کیٹیگری: مضامین

روحانیت اور شہوانیت سے متعلقہ غلط تصورات:

مغربی ممالک میں بہت سے لوگوں نے یہ بات کی ہےکہ روحانیت کا شہوانیت سے بہت گہرا تعلق ہے لیکن ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ اگر روحانیت کا شہوانیت سے تعلق ہوتا تو قرآن مجید کبھی بھی یہ نہ کہتا کہ ایک مومن، زانی عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔اگر روحانیت کا شہوانیت سے کوئی تعلق ہوتا تو پھر مومن زانی عورت سے شادی کرے اور اسے پاک کر دے لیکن قرآن نے مومن کی زانی عورت سے شادی پر ممانعت کی ہے۔ شہوانیت کا تعلق ظاہری جسم کے نظام سے ہے۔ شہوانیت کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا ہر صنف روحانیت پر بڑا گہرا مطالعہ ہے اور اس تحقیق کے بعد ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ شہوانیت کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ مباشرت کے عمل میں کوئی آپکی روح شامل نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ صرف ایک جسمانی عمل ہے ۔شہوت تو دو جسموں کے درمیان کشش کا نام ہے اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے البتہ شہوانیت اور روحانیت میں مثبت کے بجائے منفی چیزیں زیادہ ہیں۔ یعنی شہوت کے عمل سے آپ کی روحانیت میں کوئی مثبت اضافہ نہیں ہوگا بلکہ یہ اسکے بالکل برعکس ہے اسی لئے قرآن مجید میں آیا ہے کہ ذاکرہ کی شادی ذاکرات سے ہو اور مومنہ کی شادی مومنات سے ہو، مشرک اور زانی سے شادی نہیں کر سکتے۔ لوگوں نے اس موضوع پر بہت سے کتابیں لکھی ہیں لیکن جسم اور روح کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، جسم کے اثرات روح پر نہیں ہوتے ہیں جسم تو ایک مکان کی مانند ہے جہاں روح ایک مکین کی طرح رہتی ہے ۔نور میں کشش ہوتی ہے جب صحابہ کرام کے اندر نور آیا تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے اسکو اخوان المومنین کا بھی نام دیا گیا ہے ۔

تاریخ کے آئینے میں روحانیت اور شہوانیت کا ربط:

اللہ کے نبی حضرت نوحؑ میں نورتھا لیکن اُن کی بیوی کافرہ تھی اور اُن کا بیٹا بھی کافرتھا۔ اگر روحانیت اور شہوانیت کا کوئی آپس میں تعلق ہوتا توایک نبی کی بیوی کے اندر جنسی عمل کے ذریعے نور داخل ہوجاتا۔ عام آدمی کوتوچھوڑیں کہ اُس میں نور ہے یا نہیں ہے بلکہ یہاں توہمارے پاس مثال ایسی ہستیوں کی ہے جوکہ انبیاء اورمرسلین گزرے ہیں۔ اگرروحانیت اورشہوانیت میں کوئی تعلق ہوتا تونوحؑ کی بیوی کبھی بھی کافرہ نہ ہوتیں۔ اسی طرح ابراہیمؑ ہیں اُن کے والد صاحب بھی کافرتھے۔ روحانیت اورشہوانیت میں کوئی آپس میں لینا دینا نہیں ہے۔ “روحانیت” میں آپ نے روحوں کو بیدار اور منور کرنا ہے اور “شہوانیت” صرف آپ کے نفس اور جسم کے بارے میں ہے۔ شہوانیت کا جوذریعہ ہے وہ انسان کے وجود میں دوجگہ پیدا ہوتی ہے ایک انسان کا دل اور دوسرا ناف کا مقام جہاں لطیفہ نفس ہوتا ہے ۔شہوت کی دو اقسام ہیں۔
1۔ دائمی شہوت – دائمی شہوت آپ کے دل میں ہوتی ہے۔
2۔ وقتی شہوت – وقتی شہوت کا تعلق آپ کے لطیفہ نفس سے ہوتا ہے۔
جب آپ کا دل اسمِ ذات اللہ سے منورہوجاتا ہے اور آپ موٴمن بن جاتے ہیں تودائمی شہوت آپ کے دل سے ختم ہوجاتی ہے اورآپ دل سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جب آپ کا نفس پاک ہوجاتا ہے تو آپ کی وقتی شہوت بھی پاک ہوجاتی ہے۔
اگرروحانیت اورشہوانیت کا آپس میں کوئی لین دین ہوتا تو پھر نور کے ذریعے آپ کے وجود میں شہوت ختم نہ ہوتی بلکہ اور بڑھ جاتی۔ خاص طور پر یہ جو ماہرعلوم ہیں انہوں نے بڑی بڑی عجیب وغریب باتیں روحانیت سے جوڑدی ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ روحانیت کے نام پرگمراہی پھیلائی جارہی ہے۔ اِن چیزوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جنسی عمل کواولاد پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ جنسی عمل کے اندرآپ کیلئے راحت رکھی ہے۔ اگر روحانیت میں جنسی عمل کا کوئی تعلق ہوتا تو پھرہم کوچلّے کرنے کی کیا ضرورت ہوتی توکسی ولی کے پاس جاکرایک رات گزارلیتے اورآپ روحانی بن جاتے۔ اِن چیزوں کا مطلب جولوگوں نے بگاڑکررکھ دیا ہے یہ سراسَر گمراہی ہے اوراِس میں ایسی کوئی شے نہیں ہے۔ اِس کیلئے پھرجنگلوں میں بارہ بارہ سال چِلّوں کی ضرورت کیوں پڑی! اگرروحانیت اورشہوانیت کا آپس میں کوئی لین دین ہوتا تو یہ روزے رکھنے اور نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہوتی، کسی اللہ کے ولی کے پاس چلے جاتے اور ایک رات سو کر ولی بن جاتے۔

شریعت اور طریقت میں غسلِ جنابت کی حقیقت:

خاص طورپرمرد کے جسم میں جو آبِ منی ہوتا ہے، یہ جواُس کے جوڑ ہوتے ہیں یہاں پروہ جمع ہوتا ہے اورخاص طورپرجواُس کے گھٹنے ہوتے ہیں یہاں پرآبِ منی جمع ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ سے اُس کے جسم میں کثافت اورغلاظت رہتی ہے۔ جب آدمی عمل مباشرت کرتا ہے تو پھراُس پرغُسل واجب ہوجاتا ہے کیونکہ اب جیسے آپ کا ہاتھ گندہ ہوجائے توہاتھ دھولیں لیکن نہانے کی کیا ضرورت ہے! اگرآپ کے ہاتھ کوغلاظت لگتی ہے توآپ نہاتے نہیں ہیں بلکہ ہاتھ دھولیتے ہیں۔ آپ کی ٹانگ پراگر کچرا یا گندگی لگ جائے توآپ ٹانگ دھو لیتے ہیں، اسی طرح جب انسان عمل مباشرت کرتا ہے تواُس کی شرم گاہ ہی گندی ہوتی ہے اور شرم گاہ کے علاوہ جسم کا کوئی اورحصہ بظاہرگندہ نہیں ہوتا ہے لیکن حُکم یہ ہے کہ غسلِ جنابت کیا جائے۔ اگرصرف شرم گاہ کودھولیا جائے توپاک نہیں ہونگے لیکن شریعت نے ہمیں بتایا نہیں کہ کیوں؟ روحانیت نے اورروحانیت بھی کیا بلکہ سیدنا سرکار گوھر شاہی نے بتایا ہے۔

