- 1,835وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
تشریح:
محبت کی دلیل شعراء کرام کے اشعار میں نہ ڈھونڈیں کیونکہ شاعرانہ مزاج رکھنے والے شاعری میں اپنا تخیل بیان کرتے ہیں جبکہ حقیقی زندگی شاعری سے بہت مختلف ہے۔ یوں تواب شاعری کی بہت ساری قسمیں ہوگئی ہیں لیکن اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زیادہ تر صنفِ نازک کے حسن کی تعریف میں شاعری لکھی جاتی ہے، ایسی تعریف جس میں تخیل کی کوئی حد نہیں ہوتی، محبوب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں جو کہ لفاظی ہے ایسی شاعری پڑھ کر لوگ ایک دھوکے کی دنیا میں رہنے لگ جاتے ہیں اور حقیقی زندگی میں کسی سے محبت ہوجانے پر جب وہ چیزیں اُنہیں اپنے محبوب میں نظر نہیں آتیں تو دو چار دن میں محبت کا بھوت اُتر جاتا ہے۔ محبت کے لیے شاعری کو دلیل نہ بنائیں۔شاعری کو صوفیا ء کرام نے بھی استعمال کیا مگریہ توازن ملحوظ خاطر نہیں رکھا کے کتنا مواد تعلیم کا شاعری میں ڈالنا ہے اور کتنے اپنے مشاہدات بیان کرنے ہیں۔
علامہ اقبال:
علامہ اقبال نے بھی شاید شاعری کو تعلیم کے لیے استعمال کیا، ان کی شاعری میں روحانی تعلیم کی رغبت نظر آتی ہے
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرے قیام بھی حجاب میرے سجود بھی حجاب
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری
غالب:
غالب نے بھی محبت کے بارے میں بہت اشعار کہے اُن کے یہاں مایوسی کے ساتھ ساتھ ایک عزم بھی نظر آتا ہے جس کو بڑی آسانی کے ساتھ ہٹ دھرمی بھی کہہ سکتے ہیں۔جیسا کہ:
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی
کہیں پرغالب چہکتے ہوئے کہتے ہیں
عاشق ہوں معشوق فریبی ہے میرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلی میرے آگے
لیکن یہ سب استعارے، اشارے کنایے شاعری ہے اور شاعری میں تخیل کی کوئی حد نہیں ہے، آسمان کے تارے لے آؤں ، عرش تک چلا جاؤں، جب لوگ ایسی باتیں پڑھتے ہیں تو ذہن میں یہ خیال آتا ہے کیسا زبردست عاشق تھا، جبکہ شاعر نے اپنےتخیل کو بیان کرنے کے علاوہ عملی طور پرتوکچھ بھی نہیں کیا ۔
مولانا روم:
مولانا روم نے شاعری کو قرآن کا ترجمہ کرنے کا ذریعہ بنایا اِن کی مثنوی کو فارسی کا قرآن بھی کہا جاتا ہے۔مولانا روم خود کہتے ہیں
معنوی و مولوی و مثنوی
ہست قرآن در زبان پہلوی
بلھے شاہ:
اِن کا کچھ کلام فقر سے متعلق ہےاور کچھ کلام ایسی باتیں ہیں اُن کے اپنے عقائد اور خیالات سے متعلق ہیں اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ان کے ذاتی مشاہدات کا ردِ عمل تھا، شاید اِس بات کی اُن کو سمجھ نہیں تھی کے لوگوں کے ساتھ تو ایسے معاملات نہیں ہیں مگر وہ پھر بھی اپے ذاتی مشاہدات اپنی شاعری میں بیان کر گئے جیسا کہ یہ شعر
نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبحا کھڑکایا
بلھے نو ملیا ایسا مرشد جس نے ایویں جا بخشایا
سب کو تو ایسا مرشد نہیں ملا، یہاں سے ان کی شاعری نے کچھ الجھن بھی پیدا کی۔اب سوال یہ ہے کے فی نفسہی محبت کیا ہے؟ اللہ کی محبت یا انسان کی محبت؟ ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت ہونے کی بہت سی جوہات ہیں،ایک خون کے رشتوں کی محبت ہے خون کو دیکھ کر خون جوش مارتا ہے معلوم نہیں اس کو خون کی کشش کہیں گے یا محبت!! ایک محبت ہے اولاد کی جو ساتھ آتی ہیں یہ عجیب بات ہے کے کچھ محبتیں اللہ کی جانب سے ہماری جھولی میں آتی ہیں لیکن پھر بھی وہ ناجائزہیں۔
سیدنا گوھر شاہی امام مہدی علیہ السلام کا فرمان ذیشان ہے تین چیزیں اپنی محبت ساتھ لاتی ہیں۔
اولاد : ( کسی کی اولاد ہو اور وہ کہے مجھے اس سے محبت نہیں ہے تو وہ جھوٹا ہے)
مال : ( کسی کے پاس مال و دولت ہو اور وہ کہے مجھے پیسے سے محبت نہیں ہے تو جھوٹا ہے)
اسم ذات: ( اسم ذات اللہ اپنی محبت ساتھ لاتا ہے)
اولاد کی محبت:
شاید اولاد کی محبت کی وجہ یہ ہو گی کہ اُن کی تربیت صحیح ہوجائے، ماں کو ممتا اور باپ کو محبت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اولاد کی پرورش ہو جاتی ہے۔ اولاد کی محبت اللہ کی طرف سے ملتی ہے لیکن دوسری طرف اللہ نے یہ جاننے کے باوجود سورہ ابراہیم میں کہہ دیا
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ
سورة الشعراء 88اس روز کوئی چیز نفع نہیں پہنچائے گی نہ تمھارا مال اور نہ بیٹے۔
اولاد کی محبت تھوڑی بہت ہو تو ٹھیک ہے زیادہ محبت ٹھیک نہیں ۔
سیدنا گوھر شاہی امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا دیکھا گیا ہے کے بہت سے لوگ اولاد کی محبت میں رب کو بھول جاتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ کچھ لوگ اولاد کی وجہ سے مرشد کو چھوڑ دیتے ہیں اورکچھ ایسے بھی ہیں جو مرشد کی وجہ سے اولاد چھوڑ دیتے ہیں۔
مال و دولت کی محبت:
سیدنا گوھر شاہی امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا دوسری محبت پیسہ کی ہے جب پیسہ آتا ہے تو اپنی محبت بھی ساتھ لاتا ہے جو یہ کہے میرے پاس پیسہ ہے لیکن اس سے محبت نہیں ہے تو وہ جھوٹا ہے، اور اگر واقعی پیسہ بھی ہے اور محبت نہیں ہے تو یہ بہت ہی خاص کرم ہے۔
اسم ذات اللہ ھو کی محبت:
تیسری محبت اسم ذات اللہ سے جڑی ہے ، اسم ذات جب عطا ہوتا ہے تو اپنی محبت ساتھ لاتا ہے یہ محبت جائز ہے۔دنیا میں جس سے بھی محبت کا پوچھیں وہ یہ ہی کہے گا دنیا سے محبت اُٹھ گئی ہے سوال تو یہ ہے کیا دنیا میں محبت کبھی تھی؟ حقیقت یہ ہےکہ کوئی جذبہ لالچ کی وجہ سے پیدا ہوا کوئی جذبہ نفسانی غرض وجہ سے پیدا ہوا کوئی جسمانی حسن دیکھ کر کوئی پیسہ کی وجہ سے اور ہم سےغلطی یہ ہوئی کہ اِن جذبات کوہم نے محبت سمجھ لیا۔ یہ بھی ایک ننگی حقیقت ہے کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اُس کی یاد نہیں بلکہ ضرورتیں ہمیں رُلاتی ہیں۔ ذاتی تجربہ اور سیدنا گوھر شاہی کی تعلیم کی بنیاد پر ہم یہ جان پائے کے انسان کو انسان سے محبت نہیں ہوتی بلکہ محبت کے نام پر لالچ ،غرض یا کوئی اور ضرورت کار فرما ہوتی ہے۔
دنیا میں محبت جیسی چیزیں لوٹنے اور کھانے کا ذریعہ ہیں۔ اگر دنیاوی طور پر محبت ڈھونڈنے نکلیں گے تو کبھی بھی نہیں ملے گی۔ کیونکہ کسی کو معلوم ہی نہیں محبت آتی کہاں سے ہے اور کیسے ہوتی ہے، اور پھر محبت ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ جب سیدنا گوھر شاہی امام مہدی علیہ السلام نے کتابِ مقدس دینِ الہی لکھی اُس وقت محبت سے پردہ اُٹھا۔ سیدنا گوھر شاہی نے انسانی محبت کو بھی سچا قرار دیا اور رب کی محبت کو بھی سچا قرار دیا اور بتایا کے انسانی محبت ہوتی ہے تو کیسے ہوتی ہے اور رب سے اور رب کے حبیب سے جو محبت ہے اُس کا طریقہ کیا ہے۔آپ نے سنا ہو گا محبت کو جو فروغ حاصل ہوا اور محبت کے نام پر جومختلف فرقہ بن گئے، جس طرح روحانیت میں سلسلے بن گئے کوئی سہروردی کوئی قادری اور کوئی چشتی سلسلہ بن گیا ،اسی طرح پنجاب کے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ سوہنی مہیوال کا نام لیتے ہیں، عرب میں جائیں تو لیلٰی اور قیس کا نام لیتے ہیں بلوچستان میں سسی پنو گذرے ہیں اور گورے رومیو جولیٹ کی بات کرتے ہیں اِسی طرح ایران میں شیریں فرہاد نامی ایک جوڑا گذرا ہے۔
مالک الملک رب الارباب را ریاض گوھر شاہی نے محبت کی تعریف میں بتایا۔
محبت تین قسم کی ہوتی ہے۔
رومانی محبت:
نفسانی محبت:
حقیقی محبت:
سیدنا گوھر شاہی نے ایک جملہ یہ فرمایا
’’محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے جو بھی دل میں آ جائے اُس سے محبت ہو جاتی ہے کیونکہ دل مقامِ محبت ہے‘‘
رومانی محبت:
لوگ رومانی یا رومنٹک Romantic کا مطلب کچھ اور لیتے ہیں،رومانی محبت کیا ہے یہ کیسے ہو گی؟
سیدنا گوھرشاہی کی بارگاہ میں اربوں کھربوں سجود، مالک نے فرمایا عالمِ ارواح میں روحوں کے محلے ہیں، دنیا میں جا کر جنہوں نے ذاکر قلبی بننا ہے جن کا مقام و مرتبہ ایک سا ہے اُن روحوں کا ایک محلہ بنا دیاگیا اِسی لیے کہا کے تیرا ایمان تیرے دوست کے ایمان پر ہو گا۔ دوستانہ محبت اُسی سے ہوگی جو باطن میں تیرا ہم مرتبہ ہو گا ایسا نہیں ہے کے آپ ذاکر قلبی ہیں اور ذاکر روحی سے دوستی کی پینگیں بڑھ جائیں ۔اگر روحیں ہم محلہ ہم مرتبہ نہیں تو اِن کو آپس میں کشش نہیں ہو گی۔عالمِ ارواح میں ذاکر قلبی کے الگ محلے ہیں اور ذاکر روحی کے الگ محلے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کسی ایک محلے سے کچھ روحیں ایک زمانے میں ایک جگہ پر آجائیں خاص طور پر وہ روحیں جن کا عالم ارواح میں زبردست یارانہ تھا محبت تھی اور وہ محبت اُس وقت تھی جب وہاں نفس کی آمیزش نہیں تھی۔ جب زمین پر اُن کا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہو جائے اب وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ، یہ ہے رومانی محبت۔
یہ ہی چیز لیلٰی اور قیس کے درمیان ہوئی۔ چونکہ روحوں کے درمیان وہ محبت عالم ارواح کی محبت تھی وہاں نفس کی موجودگی نہیں تھی لہذا یہ محبت نفس کی غرض سے پاک ہوتی ہے۔سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا یہ ہی وجہ ہے لیلٰی مجنوں بہن بھائی کی طرح رہے کبھی ایک دوسرے کوشہوت کی وجہ سے نہ ہاتھ لگایا نہ کبھی دیکھا اُن کی محبت روحانی محبت تھی۔رومانی محبت میں نفس کا کوئی چکر نہیں ہوتا اور اِس محبت میں شادی نہیں ہوتی۔ اِس محبت کو صوفیاء کرام نے تصوف کا ذریعہ بھی بنایا ۔
جیسا کے وارث شاہ کے مرشد نے اُس کو کہا پہلے کسی انسان سے محبت کر اُس کے بعد آنا۔ رومانی محبت گناہ نہیں ہے کیونکہ اُس میں گناہ والا کوئی کام نہیں ہے۔
سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا اب اِس دور میں رومانی محبت کا سلسلہ بند کیا جا چکا ہے۔
نفسانی محبت:
اِس محبت میں ہر حال میں کوئی نہ کوئی نفسانی غرض ہوگی یا تو پیسے کی یا شہوت یا حسن کی غرض شامل ہوگی سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا یہ محبت گناہ ہے، آج کے دور میں ایسی محبت میاں بیوی کے درمیان ہی کیوں نہ ہو نفسانی محبت ہے ، ایک تو نفسانی محبت گناہ ہے اور دوسرے ایسی محبت کے باطن میں اثرات بہت برے ہیں۔
محبت کا پہلا فلسفہ ہے اُس میں انا نہیں ہوتی جس انسان میں انا ہو وہ محبت سے کوسوں میل دور ہے۔ اگرکسی کو اپنے بارے میں یہ شک ہے کے مجھے فلاں سے بڑی محبت ہے تو وہ لیلٰی مجنوں کی کہانی پڑھ لے کے کس طرح قیس لیلٰی کی گلی کے کتوں کو چومتا تھا۔ انانیت ہوتی تو وہ کتوں کو نہ چومتا، کہنے کو تو کتے کو چومنا بڑی آسان سی بات لگتی ہے، اگر کہا جائے جاؤ کتے کو چوم کر آؤ اس عمل سے امام مہدی گوھر شاہی کی محبت ملے گی تو بڑی مشکل ہو گی ہزار وسوسے تو آئیں گے ہی ہو سکتا ہے کراہیت بھی آ جائے۔
لیکن قیس لیلٰی کی گلی کے کتوں کو نہ صرف چومتا بلکہ اُن کی آنکھوں کے بوسے بھی لیتا لوگ کہتے تم کیا کر رہے ہویہ تو نجس جانور ہے، تو مجنوں کہتا یہ تم کو کتے نظر آ رہے ہیں ۔یہ مجھ سے بہتر ہیں، میری آنکھیں محبوب کے دیدار سے محروم ہیں اور اُ سکی گلی کے یہ کتے اُ س کو روز تکتے ہیں مجھ سے بہتر ہیں۔
لیلی مجنوں کی محبت مرد اور عورت کے جسموں میں نہیں تھی بلکہ دو روحوں کے بیچ میں تھی۔
نفسانی محبت نہ صرف گناہ ہے جب نفسانی غرض سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی غلاظت نفوس کے اندر داخل ہو جاتی ہے جو رب سے دور ی کا باعث بنتی ہے۔اِس دور میں صرف نفسانی محبت ہے رومانی محبت دنیا سے ختم ہو چکی ہے اب رومانی محبت کا وجود برقرار نہیں ہے۔جہاں بھی چلے جائیں نفسانی محبت ہی ملے گی۔ ناچنے گانے والیوں یا ماڈلز کو لوگ مہنگے ٹکٹ لے کر دیکھنے جاتے ہیں سوال یہ ہے کیا اُن سے محبت کی وجہ سے اتنا پیسہ لُٹاتے ہیں؟ اگر محبت ہے تو کیا اِن ماڈلز کی جگہ اپنی ماں بیٹی بہن کو رکھ سکتے ہو؟ نہیں یہ محبت نہیں شہوت ہے جو کتے کی مانند اِن کے پیچھے دوڑا رہی ہے۔
جیسے جیسے زمانے میں پیسہ کا بول بالا ہو رہا ہے ویسے ویسے محبت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں،اب کسی کی محبت چاہیئے تو مال دار بن جائیں وہ کتے کی طرح دم ہلا کر پیچھے پیچھےگھومے گا۔جب تک آپ کی جیب میں مال ہےمحبت اورعزت رہے گی جس دن مال گیا اُس دن پتا بھی نہیں چلے گا وہ اور اس کی محبت کہاں گئی۔ حسن کے پجاریوں کا بھی یہ ہی حال ہے آج ایک جسم کے ساتھ تھے جب جسم ڈھلک گیا تو کوئی نیا جسم ڈھونڈ لیا۔ لُبِ لباب یہ ہے کہ اب دنیا میں صرف نفسانی غرض والی محبتیں رہ گئی ہیں۔
مثال:
چھوٹے بچے کھیل کھیل میں ایک دوسرے کو پپی بھی کر لیتے ہیں گلے بھی مل لیتے ہیں لیکن اُن کے کوئی جذبات نہیں ہوتے لیکن سن بلوغت لگتے ہی لطائف اور نفس جذبات کا پائپ کھول دیتے ہیں، احساسات اور جذبات کا ایک طوفان سینے میں ہوتا ہے اُس وقت جذبات ایسے ہوتے ہیں کے پتھر سے بھی محبت ہو جاتی ہے، لڑکی نہ ملے تو گڑیا سے محبت ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ جذبات ابھی ابھی کُھلے ہیں۔ کسی لڑکی کو دیکھ کر لگتا ہے میں قیس ہوں یہ لیلیٰ ہے۔ نفسانی محبت گناہ ہے رب سے دور کرتی ہے اور ساری دنیا میں یہ ہی محبت پھیلی ہوئی ہے اِس محبت سے دور رہیں۔ چالیس سال سے پہلے پہلے بھلے گرل فرینڈ ہو یا منکوحہ بیوی انسان اِسی قسم کے جذبات میں رہتا ہے مجنوں بنا رہتاہے لاکھ سمجھاؤ اُسے کچھ پلے نہیں پڑتا ، جذبات میں پختگی اور بُرد باری چالیس سال بعد آتی ہے۔
سیدنا گوھر شاہی سے ایک مرتبہ دریافت کیا کے مرد کو کس عمر میں شادی کرنا چاہئے آپ نے ارشاد فرمایا مرد کو پچیس سال کی عمر میں شادی کرنا چاہیئے۔ حضور پاک نے بھی پچیس سال کی عمر میں چالیس سال کی عمر کی عورت سے شادی کی۔ پچیس سال کا مرد جوان ہوتا ہے اِس سے پہلے نوجوان ہے۔ پچیس سے چالیس سال تک جوانی کا عرصہ ہے۔
عشق حقیقی :
عشقِ حقیقی نفس کے تزکیہ و طہارت اور قلب کے تصفیہ و طہارت سے پہلے نہیں ہے عشق حقیقی سے پہلے نفس کو پاک کرنا پڑتا ہے قلب کو جاری کرنا پڑتا ہے اس کے بعد کہیں جا کرعشق الٰہی کی بات شروع ہوگی۔
یہاں محبت کی کہانی ختم ہو گئی۔