- 887وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
قرآن کے مطابق کچھ بد گمانیاں گناہ کبیرہ ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
سورة الحجرات آیت نمبر 12
اللہ تعالی کی طرف سےجو احکامات دئیےگئے ہیں اِن احکامات پر صوفی اور مومنین عمل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں چند چیزوں کا مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ ایسی ہی چیزیں ہیں ۔اس آیت میں ظن کے بارے میں گفتگو کی جا رہی ہے ظن کو انگریزی میں (Conjucture)کہتے ہیں اور اُردو میں اِس کو گمان کہتے ہیں ۔یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں زیادہ تر جس طبقے کو مخاطب کیا ہے وہ مومنین کا طبقہ ہے ،عام مسلمان کو اللہ نے مخاطب کیا ہو شاید کوئی بھولی بھٹکی مثال مل جائے گی لیکن جس طبقے کو قرآن مجید میں بڑے زور و شور اور بڑے اہتمام کے ساتھ اللہ نے مخاطب کیا ہے وہ مومنین کا طبقہ ہے۔ مومن اُس کو کہتے ہیں جس کے قلب میں نور اتر گیا ہو۔ مومن ایک مرتبہ بھی ہے اور ایک مومن حالت ہے۔ حالت کیا؟ کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی شرح صدر ہوگئی ہے،مرتبہ اُن کا کوئی بھی ہو مومن ہوں، موقن ہوں ،یا محسن ہوں ،حالت ایمان میں ہیں تو مومن کہلائیں گے، مرتبے کی بات آئے گی تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اِن مومنین میں سے کچھ صالحین بھی ہیں، کچھ مرشدین بھی ہیں، کچھ فقراء بھی ہیں لیکن یہ حالت ایمان جو ہے یہ اس کا بیان ہے۔مندرجہ بالا آیت میں اللہ نے مومنین کو خطاب کیا ہے ،۔۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔ یہ مومن مرتبے والا نہیں ہے یہ حالت ایمان والا مومن ہے یعنی وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ کا نور اتر گیا ہے ۔اللہ یہاں یہ سمجھانا چاہتا ہے کے اے مومنوں! تم سب کا مقام اور مرتبہ برابر نہیں ہے ۔تم اجتناب برتو، کئی قسم کے گمان ہیں تم ان کئی اقسام کے گمان سے اجتناب برتو۔۔ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۔۔اور ان میں سے بعض گمان گناہ ہیں ۔سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ سے اِس کی تشریح جو ملی وہ یہ ہے”مومن اگر کسی دوسرے مومن کی غیبت کرے یا بہتان لگائے تو اُس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے، ذاکر قلبی کو بہت احتیاط کرنی چاہئیے ایک دوسرے کے خلاف تنہائی میں بات نہیں کرنا چاہئیے۔جنہیں سرکار گوھر شاہی کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے انہوں نے یہ بات ضرور نوٹس کی ہوگی کہ سیدنا گوھر شاہی کے پاس جا کر آپ یہ نہیں کر سکتے تھے کہ آپ یہ کہہ سکیں کہ فلاں ایسا ہے، فلاں نے یہ کیا ہے۔ سرکار گوھر شاہی نے جتنی سختی کا مظاہرہ اس بات میں کیا ہے وہ سیدنا گوھر شاہی کا ہی خاصہ ہے۔ سرکار گوھر شاہی نے ہمیشہ اپنا گمان ہر شخص کے لیے اچھا رکھا۔اگر آپ نے کسی کو کوئی برا کام کرتے دیکھ لیا اور پھر جا کر سرکارگوھر شاہی کو بتا دیا تو سرکار آپ کی اس بات پر توجہ ہی نہیں دیں گے وہاں سے بھیج دیں گے، مرد ہو یا کوئی عورت ہو یہ ایک غضب کا کردار ہے”سیدنا گوھر شاہی کا فرمان ذیشان ہےکہ
“مومن کی غیبت کرنے سے تمہارا نور نکال کر سزا کے طور پر دوسرے فریق کو دے دیا جائے گا اور اگر بہتان لگائو گے توتمھارا ایمان چلا جائے گا اور اگر بدگمانی کسی ولی اللہ سے ہوگئی تو پھر اللہ تعالیٰ اعلانِ جنگ کر دیتا ہے”
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب، اگر ادب ہو تو بدنصیب کو بھی نصیب دلا دیتا ہے۔اگر ادب نہ ہو تو بھلے تقدیر میں کچھ بھی لکھا ہو لکھا ہی رہ جاتا ہے، میں نہاتی دھوتی رہ گئی کوئی گنڈھ سجن دل بہہ گئی۔ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی کی غیبت نہ کریں، کسی پر بہتان نہ لگائیں ۔پاکستان میں سیدنا گوھر شاہی کے خلاف اتنی بڑی بڑی افواہیں ،اتنی بڑی بڑی جھوٹی کہانیاں جو مولویوں نے بنا رکھی ہیں ۔کوئی کہتا ہے یہ قادیانی ہیں ۔مسلمانوں سے سوال ہے کے کیا ثبوت ہے کہ گوھر شاہی کے ماننے والے قادیانی ہیں ؟ کیا تم نے تحقیق کی ہے، کیا تم جانتے نہیں کے سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھانا جھوٹ ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ جھوٹے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق آگے بڑھا دے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ ابْنُ حُسَيْنٍ فِي حَدِيثِهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَلَمْ يَذْکُرْ حَفْصٌ أَبَا هُرَيْرَةَ
ترجمہ: حفص بن عمر، شعبہ، محمد بن حسین، علی بن حفص، شعبہ، حبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، ابن حسین، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کر دے۔
سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1583
قادیانی تو اپنی ہی دنیا میں گم ہیں کیا تم نے کبھی کسی قادیانی کو شیخ عبد القادر جیلانی یا مولیٰ علی کی مدح سرائی کرتے دیکھا ہے؟ ہماری لائیو نیٹ محافل میں تو حضور پر نعتوں اور درودو سلام کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں ، ذکر قلب کا بیان ہوتا ہے، قرآن و حدیث کا بیان ہوتا ہے ، لیکن ہمارے مخالف کسی ایک بات پر کان نہیں دھر رہے بس ایک جاہل اجڈ کی طرح ہمیں قادیانی قرار دینے پر لگے ہیں ، اس طرح کے مسلمانوں کو معلوم ہے کہ قرآن گمان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔انسان کا گمان بڑی خطرناک چیز ہے ایک حالت تو وہ ہے کہ جب اللہ انسان کے کان آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے۔
خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
سورة البقرة آیت نمبر 7
ترجمہ : اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔
ایک حالت یہ ہے کہ اللہ جب کسی سے ناراض ہو جائے تو ان کے لطائف کی زندگی ختم کر دے، نہ ان کی باطنی بصیرت سلامت رہے ،نہ ان کی باطنی سماعت سلامت رہے نہ ان کے دل کی زندگی باقی رہے جہاں جا کر ایمان نے بسیرا کرنا ہوتا ہے۔ جن چیزوں کو اللہ نے ہدایت دی ی ہوتی ہے ان پر اللہ قفل لگا دیتا ہے ۔ایک جگہ اللہ نے فرمایا انسان اور جانور میں فرق ان لطائف کا ہے، کہ انسان ان لطائف کو منور کر کے عالم بالا کے اعلی ترین درجوں پر فائز ہو سکتا ہے لیکن جس انسان میں یہ،لطائف ضائع کر دئیے اب اس میں اور جانور میں کیا فرق ہے بلکہ وہ جانور سے بھی بد تر ہے، یہ تب ہوتا ہے جب اللہ تعالی ناراض ہو جائے باطنی زندگی پر قفل لگا دے۔ لیکن ایسی ہی کیفیت انسان اپنے گمان کو خراب کر کے خود بھی اپنے اوپر طاری کر سکتا ہے ، اگر آپ کا گمان کسی کے بارے میں خراب ہو جائے اور آپ اپنے من میں ٹھان لیں کہ فلاں بندہ اچھا نہیں ہے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کو اُس کی اچھی بات بھی بُری لگے گی۔آپ کے دل میں کسی کے لیے برا گمان بیٹھ جائے تو وہ کچھ بھی کر لے وہ بات آپ کو بُری ہی لگے گی، ریا کاری اور دکھاوا کہہ کر رّد کر دیں گے یہ اللہ کی انسانوں پر لعنت ہے۔ایسے لوگ دنیا پر بوجھ ہیں ایسے لوگوں کو رب معاف نہیں کرے گا۔
کسی کے لئے اچھا یا بُرا گمان رکھنا خطرناک ہے:
گمان دو طرح کے ہیں اچھا گمان اور برا گمان ، دونوں گمان آپ کے لیے خطرناک ہیں ،کسی کے لیے اچھا گمان کر لیا تو اب اس کی بری بات بھی اچھی لگے گی نقصان ہو جائے گا وہ کوئی بری حرکت بھی کر دے تو توجہ نہیں جائے گی اچھا گمان بُرے گمان سے زیادہ خطرناک ہے برا گمان ہو جائے تو اچھی بات بھی بری لگے گی، اچھا گمان ہو جائے تو بُری بات بھی اچھی لگے گی ۔ دونوں طرح کے گمان غلط اور نقصان دہ ہیں ۔گمان انسان کو اندھا بنا دیتا ہے۔آج ہمارا اسلامی معاشرہ محض نام کا اسلامی معاشرہ ہے، اسلام نہ تو جماعت اسلامی میں نظر آئے گا ،نہ دعوت اسلامی میں نظر آئے گا نہ ہی کسی اور اسلامی فرقے میں اسلام نظر آئے گا ،آج کل کے مولویوں کی روزی روٹی کا دارو مدار ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف پر ہے۔حضور پاک نے فرمایا جس نے اپنے مسلمان بھائی کی جھوٹی تعریف کی اس کے منہ میں خاک۔لیکن مولویوں کا تو وطیرہ ہی یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بلے بلے کریں ،کہلاتے یہ عالم ِدین ہیں امت رسول کے وارث اور ایک ہی حدیث ایسی ہے جو ان کو وارث نہیں خبیث ٹھہراتی ہے۔کیا آپ اس کو اسلامی معاشرہ کہیں گے؟قرآن کے مطابق گمان کئی طرح کے ہیں اور ان میں سے کچھ گمان کبیرہ گناہ ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ گمان کیسے اچھا بنے گا اور کس طرح گمان بُرا بنے گا یہ ایک اہم چیز ہے جس پر غور کرنا ہے۔چند لوگ کسی کی بُرائی کرتے رہیں تو اس بُرائی کو سننے سے بھی گمان خراب ہو جاتا ہے۔ انسان کے گمان کا عالم یہ ہے کہ گمان بہت جلد خراب ہو جاتا ہے۔
” اگر کسی کی بُرائی سن کر گمان خراب ہوا ہے تو آپ گناہ گار ہیں آپ اِس کے ذمہ دار ہیں لیکن اگر کسی کو بُرا کام کرتے ہوئے دیکھیں اور اس کی بُرائی دیکھ کر گمان خراب ہو تو آپ ذمہ دار نہیں ہے وہ ذمہ دار ہے جو بُرا کام کر رہا ہے”
اسلام میں غیبت و بہتان کو منع بھی اِسی وجہ سے کیا گیا ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرنے کی وجہ سے لوگوں کا گمان اُس کے لیے خراب نہ ہو ۔اسی طرح اسلام میں جھوٹی تعریف سے بھی منع کیا گیا ہے ،کیونکہ بلا وجہ کی تعریف سے گمان اچھا بن جائے گا اور لوگ دھوکہ کھا جائیں گے۔کسی کی اچھائی دیکھنے کے بعد اچھا گمان قائم ہوا تو دھوکہ نہیں ہوگا کیونکہ جیسا گمان تھا وہ چیز اُس میں موجود ہے اب تعریف گناہ نہیں ہے۔ اسِی طرح بدگمانی ہےاگر کسی کے بُرے اعمال کو دیکھنے کی وجہ سے بدگمانی قائم ہوئی تو آپ اُس سے بچ جائیں گےلیکن اگر کسی کی بات سن کر بد گمانی آئی تو پھر وہ دھوکہ ہو گا ہو سکتا ہے وہ بندہ ایسا نہ ہو۔ اللہ نے فرمایا بعض گمان گناہ ہیں تو وہ گناہ وہ ہیں جو سن کر قائم کئے لیکن جو گمان دیکھ کر قائم کیا وہ گناہ نہیں ہے۔جن کے دلوں میں ایمان نہیں ہے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ تو ہیں ہی جہنمی ،اللہ کے یہاں زبانی کلمہ کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے اللہ کے یہاں تیری قدر و قیمت اُس وقت ہو گی جب تیرا قلب کلمہ پڑھ لے گا اِس سے پہلے اسلام اور کفر صرف نام کی بات ہے کہ فلاں کافر ہے فلاں مسلمان ہےورنہ اندر سے تو دونوں کالے ہیں ، عملی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ۔
ولیوں سے دشمنی اور اللہ کا اعلان ِ جنگ:
بخاری شریف سے مروی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ
حدثني محمد بن عثمان بن كرامة، حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان بن بلال، حدثني شريك بن عبد الله بن ابي نمر، عن عطاء، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله قال: “من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء احب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى احبه، فإذا احببته كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها، وإن سالني لاعطينه، ولئن استعاذني لاعيذنه، وما ترددت عن شيء انا فاعله ترددي عن نفس المؤمن يكره الموت، وانا اكره مساءته”.
کتاب الرّقاق ، صحیح البخاری، بَابُ التَّوَاضُعِ، حدیث نمبر 6502
ترجمہ : مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اُس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
یہاں اس حدیث میں یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ جس نے میرے ولی سے عداوت رکھی اُس نے فقط مجھے جنگ کے لیے للکارا میں اُس کے خلاف اعلان ِجنگ کر دیتا ہوں اور پھر آگے یہی بات سمجھائی کہ کسی ولی سے دشمنی کرنے پر اللہ اعلان جنگ کیوں کرے گا؟ پہلے تو اللہ نے کہا کے جس نے میرے ولی سے عداوت رکھی میری اس سے دشمنی ہے پھر اللہ نے ولی کی تشریح بیان کی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ،میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، پھر میں اس کے پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا جس سے وہ پکڑتا ہے ۔یہ مقام ایسا ہے کہ جو اِس پر پہنچ جاتا ہے اس کی شناخت کا سراغ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اب یہ بندہ ہے کہ رب ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اُس کے کان بن گیا ہے تو جو بات اس ولی کے کان میں جا رہی ہے وہی بات اللہ بھی سن رہا ہے ،جو کچھ وہ ولی دیکھ رہا ہے وہی اللہ کو بھی نظر آ رہا ہے ، جہاں جہاں وہ ولی قدم اٹھا رہا ہے اللہ ساتھ ساتھ چل رہا ہے، اگر کوئی اس سے دشمنی اور عداوت کرے گا تو وہ دشمنی اور عداوت اللہ سے بھی کربیٹھے گا اسی لیے کہا جاتا ہے اللہ کے ولی سے دشمنی کرنا اللہ سے دشمنی کرنا ہے۔یہی وجہ ہے جنہوں نے بغیر تحقیق کے سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ میں اپنی زبانیں کھولیں، نبوت کے جھوٹے الزامات لگائے، کسی نے کوئی اور الزام لگا دیا، لوگ الزام لگاتے رہے اور اُن پر عذاب آتا رہا اور آج پاکستان میں مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ اُن کا کوئی دین نہیں ہے ۔ عالم دین مسخرے لگتے ہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ سنتوں کا نام لینے والے ہی دین کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 6 مارچ 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں ہوئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