کیٹیگری: مضامین

قرآن کی نظرمیں حضورؐ کی شخصیت کےپہلو:

اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں جابجا مختلف اندازمیں حضورؐکی شخصیت کے پہلو پرتبصرہ کیا ہے۔ اللہ تعالی نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہےکہ

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
سورۃ الأنبیاء آیت نمبر107
ترجمہ: یارسول اللہؐ! ہم نےآپ کوتمام عالمین کیلئےرحمت بناکرکےبھیجا۔

مندرجہ بالاآیت کی روشنی میں یہ معلوم ہواکہ حضورؐدنیامیں آنےسےپہلےہی سراپا رحمت ہیں کیونکہ حضورؐ کواللہ تعالی نےتیار کرکےبھیجاہے۔ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ کہ تمام عالمین کیلئےحضورؐ کی ہستی رحمت ہے۔ دنیا میں جب آئےہیں توحضورؐبطورِرحمت آئےہیں۔اگرآپ اُن کوبشرکہہ دیں تویہ بہت بڑی گستاخی ہے۔ یہ اللہ کااندازِ گفتگو ہے۔ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ سوائے اس کےکہ آپؐ کی ذات سَرسےپاؤں تک رحمت ہے۔ حضورؐکاایک منصب تویہ ہےکہ اللہ نےتمام عالمین کیلئےاُن کودنیا میں رحمت بناکرمبعوث کیاہے۔ پھرآپؐ کاایک وصف یہ ہےکہ اللہ تعالی آپؐ کےکردارکے بارےمیں گفتگوفرماتاہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہےکہ

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
سورۃ القلم آیت نمبر4
ترجمہ: اورآپ بلندترین اخلاق کےمالک ہیں۔

اس آیت میں اللہ نےحضورؐکوبراہِ راست مخاطب کرکےگفتگوفرمائی۔ کوئی یہ سمجھےگاکہ حضورؐکاجوکردار، رویہ، طرزِ عمل اورطرزِ گفتگوانسانوں کےساتھ بڑااچھاہے لیکن ہمیں حضورؐ نے فرمایاکہ ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبروں کوکھڑاکیااورتمام انبیاء، مرسلین کومختلف ذریعوں سےآزمایااورآزمانےکےبعد دیکھاکہ کوئی بے صبرا ہوااور کوئی بے قدراہوالیکن حضورؐایک جگہ آرام سےتنہاکھڑے ہیں اوراللہ تعالی نےان کوکچھ عطانہیں کیا۔ جن کوعطاکیاتھا تو کسی نےشکوہ کیاکہ تھوڑاہےاور کسی نے کہاکہ مجھے یہ نہیں دیااُس کو دے دیااورحضورؐ کو کچھ نہیں دیا۔ حضورؐپھربھی خاموش ہیں اوراللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہیں۔ اس بات پراللہ نےحضورؐکو فرمایاتھاکہ إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ کہ آپ کوکچھ بھی نہیں دیالیکن پھربھی آپ کارویہ میرے ساتھ بہت دلبرانہ ہے۔ یہ عظیم ترین کردارکی بات ہے۔ جب اللہ تعالی کے ساتھ آپؐ کایہ کردارہوگاتوآپ اندازہ لگائیں کہ دنیا میں آنے کے بعد کیساہوگا لیکن حضورؐ کےکردارمیں ایک پیغام بھی ہے کہ جس اُمت کویہ خوش قسمتی عطاکی گئی کہ اُن کےنبی کانام محمدالرسول اللہ ہے، وہ اپنےمحبوب ترین نبی کےاخلاق میں رنگ جائیں اوراپناکردارحضورؐکےکردارپرایساڈھالیں کہ وہ انسان کیلئےایک سراپا سنت بن جائے لیکن مسلمانوں کےپاس یہ عقل کہاں ہےکیونکہ گالیاں دینا، جھوٹ بولنااورایک دوسرے کی تذلیل کرنا ہی رہ گیاہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن میں حضورؐکی ذات میں اللہ نےجو کمالات رکھے ہیں وہ کمالات ایک ظاہری نمونے کی طرح ہیں کہ یہاں تک ایک عام انسان کوپہنچنا ہے۔

حضورؐکےنوراوربشرہونےکاعقدہ:

مسلمان قوم اسی معمےمیں اُلجھی ہوئی ہے کیونکہ کوئی کہتاہےکہ حضورؐنورہیں اورکوئی کہتا ہےکہ حضورؐبشرہیں جبکہ باطنی علوم کوحاصل کرنے کےبعد سیدناامام مہدی سرکارگوھرشاہی کی زبانی ہمیں یہ پتہ چلاکہ جب تیراقلب اللہ اللہ کرنا شروع کردےاورنس نس میں اللہ کانورپہنچناشروع ہوجائے توجب پورے وجود میں نس نس میں اللہ کا نورپہنچ جائےگا توتم پھرمقامِ نورپرفائز ہوجاؤ گے اور
تم نوربن جاؤگے۔ اب باطنی تعلیم کی روشنی میں ایک عام انسان کوباطنی علوم کےزریعےپہلےہی درجےمیں یہ مقام حاصل ہوجاتاہےکہ وہ انسان سے ترقی کرکےنوربن جاتاہےتوحضورنبی کریمؐ کے بارےمیں اگریہ کہاجائےکہ وہ اللہ کانورہیں تواس کومان لیناکتنادشوارکام ہوسکتاہے! لیکن اس دورمیں جبکہ باطنی علم ناپید ہےاوراس دورکےعلماء اپنےذہن سےجولفظ قرآن میں دیکھتے ہیں اُس کامن گھڑت ایک معنٰی بناکرلوگوں کےسامنےپیش کردیتےہیں جبکہ باطنی علم یہ کہتاہےکہ ایک عام انسان باطنی علم کےزریعےپہلےہی درجےمیں انسان سےترقی کرکےنوربن جاتاہے۔ پھررب کےمحبوب کیلئے یہ مان لیناکہ وہ اللہ کانورہیں تویہ بہت دشواربات ہے! اس میں پیغام ہےکہ تم بھی نوربن سکتے ہو۔

شجرۃ النورکیاہے؟

سدرۃ المنتہی میں ایک نوری درخت ہےجسے شجرۃ النورکہا جاتاہے۔ ہم شجرۃ النورکےبارےمیں سوچتےتھےکہ یہ کیاہے! جس دن سوچاتواُسی دن رات کوخواب میں دیکھا کہ باطن میں ہمارےاندر کی چیزیں اوپرچلی گئیں۔ وہاں پرایک مقام سدرۃ المنتہی پرایک درخت ہے۔ اُس درخت کے ہرپتے پرجابجامختلف اسمائےگرامی لکھےہوئےہیں اوراُن ناموں سےمختلف قسم کانوربھی برآمد ہوتاہے۔ وہاں جبرائیل امین بھی ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نےکہاکہ یہاں کھڑےہوجائیں۔ جب وہاں کھڑےہوئے توکئی پتےہلےاوراُن پتوں سےچھوٹےچھوٹےبیج گِرناشروع ہوگئے پھرانہوں نےکہاکہ یہ شجرۃ النور ہے اوریہ نورکا درخت ہے۔

آدم صفی اللہ کی اولاد میں جومقتدرمرسلین آئےہیں اُن سب کوشجرۃ النورکی مانند جودرخت ہوتاہے وہاں کےمختلف نورکےبیج سےسارےمقتدرمرسلین کاوجودبناہے۔

اسی لئےاحادیث میں آیاہےکہ انبیائےکرام کاجوجسم ہےاُس پرمٹی حرام ہےکیونکہ وہ اپنی قبروں میں بھی زندہ ہیں۔ یہ استعاراً کہاجاتاہےکہ انبیاءکے اجسام کووہاں کی مٹی سے بنایاگیاہے۔ اس سےمرادیہ نہیں ہےکہ وہاں کی مٹی سےبنایاگیاہے بلکہ اس سےمرادیہ ہےکہ وہاں جونورکارسوب ہےاُس سے بنایا گیاہے، آبِ منی کا عمل دخل نہیں ہے۔
پہلی مرتبہ سرکارگوھرشاہی کی بارگاہ سےجب ہم نےیہ سناکہ حضورپاکؐ کی جو والدہ ماجدہ بی بی آمنہؓ تھیں وہ حضورؐکی ولادت سےپہلےجبرئیلِ امین اُن کےپاس آئےتھےاوردودھ جیسے ایک سفید مادے میں کچھ گھول کراُن کوپلایا۔ اُس کوجب اُنہوں نےپی لیاتوبی بی آمنہؓ حاملہ ہوگئیں۔ جبرئیلؑ نے جوسفید مادےمیں گھول کرپلایا وہ شجرۃ النورکابیج تھا اُس سےبی بی آمنہؓ حاملہ ہوگئیں۔

شجرة النور کا نوری بیج اور مختلف اسماء کے راز:

سدرۃ المنتہی پرجودرخت تھااُس درخت میں دوقسم کی شاخیں تھی۔ ایک شاخ ایسی تھی جس سےوہ بیج گِرتےتھےاورجس سے جسم بنائے جائیں۔ ایک بڑی شاخ تھی وہ ایسی شاخ تھی جس میں ایسےبیج تھےکہ جن سےاسم عطاکیا جائے۔ جس کوبھی وہ اسم عطاکیاجیسےداؤدؑکو یاودود کااسم عطاہوا، عیسیؑ کویاقدوس کااسم عطاہوا، موسٰیؑ کویارحمٰن کااسم عطاہوا۔ جن کویہ اسم عطاہوئےہیں اُسی درخت سے یہ اسم عطاہوتےہیں اورجن کواسم عطاہونا ہوتاہےتوانہیں کوشجرۃ النور کادوسرابیج بھی عطاہوتاہے۔ وہاں پرایک کلمےکادرخت ہے۔ لا اله الا الله کاایک کلمہ ہےاوراُس کلمے کابھی ایک بیج ہوتاہےاورآدم صفی اللہ کوبھی وہ بیج کھلایا گیاتھا، ابراہیم خلیل اللہ کوبھی وہ بیج کھلایا گیا۔ اسی کی وجہ سےاِن تمام مرسلین کےکلمےایک جیسے ہیں۔
لا اله الا الله آدم صفی اللہ
لا اله الا الله ابراہیم خلیل اللہ
لا اله الا الله موسیٰ کلیم اللہ
لا اله الا الله عیسیٰ روح اللہ
لا اله الا الله محمد الرسول اللہ
کیونکہ بیج وہی ہے۔ جوکلمےکادوسراحصہ ہےیہ تغیرآمیزہےکیونکہ یہ کلمےکاحصہ نہیں ہے۔ جو اصل کلمہ ہےوہ یہیں تک ہےلا اله الا الله تک اصل کلمہ ختم ہوگیااورآگے جواس کلمےکولے جائے گااُس کاساتھ نام لگ جاتاہے۔ آدمؑ لےکرگئےتولا اله الا الله کےساتھ آدم صفی اللہ لگ گیا۔ ابراہیمؑ لے کر گئےتوکلمہ لا اله الا الله وہی تھاتوکلمےمیں تغیرکدھر آیا۔ جب ابراہیمؑ لےکرگئےتوابراہیم خلیل اللہ لگایا۔ پھرموسٰیؑ کووہ کلمہ دیاتوموسٰی کلیم اللہ اورعیسٰی روح اللہ اورمحمد الرسول اللہ۔ یہ مرسلین کوعطا ہوتا ہےلیکن انبیاءکونہیں۔ انبیاءکوکوئی ایسی خاص چیزعطانہیں ہوتی۔ انبیاء کیلئےکم ازکم یہ لازم ہے کہ اُن کاقلب جاری ہوکیونکہ قلب جاری ہواورنفس پاک ہوتاکہ جواوپرسےصحیفہ اُترےوہ قلب کےاوپر آجائیں لیکن مرسلین کیلئےبہت سارے لوازمات ہیں کیونکہ مرسلین کےاندربھی کچھ مرسل ہیں اورکچھ اولوالعزم مرسل ہیں۔ جواولوالعزم مرسل ہیں اُس کےاندرآدم صفی اللہ، ابراہیم خلیل اللہ، عیسٰی روح اللہ اورپھرمحمد الرسول اللہ۔ یہ توکہاجاتاہےکہ موسٰیؑ بھی اولوالعزم مرسل ہیں لیکن وہ کہاجاتا ہے۔ اب دو طرح کےلوگ ہوگئے۔ ایک تووہ ہوگئےکہ جن کویہ کہاکہ آنکھیں بندکرواورپڑھواللہ ھو۔ ایک وہ ہوگئے کہ جن کااللہ ھوچلادیااورپھرکسی دن بڑاپیارآیاتواُن کوسدرۃ المنتھی لےگئےاورپھراُن کو اللہ ھوکابیج کھلادیا۔

شجرۃ النور میں اسمِ ذات کا حصہ:

نبی پاکؐ کواللہ تعالی نےشجرۃ النور میں ایک حصہ اسمِ ذات کابیج دیا۔ وہاں اسمِ ذات کےدودرخت تھے۔ ایک تووہ درخت جس کابیج نبی پاکؐ کوعطاہوااورپھرکہاکہ اسمِ ذات کابیج پھیلائیں جس کو دینا ہے۔ پھرہم کہتےہیں کہ اسمِ ذات کی کنجی غوث پاکؓ کےپاس آگئی تو کنجی کایہ مطلب ہےکہ تمہاری اُس درخت تک رسائی کہ وہاں سے بیج لاکرلوگوں کوعطاکریں۔ پھرایک دن یہ ہوا کہ اُدھرجو”الرٰ” کادرخت تھااُس کی کنجی سرکارگوھرشاہی نےہم کودےدی۔ حضورنبی پاکؐ کی ملکیت میں اسمِ ذات کاپورادرخت آیا۔ اُس کےبرابرمیں ایک اوردرخت تھااوروہ بھی اسمِ ذات کاہی درخت تھا۔ اُس کے اوپر لکھاہواتھاکہ یہ امام مہدی کی ملکیت ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ ایک درخت پوری دنیاکیلئے دیا گیا اور ساڑھے چودہ سوسال سےوہی بٹ رہاہے۔ جودوسرادرخت ہےوہ صرف امام مہدی کیلئےرکھا گیا۔ دونوں درختوں کےجوپھل ہیں اُن کےذائقےمیں بہت فرق ہے۔ جوامام مہدی والا دوسرادرخت تھا یہ اتنا سنہری ہوگیا کہ اس کی زردی بڑھتےبڑھتےسرخی مائل ہوگئی یعنی عنابی ہوگئی۔ اگراُس کو رقیق کریں توسنہری ہوجائےاوراپنی اصل حالت میں لائیں توعنابی ہوجائے۔ جیسےغوث پاکؓ تمام ولیوں کے سردارتھےاوراسمِ ذات کی کنجی اِن کےپاس تھی توانہوں نےہی سارے سلسلوں کواسمِ ذات دیناتھا۔ انہوں نےیہ کیاکہ ایک بیج لیااوراپنے سلسلہ قادریہ میں پورااسمِ ذات کاایک بیج رکھا۔ چشتیہ سلسلے کوآدھابیج کاٹ کردیااورپھرنقش بندیہ کوآدھے کابھی آدھادیا۔ اُس بیج کےچھوٹےچھوٹےحصے کرکے پھرانہوں نےتمام سلاسل میں بانٹ دیے۔ اس سےفرق یہ پڑاکہ جس کوپورااسمِ ذات کابیج دیاتھا اُس کی کارکردگی زیادہ مضبوط ہوگئی اورجوچشتیہ سلسلہ تھااُس کوآدھابیج دیاتھااوراسمِ ذات توتھا لیکن اُس کی قوت کم تھی۔ پھرنقش بندیوں کودیااوروہ اُسی میں ہی خوش ہیں کہ دل پراسمِ ذات لکھاہوتا ہے۔ مختلف سلاسل میں اسمِ ذات گئےہیں لیکن اُس کی جوطاقت ہےوہ طاقت مختلف ہوگئی۔ غوثِ اعظم کاجواپناسلسلہ تھاجن کواُنہوں نےخودچلایایعنی قادری المنتہی تواُس میں پورےبیج کافیض تھا۔ اُس کے بعد جوآگےسلسلےنکلےہیں یعنی قادری سروری ہےاورقادری زاہدی ہےتوانہوں نےزیادہ محنتیں کی۔ حبسِ دم کرایااورزہدوتقوٰی اختیارکرایاکیونکہ بیج پورانہیں تھاتوباہرسےبھی مدد چاہیئےتھی۔ جس کو پورا بیج دیاتواُس کوکہاکہ تم جومرضی آئےکرمیرا ہاتھ بہت بڑاہے۔

اسمِ ذات اللہ کی خصوصیت اور مختلف ادوار میں تقسیم:

سرکارسیدنا گوھرشاہی نے کتاب مقدس دینِ الہی میں رقم فرمایا ہے کہ

جس کااسمِ ذات اللہ دل سےنکل کرروح کی طرف پہنچ گیاہےیاپہنچنےوالاہےتووہ دینِ الہی میں شامل ہے اورایک دن روشن ضمیر بن ہی جائےگا

پھرسرکارگوھرشاہی نےفرمایاکہ انہی کیلئےاللہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایاہےکہ

لاخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر62

باطن کےقوانین کےمطابق تویہ مؤمن ہیں توسرکارگوھرشاہی نےجوفرمایاتواُس سےتویہ ثابت ہورہا ہےکہ یہ مؤمن نہیں ہےبلکہ ولی بن گیاہے۔ وہ ولی اس لئےبن گیاکیونکہ سرکارگوھرشاہی نےجواسم لوگوں کودیاہےاورجوایک ایک بندےکواسم دیاہےوہ ایک ایک بیج ہے۔ غوثِ اعظمؓ والےاسمِ ذات کا ایک بیج پوراسلسلہ قادریہ کیلئےہےاوریہاں سیدناگوھرشاہی کی کیاعطاہے۔ اگرغوث پاک کادورہوتااور تم اس دورکےہوتےاورغوث اعظم تمہاراذکرجاری کرتےاوروہ ذکردوسیکنڈبعد بندہوجاتا۔ اِس دورمیں ذکرکاچلتےرہناضروری ہےتواس لئےایک پورابیج ہو۔ سرکارگوھرشاہی وہ پوراایک بیج ایک ایک بندے کوعطافرمارہےہیں جس ایک بیج پرپورےسلسلےآٹھ سوسال تک چلےہیں۔ جب وہ ایک بیج ہوگا توپھروہ یقیناًاُس کودینِ الہی میں دھکیل کرلےجائےگاکیونکہ اُس میں کتنی طاقت ہےاورتم کچھ بھی نہ کروتوروشن ضمیربن ہی جاؤگے۔ گنہگاروں کیلئےسرکارگوھرشاہی نےاللہ کا نام لےکرکہا کہ اللہ تعالی نےگنہگاروں کیلئےیہ نعم البدل بنایاہے کہ چلّےمجاہدےاورریاضتیں اُن سےنہیں ہوسکتی ہیں تواُن کا نعم البدل یہ اسمِ ذات ہے۔ جب یہ دل میں داخل ہوگیاتوبھلےکوئی عبادت اورطہارت نہیں بھی تھی تو یہ بیج والانہیں جائےگابلکہ یہ اس اسمِ ذات کیلئےتھا۔ جسطرح اللہ ہرشےپرقادرہےاسی طرح اُس کاجو پورے بیج والانام اسمِ اللہ ہےیہ بھی ہرشےپرقادرہے۔ تم صفاتی ناموں میں لگ جاؤاورجب گناہ کرو گے تووہ صفاتی ذکر بندہوجائےگا۔ جب پورےبیج والااسمِ ذات آگیاتوپھرتم جتنےمرضی گناہ کرلویہ نہیں بھاگےگا بلکہ یہ گناہوں کوجلاکررکھےگااوریہ گناہوں کوختم کردےگا۔ جس طرح اللہ کی ذات ہرشےپر قادرہےاسی طرح اللہ کانام پورےبیج والااسمِ ذات بھی ہرشےپرقادرہے۔ نبی پاکؐ نےوہ بیج آدھااپنے پاس رکھااور آدھابیج مولاعلی کودےدیا۔ جواپنےپاس رکھااُس میں سےہی انہوں نےآگےاہلِ بیت میں یعنی آلِ رسول میں باطنی طورپرچلایا۔ پھروہ مولاعلی کودےدیااوروہ مولا علی سےآگے بڑھتا رہا۔ پھرغوثِ اعظمؓ نے پوراایک بیج الگ سےعطاکیاکہ انہوں نے800 سال تک فقر کی خدمت کرنی ہے۔ غوثِ اعظمؓ کی ذات خود توبہت بڑی ہےلیکن جس چورکوکتب بنایاتھاوہ اسمِ ذات نہیں دے سکتاتھااورنہ اُس کےاپنےپاس تھا۔ اب سیدنا امام مہدی گوھرشاہی نےوہ ہزاروں لاکھوں بیج اُٹھاکرفضا میں چھوڑ دیے۔جب حضورنبی پاکؐ کےپاس وہ بیج آگیااورآپؐ نےصرف وہ بیج نوصحابہ کرام کوعطا کیا۔

وسیلہ اور اسکی باطنی حقیقت کیا ہے؟

آج اُمت کایہ حال ہےکہ اُمت کویہ نہیں پتہ کہ حضورؐکاوسیلہ کیسےتلاش کرتےہیں۔ جب دعامانگتے ہیں توکہتےہیں کہ حضورؐکےوسیلےسےدعامانگ رہاہوں لیکن یہ عملی وسیلہ تونہیں ہے۔ اگر حضورؐ کا وسیلہ بھی زبانی استعمال ہورہا ہے تو زبان سےکہنے کی رسائی تواللہ کےلفظ کو بھی زبان سے استعمال کیا جاسکتاہےتوپھروسیلےکی کیاضرورت ہے! یہ وسیلہ نہیں ہوتاہے۔ وسیلےکامطلب ہےکہ جس کاوسیلہ تلاش کرناہےاُس کی ذات تک رسائی ہوجائے۔ محمدالرسول اللہ کاوسیلہ تب استعمال ہوگا جب تمہاری رسائی محمد الرسول اللہ تک ہوجائے گی۔ اگرتمہاری رسائی نہیں ہےتوتم ایسےہی بول رہےہوکیونکہ تم توصرف زبانی کہہ ہی رہےہو۔ یہ ایسےہی ہےجیسےآپ نےیہاں سےدوسری چھت تک چڑھنا ہواورآپ کہیں کہ میں سیڑھی کےوسیلےسےچڑھتاہوں لیکن سیڑھی کہاں ہےکیونکہ سیڑھی تونہیں ہے۔ اگرآپ کےپاس سیڑھی نہ ہواورصرف زبان سےکہیں کہ میں سیڑھی کےوسیلے سےاوپر چڑھتاہوں توکہنےمیں توآپ نےکہہ دیالیکن سیڑھی نہیں ہےتووہ زبانی جمع خرچ کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ چھت پرسیڑھی کےزریعےچڑھتےہیں لیکن اگرسیڑھی نہیں ہےتوپھرکیسےچڑھو گے۔ اسی طریقےسےحضورؐکاوسیلہ تمہیں تب حاصل ہوگاجب تم حضورؐکی ذات تک رسائی حاصل کرلوگےاور حضورؐکی ذات تک پہنچ جاؤگے۔ بہت سےلوگ ہیں جووسیلےکےتوقائل ہیں لیکن وسیلہ کیا ہوتا ہے اوروسیلہ کیسے حاصل ہوتاہےیہ اُن کونہیں پتہ۔ آپ حضورؐکےوسیلےکی بات کرلیں یامولا علی کے وسیلےکی بات کرلیں تواگریہ صرف زبانی جمع خرچ ہےاورصرف بولنے کی حد تک ہے یعنی نہ آپ کی رسائی مولاعلی تک ہےاورنہ آپ کی رسائی حضورؐکی ذات تک ہےتوپھراُن کاوسیلہ کیسے استعمال ہوگا۔ جیسےشیعوں کاعقیدہ ہےکہ وسیلےکیلئےاہلِ بیت کافی ہے۔ اہلِ بیت وسیلے کیلئے بالکل کافی ہےکیونکہ مولاعلی کاوسیلہ اللہ تک پہنچنےکیلئےکافی ہےاوراس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن کیاتم مولیٰ علی تک پہنچ گئےہو! اگرزبان سےوسیلہ مل جائےگاتوزبان سےاللہ بھی مل سکتاہے اورزبان سےاللہ کہہ دوتووسیلے کی کیاضرورت ہے۔ زبان سےاللہ کہنابھی قابلِ عمل ہےاورزبان سے وسیلہ کہنا بھی قابلِ عمل ہےتوپھراس جھمیلے میں پڑنےکی کیاضرورت ہےسیدھااللہ ہی کہہ دو۔ یہ ایک شہرِغلطاں میں مبتلاہیں کہ ہم توآلِ رسول کےماننےوالےہیں۔ بالکل ٹھیک ہےآلِ رسول کوکون نہیں مانےگا کیونکہ جوآلِ رسول کونہیں مانےگاوہ اسلام میں ہی داخل نہیں ہےلیکن آلِ رسول کازمانہ گزرگیاہے۔ اب آلِ رسول تک پہنچنےکیلئےوسیلہ چاہئیے۔ جب محمدالرسول اللہ اس دنیامیں تھےتوتمہیں اللہ تک پہنچنےکا وسیلہ چاہیئےتھاتومحمدالرسول اللہ کی ذات سےتم اللہ تک پہنچ گئے۔ اب محمدالرسول اللہ اس دنیامیں نہیں ہیں تواُن تک پہنچنے کیلئےبھی وسیلہ چاہیئےکہ کوئی پہلےتمہیں اُن تک پہنچائے اورپھروہ تمہیں رب تک پہنچائیں۔ اگرکوئی سمجھناچاہےتوبات بہت آسان ہے۔ جیسےکہ علامہ اقبال نےکہاتھاکہ
بیاں میں نقطہ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئے

طفل نوری اور توفیق الہی سے فیض:

نبی پاکؐ کاجووسیلہ تلاش کرناہےوہ اُن کی ذات تک پہنچنےکانام ہے۔ اب اُن کی ذات تک پہنچناہرآدمی کےبس کی بات بھی نہیں ہےتومحمدالرسول اللہﷺکیلئےباطنی قانون میں پھریہ چیزرکھی گئی کہ آپ ہر دورمیں کوئی اپنابندہ مقررکریں جن کوآپؐ فنافی الرسول بنائیں اورجس کےاندرآپؐ کاجثہ ہوتوپھرجواُس تک پہنچ جائےوہ آپؐ تک پہنچ گیا۔ مرشدِ کامل وہ ہواجس میں حضورؐکاجثہ مبارک ہوا۔ جس کےمرشد میں حضورؐکاجثہ مبارک تھاتومرشد تک رسائی حضورؐکی ذات تک رسائی کہلائی۔ جن کے مرشد میں اللہ کاجثہ تھاتواُن کامرشد براہِ راست اللہ کی ذات تک خودہی وسیلہ بن گیا۔ وہ مقامِ رسول کوبھی عبورکرگیاکیونکہ جس کووسیلےکےزریعےڈھونڈ رہاتھاوہ زمین پرہی اپنےمرشد کی ذات میں موجود ہےتو اب سفرکرنےکی کیاضرورت ہے۔

نبی کریمؐ نےطفلِ نوری کےزریعےلوگوں کوفیض دیااورلوگوں نے فقراختیارکیااورجثہ توفیقِ الہی کےزریعےلوگوں کوفیض دیا

نبی پاکؐ نےاپنے دور میں صرف دومرید بنائے۔ مولاعلی کوطفلِ نوری کےزریعے فیض دیااوراویس قرنی کوجثہ توفیقِ الہی کےزریعےفیض دیا تواویس قرنیؓ میں عشق آگیا۔ وہ عشق ہی تھاکہ جب اویس قرنیؓ کوپتہ چلاکہ حضورؐکےدودندانِ مبارک شہیدہوگئےہیں توجیسےہی یہ خبرسنی توپتھرلےکراویس قرنیؓ نےاپنے سارےدندان توڑدیےکہ پتہ نہیں حضورؐکاکونسادندانِ مبارک شہید ہواہوگا۔ اویس قرنیؐ نےکہاکہ اب مجھے زیب نہیں دیتاکہ میرے منہ میں دانت رہیں۔ یہ عشق تھا۔ شیعہ برادری کوبھی اس حقیقت کو تسلیم کرناچاہیئے کیونکہ کہانی صرف مولاعلی پرہی ختم نہیں ہوجاتی۔ نبی پاکؐ نےمولاعلی کوایک جُبّہ دیااورکہاکہ جاؤیمن میں میراایک دیوانارہتاہےاُس کوپہنچاکرآؤ۔ انہوں نےپوچھاکہ یارسول اللہ!ہم اُن کوکیسے پہچانیں گےتوآپؐ نےفرمایا کہ اُس کی ہتھیلی پرایک سفید داغ ہے۔ اگرحضورؐاور اویس قرنیؓ نے ایک دوسرےکونہیں دیکھاتھا توحضورؐکوکیسےپتہ چلاکہ اُن کےہاتھ پرایک داغ ہے۔ عشق والاکوئی رابطہ ہوگااورجسمانی ملاقات ہوگئی ہوگی لیکن آپ پاکستان، ہندوستان اوربنگلادیش میں کسی بھی عالم کےپاس چلےجائیں اوراُس سےپوچھیں کہ اویس قرنی کون تھے تووہ کہیں گےکہ اویس قرنی صحابیوں میں شامل نہیں ہیں کیونکہ اُس نےحضورؐکادیدارنہیں کیا۔ اب اُن علماءسے یہ سوال ہے کہ اگرحضورؐکی اویس قرنیؓ سےملاقات نہیں ہوئی توحضورؐکوکیسےپتہ کہ اُس کےہاتھ پرایک سفید داغ ہے۔ جب جسمانی ملاقات ہوئی توتب ہی پتہ چلا۔ اب یہ دو سلسلے چلےآرہےہیں۔

کیاآج بھی کوئی اپنےاندرحضورؐکی ذات کاوصف پیداکرسکتاہے؟

نبی پاکؐ کی ذات سےجوفیوض وبرکات برآمدہوئےہیں وہ قوسِ قزح کی صورت میں برآمدہوئےہیں۔ کبھی فقرکافیض ٹھا ٹھےمارتاسمندرحضورؐکےسینہ مبارک سےنکلا۔ کبھی عشق کی لہریں نکلیں، کبھی آپؐ کےقلب کی تعلیم نکلی ہےاورکبھی آپ کےلطیفہ نفس کی تعلیم نکلی ہے۔ جولطیفہ نفس کی تعلیم تھی اُس سے آپ نےفقرِباکرم کامحکمہ بنالیا، غوث بنادیے، قطب بنادیے،ابراربنادیے، ابدال بنادیے اوراخیاربنادیے۔ لطیفہ نفس کی تعلیم کےزریعے360ولی ہردورمیں آئے۔ دوسری طرف فقرکا محکمہ تھاوہ مستقل نہیں چل سکتاتھاکیونکہ ہوکوئی فقرکےقابل نہیں ہوتاہےتووہ کبھی کبھی آیا۔ جوجثہ توفیقِ الہی والافیض تھا وہ بہت ہی تھوڑاتھوڑاآیا۔

سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کا طریقہ ہائے فیض:

اب پھر یہ مقام آیاہےکہ جہاں پرسیدناامام مہدی گوھرشاہی نےحضورؐکے جتنےبھی طریقہ ہائےفیوض وبرکات تھےاُن کوایک جگہ مجتمع کردیاہے۔ عشق اورفقردونوں کافیض یکساں لوگوں کی طرف سیدنا امام مہدی گوھرشاہی کی بارگاہ سےجارہاہے۔ امام مہدیؑ کی ذات وہ ہے کہ اُن کاذکرکرنا اور حضورؐ کا ذکرکرناایک ہی ہےکیونکہ حضورؐنےفرمایاکہ امام مہدیؑ سرسےلےکرپاؤں تک ہوبہو میری شبیہ پر ہونگے۔ اتنی مماسلت بیان کی گئی ہےکہ ناصرف یہ کہ مشاہبت سر سے لےکر پاؤں تک کی سو فیصد ہوگی بلکہ حدیثوں میں یہاں تک بھی کہاگیاہےکہ اُن کا نام بھی اُنہی کےنام پرہو جائےگا۔ اب ربیع الاول کےحوالےسےحضورؐکا ذکر کریں یامہدیؑ کا ذکر کریں توایک ہی بات ہے۔ نبی پاکؐ کو اگر صرف نورکہہ دیاجائےتویہ حضورؐکی بارگاہ میں توہین ہے کیونکہ نورتووہ مرحلہ ہےجس پرحضورؐ کاایک عام اُمتی ذکرِقلب کےبعدجب نس نس میں نورپہنچ جائےگاتووہ صاحبِ نورہوجائے گا لیکن اُن اُمتیوں کیلئےتف ہےجوحضورؐکی ذات کونورماننےسے قاصرہیں توپھروہ حضورؐسےنور کیسےلیں گے جب حضورؐکونورہی نہیں مانیں گے! جولوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورؐنورنہیں ہیں توکبھی اُن کے ذہن میں یہ خیال آئےگاکہ حضورؐسےنورحاصل کریں۔ اللہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایاہےکہ

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَعَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ
سورۃ الزمرآیت نمبر22
ترجمہ: جب تم نےاپناسینہ پاک کرلیا تواللہ تعالی کی طرف سےتمہارانورجاری ہوجائےگا۔

اسی طرح اللہ تعالی فرمارہاہےکہ فَهُوَعَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ کہ جس کاسینہ پاک ہوجائےگاتواللہ تعالی کی طرف سےوظیفہ نورشروع ہوجائےگااوروہ نورپرگامزن ہوگا اورتمہیں مستقل وظیفہ نورملناشروع ہوجائےگا۔ یہ تمہارےلئےکہاہےکہ تمہاراسینہ کھل جائےتوتمہارےپاس نورکاوظیفہ آنےلگ جائےگا اورتم نوربن جاؤگے لیکن تم اپنےنبی کیلئےنورکاہونامشکوک سمجھتےہوتو یہ کیساایمان ہے؟ اس لئے جن کےعقیدے میں یہ بات آگئی کہ حضورؐنورنہیں ہیں تووہ اس تعلیم سےایسےمحروم ہوئےاوراللہ تعالی کی ایسےعتاب میں آئےکہ اللہ نےاُن سےشعورہی چھین لیا۔ اب وہ علمِ باطن کےہی منکرہوگئے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے7 نومبر2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں بارہ ربیع الاول کے حوالے سے کی گئی براہ راست گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس