کیٹیگری: مضامین

اصل دین کی تشریح کہاں سےملتی ہے؟

عمومی طورپرعالمِ اسلام میں اورتقریباً تمام ہی مذاہب میں یہی تصور پایا جاتا ہےکہ جومندر، مسجد، گردوارے اورچرچ جارہا ہے، نماز، روزہ، حج اورزکوٰة کررہا ہے وہ نیک انسان ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ تمام جواعمال ہیں یہ عبادت میں آتے ہیں اورجوعبادت ہے وہ دل صاف کرنےکا ذریعہ ہے۔ اگرعبادت کےذریعےدل صاف نہ ہوتوعبادت میں کھوٹ ہے۔ ایک جوعام روایتی قسم کے علماء ہیں اور زیادہ ترروایتی قسم کے ہی علماء ہیں اوراُن کی تبلیغ کا اپناعمل یہ ہےکہ قرآن پڑھو، نمازیں پڑھو، تراویح پڑھواورروزہ رکھو، یہ تمام چیزیں کروتو یہی اسلام ہےاور یہی باعثِ نجات ہوگا لیکن صوفیاءکرام کے ہاں دین کا معاملہ کچھ زیادہ گہرائی میں لیا جاتا ہے۔ اصل دین کی جو تشریح ہےوہ صوفیائےاکرام کے ہاں ہی نظرآتی ہے۔

موجودہ دور میں اصل اسلام مفقود ہے:

اب ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ اچھےاعمال کرنے والوں کی بھی بہتات ہے جیسا کہ مسجدیں، مندراورگردوارے بھرے ہوئےہیں اورروزہ، نماز، حج اورزکوٰة سب کچھ ہورہا ہےلیکن اُس کے باوجود بھی جوہمارے مذہبی لوگ ہیں جوباقاعدگی سے نماز پڑھتےہیں، باقاعدگی سےروزہ رکھتے ہیں، پھروہ انتہائی بھیانک اورانتہائی قبیح قسم کے گناہوں میں ملوث کیوں رہتے ہیں! ایک توعام آدمی ہے جوپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہےاورکبھی کسی کام، کاروباراورنوکری کی وجہ سے دیرسےبھی نمازہوجاتی ہوگی لیکن وہ مولوی اورعالمِ دین کہ جومسجد کےحجرے میں رہتا ہےاوراُس کی تونماز بھی قضا نہیں ہوتی، وہ عالمِ دین جومنبرِرسول پربیٹھ کر باقی تمام مسلمانوں کوبھی دین کی طرف بلاتا ہے، وہ عالمِ دین جوقرآن کونہ صرف سمجھتا ہےبلکہ لوگوں کوبھی سمجھاتا ہےاورپھروہی عالمِ دین مسجد میں چھوٹےبچوں کےساتھ اغلام بازی میں بھی پکڑا جاتا ہے، وہی عالمِ دین منبرِرسول پربیٹھ کرایک دوسرے کے فرقے کےخلاف نفرتیں بھی اُگلتا ہےاوروہی عالمِ دین مسجد کوسیاسی اکھاڑا بھی بنا دیتا ہے۔ پھرسوال یہ پیداہوتا ہےکہ ایک عالمِ دین سے اچھےاعمال کس کےہونگے؟ لیکن اُن تمام اعمال کےباوجود بھی اعمال ہی نیک رہے لیکن مولوی نیک نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ انہوں نے اسلام کواُس طریقے سے خود پرلاگو نہیں کیا کہ جو طریقہ اللہ اوراُس کےرسول نے بیان کیا ہے۔ جو طریقہ اللہ اوراُس کےرسول نے بیان کیا ہےاُس طریقہ کےمطابق ہدایت اللہ کےہاتھ میں ہےاوراللہ کے رسول کے وسیلےسے اللہ کی خوشنودی اوررضا ملتی ہے. حدیث شریف ہے کہ

اقرار باللسان وتصدیق با لقلب
ترجمہ: زبان اقرارکرے اوردل اس کی تصدیق کرے۔

نبی کریمؐ اور اولیائےکرام کےذریعے سے جب اللہ کی ہدایت کا ازن ملتا ہےتو پھر انسان اقرار باللسان سے لے کر تصدیق با لقلب کےدرجے پرآجاتا ہے۔ ایک شعر ہےکہ
جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تم نے خرید کرمجھے انمول کردیا

جواسلام کی اصل ہے آج مولویوں نےعالمِ اسلام کواُس کوبہت دورکردیا ہے۔ آپ مولویوں کےپاس یہ سوال لےکرجائیں اورقرآن سے سمجھیں توقرآن ایک انوکھی بات بتائے گا جومولوی آپ کونہیں بتاتے ہیں۔ اب جیسا کہ جہاد کا ذکر ہوتا ہےتوکہتے ہیں کہ جہاد کرو، بم والی جیکٹ پہن لواورسیدھے جنت میں چلےجاوٴ۔ یہ جنت کاراستہ نہیں ہےبلکہ یہ جہنم کاراستہ ہے۔ سیدنا امام مہدی سرکارگوھرشاہی کی کرم نوازی ہےکہ سرکارگوھرشاہی نےہمیں قرآن کا اصل مغزعطا فرمایا ہے یعنی روح قرآن اورمعنیِ قرآن۔ ہماری جوگفتگو ہے وہ بنیادی طور پر قرآن سے اخذ شدہ ہوتی ہے یعنی جو ہماری گفتگو کا زیادہ مواد ہے وہ قرآن سے آتا ہے لیکن سارا کا سارا اس لئے نہیں آتا کیونکہ ساری چیزیں قرآن میں نہیں ہیں۔ وہی چیز قرآن سے آئے گی جوقرآن میں ہوگی کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جوقرآن میں نہیں ہیں۔ جوہماری مسلمان قوم ہے وہ حقیقت پسندی سے نکل کے ایک دیومالائی تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں کہ آپ نےکیسے کہہ دیا کہ بہت سارا علم قرآن میں نہیں ہے! آپ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیجئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
سورة الاٴنبیاء آیت نمبر7
ترجمہ: اُس علم کے بارے میں اہلِ ذکر سے سوال کرلینا جوتمہیں پتہ نہیں ہے۔

اگر وہ علم قرآن میں ہوتا تواللہ تعالی تم کو اہلِ ذکرکی طرف کیوں بھیجتا۔ یہ قرآن نبی پاکؐ پراُتررہا ہے تواُس وقت جو صحابہ اکرام تھے اُن کوکہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی تواللہ تعالی کویہ فرمانے کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے تھی کہ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ توپھراللہ تعالی نے اس لئے فرمایا کیونکہ وحی الہی میں جوتعلیم آرہی ہے وہ ساری کی ساری تعلیم وحی الہی کے ظاہری حصے میں نہیں ہے۔ وحی کا کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو حضورؐ کے قلب میں خواص کیلئے محفوظ ہے اور وہ علم سینہ بہ سینہ اہلِ ذکر کو عطا ہوتا ہے۔ کسی مرحلے پر قرآن بھی پڑھ لیں اور دل کی پیاس نہ بجھتی ہو، نیک اعمال کرنے سے بھی بندہ نیک نہ بنتا ہو، ذہن تذبذب کا شکارہو، عالمِ اضطراب میں مبتلا ہو کہ آخر نیک اعمال سے بھی نیک نہیں بن سکتا توپھر نیک کیسے بنوں گا توپھر فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ کہ اہلِ ذکر سے سوال کرلینا کہ وہ کونسا علم ہے کہ جس سے بندہ حقیقتاً نیک ہوجائے۔ جو ہماری زیادہ تر گفتگو ہے وہ قرآن مجید سے آتی ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اسلام کا حصول کہاں رکھا ہے؟

اگر آپ یہ سوال پوچھیں کہ آپ دینِ اسلام کو اپنا چاہتے ہیں اور ایسے اپنانا چاہتے ہیں کہ جیسے داتا علی ہجویری نے اپنایا تھا اور اُسی اسلام سے علی ہجویری داتا گنج بخش بن گئے تھے۔ ہمارا قرآن اور پاک پتن میں بابا فرید نے جو قرآن پڑھا تھا وہ ایک ہی ہے، وہی قرآن کو معین الدین چشتیؒ، علامہ اقبالؒ، لال شہباز قلندرؒ نےبھی پڑھا لیکن اُسی قرآن کوپڑھ کرکوئی داتا اور خواجہ ہوگئے اور اِسی قرآن کو پڑھ کرہم کچھ نہیں ہوئے توکوئی تو راز ہے جس کی پردہ داری ہے یعنی وہی قرآن، وہی خدا اور وہی پیغمبرلیکن نتیجہ مختلف ہے۔ آج کے دورمیں کوئی قرآن پڑھ کر سُنی، شیعہ، وہابی، قادیانی اور مرزئی بن جاتا ہے لیکن آج کے دور میں قرآن پڑھ کرکوئی موٴمن یا ولی نہیں بن رہا! یہ قرآن کوپڑھنے اورسمجھنے کا طریقہ جُدا ہے کیونکہ دیکھنا ہمیں اپنی ہی آنکھوں سے ہےلیکن اگر آنکھیں کمزور ہوں توعینک لگانی پڑتی ہے، اسی طرح دینا اللہ نے ہی ہے لیکن اگر ہماری آواز اللہ تک نہ پہنچے تو داتا اورخواجہ ڈھونڈنا پڑتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہی نہیں ہیں کہ رب کہاں ہے! مسجد میں تو رب نہیں ہے کیونکہ آج کے دور کی مسجد حرام کے پیسوں سے مٹی گارے سے بنی اگرآپ حرام کا لقمہ کھا کھا کربڑے ہوئے ہوں اور اُس مسجد میں جاکرہدایت ڈھونڈیں جوحرام کی کمائی والوں نے دے کربنائی ہے توآپ میں اوراُس مسجد میں کیا فرق ہوا، اس لئے مسجد میں ہدایت نہیں ملے گی۔ قرآن مجید نے جواسلام کا طریقہ بتایا ہے وہ یہ ہےکہ

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ
سورة الزمرآیت نمبر22
ترجمہ: اگرتم اسلام پرعمل پیرا ہونا چاہتےہوتواسمِ اللہ سے شرح صدرکرلو۔

اس آیت کی مزید تشریح بیان کرتےہیں کہ “صدر” سینے کوکہتے ہیں اورجو”شرح” ہے اُس کا مطلب ہے کُھلنا توہمارا سینہ کُھلے یعنی اس کا مطلب ہےکہ سینہ بند ہے اُس پر قفل لگےہوئے ہیں۔ ہمارے سینےمیں جوچیزیں موجود ہیں توقیامت میں بھی انہی کے بارے میں سوال ہوگا۔ پہلے حکم دیا جارہا ہے کہ اسلام پرعمل پیرا ہونا ہے توشرح صدرکرلو یعنی اپنے سینے کوکھول لو۔ اب ظاہر ہےکہ یہ ظاہری بات تونہیں ہےکہ چاقو لےکرآپ سینہ کھول لیں جیسے وہابی کہتےہیں کہ صرف ظاہری علم ہے باطنی علم نہیں ہے لیکن اگرباطنی علم نہیں ہے توسینے میں چاقومارکرسینہ کھولوکیونکہ قرآن میں شرح صدر کا حکم آیا ہے۔ اسلام کا حصّول صدرمیں ہے۔ اب قرآن مجید میں یومِ محشرکےبارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ
سورة العادیات آیت نمبر10
ترجمہ: وہ کچھ حاصل کیا جائے گاجو سینوں میں ہے۔