جوآپ کا نفس ہے یہ مرکزِنارہے اوریہیں پرشہوت بھی ہوتی ہے۔ جسم کے اندرجوگرمی وغیرہ ہوتی ہے یہ گرمی نارسے ہی آتی ہے۔ جوہمارا جسم ہے اِس میں مسام ہیں جہاں سے پسینہ آتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور بٹن آن کرتے ہیں تو بلب روشن ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جب آپ مباشرت کیلئے تیار ہوتے ہیں تو شہوت بیدار ہو جاتی ہے اور آپکے مساموں (بالوں کے پیچھے) سے شہوت کی نار بھی خارج ہوتی ہے جس کی وجہ سے پورا جسم ناپاک ہو جاتا ہے ۔
شریعت نے صرف اتنا کہا ہے کہ جب آپ مباشرت کریں گے توپھرآپ پرغسلِ جنابت واجب ہوگیا ہے لیکن طریقت یہ کہتی ہے کہ آپ نے مباشرت نہ بھی کیا ہوآپ اکیلے تنہائی میں بیٹھ کراپنے تصورات میں کسی عورت کے بارے میں سوچ رہے ہیں، شہوانی خیالات آپ کوآرہے ہیں توایسی صورت میں بھی وہ نارآپ کے مسام سے نکل جائے گی اوراِن شیطانی شہوانی خیالات کی وجہ سے بھلے ہی آپ کے جسم سے آبِ منی کا ایک قطرہ بھی نہ نکلے، صرف اِن خیالات کی وجہ سے آپ ناپاک ہوجائیں گے اورغسل آپ پرواجب ہوجائے گا کیونکہ وہ نارتونکلے گی خواہ آپ جسمانی طورپر جنسی عمل کریں یا نہ کریں لیکن اگرآپ تخیلات اورسوچوں میں وہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ ہورہا ہے اور وہ ہورہا ہے جسطرح بہت سے لوگ تصوراتی دنیا میں چلے جاتے ہیں تواُس وقت پھریہ ہوگا کہ یہ جو شہوانی خیالات ہونگے یہ نارنفس سے نکل کرآپ کے مساموں سے باہرنکل جائے گی اورآپ ناپاک ہوجائیں گے۔ اب چونکہ آپ ناپاک ہوگئے تویہ جوناپاکی ہے کسی خاص مخصوص حصے پرنہیں ہے بلکہ یہ پورے جسم میں مسام ہیں جہاں سے یہ ناپاکی نکلی ہے لہٰذا دورانِ غسل بال بال گیلا ہونا ضروری ہے کیونکہ وہاں سے نارخارج ہوئی ہے۔
بہت سے لوگ شریعت میں کہتے ہیں کہ اب آپ کی داڑھی ہے توآپ کیا کریں توکہتے ہیں کہ آپ مسح کرلولیکن یہ غلط ہے۔ مسح کرنے سے کبھی بھی غسل صحیح نہیں ہوگا۔ اگرداڑھی ہے بال ہیں توپانی اُن کی جڑوں تک پہنچانا ہوگا کیونکہ مسام سے نارنکلی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے بال لمبے لمبے ہوتے ہیں توجب تک وہ پورا سَرکے بال کی جڑیں گیلی نہیں ہونگی تب تک غسل نہیں ہوگا کیونکہ وہاں سے نارنکلتی ہے۔ یہ جاننا آپ کیلئے بہت ضروری ہے۔
اگرشہوانیت نے آپ کے جسم کوہی ناپاک کردیا ہے توآپ کی روح اوردل پراُس نارکا کتنا اثرہوا ہوگا تو آپ دیکھئیے گا کہ جب آپ پرشہوت کا دورہ پڑے گا تواُس وقت آپ محسوس کیجیئے گا کہ سوائے شہوت کے آپ کوکچھ اورنظرنہیں آئے گا کیونکہ وہ نارنکل کرعقل کوبھی اندھا کردیتی ہے۔ یہاں پر روحانی آدمی کی نہیں بلکہ عام آدمی کی بات ہورہی ہے کہ اُس وقت عام آدمی کچھ سوچتا نہیں ہے۔ اب ایسا ہی ایک واقعہ ہوا کہ نبی پاکؐ ایک اپنے صحابی کے گھرتشریف لے گئے توآپؐ کی عادتِ مبارکہ یہ ہے کہ بغیردستک دئیے وہ کسی کے گھرمیں داخل نہیں ہوتے۔ آپؐ نے دستک دی کہ فلاں ابنِ فلاں تواب وہ صحابی اُس وقت اپنی بیوی کے ساتھ مصروف عمل تھا۔ جب اُس نے نبی پاکؐ کی آوازسنی کہ وہ گھرکے دروازے پرتشریف لے آئیں ہیں تووہ اُسی وقت بیوی سے جُدا ہوا اور فوراً بغیرنہائے اور کچھ کئے فوراً حضورؐ کی بارگاہ میں حاضرہوگیا اورحضورؐ اُس کا ہاتھ پکڑکرچلنا شروع ہوگئےاورکافی دیرتک چلے۔ جب سامنے سے ایک اورصحابی آیا توحضورؐ اُس سے گفتگو کرنے لگ گئے اوریہ جوصحابی تھا اِس نے موقع غنیمت جانا اورفوراً گھربھاگ گیا، نہایا دھویا، غسل کیا اورپھرآیا۔ جب واپس آیا توحضورؐ نے پوچھا کہ تم کہاں غائب ہوگئے تھے تووہ کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! دراصل بات یہ ہے کہ جب آپ میرے غریب خانے پرتشریف لائے اورآپ نے آوازدی اُس وقت میں اپنے بیوی کے حقوقِ زوجیت ادا کررہا تھا اوراُسی ناپاکی کی حالت میں آپ کے ادب کی خاطرمیں آگیا اورپھرآپ میرا ہاتھ پکڑکرچل رہے تھے تومجھے بہت تکلیف ہورہی تھی کہ میں ناپاک ہوں اورحضورؐ نے مجھے ہاتھوں سے پکڑا ہوا ہے توپتہ نہیں حضورؐ کی حساسیت پریہ لمحہ کتنا گراں گزرہا ہوگا لہٰذا جیسے ہی میں نے موقع دیکھا میں بھاگ گیا اورنہانے چلا گیا۔ نبی پاکؐ نے اُس کی یہ بات سُن کرکہا کہ

“میں اللہ کی قسم اُٹھاتا ہوں کہ موٴمن کبھی ناپاک نہیں ہوتا۔”

موٴمن کبھی ناپاک نہیں ہوتا سے مُراد یہ ہے کہ جب تک تم عام آدمی ہوتوتمہارے نفس میں نارہے تووہ نارباہرنکلے گی اورجب تم موٴمنِ کامل بن گیا تویہ جونفس ہے اب یہ نورکا مرکزبن گیا، نورِالہی اوریہ لطیفہ انا کے قبضے میں آگیا۔ لطیفہ انا سے نورکی تاریں نفس پرہروقت پڑتی رہتی ہیں۔ جس کی تاریں ہیں ہرآدمی کی نہیں کہ کل آپ سوچ لیں کہ میرے توتاریں پڑرہی ہیں تونہانے کی کیا ضرورت ہے! ہرآدمی کی نہیں بلکہ جس کی تاریں جڑی ہوئی ہیں توتاروں کا مطلب ہے تجلیات۔ وہ تجلیات لطیفہ انا سے نفس پرپڑتی رہتی ہیں تویہ سارا نورالنورہوتا ہے۔ ایسا ولی ایسا موٴمن اگروہ حقِ زوجیت بھی ادا کرتا ہے تواُس وقت نارنہیں بلکہ نوربرآمد ہوتا ہے۔ حضورؐ نے یہی فرمایا تھا کہ موٴمن کبھی ناپاک نہیں ہوتا ہے۔ ناپاکی وہ ہے کہ جوآپ کے ہرمسام سے نکلے۔ یہ جومسام سے نکلنے والی ناپاکی ہے یہ اگرآپ اپنے سوچ رہے ہوں توسوچنے سے آپ کے اندر شہوت بیدارہوگئی اوروہ جونارکی شعائیں ہیں وہ نکلنا شروع ہوگئیں۔ جب وہ مسام سے باہر نکلنا شروع ہوگئیں توآپ ناپاک ہوگئے، طریقت یہ کہتی ہے۔ اسی لئے طریقت والوں کیلئے حدیث میں آیا ہے کہ

نیة الموٴمن خیرمِن عملہ
المعجم الکبیر، طبرانی
ترجمہ: موٴمن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔

اِس کی مزید تشریح کرتے ہیں کہ موٴمن اپنی بیوی کے ساتھ حقِ زوجیت توادا کررہا ہے لیکن اُس کا دل اور نفس اللہ اللہ میں لگا ہوا ہے تواُس عمل کے بارے میں تواُس کا دھیان بھی نہیں ہے کیونکہ وہ توحقِ زوجیت ہی ادا کررہا ہے۔ جس طرح ہم اکثروبیشترایک فقیرکا واقعہ بتاتے ہیں کہ جس نے اپنی بیگم سے کہا تھا کہ جاوٴجوفقیراُس دریا کے پاربیٹھا ہے اُس کویہ کھانا دے کرآجاوٴ۔ فقیرکی بیگم نے کہا کہ وہ اُس دریا سے گزرکرکیسے جائے گی توفقیرنے کہا کہ دریا کوکہنا کہ وہ اُس کے پاس سے آرہی ہے کہ جس نے بارہ سال سے اپنی بیوی کوہاتھ نہیں لگایا تووہ کہتی ہے کہ تم جھوٹے ہوکیونکہ ابھی توہمارے گھرمیں بچی پیدا ہوئی ہے لیکن تم کہتے ہوکہ بارہ سال سے ہاتھ نہیں لگایا۔ فقیرنے کہا کہ تم دریا کوجاکرکہنا کہ وہ راستہ دیدے گا۔ پھروہ اُس فقیرکے پاس چلی گئی، اُس نے کھانا کھایا اور پھراُس بیوی نے کہا کہ اب وہ واپس کیسے جائے گی تواُس فقیرنے کہا کہ تم دریا کوکہنا کہ تم اُس کے پاس سے آرہی ہوجس نے بارہ سال سے کچھ نہیں کھایا۔ وہ کہتی ہے کہ تم جھوٹے ہوکیونکہ ابھی توتم نے میرے سامنے کھانا کھایا جومیں لے کرآئی تھی۔ اُس نے کہا کہ تم دریا کوکہہ دینا تودریا نے راستہ دے دیا۔ پھروہ اپنے شوہرسے پوچھنے لگی کہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تم دونوں جھوٹے ہولیکن تم جھوٹوں میں یہ تاثیرکیسے آئی یہ اُسے سمجھ نہیں آرہا۔ اُس فقیرنے کہ وہ سمجھی نہیں کہ بارہ سال ہوگئے میں نے کبھی اپنے نفس کی خواہش سے تمہیں ہاتھ نہیں لگایا بلکہ صرف تیرا حق سمجھ کراُسے پورا کرتا رہا۔ یہاں پراندرکی کہانی یہ تھی کہ اُن کا اندرپاک اورصاف ہوچکا تھا تواب وہاں شہوت نہیں رہی اورنوررہا توباہرنورہی برآمد ہوگا۔ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ اگرانسان کی روحانیت طاقتورہوجائے تواُس کے جوجنسی پہلوہیں اُن کی منفیت کووہ ختم کردیتی ہے لیکن جنسیت کا روحانیت میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ جسنی عمل کرکے روحانی بن جائیں کہ روزانہ آپ بارہ بارہ دفعہ حقِ زوجیت ادا کریں توپتہ چلا کہ ایک سال میں آپ ولی بن گئے، یہ باتیں غلط ہیں۔

مراقبة الموت کیلئے کیا ہونا ضروری ہے؟

انسان کے جسم میں سات جوڑہوتے ہیں توخاص طورپرجوگھٹنے کے کپ ہے وہاں پرآبِ منی جمع ہوتا ہے۔ جب انسان کومراقبة الموت لگتا ہے تومراقبة الموت کے ذریعے ضروری ہے کہ جتنے بھی ہمارے جوڑہیں جن کوآبِ منی چکنا کرتی ہے اورخاص طورپرجوگھٹنے کےکپ ہے یہ آبِ منی کی مخزن ہے۔ جب تک یہ آبِ منی سے خالی نہ ہوجائیں سب سے زیادہ کثافت انسان کے جسم میں یہ آبِ منی کا قطرہ ہے توجب تک یہ ایک ایک قطرہ گھٹنوں کےکپ سے نہ نکل جائیں اُس وقت تک یہ روح مراقبے کیلئے باہرنہیں نکلتی۔ اِس کیلئے پھرچالیس دن کے روزے رکھے جاتے اورمشقتیں کی جاتیں تونکتہ یہ ہے کہ اگرشہوانیت کا روحانیت سے کوئی لینا دینا ہوتا تویہ شرائط کیوں ہوتیں کہ آبِ منی کا ایک قطرہ میں تیری ہڈیوں میں نہ بچے ورنہ مراقبة الموت نہیں لگے گا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 17 مئی 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس