کیٹیگری: مضامین

ہر مذہب میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ دور آخر میں ایک مسیحاآئے گا اور اسے مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہےوہ ہستی امام مہدی کی ہےاور ہر مذہب والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ صرف ان کے مذہب کے فروغ کے لئے آ رہے ہیں۔ سنّی مسلمان یہ کہتے ہیں کہ امام مہدی دنیا کو مسلمان بنانے کے لئے آئیں گے اور جو شیعہ ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ امام مہدی صرف ہمارے لئے آ رہے ہیں۔ اہل بیت سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے پورے دین کو اپنی فیملی کا حصہ بنا لیا ہے وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اما م مہدی صرف اُن کے لئے آ رہے ہیں ۔ ہندو کہتے ہیں کہ کالکی اوتار سناتن دھرما کے لئے آ رہے ہیں وہ سب کو ہندو بنانے کے لئے آ رہے ہیں ۔یہودی بھی کہتے ہیں کہ مسایا آئیں گے اور پوری دنیا میں یہودیت قائم کر دیں گے ۔اب جو ان مذاہب میں یہ عقائد بن گئے ہیں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ وہ اللہ کے پیغام کو سمجھ نہیں پائے اور اپنےنکتہ نظرسے اسطرح کا مطلب انہوں نے اخذ کر لیا۔کسی بھی چیز کو سمجھنے کا دارومدار آپ کی سوچ اور فکر پر مبنی ہے ۔لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی تاویلات پیش کریں اور ہم ان کو صحیح مان لیں ۔حقیقت یہ تو نہیں ہو سکتی کہ تمام مذاہب اپنی اپنی تاویلات پیش کریں اور وہ سچے بھی ہوں اگر مسلمان کی بات پر یقین کر لیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ امام مہدی سب کو مسلمان بنانے کے لئے آ رہے ہیں ۔ اگر یہودی کی بات کو صحیح مان لیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ امام مہدی دنیا میں یہودیت کی بالا دستی قائم کرنے کے لئے آ رہے ہیں اور پھر یہ سارے مذاہب رب نے ہی بھیجے ہیں تو پھر امام مہدی کسی ایک مذہب کی بالا دستی قائم کرنے کے لئے کیوں آ ئیں گے !!
امام مہدی کا اصل مقصد وہ ہے جس مقصد کے لئے اللہ اُن کو بھیج رہا ہے ایک تو آپ کی سوچ ہے کہ امام مہدی اس لئے آ رہے ہیں ،اُس سوچ کی کوئی حثیت نہیں ہے اللہ نے امام مہدی سے کیا کام لینا ہے اللہ کے ذہن میں جو ٹارگٹ ہے وہ امام مہدی کے آنے کا اصل مقصد ہے ۔اب اللہ کے ذہن میں وہ ٹارگٹ کیا ہے اس بات کو سمجھنے کے لئےابتداء سے بات کرناہو گی تا کہ ہم اللہ کے اصل ٹارگٹ کو جان سکیں ۔

اللہ نے چودہ ہزار آدم کیوں بھیجے ؟

اس دنیا میں اللہ تعالی نے چودہ ہزار آدم بھیجے اور سیدنا گوھر شاہی کے علاوہ کسی نے یہ بات نہیں کی کہ اس دنیا میں چودہ ہزار آدم آئے ہیں ۔سب یہی سمجھتے ہیں کہ ایک ہی آدم اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔لیکن سیدنا گوھر شاہی نے اپنی کتاب مقدس ”دین الہی“ میں یہ بات رقم فرما دی ہے (تفصیل کتاب کے سبق ”سوچ تو زرا تو کس آدم کی اولاد ہے ؟“ میں پڑھی جا سکتی ہے )۔ ابھی چند سو سال پہلے تک یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک بر اعظم کے لوگ دوسرے براعظم میں چار ہزار یا پانچ ہزار میل کاسفر کر کے پہنچ سکیں ۔سن 1492میں کرسٹوفر کولمبس کو اسپین کے بادشاہ فرنانڈس نے تبلیغ کے لئے بھیجاکہ اور خطے دریافت کرو۔کولمبس مشینی سمندری جہاز بنانے میں کامیاب ہوا جس کے زریعے وہ پہلا شخص تھا جو امریکہ کے خطے کو پہنچا ۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ انڈیا آ گیا ہے۔کنارے پر لوگوں کو دیکھا جو سرخ تھے ان سے سمجھا اور کہا شاید انڈیا آ گیا ہے اور وہ انڈین ہیں لیکن وہ امریکہ کی سرزمین تھی اور وہاں لوگ پہلے سے موجود تھے۔پھرسیدنا گوھر شاہی نے ایک اور مثال دی ہے کہ یہ جو کالےافریقہ کے جولوگ ہیں ان کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ دھوپ کی وجہ سے ان کا رنگ کالا ہو گیا ہے ۔ لیکن فرمایا کہ جو ٹھنڈے ممالک میں لوگ رہتے ہیں ان کا رنگ کیوں کالا ہے ؟ ہم اتنے جدید سائنسی دور میں رہتے ہیں اس کے بعد یہ کہنا کہ دھوپ کی وجہ سے ان کا رنگ کالا ہو گیا ہے انتہائی نا معقول بات ہے ۔ یہ تو جلد کی رنگت ہے جوانسانی جسم میں موجود جین کی وجہ سے نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے ۔اب جیسے چائنا کے لوگ ہیں ان کی شکل وصورت مختلف ہے ۔ اب جو فار ایسٹ کا علاقہ ہے جیسے برما ،تھائی لینڈ ، ملائشیا، سنگا پور فلپائن کوریااور جاپان ، ان خطوں میں لوگوں کی تھوڑےتھوڑے فرق سے شکل ملتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بھی ایک سے زائدآدم آئےہیں ۔

سیدنا گوھر شاہی نےامریکہ کے بہت دورے کئے ہیں اور ہر طرح کے لوگ آپ سےروحانیت کے حصول کےلئے ملنے آئے جن میں یہودی ، عیسائی ، ریڈ انڈین اوردہریے بھی شامل ہیں اور ان کے ذکر بھی چل گئےاور وہ آپ کے خدمت گزار بھی ہو گئے ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک خاتون تھی اس کا قد بہت بڑا تھا اس کا نا م انجیلا تھا ۔اُس عورت سے جب گفتگو کی آپ نے تواُس کے خیالات کا علم ہوا کہ مرد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے عورتیں زیادہ عظیم ہیں اور وہ بار بار آپ کو یہ کہہ رہی تھی کہ آپ یہ کہہ دیں کہ اللہ بھی عورت ہے۔سرکار نے اسے کہا کہ ہم تمھیں تفصیل سےپوری بات بتاتے ہیں۔
سیدنا گوھر شاہی نے اسکے سوال کے جواب میں فرمایا اللہ نے چودہ ہزار آدموں کو بنایا ، کبھی تو آدم اکیلا مرد کے طور پر بنایا، کبھی آدم جوڑے کی صورت میں بنایا جیسے آدم و حوااورکبھی اللہ نے آدم کو عورت بنا کر بھیجا۔ تو جس آدم کو عورت بنا کر بھیجا تھا اس کو بغیر مرد کی صحبت سے بچے پیدا ہوتے تھے اوراُن کو امرِ کن سے بچے پیداہوتے تھے ، اللہ امر ِ کن کی طاقت استعمال کرتا تو ان عورتوں کو بغیر مرد کے بھی بچے پیدا ہو جاتے ۔ اس لئے انہوں نےیہ سمجھا عورت افضل ہےاور مرد کمتر ہے ۔اس کے بعد جب ان کی اولادیں ہوئیں اور نسل چلی تواُن میں بھی شادی سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔سیدنا گوھر شاہی نے انجیلا کو بتایا تم اُسی نسل میں سے ہو جس میں آدم بطور عورت بھیجا گیا تھا۔کوئی آدم اللہ نے کالے رنگ کابھیجا، کوئی آدم چپٹا ، کوئی آدم ایران کا بھیجا، ایران کا آدم مختلف ہے۔ اِن مختلف آدموں کی شکل وصورت بھی مختلف اورمزاج بھی مختلف ہے اور پھر یہ سارے مختلف آدموں کے لوگ آپس میں مکس ہو گئے ۔ اس طرح اللہ نے چودہ ہزار آدموں کو بھیجا سوائے ایک آدم کے جن کا نام آدم صفی اللہ ہے ۔ تیرا ہزار نو سو نناوے جو آدم تھے اُن کو یہیں زمین پر زمین کی مٹی سے بنایاگیااور ان کے لئے انبیاء کو بھیجا انبیا نے ان آدموں کو تعلیم دی اور وہ ساری کی ساری تعلیم ظاہری تھی۔اُن آدموں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کو مقرر نہیں کیا کیونکہ جو چھوٹے موٹے جنات تھے وہی اُن کو گمراہ کر دیتے تھے ۔باطنی تعلیم اُن آدموں کے پاس نہیں تھی ، کسی کا اللہ سے تعلق نہیں جڑا ۔ کیوں ہوا یسا، جیسا اللہ نے چاہا ویسا ہوا ۔ زیادہ تر قوموں کو تباہ کرنے کے جو واقعات قرآن مجید میں ہیں وہ انُہی تیرا ہزار نو سو نناوے آدموں کی اولادوں میں سے ہیں ۔آدم صفی اللہ کی قوم میں سے کسی کو تباہ نہیں کیا گیا۔ جیسے قوم عاد ہے اس قوم میں انسان بڑے بڑے ہوتے تھے۔ آپ نے ڈائنو سارس کے بارے میں سنا ہے کہ وہ کتنے بڑے ہوتے ہیں سائنسدانوں کو اُن کے جو فوسلز ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈائنو سارس کتنے بڑے ہوتے تھے ۔لیکن جس دور میں ڈائنو سارس اتنے بڑے بڑے تھے اس دور میں انسان بھی تو کتنے بڑے بڑے تھے ۔تیرا ہزارنو سو نناوے آدموں کویہیں زمین پر زمین کی مٹی سے بنایاہے اس سے مراد یہ ہے کہ صرف اس زمین پر نہیں بلکہ ساتوں سیاروں پر تیرا ہزارنو سو نناوے آدموں کو اُتارا گیا۔ سات سیاروں پر اللہ نے انسان کو آباد کیااور تیرہ ہزار نو سو ننانوے آدم جوآئے ان کا مشغلہ ہی قتل و غارت گری تھا ۔

اللہ نے خاص انسانوں اور خاص جنات کو اپنی عبادت کے لئے بنایا:

بہت سے تجربات کئے اللہ نے اور تجربات کرتے کرتے مختلف رنگ و نسل کے تیرا ہزار نو سو نناوے آدم اللہ نے بھیج دئیےلیکن اللہ تعالی کا مقصد پورا نہیں ہوا ۔ وہ مقصد قرآن میں ہے کہ

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
سورة الذاریات آیت نمبر 56
ترجمہ :انسانوں اور جنوں کی اکثریت کو میں اپنی عبادت کےلئے پیدا کیا ہے ۔

لِيَعْبُدُونِیعنی تمکو عابد بنا دے لیکن عابد ایسے نہیں بنتا ہے در حقیقت عابد اسکو کہتے ہیں کہ جب کسی انسان کا جسم بھی عبادت میں ہو ،روح بھی عبادت میں ہو ،قلب بھی عبادت میں ہو ،وہ عابد ِ کامل ہے ،یعنی انسان کا پورا کا پورا وجود کسی نا کسی لحاظ سے رب کی حمد و ثنا میں ہو ۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اسی مقصد کے لئے بنایا اور ان کے بنانے کا کوئی اور مقصد ہی نہیں تھالیکن اس آیت میں اللہ خاص لوگوں اور خاص جنات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے ہیں ۔یہ آیت ہم کو باطن میں دکھائی گئی ہے اور اس وقت کے مناظر بھی دکھائے گئےکہ عالم ارواح میں انسانوں کا ایک گروہ ہےوہ سارے ازلی مومن ہیں ، حضور ؐ کو پہلے وہ گروہ دکھایا گیا اور پھر کہا کہ اِن کو اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے ۔اب جن کو پتہ نہیں ہے کہ ایک مخصوص طبقے کے لئے یہ آیت اُتری ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کو عبادت کے لئے بنایا ہے ۔اگرہر انسان کو اللہ عبادت کےلئے بناتا تو انسان کی کیا مجال تھی کہ وہ عبادت سے باز آ جاتا۔ایسا ہو نہیں سکتا کہ اللہ جس چیز کو ایک مقصد کے لئے بنائے اور وہ چیز اس مقصد سے عاری ہو۔اب جو اللہ نے تیرا ہزارنو سو نناوے آدم بھیج دئیے اُن آدموں کے پاس ظاہری تعلیم ہی تھی جسمانی عبادت ہی کرتے تھے نہ کسی انسان کی آوازاللہ تک پہنچتی تھی اور نہ کسی انسانن کی شکل و صورت اللہ تک پہنچتی تھی ۔ نہ اللہ ان سے واقف تھا اور نہ وہ اللہ سے واقف تھے۔اس میں اللہ کو مزہ نہیں آتا تھا ۔
اب اللہ کی پلاننگ شروع ہو گئی کہ کیا کرنا ہے ۔ یہ جس جگہہ ہم رہتے ہیں یہ پورانظام شمسی عالم ناسوت میں ہے یہ اللہ نے جنات کے لیئے بنایا تھا اور یہاں پر سارے جنات مقیم تھے۔ ابلیس بھی قوم جنات سے ہے اور ابلیس اتنا بڑا عابد تھاکہ اُس نے عالم ناسوت کے چپے چپے پر اللہ کو سجدہ کیا ہوا ہے ۔ قریبی فرشتے اللہ کے رحم اورکرم کی وجہ سےتھوڑے سے بے باک ہو گئے اور بے باکی میں کبھی نافرمانی بھی کر دیتے تھے ۔ اللہ نے انکو ڈرانےاور قابو میں کرنے کے لئے یہ چال چلی کہ پہلے عزازیل(ابلیس) کو کہا کہ تو نے بہت عبادت کر لی ہے اب ہم تجھےترقی دے کر عالم ملکوت میں بلا رہے ہیں اوروہاں فرشتوں کا لیڈربنا دیا ۔

انسانیت کا روحانی ارتقاء:

اس کے بعد اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا مٹی کا ایک جسم بناؤ ۔جب فرشتوں کو مٹی کا جسم بنانے کے لئے کہا تو اس پر فرشتوں نے اعتراض کر دیااور کہنے لگے کہ اے اللہ تیری حمدو ثناءبیان کے لئے ہم کافی نہیں ہیں جو تو یہ انسان بنا رہا ہے ۔جس کا قرآ ن میں بھی ذکر ہے کہ

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

سورة البقرة آیت نمبر 30
ترجمہ : جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔اور تم جو اتنا بول رہے ہو تو بتا دہ وہ علم کیا ہے۔

فرشتے سمجھ گئے تھے کہ مٹی کے انسان زمین پر ہی ہوتے ہیں اوراللہ اس کو بنا کر زمین پر ہی بھیجے گا۔اسی وجہ سے فرشتوں نے اعتراض کیا تھا ۔پھر اللہ تعالی نے فرمایا میں اس دفعہ اس کو ایک خاص علم عطا کروں گا اور تم جو اتنا بول رہے ہو تو بتا دو وہ علم کیا ہے۔فرشتوں نے کہا کہ جو علم آپ نے ہم کودیا ہی نہیں تو ہم کیسے بتائیں کہ وہ علم کیا ہے۔بات صرف یہاں تک نہیں تھی بلکہ اللہ یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ نہ تو تم کو وہ علم پتہ ہے اور نہ تم اُس کے قابل ہو ۔ایک دفعہ جبرائیل نے مجھ سے پوچھا کہ بتاؤ تم افضل ہو یا میں افضل ہوں ۔تو میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی سیدنا گوھر شاہی کی طرف سے القا آ گیا کہ جبرائیل کو کہو میں افضل ہوں ۔میں نے سوچا کہ یہ بات سرکار کی طرف سے نہیں ہو سکتی کیونکہ سیدنا گوھر شاہی نے تو ہمیشہ عجزو انکساری کا سبق دیا ہے ۔پھر جب اندرونی طورپر چیک کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی یہ بات سیدنا گوھر شاہی کی طرف سے ہی آئی ہے ۔پھر فرما یا کہ ایسے کہہ دو کہ

”ہم پر یہ کرم ہوا ہےکہ ہم یہاں بھی ہوں اور وہاں بھی ہو ں۔ تم اپنا مقام، مقام جبرائیل چھوڑ کے آئے ہو تو اب وہ جگہ خالی ہے تُو جبرائیل ایک ہی تھااور ایک ہی رہے گااور ہم بہت سارے ہو جاتے ہیں پھر بھی ایک ہیں ۔حضرت ِانسان ناسوت میں بھی ہوتا ہے ،ملکوت میں بھی اسی وقت ہوتا ہے ،وہ جبروت میں بھی بیٹھا ہے ،ہاہویت میں بھی ہے وہ احدیت میں بھی ہے وہ لاہوت میں بھی ہے ،عنکبوت میں بھی ہے وہ ہر جگہ ہے تو یہ افضل ہو گیا “

اب یہ بات فرشتوں کے اختیار میں نہیں ہے حالا نکہ فرشتوں کو نور سے بنایا ہے لیکن انکا نورمحدود ہے وہ جب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں تو اُن کے اندر نور بنانے کی فیکٹری (قلب) نہیں ہے کہ جس سے اُن کی نورانیت میں اضافہ ہو۔جس کوالٹی ، جس مقدار سے وہ فرشتے بنے تھے، جتنا چاہیں وہ اللہ کی حمدو ثناء کر لیں وہ نور وہیں قائم رہتا ہے بڑھتا نہیں ہے۔لیکن حضرت ِانسان کو یہ چیز عطا ہو گئی ہے کہ وہ اس علم کے ذریعے اپنی نورانیت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے نور بناتا رہتا ہے اور فرشتوں سے آگے نکل جاتا ہے کہ فرشتے پھر اسکے قدمو ں کو چومتے ہیں ۔ تو اللہ نے کہا جو علم میں اس کو دے رہا ہوں وہ نہ تمھیں معلوم ہے اور نہ تم اس قابل ہو ۔ پہلے والےتیرا ہزار نو سو نناوے آدموں کو ظاہر ی علم دیا تھا اور ایک آدم، آدم صفی اللہ کو باطنی علم دے کر بھیجا ۔
انسان کی اصلیت سماوی روح میں ہے ۔ تیرا ہزار نو سو نناوے آدم جو آئے وہ انسانیت سے عاری تھے۔کیونکہ اُن کی روحیں خفتہ تھیں جن میں انسانیت کا راز چھپا ہے۔روحوں میں انسانیت چھپی ہےانسانیت جسم میں نہیں چھپی ۔اگر جسم میں شیطان طاقتور آجائے تو آدمی کی زبان کتے کی طرح لٹکی رہتی ہے ۔شہوت کاہوس کاشکار ،بندر کی طرح ادھر ادھر اچھلتا پھرتا ہے، لوگوں کا مال مارتا ہے ،اس عورت پر نظر رکھ،اُس عورت پر نظر رکھ اور ان کی عزتیں برباد کرتا رہتا ہے ۔ہر وقت شیطانی سوچ سوچتارہے تو یہ شیطان کی صفت ہے۔آپ کی شکل و صورت تو انسانی ہے لیکن صفات تو شیطانی ہیں ۔انسانیت آپ میں معدوم ہے اور شیطانیت آپکے اندر سے برآمد ہو رہی ہے ۔تو یہ تیرا ہزار نو سو نناوے آدم کہنے کو توانسان نما تھے لیکن انسانیت کی خصوصیات سے عاری تھےکیونکہ ان کی روحیں خفتہ تھیں، روحوں کو بیدار کرنے کا علم ہی نہیں تھا وہ آدم ظاہری عبادت کرتے تھے۔اب یہ تیرہ ہزار نو سو ننانوے آدم اور اُن کی جو امتیں ہیں ان میں سے ایک بھی جنت میں نہیں جائے گا۔
آدم صفی اللہ کے آنے پر ساڑھے چھ ہزار سال پہلے انسانیت کی افتتاح ہوئی ہے۔انسانیت کی افتتاح تب ہوئی جب انسان کے اندر سماوی روحوں کو بیدار کرنے کا علم آ گیا۔پھر جب اُس علم کے زریعے روحیں بیدار ہوئی تو اِن میں رب کی صفات ، رب کے جلوے اور اپنی ذات کے جو پرتو اُن روحوں میں رکھے تھے ،پھر اس علم کے ذریعے گلاب کے پھولوں کی طرح یہ روحیں کِھلنےلگیں۔ اور یہاں سے پھر محبت کے ،مروت کے ،حیا کے چراغ جلے۔ حِلم و رحمت کے چراغ جلےاور معلوم ہوا کہ یہ حضرت انسان سب سے افضل ہے ۔
جب تمہاری روح سماوی بیدار ہوئی اور وہ عابد بنی تب انسانیت کی افتتاح ہوئی ۔ جب تک روح بیدار نہ ہوآپ انسان نہیں ہیں ۔ہر آدمی میں انسان بننے کا مادہ ہے لیکن انسان وہ تب بنے گا جن اسکی روح کی خصوصیات واضح ہو جائیں گیں ۔جب اسکی روح خفتگی سے نکل کر بیداری میں آجائے گی ۔اِن لوگوں کے لئے کہا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِکہ یہ جو روحیں ہیں ان کے لئے کہا کہ اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے۔اُس سے پہلے جو روحیں بنائیں اُن کو عبادت کے لئے نہیں بنایابلکہ اُن کے لئے قرآن میں کہا کہ انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لئے بنایا ہے ۔ 

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنس
سورۃ الا اعراف آیت نمبر 154
ترجمہ : اور بیشک انسانوں اور جنوں کی کثیر تعداد کو ہم نے جہنم کے لئے بنایا ہے۔

خوابیدہ انسانیت کب بیدار ہوئی ؟

اب تیرا ہزار نو سو نناوے آدم کثرت ہی ہے ۔پھر آدم صفی اللہ آگئے انہوں نےعلم دیا پھر اس علم کے زریعے لطیفہ قلب بیدار ہو گیااسکے ذریعے پھر انسان کا ذکر اور حمد وثناء عرش الہی پر پہنچنا شروع ہو گئی ۔ جب انسان کے دل کی آواز عرش الہی پر پہنچی تو اللہ نے ان فرشتوں کو بلایا جنہوں نے اعتراض کیا تھا کہ دیکھو یہ ہے حضرت انسان ۔تم کہہ رہے رہے تھے ہم کافی نہیں ہیں تیری حمدو ثناء کے لیئے کیا ایسی حمدوثناء کر سکتے ہو تم کہ وہ زمین پر بیٹھا ہوا ہے اور یہ عرش الہی کا مینار ہل رہا ہے کیونکہ اسکا د ل میرے نام سے گونج رہا ہے ۔

اس لطیفہ قلب کی وجہ سے جو اوصاف ِحمیدہ ہیں وہ انسان کی شخصیت میں ابھر کے سامنے آئے ۔بغض و حسد سے چھٹکارا حاصل کر لینا، گناہ گاروں کو خطا کرنے والوں کو معاف کر دینا یعنی جو رب کے کمالات ہیں ،جو رب کی خصوصیات ہیں وہ ان انسانوں کے قلوب و ارواح میں منعکس ہونے لگیں کیونکہ علم آ گیا رب کا نور آگیا ۔جب وہ روحیں منور ہونے لگیں تو وہ مثل ِآئینہ بن گئیں اوررب کے اوصاف حمیدہ ا ن آئینوں میں جلوہ گر ہونے لگے۔ اور پھر حضرت انسان بر گزیدہ ہو گیا ۔

ایسے انسان کو رب نے اپنا خلیفہ،اپنا نائب قرار دیا ۔اور جب ایسے انسان کو اپنا نائب قرار دیا تو پھر اس نے انسان ہوتے ہوئے انسانیت کے لیے وہ فیصلے خود کر لیئے جو رب کرتا ہے ۔جسکو چاہا بیت المامور پر بٹھا دیا ،جسکو چاہا عرش پہ لے گیا ۔یہ تو رب کے فیصلے ہیں لیکن جس کو نائب بنایا اسکو بھی اختیار دے دیا ۔ اب آدم صفی اللہ یہ قلب کاعلم لیکر آگئے اب یہاں بیٹھے بیٹھے انسان اپنی آواز اللہ تک پہنچائے اور اللہ کا پیغام اس تک آئے۔اب جیسے کوئی یہاں بیٹھ کر سوال پوچھے تو فورا ً اللہ کی طرف سے دل پرالقا آجائےکہ اس بات کا جواب یہ ہے ۔اب انسان کا لطیفہ قلب اللہ سے جڑ گیا۔جو بھی وہ کہتا ہے وہ بات اللہ تک پہنچ گئی۔اگر کسی ایسے بندے کیساتھ بیٹھے ہو جسکا دل اللہ سے جڑا ہوا ہے تو تمہاری آوازیں بھی اللہ تک پہنچ گئیں اس لئے لوگ ولیوں کے پاس دعا کرانے جاتے ہیں کہ اے اللہ تُو ان کے قریب ہےاور اللہ تمہاری سن لیتا ہے۔اب چونکہ تمھارا قلب بیدار نہیں ہے اورجب تمہارا قلب بیدار ہو جائے گا تو تمہاری آوازیں بھی اللہ تک پہنچیں گی ۔یہ اوصاف حمیدہ اِس سے پہلے کے جو آدم تھے ان میں نہیں تھے۔انسانیت کی خصوصیات ان روحوں میں ہے پہلی بار انسانیت بیدار ہوئی جب آدم صفی اللہ یہ علم لے کر آئے ۔اس سے پہلے انسانیت خفتگی میں تھی ،خوابناک تھی۔ساڑھے چھ ہزار سال پہلے انسانیت کا وجود ہوا۔ان روحوں کا بیدار ہونا ،دلوں کا بیدار ہونااور آئینوں کی طرح اللہ کی خصوصیات کا انعکاس کرنا اپنےشیشہء دل میں انسانیت کہلاتا ہے۔اس سے پہلے روکھی سوکھی عبادت کرتے تھےاللہ تک کسی کی بات نہیں پہنچتی تھی آدم صفی اللہ کے آنے سے عام انسان کا تعلق بھی اللہ سے جڑ گیا۔
دل کےآئینےمیں ہے تصویر یار ۔۔۔ ۔۔جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
آدم صفی اللہ کے بعد جب ابراہیم خلیل اللہ آئے تو لطیفہ روح کا علم آ گیااورعابدوں کی معراج ہو گئی اس سے پہلے تو صرف آواز اوپر جاتی تھی پہلے ملکوت تک رسائی ہوئی تھی آدم صفی اللہ کے ذریعےاب جبروت اور بیت المامور تک رسائی ہو گئی۔پھراسکےبعد موسی کلیم اللہ آگئے۔ پھر عیسی روح اللہ آگئے اور پھر محمد رسول اللہ آ گئے اورمحمد رسول اللہ کے قدموں کے طفیل انسان دیدار الہی تک پہنچ گیا۔اور دیدار الہی تک پہنچنے کے بعد اب انسان کیسا ہو گیا کہ
گفتہ او گفتہ اللہ بود ۔۔۔۔۔۔۔گرچہ از حلقو م عبداللہ بود
یعنی گفتگو اس بندے کی ہے لیکن یوں سمجھو کہ وہ گفتگو اللہ کی ہے ۔گرچہ یہ بات الگ ہے کہ آواز بندے کے حلق سے آ رہی ہےلیکن بول اللہ ہی رہا ہےیہ مرتبہ حاصل ہو گیا ۔پھر یہ مرتبہ بھی حاصل ہو گیا کہ اللہ نے فرمایا کہ جب کوئی میرے قرب میں چلا جاتا ہے تو میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، چلے تو اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے ،اور دیکھے تو اس کی آنکھ بن جاتا ہوں۔اب یہ ہے حضرت انسان جس کو رب نے اتنا قریب کر لیاکہ جب وہ بولے توآپ کو پتہ ہی نا چلے کہ کون بول رہا ہے ۔جب وہ چلے تو تجھے پتہ ہی نا چلے کہ تیرے پاس چل کے آیا کون ہے ۔جب وہ پکڑ لے تھے تو تجھے پتہ ہی نا چلے کہ تیرے ہاتھ پر گرفت کس کی ہے ۔یہ مقام و مرتبہ مل گیا اور یہ کب ملا جب انسان بیدار ہوا ،انسانیت بیدار ہوئی تو ربوبیت کو فروغ حاصل ہوا۔یہ باطنی علم کے ذریعے مقام ملا۔

امام مہدی کا دنیا میں آنے کا مقصد:

اب جوبرگزیدہ مرسلین کو اللہ نے یہ تعلیم عطا فرمائی تھی آہستہ آہستہ تمام مذاہب میں وہ تعلیم اب معدوم ہو تی گئی اب دوبارہ آدم صفی اللہ کی اولاد اُس نہج پہ آگئی ہے جہاں پر تیرا ہزار نو سو نناوے آدموں کی نسلیں آگئیں تھیں جنکا باطن سیاہ تھا، جنکی عبادت رب تک نہیں پہنچتی تھی۔اب دوبارہ تم وہیں آ کر کھڑے ہو گئے ہو۔اللہ نے یہ چاہا ہے کہ انسانیت کو دوبارہ بیدار کیا جائے۔
امام مہدی کے آنے کا مقصد یہ ہے کہ انسانیت بیدار ہو وہ انسانیت جو رب سے ہمکلام ہو سکتی ہے ۔وہ آنکھیں جو رب کو دیکھ سکتی ہیں ،وہ سینہ جو رب سے پیار کر سکتا ہے، وہ انسانیت بیدار ہو جائے اُس علم کے ذریعے جو آدم و ابراہیم،موسی و عیسی اور محمدؐ کو دیا ۔امام مہدی کا مقصد اسلام ،عیسایت ،یہودیت پھیلانا نہیں ہے انسانیت کا فروغ ہے ۔انسانوں میں انسانیت کا نشان پھر سے بیدار کرنا ہے جیسے ساڑھے چھ ہزار سال پہلے اپنے خلیفہ کو بھیج کے کیا تھا۔پہلے ایک مذہب کے لیئے بیدار ہوئی تھی انسانیت اب پوری انسانیت میں انسانیت بیدار ہو جائے یہ امام مہدی کے آنے کا مقصد ہے ۔سارے مذاہب میں اب وہ تعلیم اب معدوم ہو گئی ہے تیرا ہزار نو سو نناوے آدموں جیسی حالت ہو گئی ہے اب فرشتوں نے جو اعتراض کیا تھا وہ بھی اب جائز ہو گیا ہے کیونکہ پھر سے انسان ویسی ہی قتل و غارت کر رہا ہے جیسا کہ تیرا ہزار نو سو ننانوے آدموں کی نسلوں نے کی۔آج ضرورت ہے کہ وہ انسانیت بیدار کی جائے کہ جس سے انسان رب سے متصل ہو جائے۔اتحاد باالہی قائم ہو جائے۔آدم صفی اللہ سے پہلے جو انسانیت کا حال تھا وہ ایسا تھا کہ فرشتے بیزار تھےکہ یہ پھر قتل و غارت کرے گا تو اللہ نے انکو کہا کہ میں اب خاص علم دے کر بھیج رہا ہوں اب ان میں انسانی صفات ہوں گی تو پھر وہ سلسلہ شروع ہوا۔ ایک نئے طرح کے انبیا اور مرسلین کا جس سے انسان کے اندر انسانیت بیدار ہوئی صرف آدمیت نا رہی انسانیت بیدار ہوئی اور رب سے واصل ہو گیا ۔آج ان تمام مذاہب میں جن میں وہ عظمت کا علم آیا تھا ان میں وہ علم معدوم ہو گیا ہے تو انسان پھر ویسا ہی ہو گیا چاہے وہ مسلمان ہو ،یہودی ہو عیسائی ہو ۔عظمت نہیں ہے تو اب کوئی فائدہ نہیں ہے اگر عیسائی یہ کہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں یا ہندو یہ کہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں جو مرضی آئے مذہب اختیار کر لو وہی حال ہے جو تیرا ہزار نوسوننانوے آدموں اور ان کی نسلوں کا تھا ۔انسانیت کو بیدار کرنا ضروری ہے جسطرح آدم صفی اللہ کے ذریعے کیا تھا اسلیئےان کو خلیفہ اللہ کہاگیااور امام مہدی کو بھی خلیفہ اللہ کہا جاتا ہے۔آدم صفی اللہ پہلے اور امام مہدی آخری خلیفہ ہیں۔

متعلقہ پوسٹس