ہے ۔دلوں کو دھونے کیلئے اللہ کا ذکر ہے۔ جب گناہ ہوتا ہے تو کتاب میں گناہ کے اعمال لکھے جاتےہیں اور سیاہ دھبہ دل پر لگایا جاتا ہے تاکہ اگر تم اللہ کی نظروں میں ہے تو دور ہوجائے ۔

معصوم ہونا کیا ہے؟

جب گناہ ہوا تو نہ فرشتوں نے کتاب میں لکھا اور نہ دل پر سیاہ دھبہ لگایا تو یہ اسمہ یعنی حفاظت ہے۔ اللہ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب نبی یا معصومین گناہ کریں تو ان کی کتاب میں گناہ نہ لکھنا اور نہ ہی ان کے دل پر سیاہ دھبہ لگانا اور میرا بھرم رکھنا۔جب نہ کتاب کوئی عام آدمی پڑھ سکتا ہے اور نہ دل کوئی عام آدمی دیکھ سکتا ہے تو بھرم اس بات کا کہ اگر اس کے اندر اللہ ھو کا رگڑا لگ رہا ہوتا تو حفاظت کی ضرورت نہیں پڑتی۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایاکہ جب تمہارے دل میں اللہ ھو کا ذکر آجائے گا تو تکبر پھر بھی آئے گا لیکن اللہ کا ذکر اسے باہر نکال دےگا۔تو اگر اس نبی یا معصومین کے اندر اللہ ھو ہو رہا ہوتا تو حفاظت کی ضرورت نہیں پڑتی۔اب نبیوں میں سارے نبی ایسے نہیں تھے جن کے پاس باطنی علم تھا۔اس لیے جن کا سینہ اندر سے منور نہیں ہوسکتا تھا تو ان کا بھرم رکھنے کیلئے اسمہ لگائی اور نبی کو معصوم بنایا۔اور جن کے اندر باطنی علم تھاتو وہ گناہ کر بھی لیتے تو اللہ اللہ کا ذکر اس کو باہر نکال دیتا ۔ اسی لیے جو ولائتِ کبرہ والے آئے تو وہ نہ خود گناہوں سے ڈرے اور نہ اپنے مریدوں کو کہا کہ تم بھی گناہوں سے ڈرو۔ غوث پاک نے اپنے مریدوں سے کہا کہ اے مرید !میرا ہاتھ بہت بڑا ہے تو تم جو چاھو وہ کرو۔ اسی لیے نہیں ڈرو کہ تمہارے اندر تو دریائے وحدت بہہ رہا ہے کیونکہ یہ خشک تالاب نہیں ہے یہ بہتا ہوا دریا ہے اس میں جو بھی آیا وہ بہہ جائے گا۔پھر امام مہدی سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اللہ قسم! اگر ہم کو شریعت کا پاس نہ ہو تو ہم تم کو کہہ دیں کہ بس اس آستانے کے چکر لگالیا کرو باقی سب خیر ہے۔جو سرکار گوھر شاہی سے اعتراض کرتے ہیں وہ سرکار گوھر شاہی سے واقف نہیں ہیں۔ امام مہدی سرکار گوھر شاہی کیلئے ہم معصوم کا لفظ استعمال نہیں کرسکتے کہ وہ معصوم ہیں ۔کیونکہ معصومیت ایک معذوری ہے اور کمزوری ہے کہ ان نبیوں یا معصومین کے دلوں میں اتنا نور نہیں ہے کہ وہ گناہوں کو مٹا سکے ۔اس لیے اللہ نے ان کی حفاظت کیلئے فرمایا کہ ان کے دلوں پر گناہوں کا سیاہ دھبہ نہ لگانا کیونکہ ان کے دلوں میں اتنا نور نہیں ہے کہ وہ گناہوں کو نکال دے ۔لہٰذا ان نبیوں اور معصومین کو معصوم کہا گیا کیونکہ وہ حفاظت میں ہیں کہ اگر وہ کوئی گناہ کریں تو وہ لکھا نہیں جائے گا۔ان کی حفاظت کرنا یعنی اسمہ ان کی معصومیت ہے۔ سرکار گوھر شاہی کی وہ ذات جس نے کروڑوں کو نور سے نہلا دیا تو ہم سرکار گوھر شاہی کو معصوم نہیں کہہ سکتے۔ سرکار گوھر شاہی کی نظروں نے گناہوں میں لتھے ہوئے لوگوں کی پوری روحوں کو منورکر دیا اور فرش سے لے کر عرش تک پہنچا دیا ۔اسمت اس چیز کی حفاظت ہے کہ نہ کتاب خراب ہو اور نہ دل پر دھبہ لگے ۔ سرکار گوھر شاہی کو حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔سرکار گوھر شاہی کے لوگوں کے دلوں میں گناہ آئیں تو اللہ اللہ کا ذکر گناہوں کو باہر پھینک دیتا ہے ۔سیدناگوھر شاہی کے بندوں کو گناہوں کیلئے حفاظت کی ضرورت نہیں تو وہ ذاتِ گوھر شاہی کو ہم معصوم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اگر ہم نے امام مہدی گوھر شاہی کو معصوم کہا تو ہم گستاخ ہو جائیں گے۔اس لیے درجہ اسم ان کو دیا گیا جو باطنی طور پرمعذور تھے ۔

معصوم ، مومن اور ولی اللہ کے اعمال نامے کی کتاب:

معصوم جب گناہ کرتا ہے تو نہ اس کی کتاب میں گناہ لکھا جاتا ہے اور نہ اس کے دل پر سیاہ دھبہ لگایا جاتا ہے۔ نبی یا ولی معصوم کی کتاب نہیں منگوائے گا کیونکہ معصوم کی صاف ستھری کتاب تھی ۔اگر معصوم سو سال بھی زمین پر رہے گا اور صبح شام گناہوں میں ملوث بھی رہے گا تو کتاب صاف ہی رہے گی۔ جتنی نورانیت معصوم کے اندر ہو گی اتنی ہی نورانیت رہے گی بڑھے گی نہیں ۔جو مومن ہے اس کو بہت جدوجہد کرنی پڑی۔ جب اللہ نے آیت ِتطہیر کے زریعے ارادہ کیا تھا تو معصوم کے دل کے اطراف ایک لاکھ اسی ہزار جالے وغیرہ ہٹا دئیے تھے۔ معصوم کو جدوجہد نہیں کرنی پڑی۔ جب معصوم کو کچھ نہیں کرنا پڑا تو اللہ کو پتہ ہے کہ اس کی کتاب بلاوجہ صاف ہے۔جب اللہ کو پتہ ہے کہ اُس نے ان کی کتاب صاف رکھی ہوئی ہے تو اللہ تعالٰی انہیں کبھی شہرت نہیں دے گا کیونکہ وہ کتاب اللہ نے صاف رکھی ہوئی ہے اس میں معصوم کا کمال نہیں ہے۔ اگر امام حسین ،امام حسین نہ ہوتے اور ایک آدمی کی طرح دنیا میں جنم لیا ہوتا تو بغیر جدوجہد کےکیا ان کے سینے میں نور آیا تھا کیا یہ ضروری ہے کہ اس کیلئے جدوجہد کے بعد بھی اتنا ہی نور بنتا یا وہ کبھی ذاکرِ قلبی بننے میں کامیا ب بھی ہو جاتے۔ہمارا باپ تو مولٰی علی نہیں ہیں ہمارے نانا کا نام محمد الر سول اللہ نہیں ہے ہم کسی نبی کے رشتے دار نہیں ہیں ہماری ماں کانام فاطمہ نہیں ہے۔ ہم تو غلیظ لوگ ہیں ہم کو تو بہت محنت کرنی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو پاک کرنا ہے لیکن اگر امام حسین ،امام حسن کو ہمارے زندگی کے جامے میں ڈال کر ایک عام آدمی کی طرح دنیا میں بھیجا جائےتو پھر نور کی شدت جو نواسا ئےرسول اور فاطمہ کا جگر ہونے میں تو وہ نور کی شدت ایک عام اُمتی ہونے میں بھی ہے یا نہیں ہے۔اگر ہے تو آپ کی عظمت کو سلام ہے اور اگر یہ روحانیت کی شدت صرف نواسائے رسول ہونے کی وجہ سے ہے تو یہ بات ہم بھی سمجھ رہے ہیں اور تم بھی سمجھ رہے ہو۔اس میں عظمت ان کی ہے جنہوں نے محنت کی ہے۔یہی چیز آج کے دور میں بھی لاگو ہو رہی ہے۔

سیدنا گوھر شاہی کی کل انسانیت پر کرم نوازی:

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اگرسرکارگوھر شاہی تمہیں کامل ضم بھی فرمالیں ، دس ہزار دفعہ اللہ کا دیدار بھی کرادیں تب بھی ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچنا کہ روحانیت میں تم خود کفیل ہوگئے ہو۔ کیونکہ اس میں تمہاری محنت اور اوقات شامل نہیں ہے یہ ویسا ہی کرم ہے جیسے امام حسین پر نواسائے رسول کی حیثیت میں تھا۔یہ صرف سیدنا گوھر شاہی کا کرم ہے ۔یہ بات میں جذبات میں یا محبت میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ حقیقت بتا رہا ہوں۔جس طرح نبی پاک ﷺ کی نسبتِ مبارکہ سے نواسائے رسول پر کرم نوازیاں ہوئیں ،اسی طرح سیدنا گوھر شاہی نے عام انسان پر شاید اس سے بھی زیادہ کرم نوازیاں کردیں۔ہم میں ایک بھی خوبی نہیں ہے کہ جتنی بھی پہلے ہستیاں آئیں ہم میں سےکسی کو منہ لگالیتے۔اولیائے اکرام ،فقراء، اور صالحین نے فیض دینے سے پہلے ایک بہت سخت قسم کا معیا ررکھا کہ انسان ظاہری طور پر بھی پاک ہو ،نفس بھی پاک ہو ،رزقِ حلال کماتا ہو ،کسی کی دل آزاری نہ کرتا ہو ،تہجد بھی پڑتا ہو ۔ہماری تو نمازیں بھی چھوٹتی رہیں ۔جس طرح نبی کریم ﷺ نے اپنے نواسوں اور بیٹی کیلئے دل کھول کے ،نافعہِ باطن ،کلزوم روح کھول کے اور سخاوت کے تمام معیار اوندھے کردئیے۔ اسی طرح سیدنا گوھر شاہی نے خاندان کو ہٹا کے عام انسانوں پر اپنی نوازشات اُس سے سو گنا زیادہ کھول دیں۔جو کرم نوازیاں ہم پر ہوئی ہیں ان کرم نوازیوں کو ہی انصاف کہا گیا ہے۔اہلِ بیت پر جو آیتِ تطہیر نازل ہوئی ہے یہ اہلِ بیت کی شان نہیں تھی ،یہ اللہ کے رسول کا اُن پر فضل ہے۔ شان اُن کی تب ہوتی جب طہارت کی ضرورت نہ ہوتی۔جب دین جاہلوں کے ہاتھ چلا گیا تو فضل کو شان بنا دیا گیا۔اگرشان ہوتی تو آیت تطہیر نہ آتی بلکہ آیت تشہیر آتی۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ بغیرجنگل جائے،بغیر چلےّ مجاہدے کئےاور بغیر محنت کئے اگرامام حسن اورامام حسین کا سینہ منور ہوسکتا ہےتو باقی انسانوں نے کیا بگاڑا ہے کہ صرف اس بات کی ان کو سزا ہے کہ وہ حضورﷺ کی آل نہیں ہیں۔لہٰذا سرکار گوھر شاہی نے نہیں دیکھا کہ یہ جو بندہ سامنے ہاتھ باندھ کر اور طلب کا پیالہ لئےکھڑا ہےیہ کون ہے یہ نہیں دیکھا۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ ہمارا لال باغ کے جنگل جانا تم لوگوں کیلئے تھا ورنہ ہمیں کیا ضرورت تھی۔

روحانیت میں معصومین کا مقام ساکن ہے:

معصوم کے دل میں کوئی سرگرمی نہیں ہے اور یہ صاف ہے۔ان کا اعمال نامہ پیش نہیں ہوگا کیونکہ ان کی کتاب پر کچھ نہیں لکھا جارہا اور دل پر دھبہ نہیں لگ رہا تو ان پر کوئی نبی توجہ نہیں دےگا۔اللہ مومن کو دیکھے گا کہ کل تو اتنا نور تھا اور آج اس میں کتنا نور ہے۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ جو اہلِ بیت یعنی سادات آلِ محمد ہے وہ مقامِ نور پر فائز ہیں۔ یعنی آلِ محمد والا نطفہ نوری ہے اس کی وجہ سے آلِ محمد کے خون میں نور ہے۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ جب تم ذکرِ قلب لو گے ،تیرے دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کریں گی ، وہ اللہ اللہ کے ذریعے نور بنے گا اور جب پورے بدن میں نس نس میں نور پہنچ گیا تو اب تم صاحبِ نور بن گئے۔اب تم نور میں ویسا ہی ہو جیسےآلِ محمد ہے۔ معصومیت والا مقام ساکن ہے۔اور مومن کے اندر پورا کا پورا گراف اوپر نیچے ہورہا ہے۔معصوم کا مقام ایسا ہے جیسے یہ آپ کی نوکری ہے اگر آپ کو بیس ہزار مہینہ ملتا ہے تو ہو مہینے بیس ہزار ہی ملے گا۔اور اگر کاروبار کیا تو کبھی بیس ہزار چالیس ہزار اور کبھی بیس کروڑ اور کبھی کاروبار میں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔اب مومن کے دل میں اللہ اللہ ہو رہی ہے ۔جو بھی بغض ،انا،تکبر مومن کے اندر آرہا ہے دل میں ہو رہا اللہ اللہ اسے باہر پھینک رہا ہے۔ بطورِ مومن جو اللہ کا نور تمہارے دل میں آیا ہے وہ دراصل برائیوں کے حملے کو روکتا ہے اور جو تمہارے خون میں نور آگیا ہے وہ حائل ہونا ہے۔ معصومین پر حملے ہو رہے ہیں لیکن وہ گنے نہیں جارہے ۔جو مومن پر حملے ہو رہے ہیں وہ دفاع ہے۔ مثال کے طور پر فٹ بال کی فیلڈ ہے اور کوئی میچ نہیں ہو رہا اور گول پوسٹ پر کوئی گول کیپر نہیں ہے اور آپ جتنے مرضی گول کرتے رہو اور کہو کہ ہم نے دس منٹ میں دس ہزار گول کئے ہیں تو وہ گول گنے نہیں جائیں گے کیونکہ گول پوسٹ پر کوئی گول کیپر نہیں تھا اور نہ ہی آپ کا کسی کے ساتھ میچ تھا۔ اسی طرح معصوم کے ہاں کوئی میچ نہیں ہے۔
جب مومن کے دل میں اللہ اللہ شروع ہوگئی تو جو بھی گناہ ہورہے ہیں وہ اللہ اللہ اس کو اندر داخل نہیں ہونے دیتی۔مومن کو یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ جو اللہ اللہ ہے وہ تیرے گناہوں کو باہر دھکیل رہی ہے لیکن اب جو تمہارے گناہ ہورہے ہیں ان کو بھی روکو۔ پھر وہ مومن نفس کشی میں بھی لگ گیا اور جب نفس نورانی ہوگیا تو نفس کی زور آوری بھی ٹوٹ گئی۔ اور اب گناہ بھی نہیں ہورہے اور حملے بھی نہیں ہو رہے تو تمہارا دفاع مضبوط ہوگیا۔اب تمھارے خون میں بھی نور آگیا اور دل میں بھی نور آگیا تو اب تیری ترقی ہی ترقی ہورہی ہے۔ اب ولی کے دل پر تجلیات گر رہی ہیں ۔ولیوں کو اللہ نے کہا کہ تم غلاظت میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ظاہری غلاظت نہیں بلکہ گناہوں کی غلاظت یعنی گناہگاروں میں جا کر بیٹھو۔ جب ولی اللہ گناہگاروں میں بیٹھیں گے تو ولیوں کی تجلیات اور نظروں سے گناہگاروں کے گناہ جلنا شروع ہوجائیں گے۔

گناہوں کی وجہ سے دل پر لگے سیاہ دھبے کیسے دور ہوں گے؟

شیعہ، سنی، وہابی شریعت پر ہی عمل کرتے ہیں لیکن ابھی تک پاک نہیں ہوئے کیونکہ یہ اعمال ہیں ۔ اگر عبادت صحیح طریقے سے کی جائے تو یہ دل کو صاف کر نے میں استعمال کی جاسکتی ہے لیکن عبادت سے رب نہیں ملا۔دل پر جو سیاہ دھبے لگتے جارہے ہیں یہ کیسے دور ہونگے؟ن مازیں بھی پڑھتے جارہے ہو اور دھبے بھی لگتے جارہے ہیں۔پھر یہ تیرا بدن ایک ایسا تالاب بن گیا کہ جہاں پر غلاظت پڑی ہوئی ہے اور وہاں تم نے عبادت کے گلدستے بھی رکھے ہوئے ہیں۔جہاں عبادت کے پھولوں کی مہک بھی ہے اور تیری غلاظت کی بدبو بھی ہے اور یہ دونوں مکس ہو کر ایک عجیب و غریب چیز بن گئے ہیں۔ جب وہ دونوں مکس ہوئے تو تم وہابی، بریلوی ، شیعہ ، الحدیث اور سنی بن گئے۔ اہلِ بیت کا نام لے کر تم پاک نہیں ہو گے ۔اگر اہلِ بیت کا نام لے کر تم پاک ہو جاتے تو جو اللہ کا نام لے رہے ہیں وہ تم سے جلدی پاک ہونے چاہیے۔اگر تم یا علی، یا حسین کا نام لے کر پاک ہونا چاہتے ہو تو مسجد کھول کر دیکھو کہ وہاں لوگ اللہ کا نام لے رہے ہیں اور پاک وہ بھی نہیں ہوئے۔ و ہی انسان پاک ہوگا جس کے دل میں اللہ ، یا علی، یا حسین کا نام چلا جائے گا۔اگر اللہ کا نام تمہارے دل میں نہ بھی جائے اگر یا علی ہی تمہارے دل میں چلا گیا تو تم پاک ہو جاؤ گے لیکن نام دل میں جانا چاہیے۔ اللہ کا نام زبان سے لینا بیکار نہیں ہے لیکن کارآمد بھی نہیں ہے کیونکہ یہ نام تمہارے دل میں نہیں گیا۔ کارآمد نہ ہونے کا ثبوت آپ کو خود ہی مل جاتا ہے کیونکہ یا حسین کہنے والے لوگ اللہ تک نہیں پہنچے ہیں۔ یہی فرق ولایت میں اور معصومیت میں ہے۔ معصوم پاک ہے لیکن وہ پاکی اس کی ذات تک محدود ہے۔ اور ولایت پاک بھی ہے اور نا پاکوں کو پاک بھی بناتا ہے۔
سیدنا گوھر شاہی نے جو ہمیں راز بتایا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو اللہ اللہ میں لگالیں اور ذاکرِ قلبی بن جائیں ۔ اس راستے پر مقامِ نور ، مومن ہونا ، موقن ہونا یہ چھوٹے چھوٹے راستے ہیں لیکن سرکار گوھر شاہی نے جو ہمیں راستہ بتایا ہے وہ برا ہ راست اللہ تک لے کر جاتا ہے۔ سیدنا گوھر شاہی نے ایک بھرم رکھا کہ جس سخاوت سے نبی پاکﷺنے اپنے نواسوں کو نوازا ہے تو اب اُمت میں بھی مثال ہونی چاہیے کہ ایک عام آدمی جس کی کوئی شناخت نہیں ہے جس کا باپ نہ علی ہے ،نہ ابوبکر صدیق ہے ،نہ غوثِ اعظم ہے، نہ ابو حنیفہ ہے، نہ سلطان حق باھو ہے ۔ اے گوھر شاہی دنیا میں جا اور ایسے بے نام ،بے آسرا گمنام انسانوں کو ڈھونڈئیے جن کو لوگ پاگل سمجھتے ہوں اور آپ ایسا نوازیں جیسا کسی نبی نے اپنے نواسوں کو نہ نوازا ہو۔یہ سیدنا گوھر شاہی نے انصاف دیا ہے۔سیدنا سرکار گوھر شاہی کا طریقہ فیض نظر البشر ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 10 جنوری 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس