- 856وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
سوال: عمیر خان نے الرٰا ٹی وی فیس بک اکاؤنٹ پر نہایت گستاخانہ انداز میں یہ سوال کیا ہے کہ کیا آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں سرکار گوھر شاہی کو امام مہدی ثابت کر سکتے ہیں ؟
قرآن و حدیث پڑھ کر ہر فرقے کی نظر میں ہدایت جدا جدا ہے:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہدایت جو ہے وہ شیعہ کے نزدیک کچھ اور بن گئی ، وہابی کے نزدیک کچھ اور بن گئی، بریلوی کے نزدیک کچھ اور بن گئی، تو قرآن و حدیث کی روشنی میں امام مہدی کا کیا ہوگا!ایک چھوٹی سی چیز قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف بن گئی اسی قرآن کو پڑھ کے شیعہ یہ کہتا ہے ہدایت یہ ہے، وہابی کچھ اور ہدایت سمجھتا ہے، سنی کچھ اور سمجھتا ہے۔ ہر آدمی کے نزدیک ہدایت کا پیمانہ ہی مختلف ہے اب تم قرآن و حدیث کی روشنی میں امام مہدی کو کیسے پہچانو گے ؟ سنیوں کا امام مہدی کوئی اور بن جائے گا، شیعہ کا کوئی اور بن جائیگا، بریلویوں کا امام مہدی الگ ہوگا ، حالانکہ امام مہدی تو ایک ہی ہیں ، تو یہ تصوراتی اور خوابناک امام مہدی کئی بنے ہوئے ہیں ، لوگوں کے اذہان میں ہیں یہ۔
یہاں بیٹھ کر ہم نے وہ بات کرنی ہے جو اصول ِدین پر ثابت ہوتی ہو ۔اگر ہم کسی چیز پر ڈٹے ہوئے ہوں تو اسکا ثبوت ہمیں حق کی روشنی میں فراہم کرنا ہے، کیونکہ ڈٹا رہنا حق نہیں ہے ہوسکتا ہے ضد ہو کسی کی، انا ہو کسی کی، حق ثابت ہو جائے پھر حق پر ڈٹا رہنا صحیح ہےورنہ ہر آدمی اپنے آپ کو صحیح اور سچا سمجھتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہدایت تلاش کی گئی تو سنیوں کے لیے کچھ اور ہدایت ہو گئی وہابیوں کے لیے کچھ اور ہدایت ہو گئی شیعہ کے لیے کچھ اور ہو گئی ،اب امام مہدی کو قرآن و حدیث سے ثابت کریں گے تو کیا ہوگا ، سنیوں کا تصور مہدی الگ ہے، شیعہ کا الگ ہے وہابیوں کا اپنا ہی ایک تصور ہے۔کئی لاکھ جھوٹی حدیثیں ، حدیثوں میں شامل کر دی گئی ہیں، قرآن مجید کے مفہوم میں گڑبڑ پیدا کر دی گئی ہے، آپ قرآن و حدیث کی اتنی بات کر رہے ہیں ، کیا آپ میں اتنی مجال ہے کہ کھڑے ہو کر یہ کہہ دیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں میں حق پر ہوں اورمیرا عقیدہ حق پر ہے۔ یہی بات وہابی اور شیعہ بھی کھڑا ہو کر کہہ دے تو پھر حق پر کون ہے؟قرآن اور حدیثیں ہی تو تم پڑھ رہے ہو اس کے باوجود تم ذلیل و رسوا ہو ، کیا اخذ کیا ہے تم نے قرآن سے؟ یہی کہ کوئی قرآن پڑھ کر حضور پاک کے پاؤں کی خاک کو اپنا سجدہ گاہ بنا لیتا ہے اور دوسرا پڑھے تو کہے حضور پاک (معاذ اللہ) میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں ، یہ دونوں مفہوم تم نے قرآن ہی سے اخذ کیے ہیں ۔ اب ہم تم سے سوال کرتے ہیں کہ
1۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تم کو ہدایت مل گئی ہے؟
2۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تمھیں یہ پتا چل گیا ہے کہ مولا علی کی کتنی عزت کرنی چاہیے ؟
3۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تم کو یہ پتا چل گیا ہے کہ محمد رسول اللہ نور ہیں یا بشر ہیں ؟
4۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تم کو یہ پتا چل گیا ہے کہ ولی کو ماننا ضروری ہے یا شرک ہے؟
5۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں امام مہدی کو پہچان لو گے ؟
6۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں صراط مستقیم کیسے حاصل ہو گی ؟
قرآن مجید کے بہت سے اعجازاور کرامتیں ہیں جن میں سے ایک کرامت یہ بھی ہے کہ کوئی اس کو پڑھتا ہے تو گستاخ رسول بن جاتا ہے اور کوئی قرآن کو پڑھ کر عاشق رسول بن جاتا ہے ۔کوئی اس کو پڑھ کر شیعہ بن جاتا ہے تو کوئی سنی بن جاتا ہے ۔یہ کونسی کرامت ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن سے ہدایت ملتی ہے تو وہ ہدایت ایک قسم کی ہوتی ہے یا کئی قسم کی ہوتی ہے ۔یہ تمام فرقے والے ہدایت پر ہیں ، ایک دوسرے کو منافق بھی کہہ رہے ہیں اور جان کے پیاسے بھی ہیں ۔کیا ڈھونڈو گے قرآن و حدیث کی روشنی میں ! تمہارا دامن تو خالی ہے ۔ تم نے کیا ڈھونڈا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں ؟سنی سے پوچھو ہاں جی تم حق پر کہیں گے ہاں جی ہم حق پر ہیں ، شیعہ سے پوچھو تم حق پر ہو کہیں گے ہاں جی ہم حق پر ہیں ، وہابی کا پوچھو تو کہیں گے وہ گستاخ ہیں ، شیعہ کے نزدیک صرف وہ حق پر ہیں ، وہ مولا علی کی اولاد سمجھتے ہیں اور انکے نزدیک علم انکے خون میں دوڑتا ہے یہ مولا علی نے کبھی نہیں کہا ، خون میں تو بیماری دوڑتی ہے۔ہے کوئی مائی کا لال جو یہ کہے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں امام مہدی کو پہچان لوں گا؟ اگر کوئی یہ کہے تو ہم اس سے سب سے پہلے یہ کہیں گے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں صراط مستقیم حاصل کر لی ہے تو بتاؤ صراط مستقیم کیا ہے؟
عالم کے پاس زبان اور ولی کے پاس دل اور سوچ سنبھال کر جاؤ:
سیانے لوگ کہتے ہیں کہ عالم کے پاس جاؤ تو زبان کو سنبھال کر رکھو اور ولی کے پاس جاؤ تو دل و دماغ دونوں کو قابو میں رکھو کہ وہ دماغ کی سوچ اور دل کا خیال بھی جانتا ہے اور اب یہاں آ جاؤ تو اپنا مقدر اور یوم محشر قابو میں رکھے۔اسکا جواب کوئی مجھے دے دے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اسے صراط مستقیم مل گئی ہے تو پھر ہم اسکو سرکار گوھر شاہی کا مرتبہ مہدی قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کریں گے!اچھا یہ بتاؤ یہ قرآن مجید تو حضور پاک پر اترا تھا ، اس کے باوجود بھی چاند کو دو ٹکڑے کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ جس طرح آج کے دور میں طاہر القادری یہ کہتا ہے کہ کوئی ہوا پر چل رہا ہو تو یہ کرامت نہیں ہے ۔کوئی پانی پہ چل رہا ہو کرامت یہ بھی نہیں ہے پھر کرامت کیا ہے؟ اسکا علم دیکھو ، ہم کہتے ہیں علم تو شیطان کے پاس بھی ہے اور وہ سب فرشتوں کا استاد تھا۔اسی طرح کے علماء سو نے لوگوں کو بیوقوف بنا رکھا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں رب نہیں ملتا ۔قرآن و حدیث کی روشنی میں تم کوآج تک یہ تو پتا نہیں چلا کہ رمضان کی شروعات کب کریں تو صحیح ہوگی ، جب رمضان شروع ہونے والا ہوتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بہک جاتے ہیں۔ کیا قرآن سمجھ میں آیا تمہارے؟ تمہاری سمجھ میں صرف اتنا آیا کہ جو بھی اللہ کے عشق کی بات کرے، امام مہدی کی طرف اشارہ کرے کہ وہ ذات امام مہدی ہے تو اس کو کافر کہہ دو، اسکی ماں بہن ایک کر دو۔ مومن کو گالی دینا فسق ہے۔یہ جو کرشمات قدرت ہوئے ، معجزات انبیاء ہوئے ، اولیاء اللہ سے کرامات ہوئیں قرآن و حدیث کے باوجود ان چیزوں کی کیا ضرورت تھی؟ ہر آنے والے پیغمبر کی پیشن گوئی موجودہ کتاب میں آجاتی تھی، اب پھر قرآن مجید میں کیا آیا؟ نبوت بھی ختم ،رسالت بھی ختم ہو گئی لیکن دنیا تو ختم نہیں ہوئی ،
آسمانی نشانیاں رب کے تازہ احکام کی مانند ہیں :
قرآن مجید میں مستقبل کے لیے یہ کہا گیا ؛
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
سورۃ فصلت آیت نمبر 53
ترجمہ: ہم ان کو دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں اور اُنکی زندگیوں میں ، اور اس وقت تک نزول ہوتا رہے گا جب تک اُن پر واضح نہ ہو جائے یہ حق ہے۔
سَنُرِيهِمْہم انکو دکھائیں گے آيَاتِنَا اپنی نشانیاں فِي الآفَاقِ آسمانوں میںوَفِي أَنْفُسِهِمْ اور انکی زندگیوں میںحَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اس وقت تک نشانیوں کا نزول ہوتا رہے گا ، دکھاتے رہیں گے حتی کے ان پر واضح نہ ہو جائے أَنَّهُ الْحَقُّ کہ یہ حق ہے۔یہ اللہ نے مستقبل میں نشانیوں کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالی تمہارے لیے نشانیوں کو ظاہر کر رہا ہے تاکہ تم امام مہدی کو پہچان لو، تم ان نشانیوں سے منہ موڑ کے قرآن مجید اور حدیث کی طرف جا رہے ہو،بھئی حدیث چودہ سوسال پرانی ہے، قرآن چودہ سو سال پرانا ہے اور اُس ذات نے تواِ س دور میں آنا ہے اِس دورکے تقاضے جدا ہیں ، قرآن کے مفہوم میں بھی گڑبڑ اور آمیزش ہوسکتی ہے، حدیث کے متن میں بھی آمیزش ہوسکتی ہے، لیکن اللہ کی نشانیاں جو ظاہر ہوتی ہیں ان میں کوئی آمیزش کیسے کرسکتا ہے؟ عیسی علیہ السلام کے بارے میں بھی بائبل میں آیا وہ آسمان کے پیچھے سے بادلوں سے ظاہر ہونگے اور یہاں مختلف روایتوں میں آیا کہ امام مہدی کا چہرہ چاند پہ چمکے گا ، ایک روایت میں یہ بھی آیا کہ اس وقت تک امام مہدی کا ظہور نہیں ہوگا جب تک کہ امام مہدی کی کوئی نشانی چاند اورسورج دونوں پر ظاہر نہ ہوجائےاور پھر سب سے بڑی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں امام مہدی کے آنے کا مقصد کیا ہے، کیوں آرہے ہیں یہ جاننا بڑا ضروری ہے۔
امام مہدی کے آنے کا مقصد :
امام مہدی لوگوں کے دلوں میں نور بھرنے انکا تعلق رب سے جوڑنے کے لیے آ رہے ہیں۔تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ جس ذات کے بارے میں کہا جا رہا کہ یہ امام مہدی ہیں چلو باقی باتیں تو چھوڑ دیں کہ یہ امام مہدی ہیں یا نہیں ہیں ۔ پہلے دیکھ لیں کہ یہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں یا نہیں ۔منجانب اللہ مہدی اللہ کی طرف سے ہی آئے گا نا، تو تمہارے پاس کوئی کسوٹی تو ہونی چاہیے ان لوگوں کو پہچاننے کی جو اللہ کی طرف سے آئیں ، اگر تمہارے پاس کوئی کسوٹی نہیں ہےتو تم کوکیسے پتا چلے گا۔
یہ چھوڑ دو کہ سرکار گوہر شاہی امام مہدی ہیں ، یہ جاننے کی کوشش کرو کیا اللہ نے انکو بھیجا ہے یا نہیں ! اگر اللہ نے اُن کو بھیجا ہے تو اُن کے پاس لوگوں کو اللہ تک پہنچانے کی طاقت ہوگی ، اگر ان کے پاس لوگوں کو اللہ سے جوڑنے کی طاقت نہیں ہوگی تو پھر اللہ نے نہیں بھیجا ۔
لیکن مسلمانوں کو اللہ سے مطلب کہاں ہے، مسلمان ہوگئے اب اللہ وللہ کہاں ہے بس مسلمان ہونا ہی کافی سمجھتے ہیں ، بکواس کرنا جانتے ہیں ۔ یہ جہنمی لوگ ہیں ۔یہ بات آپ اپنے ذہن سے نکال دیں کہ آپ امام مہدی کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پہچان لیں گے ، اگر آپ نے اپنا ایمان یہ بنا رکھا ہے تو پھر آپ بہت بڑی گمراہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ، کیونکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں آج تک آپ کو یہ نہیں پتا چلا کہ صراط مستقیم کیا ہے ،صراط مستقیم تو ایک چھوٹی سی چیز ہے وہ تم کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پتا نہیں چلی تو تم امام مہدی کو قرآن و حدیث کی روشنی میں کیسے پہچانو گے؟
“امام مہدی کو پہچاننے کے لیے اللہ تعالی نے اپنی نشانیوں کا ظہور کیا ہے ، چاند میں چمکتا ہوا چہرہ گوھر شاہی، حجر اسود میں تصویر گوھر شاہی ، سورج میں تصویر گوھرشاہی! اور سب چھوڑ دو انسان کے دلوں پر چمکتا ہوا چہرہ گوھر شاہی ،اسکو بھی چھوڑ دو ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ، سرکار گوھر شاہی بھی یہاں بیٹھے ہیں ، جب سرکار گوھر شاہی سے کچھ بھی تمہیں لینا ہے وہ ہم تمہیں دے دیں گے اور جب تو پکڑنے کے لیے آؤ گے کہ گوہر شاہی کو گرفتار کرو تو پھر ہم یونس بن جائیں گے۔ آؤ!جوسرکار گوھر شاہی کی طاقت دیکھنا چاہے وہ یہاں آجائے ! زمین سے لے کر آسمان تک کی طاقت ! یہ کرامت ہے نا، اس سے بڑی کیا کرامت ہوگی کہ وہ بولے اور نظر نہ آئے!!! بول وہ رہا ہے اور نظر کوئی اور آ رہا ہے”
ہمیں ہدایت سرکار گوھر شاہی کے در سے ملی ہے ۔ ہم بھی یہ قرآن پڑھتے تھے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا لیکن جب در ِ گوھر شاہی میسر آیاتو معلوم ہوا صراط مستقیم کیا ہے۔ قرآن میں صاف صاف ہدایت کا راستہ بتایا ہوا ہے ۔
أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـه
سورۃ الزمر آیت نمبر 22
ترجمہ : اگر تم اسلام پر کاربند ہونا چاہتے ہو تو اپنا سینہ منور کر لو اور جس نے اپنا سینہ منور کر لیا تو اس کو اپنے رب کی طرف سے نور میسر آ جائے گا۔اور وہ لوگ تباہی کی طرف گامزن ہیں جن کے قلب جامد پتھروں کی طرح سخت ہو گئے کہ اُن میں اللہ کا ذکر داخل نہیں ہوتا ۔
یہ صاف صاف بتانےکے باوجود بھی لوگ شریعت کے مسئلوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ داڑھی بڑی ہے یا چھوٹی ہے۔پاجامہ کتنا اوپر ہونا چاہیے یا نیچے ۔ سینہ منور کرنے کی جو تعلیم یہاں سے عطا ہو رہی ہے اس کی بات نہیں کرتے کہ ہم بھی اپنی شرح صدر کرکے صراط مستقیم پر گامزن ہو جائیں ۔اسی بات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کی بات ان کے سمجھ میں نہیں آئی ہے اگر آ گئی ہوتی تو بہتر تہتر فرقوں میں منقسم نہ ہوتے ۔قرآن میں لکھا ہے
اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
سورۃ آل عمران آیت نمبر 103
ترجمہ : اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقوں میں تقسیم نہ ہو ۔
میں نے عالم اسلام میں کسی ایک بندے کو یہ کہتے نہیں سنا کہ وہ اللہ کی رسی کہاں ہے مجھے پکڑنی ہے ۔ مولویوں نے کہہ دیا وہ رسی قرآن ہے ۔اگر قرآن اللہ کی رسی ہے تو کہاں لٹک رہا ہے اور یہ ہمارے ہاتھوں میں کیا ہے ؟ اتنی بے غیرتی ، اتنی جہالت ، اتنا فسق اور جہل ، بد باطنی ان کے اندر اتنی بڑھ گئی ہے سننے والے بھی اور سنانے والے بھی ۔ سنانے والے سنا سنا کر دین کو بیچ رہے ہیں اور سننے والے احمقوں کی طرح سن رہے ہیں ۔کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ اللہ کی رسی کہاں ہے اور کیسے حاصل کی جا سکتی ہے ۔
مندرجہ بالا مضمون 24 جون 2017 کی یو ٹیوب کی لائیو نشریات سے لیا گیا ہے۔