جوکچھ تمہارے سینوں میں تم نے کمائی کرکےرکھی ہے توحکم ہوگا کہ اُس کوسامنے لےکرآوٴاور پھر فیصلہ کریں گے کہ یہ کون ہے۔ اللہ کی نظرمیں ہم کوشرح صدرکرنی تھی توپھراللہ یہ دیکھیں گے کہ سینے کی کتنی روحوں کواِس نےبیدارکیا ہےاورنورکہاں کہاں پہنچاہے۔

شرح صدر کیا ہے اور اسکا حصول کیسے ہو؟

ہمارے سینے میں پانچ روحیں ہیں لطیفہ قلب، لطیفہ سری، لطیفہ خفی، لطیفہ روح اور لطیفہ اخفیٰ۔ شرح صدرکا مطلب ہواکہ ان پانچوں کا جودروازہ ہے وہ قلب ہے اوراگر قلب بیدار ہوگیا تو باقی ارواح خود بخود بیدار ہوجائیں گی۔ اس قلب کو بیدارکرنا شرح صدر ہے کیونکہ تصوف میں اہمیت قلب کوہے۔ شرح صدرکیسے ہوتی ہے یہ مولوی کونہیں پتہ، اسی لئے بابا بلھےشاہ نےفرمایا ہےکہ
ملاں تے مشالچی دوہاں اکو چت
لوکاں کردے چاننا آپ ہنیرے وچ

اس کا مطلب یہ ہےکہ جو ملا اور مشالچی ہوتے ہیں وہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو روشنی کردیتے ہیں اورخود اندھیرے میں ہوتے ہیں۔ لوگ اُن کی تقریریں سُن سُن کرجنگلوں میں نکل جاتے ہیں اور اُن کی شرح صدرہوگئی لیکن ملا ایسے ہی بیٹھا ہوتا ہے۔ شرح صدر مرشد کی کامل نظر سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فی نفسہہِ یہ نہیں فرمایا ہےکہ فلاں عمل ہدایت ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ آپ نماز پڑھیں توآپ ہدایت پرہیں توجواب ہے نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے ہدایت کیلئے کسی عمل کا نہیں فرمایا۔ نماز پڑھنا، ذکرفکرکرنا اور روزہ رکھنا عبادات ہیں لیکن ہدایت کچھ اورچیزہے کیونکہ ہدایت سمت میں ہےکہ آپ نے جانا کہاں پرہے، کس کے پاس جانا ہےاور کیا کرنا ہے۔ اب جیسے ہم سورة الفاتحہ پڑھتےہیں تواُس کے اندر باربار یہ بات دہراتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا جو قائم ہونےوالا سیدھا راستہ ہے۔ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ اُن لوگوں کا راستہ جن کوتم نے اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ یہ اللہ تعالی نے فرمادیا ہےکہ جونعمت یافتہ لوگ ہیں اُن کا راستہ اپنا لو۔ ہدایت فی نفسہِ کیا ہے اس کا ذکر نہیں ہے۔ جو بھی نعمت یافتہ اللہ کا دوست یا ولی ہے اُس کے راستے کواپنانا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ فلاں عمل یہ راستہ ہے بلکہ اللہ نے انفرادیت کے اوپر اس بات کو رکھ دیا ہے کہ جس کے اوپربھی تمہارا انعام ہوگیا۔ انعام یہ ہےکہ جب حضورؐ شبِ معراج پرگئے اوراللہ کا دیدار ہوا تو اس سے بڑا کوئی انعام ہوسکتا ہے! اس لئے اللہ کا دیدارسب سے بڑا انعام ہے۔ جن لوگوں کو دیدارِ الہی کی نعمت مل گئی یہ اُن لوگوں کا راستہ ہے۔ اب کسی نے نچایا، کسی نے دھمال کرایا اور کسی نے اللہ ھو کی ضربیں لگوائیں۔ جیسے بابا بلھے شاہ نے فرمایا ہے کہ
اتھے نچنا وی عبادت بن جاندا
پر نچنے دا جے چج ھوے

ایک توایسے ہی ناچ رہا ہے کیونکہ اُن کوپتہ نہیں ہےکہ وہ ناچنا کیسا ہے جس سے رب راضی ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی توشکلوں اورعملوں کونہیں دیکھتا۔ اس لئے اب تم نماز پڑھویا کعبے کا طواف کرویا تم ناچو، تینوں میں ایک چیزبھی نہیں دیکھنی بلکہ اللہ دلوں کودیکھتا ہے۔ بابا بلھے شاہ بہت ناچے اورناچنے سےاُن کے دل کی دھڑکنیں اُبھری اور اُس دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اُنہوں نے اللہ ھو ملایا اور جب اللہ ھو مل گیا تورب راضی ہے۔ بابا بلھے شاہ نے نچایا کہ چلو ناچو لیکن دل کی دھڑکنوں کو اُبھارنے کیلئے اور بھی کام کرواسکتے تھے لیکن اُن کا یہ تھا کہ اپنے مریدوں کو کچھ ایسا بےتُکا کام بتاوٴتاکہ یہ پتہ چلے کہ مجھ پر یقین ہے یا نہیں۔ یہ یقین کی منزل کیلئے تھا۔ اللہ کوتو بغیردیکھے ایمان لےآئے لیکن مرشد کوبغیر دیکھے کیسے ایمان لاوٴگے کیونکہ وہ توسامنے بیٹھا ہے۔ پھراُس کی کوئی ایسی حکمت ہوگی جس کیلئے ہم کہیں گےکہ حق ہی ہوگا اس لئے کرلو۔ وہ ایمان بالغیب ہوگیا۔ اسی لئے بابا بلھے شاہ نے فرمایا ہےکہ
نچ نچ کے یار منالے
پانوے کنجری بننا پے جاوے

مرید ناچتے، دل کی دھڑکنیں اُبھرتی اور پھر مرشد کہتے کہ اب ناچ کوچھوڑو اوردھڑکنوں کے ساتھ اللہ ھو ملاوٴ۔ کوئی ولی ایسا تھا کہ جواپنے مریدوں کو کہتا تھا کہ چلو کبڈی کھیلو۔ لوگ کہتے تھےکہ ہم توفیض لینے کیلئےآئے ہیں لیکن وہ کہتے کہ ہمارا فیض کبڈی میں ہیں۔ جب لوگ کبڈی کھیلتےتو دل کی دھڑکنیں اُبھرتیں اورپھرکہتےکہ کبڈی کو چھوڑو، اب دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اللہ ھو اللہ ھو ملاوٴ۔ لال شہباز قلندر لوگوں کو کہتے کہ میرے ساتھ ناچو۔ وہ موسیقی کےساتھ دھمال کرتےجس سے دل کی دھڑکنیں اُبھرتی تو پھروہ اُن کےساتھ اللہ ھواللہ ھوملاتے۔ ہرزمانے میں لوگوں کی ثقافت، سوچ اورسمجھ دیکھتے ہوئے ولیوں نے مختلف طریقے استعمال کیے۔ اب جیسے مولانا روم تھے یہ کہتے تھےکہ رقصِ درویش کرواوریہ بھی نچواتےکہ ناچ ناچ کریارکومناوٴ۔ پھرسیدنا امام مہدی گوھرشاہی تشریف فرما ہوئے اورآپ نےفرمایا کہ بابا بلھےشاہ ناچا تھا اورپھردھڑکنیں ملائیں تھی تووہ بھی صحیح تھا اورجنہوں نے کبڈی کھلا کردھڑکنوں کواُبھارا وہ بھی صحیح تھے، جنہوں نے دھمال کر کے دھڑکنوں کو اُبھارا اورپھر اللہ اللہ میں ملایا تووہ بھی صحیح تھے لیکن ہم تم کوکوئی اورمعتبر طریقہ بتاتے ہیں۔ معتبرطریقہ کیوں بتائیں بلکہ کوئی ایسےہی طریقہ بتا دیں لیکن نہیں کیونکہ یہ ذات اورہے۔ وہ صرف ناچوانے والوں کیلئےآئے تھے لیکن یہ ذات سب کیلئےآئی ہے، اس لئے طریقہ بھی ایسا ہی ہے جوسب کیلئے قابلِ قبول ہو۔ اگرکہہ دیتےکہ چلوتم بھی ناچوتوجو لوگ ناچنےکو بُرا سمجھتے ہیں توپھراُن کی منزل رُک جاتی اوروہ فیض کیلئے نہیں آتے۔ اس لئےطریقہ یہ رکھا جوسب کیلئے قابلِ قبول ہو کیونکہ آپ سب کیلئے تشریف لائے ہیں۔ اگر تم ناچنا چاہوتو ناچ لو لیکن پھرآپ نے فرمایا کہ ایک اور بہترین طریقہ ہے جیسے گھنٹہ آدھا گھنٹہ ضربیں لگائیں توناچنے والی کیفیت ہوجائے گی۔ جب دھڑکنیں اُبھریں توایک کےساتھ “اللہ” اوردوسری کے ساتھ “ھو” ملائیں۔ پھر جب دل کی دھڑکنوں کےساتھ اللہ اللہ ملے گی توپھراُن دھڑکنوں میں جو اللہ کےنام کا رگڑا لگےگا تو اُس سے نور بنےگا۔ پھراس دل کے اوپر ایک مخلوق بیٹھی ہوئی ہے جس کوبیدارکرنے کیلئے شرح صدرکا حکم آیا۔ دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اللہ ھوملانا آپ کا کام ہے اوراُس مخلوق کو بیدار کرنا مرشد کی نظر کا کام ہے۔ جسطرح آپ مجھے کہیں کہ اپنی تصویرای میل سے بھیجو تومیں فون سے فائل بھیج دوں گا اور پھر آپ اپنا فون دیکھیں گے اورکہیں گےکہ مل گئی تو یقین آگیا۔ اسی طرح آپ کہیں کہ مجھے ذاکرِ قلبی بننا ہے موٴمن بننا ہے تو ہم کہیں گے کہ نظروں سے اسمِ ذات دل میں اُتار دیتے ہیں۔ یہ کب اُتارتے ہیں نظر نہیں آتا جیسے ای میل میں تصویر گئی ہے وہ نظر نہیں آئی تو اسی طرح اسمِ ذات بھی روحانی میل کے ذریعے ایک دل سے دوسرے دل میں چلی گئی۔ اسی چیز کو سلطان صاحب نےکہا تھا کہ
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ھر جائی ہو

اسی کیلئے بلھے شاہ نے فرمایا کہ
نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبا کھڑکایا
بلھے نوں ملیا مرشد جو اینویں جا بخشایا

یہ بخشوانے والی چیزایسے ہی ہوتی ہے کوئی کرنہیں سکتا۔ یہ مرشد کی نظرسے ہی ہوتی ہے ورنہ نہیں ہوتی۔ اگریہ چیزبغیر مرشد کے مل جاتی توتہترفرقے کیوں بنتے! جب تمہارے دل میں اللہ کا نور داخل ہواوراُٹھتے، بیٹھتےاور کروٹوں کے بل بھی تمہارا دل اللہ اللہ کرنے لگ جائے توتم غورکروکہ تم سورہے ہو اور دل اللہ اللہ کررہا ہے۔ تم کام کاج میں مصروف ہواور تمہارا دل یار میں مصروف ہے۔ مولانا روم نے کہا کہ
دست بکار دل بیار۔۔۔۔۔ ہتھ کار ول دل یار ول
یہ کیسی صورتحال ہے کہ تمہارا دھیان کہیں اورہے، تمہارا جسم کسی کام میں مصروف ہے لیکن تمہارا دل اُس وقت بھی اللہ اللہ میں لگا ہوا ہے۔

انسان نیک کیسے بنتا ہے؟

جب یہ دل میں اللہ کا نور اُترجائے گا تو پھرجونفس (شیطان جن) اندر بیٹھا ہوا ہے جو ہرانسان کے ساتھ ہوتا ہے جس کا حکم قرآن مجید میں آیا ہے کہ اس نفس کو پاک کرو اور اگر تم نے اس نفس کو پاک کرلیا تو رب کے راستے میں کامیاب ہوجاوٴ گے۔ پھر نفس کو نور کے ذریعے پاک کیا جاتا ہے۔ بہت سا نور دل سے نفس کی طرف جاتا ہے اور بہت سا نورمرشد کی نظروں سے تمہارے نفس کی طرف جاتا ہے۔ جب تمہارا نفس کلمہ پڑھ لیتا ہے کہ لاالہ الا للہ محمد الرسول اللہ تو اب تم مسلمان ہوگئے ہو۔ اس سے پہلے تم زبانی مسلمان تھے۔ تم سچے مسلمان تب بنو گے جب تمہارا نفس کلمہ پڑھ لے گا اور تمہارا نفس بھی رب کو مان لے گا۔ اگر تمہارا جسم نماز، حج اور زکوٰة میں لگا رہے لیکن تمہارا نفس شیطانیت میں لگا رہے تو پھر ایسے لوگوں پرتو قرآن لعنت بھیجتا ہے۔ حضورپاکؐ کو حکم ہواکہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ جس نے اپنے نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ نفس کہتا ہےکہ تم نماز پڑھوتو تم نماز پڑھتے ہو، نفس کہتا ہےکہ تم روزہ رکھو توتم روزہ رکھ لیتے ہو تو اصل میں تو اُس کا معبود نفس ہوا۔ یہ وہ شرک ہے جو نظر نہیں آتا۔ ایک شرک تو زبان سے ہوتا ہے اورایک شرک اندر ہوتا ہے کہ تمہارے نیک اعمال بھی دنیا میں دکھاوے کیلئے ہوں، یہ شرکِ خفی ہے۔ نماز رب کی پڑھے لیکن لوگوں کودکھانے کیلئے پڑھے اور خالص رب کیلئے نہ پڑھے تو یہ خفی شرک ہوا۔ اس کا توڑ اُسی وقت ہوتا ہے جب تمہارا نفس بھی کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ جب تمہارا نفس کلمہ پڑھ لیتا ہے توپھر رب کے آگے جھک جاتا ہے۔ اسی نفس کو کلمہ پڑھانے کیلئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

پھر علامہ اقبالؒ نے کہا کہ
ترا دل تو ہے صنم آشنا ۔۔۔۔ تجھے کیا ملے گا نماز میں
دل میں تمہارے شیطان بیٹھا ہوا ہے تو پھر تمہیں نماز میں کیا ملے گا۔ جنہوں نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اور دل بھی کلمہ پڑھنا شروع ہوگیا تو نفس بھی کلمہ پڑھنا شروع ہوگیا، اس کو نیک انسان کہتے ہیں۔ یہ انسان اب نہ کسی کا بُرا چاہے گا، نہ یہ جھوٹ بولے گا، نہ کسی کو دھوکہ دے گا بلکہ نماز پڑھے گا تو بالکل ٹھیک پڑھے گا، قرآن پڑھے گا تو بالکل صحیح پڑھے گا، وعدہ کرے گا تو بالکل سچا کرے گا اور کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ یہ موٴمن ہے۔ ایسے لوگوں کو نیک انسان کہا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 24 اپریل 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس