کیٹیگری: مضامین

سورة آل عمران میں آیات محکمات اور آیات متشابہات کا ذکر آیا ہے اس آیت کی باطنی تشریح سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اُم الکتاب کیا ہے اور علم لدنی کیا ہے تاکہ اس کی تشریح سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔

اُم الکتاب کسے کہتے ہیں ؟

جتنی بھی کتابیں مختلف مرسلین پر نازل ہوئی ہیں وہ ساری لوح محفوظ میں تھیں جبرائیل امین وہیں سے لے کر آتے ہیں ۔ لوح محفوظ کو ہی اُم الکتاب کہا گیا ہے کیونکہ ساری آسمانی کتب توریت ، زبور، انجیل اور قرآن یہیں سے آئی ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی جو آیات ہیں جو اُم الکتاب کے علاوہ آئیں ہیں وہ کہاں سے آئی ہیں؟ وہ آیات کچھ جثہ طفل نوری اور کچھ جثہ توفیق الہی کی طرف سے آئی ہیں ۔اب جثہ توفیق الہی اللہ کے کسی عاشق یا سلطان الفقراءکے جسم میں ہوتا ہے اور اُس جسم کے ہاتھ پاؤں بھی ہوتے ہیں اور آنکھیں بھی ہوتی ہیں ۔وہ آیتیں جو جثہّ توفیق الہی یا طفل نور ی کی طرف سے آئیں ہیں اُن میں ہاتھوں اور نظروں کا ذکر موجود ہے کیونکہ جو آیتیں بھیج رہا ہے اس کا بھی وجود ہے اور یہ آیات لوح محفوظ سے نہیں آئی ہیں کیونکہ یہ خاص علم کی باتیں ہیں اور لوح محفوظ پر عام علم کی باتیں ہیں ۔

علم لدنی کیا ہے ؟

جو علم وحی الہی کے ذریعے آیا وہ لوح محفوظ سے آیا ہے اور جو علم لدنی ہے وہ لوح محفوظ سے نہیں آیا بلکہ اللہ خود عطا کرتا ہے ۔سوائے قرآن کےکوئی بھی کتاب خواہ وہ توریت ، زبوریا انجیل ہو ایسی نہیں ہے جس میں لوح محفوظ سے آیا علم اور علم لدنی دونوں ملا ہوا ہولیکن قرآن مجید کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہےکہ قرآن مجید میں لوح محفوظ سے آئی ہوئی آیتیں بھی ہیں اور حضورﷺ کو اللہ نے جو علم لدنی عطا فرمایا وہ علم بھی قرآن کا حصّہ بن گیا ۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
سورة آل عمران آیت نمبر 7
ترجمہ : اللہ کی ذات نےجو آپ کے اوپر کتاب نازل فرمائی ہے۔ اُن میں سے کچھ آیات بلکل محکم یعنی صاف صاف ہیں اور وہی آیات ہیں جو لوح محفوظ یعنی اُم الکتاب سے آئی ہیں۔ اور جو باقی آیات ہیں اُن میں کچھ متشابہات ہیں اور وہ لوگ جن کے قلب سکڑ گئے ہیں پھر وہ یہ ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں کہ ان آیتوں میں جو تشبیہ دی گئی ہے وہ کیا ہے ؟ تاکہ قرآن کی ان آیتوں سے کوئی فتنہ ڈھونڈیں اور تلاش میں ہوتے ہیں کہ اُس کی تاویل ملے ۔لیکن اُن کے پاس تاویل یعنی باطنی تفسیر کا علم کہاں ہےوہ تو صرف اللہ کے پاس ہے ۔ اور وہ جن کی روحوں میں علم راسخ ہو گیا۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے ہے لیکن اس سے فیض صرف اُن کو ملے گا جو اولو الالباب ہوں گے ۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ اللہ کی ذات نےجو آپ کے اوپر کتاب نازل فرمائی ہے۔
مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ اُن میں سے کچھ آیات بلکل محکم یعنی صاف صاف ہیں۔
هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ اور وہی آیات ہیں جو لوح محفوظ یعنی اُم الکتاب سے آئی ہیں۔

آیات متشابہات کیا ہیں ؟

وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌاور جو باقی آیات ہیں اُن میں کچھ متشابہات ہیں ۔یعنی ایسی آیات جس میں جسم کی تشبیہ دی گئی ہو وہ متشابہات کہلاتی ہیں ۔جیسے قرآن مجید میں ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ جو مٹی آپ نے پھینکی وہ آپ کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ میرا ہاتھ تھا۔پھر حدیث قدسی بھی ہے کہ جو اللہ کے وصل تک پہنچ جاتا ہے میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، میں اُس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اُس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ۔ تو یہ حدیث قدسی باطنی علم کی باتیں ہیں جبکہ قرآن مجید میں کہا گیا کہ یا رسول اللہ یہ تیرا نہیں بلکہ میرا ہاتھ ہے ۔ اس طرح کی آیات کو ہمارے علماء نے آیات متشابہات کہا ہے جس میں تشبیہ دی گئی ہے لیکن یہی بات حدیث میں خاص علم کے حوالے سے پائی جاتی ہے جو کہ اس بات کی صداقت کو ثابت کرتی ہے کہ جوقرآن میں ہاتھ بن جانے والی بات ہے اس کا بیک گراؤنڈ کوئی شکوک و شبہات پیدا کرنے والی آیت سے نہیں ہے بلکہ اُس کے پیچھے وہ علم لدنی کار فرما ہے جس کے ذریعے انسان میں رب کا بسیرا ہو جاتا ہے ۔اُس علم کی طرف اشارہ ہے جسکے ذریعے رب انسان کے ہاتھوں میں ، اُس کے پیروں میں ، اُس کے سر، اُس کی آنکھوں میں اور اُس کی زبان میں داخل ہو جاتا ہے ۔ ایک تشابہات ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں ظاہری معنی ہوتے ہیں جیسے قرآن میں اللہ نے فرمایا قل انما بشر مثلکم ۔۔ اے محمد کہہ دیجئے ہم نے آپ کو مثالی بشر کی طرح بنایا ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر ایک اصل سونا ہوتا ہے ایک دوسری دھات کا بنا ہوتا ہے اور اس کے اوپر طلائی کروا دیتے ہیں یعنی سونے کا پانی چڑھا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی سونے کا لگتا ہے ۔ لیکن جو اصل سونا ہے وہ تو معناًاوراصلاً سونا ہی ہے ۔ دوسرا جو ظاہراً سونا دکھتا ہے لیکن کسی اور دھات کا بنا ہوا ہے اس کی حقیقت کچھ اور ہے ۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کی بھی حقیقت ہے کہ آ پ کو مثالی بشر کے طور بنا کر بھیجا گیا ہے انسانوں کی طرح ہی نظر آتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ انسانوں کو مٹی سے بنایا گیا ہےاور نبی کریم ﷺ سراپا نور ہیں ۔

حضور ﷺ کے نور اور بشر ہونے کا عقدہ:

ابراہیم ؑ اور اللہ تعالی کی بہت بات چیت ہوتی تھی اور انسانوں کی عادات ، کیفیات اور سوچ کے بارے میں اللہ تعالی ان سے کلام کرتے تھے اور اسی وجہ سے اللہ نے انہیں خلیل اللہ کا لقب عطا کیا ہے ۔ ایک دن ابراہیم ؑ نےاللہ کو کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر انسانوں میں ہی سے کوئی نبی آئے گا تو ہم اُس کی تعظیم نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہمارے جیسا ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کئی دفعہ ملائکہ کو بھیجا ، جس پر لوگوں نے کہا کہ اِن کو کیا پتا کہ انسانوں کا دکھ کیا ہوتاہے نہ ان کے کوئی بیوی بچے تھوڑی ہیں ، اور نہ ہی کام کاج پر جاتے ہیں لہذا انہوں نے جو دین کی چیزیں کر کے دکھائی ہیں وہ ان کیلئے آسان ہے لیکن ہمارے لئے آسان نہیں ہے ۔اس کے بعد ہی اللہ تعالی نے یہ فیصلہ کیا کہ انسانی صورت پر اپنے نور کا جلوہ بھیجا اور لوگوں کو یہی ظاہر کیا کہ انسان ہی ہیں تاکہ اُن کا وہ اعتراض ختم ہو جائے۔اور تشبیہ جسم سے دی کہ انسانوں کی طرح ہیں ، انسانوں کی طرح کھاتے بھی ہیں ۔
کچھ انبیاء ایسے آئے ہیں جن میں اللہ نے نور بھی رکھا ہے اور جنت کی مٹی بھی رکھی لیکن نور اُنہی اجسام میں رکھا جن کو جنت کی مٹی سے بنایا۔آدم صفی اللہ کا جسم جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا لیکن عیسی علیہ السلام اور محمد الرسول اللہ کا جسم تو یہیں بنا ہے پھر اُن میں جنت کی مٹی کہاں سے آئی؟ جب عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تو جبرائیل امین نے دو دفعہ ہاتھ لگایا تھا ، پہلی دفعہ ہاتھ لگا کر روح القدس منتقل کی تھی اور دوسری دفعہ جب ہاتھ لگایا تھا تو اُس ہاتھ میں جنت کی مٹی تھی ۔ جب حضوؐرتشریف لائے تو آپ کی والدہ ماجدہ کو سفید رنگ کا مادہ جس میں شجرة النور کا نوری بیج ڈال کر پلایا گیا تھااُس میں جنت کی مٹی بھی شامل تھی ۔تو وہ جسم جن کو جنت کی مٹی سے بنایا ہے اُن میں نور آ سکتا ہے ۔صرف جنت میں جنت کی مٹی سے نہیں بنایا بلکہ جو دنیا میں پیدا ہوئے اُن میں جنت کی ہی مٹی ڈالی گئی ۔نبی کریم ﷺ کا جوجسم مبارک ہے اس جسم میں بھی جنت کی ہی ارضی ارواح تھیں اور اُس جسم میں شجرة النور کا بیج بھی تھا۔

شجرة النور کے حوالے سےخاص بات:

“حضوؐرکا جو لطیفہ اخفیٰ تھا جسم عالم کا وہ لطیفہ اخفیٰ تھا اُسی عالم کا بیج ان کے اندر ڈالا گیا ۔ جیسے آدم صفی اللہ کو قلب کی نبوت دی تو اُن کے اندر مٹی بھی ملکوت کی ڈالی گئی۔ابراہیم میں جبروت کی مٹی ڈالی گئی اور حضوؐرمیں جو مٹی آئے وہ اُس درخت سے آئی جو عالم احدیت کے پردے سے تھا۔عیسیٰ کا لطیفہ خفی سے تعلق تھا جس کا علم وحدت کے پردے سے تعلق ہے ان میں وہاں کی مٹی ڈالی گئی تھی۔اب جب امام مہدی ؑ تشریف لائے ہیں اور اُن کا ارضی ارواح کے ذریعے آنے کا جو حکم فرمایا وہ ارضی ارواح والے جسم بھی پانچ ہیں ۔ایک جسم ایسا ہے جسم میں ملکوت والی ارضی ارواح شامل ہے، دوسرے جسم میں جبروتی ارضی ارواح ، اسی طرح جو باقی پانچ مرسلین ہیں اُن کی نسبت سے پانچوں کی ارضی ارواح ہیں ۔اُس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ حضوؐرکی ارضی ارواح ہیں ۔اب حضوؐرکے جسم مبارک میں جو ارضی ارواح آئی ہیں وہ پانچویں عالم کی ہیں جہاں سے اُن کی لطیفہ اخفیٰ کا تعلق ہے وہی مٹی جسم میں بھی آئی ہے۔ہمیں یہ راز سیدنا گوھر شاہی سے عطا ہوا ہے اور باطن میں اس کی حقیقت بھی دکھائی گئی ہے پہلے سدرة المنتہی دکھایا گیا پھر اللہ کے مختلف ناموں کے بیج اور اُنکے درخت دکھائے ۔ ایک درخت ایسا تھا جس پر اللہ نقش تھا،ایک درخت دکھایا جس پر صرف للہ نقش تھا،ایک درخت ایسا دکھایا جس پر صرف لہ تھا،ایک دکھایا جس پر صرف ھو تھااور ایک ایسا بھی درخت دکھایا جس پر کچھ نہیں تھا بلکہ کسی کے نین نقش بنے ہوئے تھے ۔ پھر ہم نے سوال بھی کیا کہ یہ نین نقش کونسا اسم ذات ہے ؟ پھر فرمایاکہ نین نقش والا جو پتہ ہے اس کا پہلا پتہ حجر اسود میں گیا تو وہ چہرہ ظاہر ہوا پھر یہیں سے پتے امام مہدی کے دور میں ہم تمھیں (یونس الگوھر) کو دیں گے ۔ وہ پتے لوگوں کے دلوں میں ڈالے گاتو حجر اسود کی طرح وہ تصویراُن کے اندر بھی چھپ جائے گی ۔جبھی اپنے ایک شعر میں یہ فرمایا بھی ہے کہ
مینوں بوٹیاں دتیاں گوھر نے ۔۔۔ ہر پاسے ونڈدا جاواں گا
اس کے بعد نبی کریم کو فرمایا کہ اے محمدﷺ آپ کہہ دیئجے کہ مثال بشر کی طرح ہیں ۔اسی لئے کبھی یہ نہ سوچنا کہ محمد الرسول اللہ تمھاری طرح بشر ہیں ، صرف شکل و صورت تمھاری مثال پر ہے لیکن اُنکی فطرت نور ہے ۔ اسطرح کی جو آیتیں قرآن میں آئیں وہ متشابہات کہلائیں۔
فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ اور وہ لوگ جن کے قلب سکڑ گئے ہیں۔ یہاں ذیغ کو باطنی طور پر سمجھنا بڑا ضروری ہے ۔ جب اسم ذات اللہ قلب میں داخل ہوتا ہے تو نرمی پیدا ہوتی ہے اور جب قلب میں اسم ذات اللہ داخل نہ ہو تو دل میں سختی ہوتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مخلوق لطیفہ قلب سکڑ کر چھوٹا سا ہو جاتا ہے ۔ یعنی قلب میں اللہ کا نور آئے تو کشادگی آ جاتی ہے اور جب اللہ کا نور نہ ہو تو تنگ ہو جائے گا۔
فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ پھر وہ یہ ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں کہ ان آیتوں میں جو تشبیہ دی گئی ہے وہ کیا ہے ؟
مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ تاکہ قرآن کی ان آیتوں سے کوئی فتنہ ڈھونڈیں ۔
وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ اور تلاش میں ہوتے ہیں کہ اس کی تاویل ملے ۔
وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ان کے پاس تاویل یعنی باطنی تفسیر کا علم کہاں ہےوہ تو صرف اللہ کے پاس ہے ۔اور اللہ جس کو چاہے گا اس کو عطا کر دے گا۔
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِاور وہ جن کی روحوں میں علم راسخ ہو گیا۔
يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔
وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ لیکن اس سے فیض صرف اُن کو ملے گا جو اولو الالباب ہوں گے ۔ اولو الالباب وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے لطیفہ اناّ میں عقل سلیم آ گئی ہو ۔اور لطیفہ نفس کا لطیفہ اناّ سے تعلق کٹ گیا ہو اُنکو تاویل سمجھ میں آئے گی۔

قرآن مجید کی تاویل:

اب فرقوں کی طرف آ جائیں تو اسی قرآن کو پڑھ کر کسی نے دیو بندی تو کسی نے شیعہ اور کسی نے اہل سنت اور کسی نے دیو بندی فرقہ بنا لیا۔بریلوی کہتے ہیں کہ پورا قرآن نعت رسول ہے۔دیو بندی کہتے ہیں پوری قرآن میں حضوؐرکی تعریف ہی نہیں ہے صرف یہ کہا کہ ہماری طرح کے انسان ہیں صرف اُن پر وحی الہی آتی ہے ۔شیعہ کہتے ہیں کہ بس پورا قرآن علی ہی علی ہے۔تو اسطرح کے لوگوں کے بارے میں اللہ نے بتا دیا کہ یہ ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ تفسیر پتہ چلے لیکن ان کے دلوں میں تو کجی ہے ورنہ ان کو اس کا حقیقی مطلب سمجھ میں آتا ۔ دلوں میں تنگی ہونے کی وجہ سے تشبیہ والی جو آیتیں ہیں فتنہ پیدا کرنے کیلئے اس کا انہوں نے من پسند مطلب گڑھ لیا ہے اور پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ تاویل ہےجو ہم بتا رہے ہیں ۔لیکن اس آیت کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ تاویل تو صرف اللہ کو معلوم ہے ۔اور جن کے سینوں میں علم استقرار پکڑ گیا ، راسخ ہو گیا ہے وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم ایمان لاتے ہیں یہ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔

علماء یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے لیکن قرآن مجید کی تاویل کا ذکر قرآن میں ہے اور اس حوالے سے ہے کہ اسکی تاویل صرف اللہ جانتا ہے اور جسکو بھی وہ تاویل ملے گی اللہ کی طرف سے ملے گی ۔لیکن ہمارے جو علماء کرام ہیں ان میں سے اکثریت ایسی ہے جو تاویل کو منفی معنی میں لیتے ہیں کہ یہ کیا بات گڑھ رکھی ہے ۔اب قرآن مجید کی تاویل اللہ کے پاس ہے اور اگر اللہ کے پاس سے بندے کے پاس آئے گی تو اسکا نظام روحانی ہو گایعنی وہ تاویل قلب پر نازل ہو گی لہذا قرآن مجید کی تاویل صرف صوفیاء کے یہاں ملے گی اور ظاہر پرست مولوی اسکے قریب سے گزر بھی نہیں سکتے۔آج کے دور میں اس بات کا بہت چرچا ہے کہ مولوی صوفی اسکالر کے طور پر متعارف ہونا چاہتے ہیں اور جو شریعت کی باتیں ہیں انہی کو تصوف بنا کر پیش کرنے میں لگےہوئے ہیں ۔یہاں تک کہ اب بزرگان دین کے طریقہ سلوک تھے اُن کے بارے میں بھی لوگوں کا گمان خراب کر رہے ہیں ۔

ندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 14 دسمبر 2018 کوالرٰ ٹی وی یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئی گئی آیت کی تشریح سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس