کیٹیگری: مضامین

اللہ کی تجلیات کے خاص لمحات:

منصور حلاج میں ایک تجلی ٹھہر گئی تھی جس تجلی کا سفر پانچوں لطیفوں میں نہیں ہوسکا بلکہ ایک جگہ ٹھہر گئی ، تجلی قلب سے ہو کر پانچوں لطیفوں سے گزرتی ہے۔ منصور حلاج کے تجلی قلب پر آئی پھر سرّ ی سے ہو کر اخفی پر اٹک گئی تب زبان بولنے لگی انا الحق انا الحق۔ اگر تجلی اخفٰی سے آگے نکل جاتی تو زبان کیسے بولتی انا الحق انا الحق۔ اخفٰی پر ٹھہر گئی تب ہی انا الحق نکلا۔ ہوتا یہ ہے کہ جو تجلی پڑی ہے وہ جائے، رکے نہیں ادھر وہ گزری نہیں اٹک گئی تکرار ہوتی رہی انا الحق انا الحق۔ لوگ یہ ہی سمجھتے رہے کہ کتنا مقرب ہو گا اس نے انا الحق کہہ دیا۔ ادھر حضوؐر نے بھی کہا من راعنی فقد را الحق۔ یہ بات بھی حضورؐ کےلطیفہ اخفٰی نے کہی تھی جب وہ تجلی ان کے لطیفہ اخفٰی پر پڑی انکی تو نبوت ہی اخفٰی کی تھی، تجلی کا زیادہ زور اخفیٰ کی طرف ہی ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ بی بی عائشہ حضور کے پاس آئیں اور آواز دی تو حضوؐر نے فرمایا کون! تو انہوں نے کہا عائشہ حضور پاک نے فرمایا کون عائشہ؟ تو انہوں نے کہا ابو بکر کی بیٹی عائشہ ،حضور پاک نے پھر فرمایا ابو بکر کون ہے تو بی بی عائشہ نے کہا ابن آقا کا بیٹا تو حضوؐر نے فرمایا اچھا یہ ابن آقا کون ہے تو اب بی بی عائشہ سمجھ گئیں کہ کوئی اور معاملہ ہے اور وہ وہاں سے چلی گئیں۔جب حضور اپنے روحانی وقت سے فارغ ہوئے تو بی بی عائشہ نے کہا آج تو آپ نے مجھے پہچانا نہیں تو حضوؐر نے پوچھا اچھا ؟ ایسا کیا ہوا تھا؟ کہا میں آئی تھی اور آپ نے یہ فرمایا تھا، تو حضور پاک نے فرمایا کچھ وقت میرا اور اللہ کا ہے اُس وقت بیچ میں کوئی نہیں آ سکتا ہم کسی کو نہیں پہچانتے وہ وقت وہی ہےاُس وقت تجلی حضوؐر کے لطیفہ اخفٰی کا طواف کرتی تھی۔
بہت سے ولی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ تجلی ان کے قلب کا طواف کرتی ہے اجازت نہیں ہوتی کہ سارے لطیفوں کی طرف جائے ۔ کچھ ولائت والے ایسے ہوتے ہیں جن کو اجازت ہوتی ہے کہ تجلی قلب سے آگے بھی جائے ، منصور حلاج ایسا تھا کہ اجازت نہیں تھی کہ تجلی قلب سے آگے جائے تو اس نے اپنی ساری توجہ اس طرف کر لی جس کی وجہ سے وہ ادھر آ گئی یعنی وہ تجلی سارے لطائف کے لیے نہیں تھی ،قلب پر پڑتی رہتی تو بس ٹھیک تھا ، جن کے سارے لطائف کے لیے ہوتی ہے ان کی ولائت دوسری ہےاُن کا مشرب محمدی ہوتا ہے ، مشرب مشرب کی بات ہے اگر تیرا مشرب آدم ہےتو تیرے لطیفہ قلب کا طواف کرے گی آگے جا نہیں سکتی ، تیرا مشرب اگر ابراہیمی ہے تو قلب کے بعد روح تک بھی تجلی جا سکتی ہے اور اگر تیرا مشرب موسوی ہے تو تُو تجلی کے قابل ہی نہیں ہے کیوں کہ موسی علیہ السلام پر تجلی پڑتی ہی نہیں تھی ، جیسا کہ مجدد الف ثانی انکا مشرب موسوی تھا ۔
ایک بندہ ان کی مسجد میں سویا ہوا تھا، مجدد صاحب ظہر کی نماز پڑھنے مسجد میں آئے اسے سوتا دیکھ کر سوچا نماز پڑھ کر سویا ہو گا نماز ادا کی اور چلے گئے پھر مجدد صاحب عصر کے وقت آئے دیکھا وہ ابھی بھی سو رہا ہے تو انہوں نے سوچا کہ نماز پڑھ کر سو گیا ہو گا ، عصر سے مغرب تک کا وقت مجدد صاحب مسجد میں ہی گزارتے تھے مغرب کا وقت ہو گیا لیکن وہ شخص سوتا ہی رہا تو آپ اس کے پاس گئے اور کہا اے بندے! اٹھ نماز پڑھ یا مسجد سے چلا جا، وہ اٹھا وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑا ہوا اور بلند آواز سے کہا امام صاحب رک جائیے اور نیت باندھی تو فجر کا سماں ہو گیا ظہر اور عصر کی نماز ادا کی تو سورج بھی واپس آگیا اور اس نے تمام نمازیں ادا کیں نمازوں سے فارغ ہو کر کہا، تم تو اہل نظر تھے مجھے جگانے سے پہلے دیکھ لیتے میں کہاں ہوں ، میں تو اسی کے پاس بیٹھا تھا جس کی تم نمازیں پڑھا رہے ہو ، اگر مجدد صاحب واقعی اہل نظر ہوتے تو دیکھ لیتے۔
ان کی بھی اندر کی چیزیں تو نکل جاتی ہیں ، قلب کا جثہ بھی نکل جاتا ہے، نفس کا جثہ بھی نکل جاتا ہے لیکن موسوی مشرب میں تجلی نہیں ہے، ایک تجلی کوہ طور پر پڑی تھی کوہ طور جل گیا اور موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے، اور وہ ایک تجلی بھی ظاہر میں پڑی تھی ، اللہ نے کہا ہم یہ تجلی کوہ طور پر ڈالیں گے اور تجلی اس سےمنعکس ہو کر تم پر پڑے گی اگر برداشت ہو گئی تو پھر آگے دیدار کی بات ہوگی تو وہ جوایک ہلکی سی نور کی شعاع آئی تو کوہ ِطور جل گیا موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اور ان کی قوم کے ستّر سردارجو پیچھے کھڑے تھے وہ سب مر گئے۔ تو جو بھی موسوی مشرب سے ہو گیا تو وہ بس نمازیں پڑھتا رہے مجدد بن جائے گااس سے آگے نہیں جائے گا ۔ اور جن کا مشرب عیسیٰ علیہ السلام سے ہو گیا تو وہ بس ان ہی کی طرح مست رہے گا ، اپنی مستی میں بس۔جن کا مشرب محمدی ہے جیسا کہ غوث پاک ہیں ان کا مشرب محمدی ہے،وہ تجلی آ کے گھوم گھما کر بس ختم کہ تجلی کو باہر نہیں جانا ، منصور بن حلاج کا معاملہ اس لیے اٹک گیا کہ وہ تجلی بس وہیں تک تھی اس تجلی کو باہر نہیں جانا تھا۔

اللہ اور امام مہدیؑ کا قانون:

ابھی تک تو یہ ہی قانون تھا کہ جس نے اللہ کا دیدار کر لیا اب اللہ کا جو نقشہ ہے وہ اس بندے کے دل پر آ جائے گا۔ جب امام مہدی آئے تو انہوں نے اِس کو مزید آگے بڑھایا ،اب کیا ہوا، اب جو ہوگا وہ اس سے پہلے نہیں ہوا، اب اگرامام مہدی تجھے اللہ کا دیدار کرا ئیں گے تو اللہ کا نقشہ دل پر آئے گا اور پھر دل سے اللہ کا وہ نقشہ باقی لطیفوں میں بھی جائے گا ، صرف ایک جگہ نہیں چھ کی چھ جگہ اللہ کا نقشہ ہو گا ، جس طرف آنکھ اٹھاؤ گے اللہ کا نقشہ ہو گا۔قرآن مجید میں ایک آیت آئی ہے کہ تم جس طرف بھی دیکھو گے اللہ کا چہرہ ہو گا وہ اِس دور کے لیے امام مہدی کی تعلیم کے لیے کہا ہے۔
اب دیکھو ایسا ایسا تعلق ہے ، لیکن کتنے گستاخ پاکستان میں پھر رہے ہیں ، یہ انجمن والے گستاخ ہی ہیں ، یہ آفتاب خان جی گستاخ ہی ہے نا، لیکن ہم نے تو انہیں کچھ نہیں کہا۔ ابھی بھی گستاخی کر رہے ہیں ،اگر عام مرید بھی ہو تو مرشد کے گستاخ کو قتل کر دیتا ہے، لیکن سرکار نے ہم کو اتنی محبت عطا فرمائی ہے پھر بھی اس محبت میں نفرت والا رنگ نہیں ہے ہم نے کسی کو مارا نہیں ہے ، کسی کو کچھ نہیں کہا ۔وہ جو سات سات تاریں جڑی ہوئی ہیں ان کے پیچھے بھی یہ ہی راز ہے ، وہ تو ہم نے تمہارا لحاظ کیا اور چھ لطیفوں کا کہا لطیفہ نفس کا نہیں کہا جب کہ رب کی وہ تصویر لطیفہ نفس پر بھی آ جاتی ہے۔جس کے لطیفہ نفس پر بھی رب کی تصویر آجاتی ہے پھر اس کو ہاتھ لگانا خدا کو ہاتھ لگانا ہے ، یہ پہلے نہیں ہوا ہے۔
طفل نوری کے حوالے سے تم نے سنا ہو گا کہ طفل نوری کے اپنے بھی سات لطیفے ہوتے ہیں تو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ طفل نوری کے بھی سات لطیفے ہیں تو اس کا بھی لطیفہ نفس ہوتا ہے ۔طفل نوری کا لطیفہ نفس کدھر سے آیا ؟ طفل نوری کے لطیفہ نفس سے مراد یہ ہے کہ وہ جو طفل نوری ہوتا ہے اس کی جھلک تمام لطیفوں پر اور لطیفہ نفس پر بھی پڑتی ہے یہ ہی اس کا لطیفہ ہے ۔اُدھر صرف جھلک پڑتی ہے اور امام مہدی پوری کی پوری تصویر لگا دیتے ہیں ۔اب ذرا غور کریں اللہ کی تصویر ہر لطیفے پر لگی ہو پھر کیا عشق کا مزا ہو گا ، جب اللہ کا جلوہ ہر لطیفے پر ہو گا تو پھر اللہ سے کوئی عجیب و غریب ہی رشتہ ہو گا۔اگرتم اس ایک آیت پر عمل کر لو گے تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو جائے گا۔

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
سورة المزمل آیت نمبر 8
ترجمہ: غرق ہو جاؤ اس ذات اللہ میں سارے رشتے ناطے توڑ کر

اگر سارے رشتے ناطے توڑ کر اس میں غرق ہو جاؤ تو یہ ہو جائے گا۔جن کی تجلی قلب سے آگے نہیں جاتی انہیں نمازیں پڑھنا پڑتی ہیں ،انہیں سخت عبادات بھی کرنا پڑتی ہیں تاکہ وہ نمازیں عبادات کا نور نکال کر پورے جسم میں لے کر جائیں کیونکہ نور ایک ہی مقام پر جمع ہو جاتا ہے نور کو آگے لے جانے کے لیے اللہ نے نمازیں اتاریں ۔جب نماز تجلی کو جسم میں پہنچانے کے کام آئے تو ایسی نماز ہے معراج المومنین ، اور اگر تجلی سارے لطیفوں پر گھوم رہی ہے تو پھر نماذوں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن شریف میں اقیم الصلوة لذکری کا یہ مطلب ہے کہ میرے ذکر کو پورے وجود میں پہنچانے کے لیے نماز قائم کرو اور یہ بات موسی علیہ السلام کو بھی کہی تھی۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 31 اکتوبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس