کیٹیگری: مضامین

کتابچہ ’’ذات محمد ﷺ امام مہدی گوھر شاہی کی نظر میں‘‘ کا مطالعہ فرمائیں

عوام الناس کی فلاح اور روحانی مدد کی خاطر محمد ﷺ کی ظاہری اور باطنی شخصیت کے تعارف وپہچان ، اسرار و رموزپر جامع و مفصل مواد کے لئے کتابچہ ’’ذات محمد ﷺ امام مہدی گوہر شاہی کی نظر میں‘‘ کا مطالعہ فرمائیں
از قلم، سیدی یونس الگوہر نمائندہ امام مہدی علیہ السلام

 

 

بارہ ربیع الاول عید میلاد النبی

اور عید میلاد المحمدﷺ

عید میلاد النبی یعنی آپ ﷺکی ولادت جو کے بارہ ربیع الاول کو ہوئی تھی لیکن اب یہ آمد دو مرتبہ ہو گئی۔ بارہ ربیع الاول کو وہ ارضی ارواح اِس زمین پر تشریف فرما ہوئیں تھیں، اُس کے بعد یہ آمد25 نومبر 1941 کو ہوئی تو یہ عید میلاد النبی دو مرتبہ ہو گیا۔ لیکن دونوں کو عید میلاد النبی نہیں کہہ سکتے پہلی مرتبہ کو کہیں گے عید میلاد النبی اور دوسری مرتبہ آنے کو عید میلادالمحمد کہیں گے ۔ اگر امام مہدی علیہ اسلام کی آمد کو بھی عید میلاد النبی کہیں تو لوگ نبوت کے دعوے کا فتویٰ لگا دیں گے۔
عید میلاد النبی اور عید میلاد المحمدﷺ دراصل ان ارضی ارواح کا اس دنیا میں آنے کی خوشیاں منانا یعنی عید ہے اور عام لوگوں کے لیے تحفہ ہے۔ یہ ارضی ارواح 12 ربیع الاول کو بھی تشریف لائیں تھیں ہمیں اُس کی بھی خوشی ہے اور یہ ہی ارضی ارواح 25 نومبرکو دوبارہ تشریف لائیں ہم اُس کی بھی خوشی مناتے ہیں، ہماری خوشی ڈبل ہو گئی ہے، ان ارضی ارواح کے دو مرتبہ آنے کا ثبوت حجر اسود میں تصویر کی صورت موجود ہے۔قرآن پاک میں ہے

وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ
سورۃ الضحی آیت نمبر 4
ترجمہ:یا رسول اللہ آپ کا دوسرا دور آپ کے پہلے دور سے افضل ہو گا۔

دوسرے دور کی کیا خصوصیت ہو گی جو اس کو افضل کہا!
مولوی حضرات کہتے ہیں کے پہلا دور سے مراد مکے کا دور اور دوسرے دور سے مرادمدینہ کا دور ہے اور وہ افضل ہے۔ ہم کہتے ہیں کے صحابہ میں دو گروپ پائے جاتے ہیں ایک کو اصحاب کبار کہا جاتاہے اور دوسرے کو اصحاب صغار کہتے ہیں مرتبے میں وہ صحابی بڑے ہیں جو مکے میں ایمان لائے بہ نسبت ان صحابی کے جو مدینہ میں ایمان لائے۔صحابیوں کے لیے مکہ کا دور افضل ہے تو حضور کے لیے مدینہ کا دور کیسے افضل ہو گیا؟
مکہ میں حضور پاک کو شدت کا تنگ کیا گیا، تکالیف پہنچائی گئیں۔ مدینے میں تو اسلام کو چار چاند لگ گئے تھے، ہر چیز کی فراوانی ہو گئی تھی، مدینہ میں آرمی بنائی اور مکہ کو فتح کیا، آلام، مصائب اور آزمائش کا دور تو مکہ میں تھا جہاں آپ ﷺ نے اسلام کا سنگ بنیاد رکھا، دین کی تبلیغ شروع کی جہاں آپ کے ماننے والوں کے جسموں کو گرم سریوں سے داغا گیا ہے۔ لوگ جانوروں کی اوجھڑی آپ پر ڈال دیتے تھے، خانہ کعبہ کی زمین پر گھسیٹتے تھے ۔یہ وہ ہی دور ہے جب طائف کے مقام پر کافروں نے پتھر مار مار کر اتنا لہو لہان کر دیا کہ آپ ﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے، پاگل کتے آپ کے پیچھے چھوڑ دیے گئے۔ اُس دور کو مولوی کہتے ہیں وہ افضل نہیں ہے اور مدینے کے دور کو افضل قرار دیتے ہیں جب آسائشیں مل گئیں تھیں۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے مولویوں کی اپنی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں لیکن اب ان مولویوں کاتختہ الٹنے کی باری آگئی ہے۔
وحی کے ذریعے جو بات آتی ہے وہ خاص اہمیت رکھتی ہے اور اگر مولوی بضد ہیں کے مدینے کا دور افضل ہے تو ہم کہیں گے مکہ کا دور افضل ہے اور اس کی دلیل کے لیے یہ آیت پیش کریں گے کہ اللہ نے کہا

’’اُس نے اپنی محبت کے ساتھ بلا اور مصیبت کو نتھی کیا ہوا ہے‘‘

اور بلا اور مصیبت تو مکہ کے دور میں آئی مدینے میں تو نہیں آئی، لہذا جہاں بلا اور مصیبت زیادہ آئی وہ جگہ اللہ کی زیادہ محبت کادور کہلائے گا، ملائوں کے فارمولے سے بھی اگر دیکھیں تو مکہ کا دور زیادہ افضل ثابت ہوتا ہے۔ تو ابوَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ کی روشنی میں کس دور کی بات بیان کی جا رہی ہے ؟ یہ اِس دور کی بات ہو رہی ہے جب ارضی ارواح محمد، امام مہدی علیہ السلام کا جسم بنائیں گی اور وہ ہم شکل مصطفیٰ ہوں گے۔

امام حسن کا اُوپر کا آدھا وجود حضور سے مشابہہ تھا، امام حسین کا نچلا دھڑ حضور کے مشابہہ تھا اور امام مہدی علیہ اسلام ہُو بَہو ہم شکل مصطفیٰ ہیں۔جنہوں نے حضور کو دیکھا ہے وہ سرکار گوہر شاہی کو دیکھ کر قدموں میں گر جائیں گے۔

 

متعلقہ پوسٹس