کیٹیگری: مضامین

یہ کائنات کے وہ راز ہیں جنہیں آج تک انبیاء و مرسلین اورجلیل القدر اولیاء سمیت کسی نے افشاں نے نہیں کئے کیونکہ اُن کے پاس یہ تعلیم ہی نہیں تھی ۔ نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی انسانیت پربے انتہا کرم نوازی ہے کہ اپنی خصوصی دلچسپی اور علوم مہدی کی روشنی میں انسانیت پر یہ راز منکشف فرما رہے ہیں ۔ سرکار گوھر شاہی نےبھی فرما دیا ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے اب چھپانے کے لئے وقت ہی نہیں ہے ، اب تو یہ راز کھلنے ہیں جس کو رد کرنا ہے رد کر دے۔
راز چھپا کر کیا کریں گے ، اب تو دنیا فانی ہے
تھا انتظار جس قیامت کا عنقریب آنی ہے

انسانوں میں سے کسی کو معبود سمجھنا گمراہی ہے:

قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ

قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا
سورۃ الا سراء آیت نمبر 42

جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو معبود بنا رکھا ہے تو وہ لوگ یہ تو بتائیں کہ جن کو انہوں نے معبود بنایا ہوا ہے کیا وہ ہمارے عرش تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں اور ان کو کیا پتاوہ لوگ تو خود ہم تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔
انسانوں میں سے اگر آپ کسی کے بارے میں معبود ہونے کا گمان رکھتے ہیں تو یہ حماقت ہی ہے ۔ اللہ کی ہی مخلوق میں سے کوئی کیسے کسی قابل ہو سکتا ہے ۔ اب یہ جو بات ہے کہ اللہ کی مخلوق سے ہٹ کرکنت کنزاً مخفیاً وہ چھپا ہوا خزانہ جو تھا اور وہاں سے کوئی ذات آئےجس کی حقیقت کسی کو معلوم ہی نہ ہو اور وہ واقعتا الہٰ ہو ۔ جو واقعتا الہٰ ہو اور اس کا بیان کیا جائے اور لوگ اُن آیتوں سے اس کی کاٹ کرنا چاہیں جو انسانوں کے رد میں کہی گئیں ہیں ۔عالم غیب سے آنے والی ہستیوں کا قرآن سے تعلق نہیں ہے وہ آیتیں اُن کی کاٹ میں ہی نہیں ہیں ۔ اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں جیسے اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ

إِنَّمَا اللّهُ إِلَـهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ
سورۃ النساء آیت نمبر 171

اس کی اولاد نہیں ہے اللہ اس سے پاک ہے ۔ یہاں پر الفاظ کا کھیل کھیلا جاتا ہے ۔آپ کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ جس طرح تمھاری اور ہماری اولاد ہوتی ہے شاید اللہ کی بھی اسی طرح اولاد ہوتی ہو گی ،لیکن ایسا تو نہیں ہے ۔
مثال: جسطرح ایک شادی شدہ آدمی کسی اور عورت سے نکاح کر لے تو پہلی عورت سے جو بچے ہیں وہ دوسری عورت ان بچوں کی ماں کہلائے گی اور پھر کوئی یہ کہہ کہے کہ جب اس نے تمھیں جنم ہی نہیں دیا ہے تو یہ تیری ماں کیسے بن گئی ! اب ایسا کہنے والا احمق ہی کہلائے گا۔ اس دنیا میں کچھ رشتے خون کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور کچھ رشتے تعلق کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں ۔اسی طرح اللہ تعالی ٰ کی جو اولاد ہو گی ، انسان کو تو صرف اپنے ہی طریقہ تولید کا پتہ ہے تو وہ اُسی پس ِ منظر میں یہ پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کا بھی کوئی بیٹا ہے ۔ پس منظر میں حوالہ انسان کا ہے اور اللہ کی بابت پوچھا جا رہا ہے تو وہ غلط ہی ہو گا نا۔ اب اللہ کی اولاد والے سلسلے کی جو بات ہے نسل کا چلانا یہی اولاد ہوتی ہے ۔اللہ کی نسل تو چلی ہے ، ابتدا تو اللہ نے ہی کی ہے لیکن اس کا طریقہ مختلف ہے ۔ جب انسانوں کو اللہ تعالی نے بنایا تو ہر انسان کے لئے تو نہیں کہا ، صرف آدم صفی اللہ کو امر کن سے بنایا اور عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کو امر کن سے بنایا ۔ آپ تو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہنا کہ جس طرح انسانوں کے یہاں اولاد ہوتی ہے اس پس منظر میں اللہ کے بارے میں پوچھنا کہ کیا اللہ کا بیٹا ہے؟ تو یہ سراسر غلط ہو گا ۔

دیوی دیوتا کون ہوتے ہیں ؟

اب ہندوؤں میں جو رسمیں ہیں کہ یہ بھگوان ہیں اور یہ دیوتا ہیں ۔ عام مسلمان کو تو بھگوان اور دیوتا میں ہی فرق نہیں معلوم ہے ۔ دیوی دیوتا کون ہوتے ہیں ؟ ایک تو بھگوان ہے جو کہ خدا کی طرف اشارہ ہے ۔ دیوی دیوتا کون ہیں ؟

“اللہ کے وجود سے کوئی جرثومہ نکلا اور وہ روح کی شکل اختیار کر گیا پھر وہ روح جس انسان میں آئی وہ دیوی اور دیوتا کہلائے ”

جسطرح ہمارے جسم میں خون دوڑتا ہے ، جب نس نس میں نور پہنچ جاتا ہے تو یہ جو سرخ خلیے ہیں وہ بھی اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن صرف اللہ اللہ ہی کرتے ہیں اس سے آگے نہیں ۔ اسی طرح اللہ کا جو وجود ہے اس میں خون کی جگہ کچھ اور ہے ۔ ہمارے خون میں سرخ خلیے ہیں اور اللہ کے وجود میں جو مادہ دوڑتا ہے اس کے اندر جرثومے ہیں ۔ یہ سرخ جرثومے کہلاتےہیں اور جو اللہ کے وجود میں ہے وہ خدائی جرثومے کہلاتے ہیں ۔ اگر وہ جرثومے اللہ کے وجود میں ہی اندر دوڑتے رہیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا وہ اس کی ذات کا حصہ کہلائیں گے اور کوئی جرثومہ باہر آ جائے تو اس کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ کی اولاد ہے ۔انسانی جرثومے کو اولاد پیدا کرنے کے لئے کہیں پر 9 مہینے قیام کرنا پڑتا ہے ۔اللہ کا جو جرثومہ ہے اس کو کہیں بھی نہیں جانا وہ تو نکلتے ہی روح کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اب اگروہ روح کسی انسان میں چلی گئی تو وہ روز محشر سے مبرا ہے کیونکہ وہ تو اللہ کے وجود ہی حصہ ہے ۔اب مسلمان حضورﷺ کی آل کا کتنا ادب کرتے ہیں کہ وہ حضورؐ کا نطفہ ہیں اور اس کا ادب کیا ہو گا جس کے اندر روح وہ موجود ہے جو اللہ کے وجود کا جرثومہ ہے !!

قرآن میں بہت سے باتیں اللہ نے فتنے کی وجہ سے رّد کی ہیں :

بہت سے باتیں جو اللہ تعالی نے توریت اور زبور میں کہیں تھیں ، اللہ کو یہ گمان گزرا کہ اگر وہ ان باتوں کا اقرار اہل عرب سے کر لے تو یہ بہت بڑا فتنہ پھیلا دیں گے ۔خود ہی نہ جانے کیا کیا بن کر بیٹھ جائیں گے ۔لہذا وہ باتیں جو ان کے پلے نہیں پڑ سکتی تھیں اُن باتوں کی اللہ نےسختی کے ساتھ قرآن میں نفی کر دی ۔ جسطرح یہ کہا کہإِنَّمَا اللّهُ إِلَـهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں اللہ تو ان چیزوں سے پاک ہے ۔ کیا یہ ناپاکی کا کام تھا اور اگر ناپاکی کا کام تھا تو یہ ہم کو کیوں دے دیا ۔ ہم کو یہ ناپاکی دینے والا کون ہے ؟ جسطرح انسانوں کا تعارف قرآن شریف میں آیا ہے کہ“ اور ہم نے انسان کو گندے قطرے کی بوند سے بنایا ہے ”۔یہاں کسی کی نظر اس بات پر نہیں جار ہی ہے کہ بنانے والے نے اچھے قطرے سے کیوں نہیں بنایا ؟ ہم غلیظ قطرے سے بنے ہیں اس میں ہمارا کتنا قصور ہے !! قرآن میں ان سب باتوں کی تفصیلات نہیں بتائی جاتیں ۔قرآن میں ایک بات کو اللہ نے رد کیا ہے اور اس طرح رد کیا ہے جو اس کا غلط پہلو تھا ۔ اگر وہ کام صحیح طریقے سے کیا جاتا تو صحیح ہوتا یہ نہیں بتایا گیا قرآن میں ۔
اسی طرح ایک ضم ہوتا ہے جو عام ہے ۔حالانکہ یہ خصوصی تعلیم ہے لیکن خواص الخاص کے لئے ضم کی تعلیم عام تعلیم ہے ۔ضم سے بھی بڑی چیز یہ ہے کہ رب الارباب کے وجود کا کوئی جرثومہ باہر نکل آیا ، روح کی شکل اختیار کر گیا اور وہ تمھاری روح کی جگہ پر قیام پذیر ہو گیا ۔ اب اس جرثومے والی روح کی موجودگی کی وجہ سے اب وہ انسان نہیں رہا۔ جیسے بلھے شاہ نے کہا
نہ میں مومن وچ مسیتاں، نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں، نہ میں موسیٰ نہ فرعون۔
بلھا کی جانا میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا، نہ میں “آدم حوؔا” جایا۔
نہ میں اپنا نام دھرایا، نہ وچ بیٹھن نہ وچ بھون ۔
بلھا کی جانا میں کون

اب ان کے اندر وہی جرثومہ بول رہا تھا جبھی انہوں نے ایسا کہا ۔ اب یہ جو رب الارباب کے جرثومے والی بات ہے اس سے امام مہدی کا بلا واسطہ کا تعلق ہے بیچ میں کوئی وسیلہ یا واسطہ حائل نہیں ہے ۔ ایسے لوگوں کے لئے سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ“ ان کی تعداد گیارہ یا بارہ ہے”۔جب آدمی کے پاس روحانی تعلیم نہ رہے تو وہ انجمن سرفروشان اسلام ہو یا مہدی فاؤنڈیشن ، رہبر و رہنما کو دیکھ کر آدمی کو خیال آتا ہے کہ یہ تو میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں ۔ جب اندر نور نہ رہے ۔ لیکن وہ جن سے بلا واسطہ کا تعلق ہے اس میں روحانیت نظر نہیں آئے گی کیونکہ جن کا روحانیت کے زریعے تعلق جڑا ہے وہ تو روحانیت کا نور پھیلا ہوا ہو گا لیکن جن کا بلا واسطے کا تعلق ہے وہ روحانیت کے بغیر ہے ۔ اس میں کوئی روحانیت محسوس ہی نہیں ہو گی لیکن بغیر روحانیت کے اگر وہ تیرا ہاتھ پکڑ لیں تو تُو پھر “فنا فی الریاض” ہے۔ اگر کوئی بلا واسطے کا تعلق والا کوئی مل گیا تو پھر یہ نہیں ہو گا کہ یہ فنا فی الشیخ ہے یا شیخ ہے ، بلکہ ایک ہی بات ہے ۔ اسے شیخ بھی کہہ دیا تو روا ہے ۔

رب الارباب کا طواف :

ایک دفعہ ریاض الجنہ جانا ہوا اور وہاں یہ دیکھا کہ کچھ لوگ سرکار کے اردگرد کھڑے ہوئے تھے وہاں سات سات قطاریں تھیں جو کہ ٹوٹل اننچاس تھیں ۔اب سات سات قطار والےطواف کے لئے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔پھر اسی اثنا ء پہلی قطا ر کو حکم ہوا کہ وہ طواف کریں ۔ پھر وہ جو پہلی قطار میں لوگ کھڑے تھے وہ سکڑنا شروع ہو گئے اور چھوٹے ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ سرکار کے قدموں میں بالکل غائب ہو گئے ۔ جب وہ سرکار کے قدموں میں غائب ہو گئے تو میں دیکھنے لگا وہ گئے کہاں پھر سرکار نے اپنی ساق (پنڈلی ) دکھائی اور وہ بالکل ایسا ہی منظر تھا جس کا ذکر اللہ نے قرآن میں کیا ہے کہ روز محشر ساق دکھا ئی جائے گی ۔ اب جب یہ پنڈلی دکھائی تو میں نے دیکھا کہ سرکار کے وجود میں وہ پہلی قطار والے اندر نسوں میں دوڑ رہے ہیں ۔ نیچے سے گئے اور اوپر تک ہو کر آئے ۔ وہ منظر دیکھ کر میں عشق کا مطلب بھول گیا کہ جو عشق میں ہوتے ہیں وہ منافق ہوتے ہیں ۔ پھر لطیفہ انا کے اوپر اللہ کا عکس آتا ہے اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ جو تجھے دیکھ لے وہ مجھے دیکھ لے ، ریاض الجنہ میں وہ منظر دیکھ کر وہ تعلیم حقیر معلوم ہونے لگی کہ یہ تو بہت ہی بوسیدہ نظام ہے کہ دل میں تصویر آکر جم گئی یہ کیا بات ہوئی ۔ وہ جو بندے تھے وہ چھوٹے چھوٹے جرثومے کی شکل اختیار کر گئے کبھی سرکار کے ناخن مبارک میں پہنچیں تو وہاں پر رقص کریں ، کبھی لب ہائے مبارک کی طرف جائیں تو وہاں رقص کر رہے ہیں اور سرکار کے لب ہائے مقدسہ میں گردش محسوس ہونے لگے ۔کبھی وہ جرثومے دہن مبارک میں رقص کر رہے ہیں ۔اب آپ بتائیں قرب کی تعریف کیا ہو گی !قربت کا مطلب یہ ہے کہ تو میری ذات سے باہر ہے اور میرے وجود سے نسبتاً قریب ہے ۔ لیکن ریاض الجنہ میں باہر نہیں بلکہ اندر کی بات ہو رہی ہے جہاں قرب اور دوری ہوتی ہی نہیں ہے ۔ قرب کا مطلب ہی یہ ہے کہ تُو اور ہے اوروہ اور ہے ۔ اسی لئے ہم مقربین کو خاص روحانی نہیں سمجھتے ، نہ اللہ کے عاشقوں میں ہماری نظر میں کوئی مقام اور مرتبے والا ہے ۔ اس کے پاس کیا ہے دیدار الہی کر لیا اللہ کا نقش اس کے دل پر آ گیا ، دل سے آگے کیوں نہیں جا رہا ۔پھر وہ جرثومے آنکھ مبارک میں چلے گئےہرجگہ گھوم گھام کر پھر وہ باہر نکلے تو پھر آہستہ آہستہ ویسی ہی صورت اختیار کر لی جیسے پہلے تھے یعنی بڑے ہو گئے۔ اور پھر آخری قطار میں آ کر کھڑے ہو گئے ۔ اور اُن کا حسن دوبالا ہو گیا ، مستی میں شرابور ۔ پھر دوسری قطا ر کی باری آئی ان کے ساتھ بھی یہ ماجرا ہوا ۔ اور یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔
اگر تم کو کوئی ایسا مل گیا اور اس کو جا کر کہا کہ مجھے گوھر چاہیے ، اب پھر وہ کیا کرے گا ، تم کو یا گوھر کی تسبیح تو نہیں کروائے گااور نہ ہی دین الہی پڑھوائے گا۔وہ کچھ بھی نہیں کہے گا جس کا یقین پختہ ہو گا ایک دن خود ہی اس کو دعائیں دینا شروع کر دے گا ۔ پتہ نہیں چلنے دے گا کسی کو کہ اس نے کس کو کیا دے دیا ۔ہاں اگر وہ تم سے یہ کہہ دے کہ بس خاموشی سے بیٹھے رہو تو اس کا مطلب ہے تم کو دے چکا ہے جو دینا ہے کیونکہ ان کے پاس محرومی نہیں ہے ۔ اگر وہ اپنے ایک جرثومے کو حکم دیں کہ جا اس کے اندر گھس اس کا اندر بالکل صاف کر کے آ جا ۔اگر وہ جرثومہ اندر سے ہو کر آ جائے تو کونسی غلاظت رہ جائے گی ۔ اب آپ خود سمجھ لیں وہ جرثومہ کہاں سے ہو کر آیا ہوا ہے وہ تو گوھر کا رنگ چڑھا دے گا ۔یہ کام ان محافل میں نہیں ہوتا یہاں تو صرف تشہیر ہے اصل کام تو اکیلے میں بیٹھ کر ہوتا ہے ۔

“سب سے بڑی غلاظت یہ ہے کہ تو سرکار گوھر شاہی کے بارے میں کچھ نہیں جانے ، اس سے بڑی کوئی سیاہی نہیں ۔اور جاننا یہ نہیں ہے کہ تجھے علم نہیں ہے ، سرکار گوھر شاہی کو جاننا تب نصیب ہو گا جب گوھر شاہی کا رنگ تیری روحوں پر چڑھ جائے گااس سے تو گوھر کو جاننے لگے گا۔ سرکار کی ویڈیو دیکھنا ، انکے گھر میں رہنا ان چیزوں سے سرکار گوھر شاہی کو نہیں جان سکتا ۔ سرکار گوھر شاہی کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی کوئی مخلوق تیری اندر جائے اور وہ تیری روحوں کو اپنی رنگ میں رنگ دے پھر وہ تیری روحیں کہیں گی ہم سرکار گوھر شاہی کو جانتے ہیں ”

اصل چیز وہ تمھارے اندر ہے ، اصل رنگ اُن روحوں کو چڑھانا ہے ۔ ابھی تم کو پتا نہیں چلتا ، کچھ نظر نہیں آتا اُسکی وجہ یہ ہے کہ کھانا بہت زیادہ ہے ، گناہ بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اندر کی روحوں کے لئے جسم لاغر ہونا چاہیے، جتنا زیادہ جسم لاغر ہوتا ہے اتنی زیادہ آسانی سے روح کی کیفیات جسم پر وارد ہوتی ہیں ۔ اگر جسم موٹا تازہ ہو ، جسم میں گوشت اور خون زیادہ ہو ، نار زیادہ ہو تو روحانی کیفیات جسم پروارد نہیں ہو پاتی ہیں ۔ جیسے جیسے غلاظت اندر سے جائے گی پھر روح کی جو کیفیات ہیں ان کی آگاہی جسم کو بھی ہونا شروع ہو جائے گی ۔اب ریاض الجنہ میں یہ چیز ہم نے انوکھی دیکھی ۔ اب ہمارا خیال تھا کہ ریاض الجنہ میں ہم نے جو یہ طواف دیکھا ہے یہ تو بہت خاص ہے ۔ اس کے بعد ایک دن کیا ہوا اور آگے چلے گئے پھر معلوم ہوا کہ یہ طواف کرنے والے بہت ہی نکمے لوگ ہیں کیونکہ یہ وجود کے اندر گئے اور باہر نکل آئے ۔ پھر کچھ ایسے بھی تھے جو سرکار کے چہرہ مبارک ہے اس میں کوئی رخسار کا حصہ ہے ، کوئی پلکوں کا حصہ ہے اور کوئی لبوں کا حصہ ہے ۔یہاں پر جو جرثومے تھے وہ زمین پر آ گئے تھے ، کوئی لبوں سے نکلا ہوا جرثومہ زمین پر آ گیا تھا ۔ کوئی آنکھوں سے نکلا ہوا جرثومہ زمین پر آ گیا تھا ۔ایسے ایسے جرثومے بھی زمین پر آئے ہوئے تھے تو پھر ان لوگوں کے لئے یہ تھا کہ تسلی سے جب اُن کا سارا کام مکمل ہو گیا تو پھر ان کو جہاں سے نکلے تھے وہاں جا کر ان کو دائمی طور پر قیام پذیر ہونا تھا۔ اب اگر کوئی جرثومہ لب ہائے مقدسہ سے نکلا تھا تو اس نے وہی واپس جانا ہے پھر وہ وہیں رہے گا ۔ اور اگر زیادہ سے زیادہ ہجرت ہو گی تو یہ ہو گی کہ جیسے پلکوں کے اندر جو جرثومے ہیں انہوں نے لبوں کے جرثوموں کو درخواست کیا کہ تھوڑی دیر کے لئے میں وہاں چلا جاتا ہوں اور تم یہاں آ جاؤ ، تو بخوشی یہ تبادلہ ہو جائے گا۔ ہم نے اپنی شاعری میں بھی یہ بات لکھی ہے کہ
آنکھ ناظر سے نظر بن جائے ۔۔۔۔ میرا محبوب جب نظر آئے
جب تمھیں دیکھنے کی حاجت ہو ۔۔۔۔ دل میں چہرہ تیرا نظر آئے

یہ وہی بات ہے ورنہ تم اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔جب تم خود ان کے اندر ہو تو دیکھنے کی حاجت تو نہیں ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ ان کے وجود سے نکال کر جب ان کو باہر کہیں بھیجا جائے گا اس وقت کے لئے یہ بات ہے کہ جب میں آپ کے وجود سے باہر ہوں تو آپ میرے اندر ہوں ۔ جب تک اندر ہیں تو دیکھنے کی حاجت نہیں ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے 20 جولائی 2017 کی یوٹیوب پر لائیو گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس