- 1,199وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
دیدار رسول پر ہر مومن کا حق ہے اوراُمتی کے لئے دیدار رسول کرنا فرض ہے ۔سیدنا گوھر شاہی نے بھی اپنے منظوم کلام میں ارشاد فرمایا ہے کہ فرض ہے تیرا پیارے محمدؐ کواک بار دیکھ۔۔ علم سے دیکھ ، عمل سے دیکھ سوتے یا بیدار دیکھ۔۔۔ پڑھ علم دیدار پھر دیدار ہی دیدار دیکھ۔ امام انس بن مالک رحمتہ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی یہ تینوں آئما کرام امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھےاور اس کے ساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق سے بھی فیض لیا ۔ایک دفعہ امام انس بن مالکؒ حج کرنے کے لئے گئے اور پھر روضہ رسول پر آ کر بیٹھ گئے اور پھر وہاں سے اُٹھے نہیں ، اُن کے عشقِ رسول کا یہ عالم تھا کہ حج کرنے کے بعد ساری زندگی روضہ رسول پر گزار دی ۔جو لوگ روحانیت سے واقفیت رکھتے ہیں اُن کو معلوم ہے کہ دیدارِ مصطفی کی کتنی اقسام ہیں ۔عمومی طور پر جو لوگ یہ بتاتے ہیں کہ اتنی دفعہ دورود شریف پڑھ لو تو دیدارِ رسول ہو جائے گا تو اس دورود شریف کے پڑھنے سے نور بنتا ہے اور اُسی دورود کا نور اُس بندے کے سامنے جلوہ گر ہو جاتا ہےجو کہ حضورﷺ کے اسمِ مبارک کا دیداربصورت نور ہوتا ہے ۔ دیدار رسول کے لئے بہت سی شرائط ہیں ۔
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب۔۔۔۔ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
یعنی اگر میں ہزار مرتبہ اپنی زبان کو مشک اور امبر سے دھو لوں اور اُس کے بعد بھی آپ کا نام نامی اور اسم گرامی میری زبان سے نکل جائے تو کمال بے ادبی ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے دیدار کے لئے اللہ نے طہارت کا پیمانہ رکھا ہے اور وہ تقوی و طہارت جسمانی طہارت نہیں بلکہ قلب اور نفس کی طہارت ہے ۔باطنی شریعت کے ذریعے جو لوگ اپنا نفس پاک کرنے میں کامیاب ہوجاتےہیں تو اُن کو نبی کریم ﷺ کے لطیفہ نفس کا دیدار ہوتا ہے ۔سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ جب انسان تصفیہ ، تذکیہ اور تجلیہ کے دورانیے سے گزرتا ہے اور اپنے نفس میں سے امارگی کو نکالتا ہے اور نفس پاک ہو جاتا ہے پھر روح کا تجلیہ ہو تاہے یعنی روح رب کی تجلی کی زد میں آ جاتی ہے ، لطیفہ سری کا تخلیہ ہو تاہے ۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد جب تمام أرواح منور ہو کر باطنی طور پربا شعوراور طاقتور ہو جاتی ہیں اور لطیفہ قلب اتنا طاقتور ہو جائے کہ یہ یہاں سے پرواز کرے اور عالم ملکوت تک پہنچ جائے۔ لطیفہ روح کا تعلق عالم جبروت سے ہے اور یہ ہماری روح کا مرکز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بیت المامور بھی عالم جبروت میں واقع ہے ۔ دنیا میں موجود تمام عبادت گاہیں عالم جبروت میں موجود بیت المامور جو کہ اصل خانہ کعبہ ہے اس کی نقل پر بنائی گئی ہیں ۔آدم صفی اللہ کو اللہ تعالی نے خواب میں بیت المامور کا نقشہ دکھایا اور حکم دیا کہ ایسی ہی عبادت گاہ زمین پر بناؤتو اصل خانہ کعبہ بیت المامور پر ہے ۔ نماز کی ادائیگی اگرصرف جسم سے ہو تو نماز صورت کہلائے گی اور جب روح بیدار ہو کر اُس کی رسائی عالم جبروت میں ہو گی اور اُس عبادت گاہ میں نماز پڑھنے کے قابل ہو جائےگی تو پھر ایسی نماز مومن کی معراج بن جائےگی ۔ اس زمین پر موجود کعبے میں شریعت محمدی نافذ ہے اور جو بیت المامور والا کعبہ ہے اُس میں شریعت احمدی نافذ ہے ۔شریعت محمدی کا تعلق نبی پاک ﷺ کے جسم مبارک سے ہے اور شریعت احمدی کا تعلق آپ کی روح پر نور سے ہے یہ وہی مقام تھا جہاں نبی کریم نے شب معراج پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو نمازیں پڑھائیں ، وہ نماز جسموں کو نہیں بلکہ روحوں کو پڑھائیں تھیں۔ مولوی اس پر بات بناتے ہیں کہ وہ نماز کس شریعت کے تحت پڑھائی تھی اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جب امام مہدی آئیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام اُن کے پیچھے نماز پڑھیں گے ؟ یہاں اُن کے پاس جواب نہیں ہے کہتے ہیں کہ کیا عیسیٰ کو اپنی شریعت چھوڑنی پڑے گی؟ یہ جہالت باطنی علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے جو نماز عیسیٰ امام مہدی کے پیچھے پڑھیں گے ویسی نماز انہوں نے شب معراج میں محمد الرسول اللہ کے پیچھے بھی پڑھی ہے۔سارے انبیاء پر شریعت احمدی کا نفاذ ہے کیونکہ احمد نبی کریمﷺ کی روح مبارک کا نام ہے ۔ آپ ؐ کے جسم کا نام محمد ہے ، لطیفہ انا کا نام محمود ہے اور لطیفہ اخفی کا نام حامد ہے ۔حضوؐر کا لطیفہ انا مقام وحدت میں رہتا ہے اس لئے اُس مقام کا نام بھی مقام محمود ہے ۔جب یہ تمام اروحیں اپنے اپنے مقام تک پہنچنے کی قابلیت رکھ لیتی ہیں تو بیداری کے بعد ان روحوں کی شکل و صورت آپ کے جسم کی طرح ہو جاتی ہے ۔
لطیفہ نفس انسانی جسم میں کیا کرتا ہے ؟
انسان اپنی کوشش سے اپنے نفس کو پاک نہیں کر سکتا اس کے لئے نفس شکن مرشد کامل و مرد قلندر کی ضرورت ہے ۔نفس کیسے پاک ہوتا ہے اس بات کو سمجھنے کے لئے بنیادی بات سمجھنا ہو گی کہ نفس جسم میں رہ کر کیا کرتا ہے ۔جتنے سیارے ، زمین آسمان جو تیر رہے ہیں یہ سارے نظام شمسی کا حصّہ ہیں اور پورا نظام شمسی عالم ناسوت کہلاتاہے اور اس کی تخلیق میں جو بنیادی عنصر ہے وہ نار ہے ۔سورج کی روشنی نہ ہو تو سبزیاں نہیں پکیں گی۔ہر چیز آگ کے اوپر پکتی ہے ، کھانا بھی ہم آگ کے اوپر پکا کر کھاتے ہیں ، ہمارے جسم میں جو گرمی بن رہی ہے وہ بھی آگ کی وجہ سے ہے ۔ اگر سورج اور اس کی تپش نہ ہو تو زندگی محال ہے ۔ ناز عربی میں آگ کو کہتے ہیں ۔ انسانی جسم میں چھ مخلوقات ایک سر میں اور باقی پانچ سینے میں جو موجود ہیں یہ رحمانی مخلوقات کہلاتی ہیں اور اِن کی غذا نور ہے ۔ لطیفہ نفس جو کہ ناف کے مقام پر ہوتا ہے وہ ایک شیطانی جرثومہ ہے جب آدم علیہ السلام کا جسم بننے کے مراحل میں تھا تو وہاں ابلیس نے تھوکا تھا جس کی وجہ سے مقام ناف پر جرثومہ جمع ہو گیا تھا ۔لطیفہ نفس کی غذا نا ر ہے۔ جب انسان اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو چھ رحمانی مخلوق خفتہ حالت میں ہوتی ہیں ان کو نور فراہم نہیں کیا گیا جبکہ اس کے برعکس لطیفہ نفس کو ہمارے ماحول سے ، کھانے پینے سے ، ہمارے گناہوں سے جو نار بنتی ہے وہ اس لطیفہ نفس کو مضبوط کرتی رہتی ہے لیکن کتنے مسلمان ہیں جو یہ بات جانتے ہیں کہ ہمارے اندر یہ لطائف اور ارواح موجود ہیں ، کیا عالم اسلام کو یہ بتایا گیا ہے حالانکہ یہ بات قرآن اور احادیث میں بھی ہے۔قلب کے تین جثّے ہوتے ہیں جب تک قلب منور نہ ہو اُسے قلب صنوبر کہتے ہیں جب اُس میں اللہ کا نور آ جائے اور دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کرنے لگ جائیں پھر وہ قلب سلیم ہے ۔ قلب سلیم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ شیطانی طاقت سے سلامت ہو گیا اب شیطان کا ہاتھ وہاں نہیں جا سکتا کیونکہ وہ قلب اللہ کے نور سے بیدار ہو گیا ہے اور اللہ کا نور اُس کا محافظ بن گیا ہے ۔ہمارے علماء اس بات کا بہت شور مچاتے ہیں کہ یوم محشر سب سے پہلا سوال نماز کا ہو گا لیکن قرآن و حدیث میں ایسا نہیں لکھا ہوا ، یوم محشر کے حوالے سے قرآن میں جو بات ملتی ہے اس پر ہمارے لوگ توجہ نہیں دیتےوہ یہ ہے کہ
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورة الشعراء آیت نمبر 88-89
ترجمہ : اس دن نہ مال نفع دے گا اور نہ آپ کے بیٹے وہ شخص کامیاب ہو گا جو قلب سلیم لایا۔
اس زندگی میں ہی جس نے اللہ کے نور کو اپنے قلب میں بسا لیا یہ کامیابی کی ضمانت ہے ۔اب قلب سلیم کے بعد قلب منیب ہوتا ہے ،قرآن میں آیا ہے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَکہ یہ راہ سیدھی اللہ کی طرف جا رہی ہے اس کے بعد فی نفسہٖ صراطِ مستقیم کیا ہے اس کا ذکر قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ اُن لوگوں کا راستہ ہے جن کو ہم نے اپنی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ۔ انعام چونکہ اُردو کا لفظ ہے اس لئے میں اِس کو استعمال نہیں کرتا کیونکہ لوگ کہیں گے کہ کیا کوئی پرائز بانڈ نکلا ہے ؟ ہمارے پاکستانیوں کو قرآن کو سمجھنے میں جو بہت بڑا مسئلہ پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں اور اُن کے معنی غلط العام ہوچکے ہیں جیسے ایک لفظ ہے’’اختیار‘‘ جو اُردو زبان میں عربی زبان سے آیا ہے ۔ اختیار کو اگر ہم انگریزی میں ترجمہ کریں تو (Authority) کہیں گے۔ لیکن عربی زبان میں اختیار کا مطلب اتھارٹی نہیں ہے عربی زبان میں اختیار کا مطلب ہے چوائس۔ اسی طرح یہ جو لفظ انعام ہےصِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَانعم کا مطلب پرائس نہیں ہے اُردو میں اس کا مساوی لفظ ہے نعمت۔ نعمت کو انگریزی میں کہیں گے (The Divine Bounty) اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو وہ نعمت دی ہے ان لوگوں کا راستہ اختیار کریں۔ وہ لوگ ہم کہاں سے ڈھونڈیں ؟
قرآن کو اگر آپ نے پڑھنا ہے تو اس طرح پڑھیں کہ سمجھ میں آتا جائے اور عمل ہوتا جائے پھر تو آپ قرآن پڑھ رہے ہیں ورنہ چنے چبا رہے ہیں۔ فرض کیا آپ نے یہ آیت پڑھی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَکہ ان لوگوں کا راستہ جن کو میں نے اپنی نعمت سے سرفراز کیا ہے ۔ اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو ڈھونڈیں کیونکہ اللہ نے وضاحت نہیں کی کہ فی نفسہٖ صراطِ مستقیم ہے کیا؟ بلکہ کہہ دیا کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن کو میں نے اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ وہ لوگ کون ہیں؟ یہ تو ہمیں معلوم کرنا پڑے گا ۔ اس سے ایک بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جن لوگوں کا راستہ صراطِ مستقیم ہے وہ ہر دَور میں موجود ہونگے تاکہ لوگ اُن کی سنت پر چل کے صراطِ مستقیم حاصل کرسکیں اگر ایسے لوگ دنیا میں موجود نہ ہوں تو پھر یہ بات بتانے کاکیا فائدہ ؟ اُن کی پہچان بھی ہوگی، کیسے پہچانا جائے گا۔ قرآ ن میں آگے جاکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا
سورة النساء آیت نمبر 69
صالحین ، شہدأ، صدیقین ، فقرأ اور اولیاء یہ وہ لوگ ہیں جو اُس راستے پر چلنے کے لئے بہترین رفیق ہیں۔الغرض ہم اپنی ان ارواح کو منور کرلیں اور اپنے نفس کو پاک کرلیں اور نفس کو پاک کرنے کا جو طریقہ ہے یعنی وہ جو چھ مخلوقیں ہیں جن کو نور نہیں ملا اور جو خفتہ حالت میں ہیں بقول قرآن أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ جب ہم شرح صدر کرینگے توان میں رب کا نور جائے گا ۔لہٰذا وہ جو نوری مخلوقات ہیں جن کی غذا نور ہے وہ بھوکی پیاسی ہمارے سینوں میں ہی تیر رہی ہیں اور ہماری خشک عبادتیں اُن کو بیدار نہیں کرپاتیں ۔ دوسری طرف وہ جو لطیفۂ نفس ہے اُس کو چوبیس گھنٹے نار مل رہی ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ یہ تعلیم ہم کو ملی نہیں اور اگر کسی نے اس تعلیم کا ذکر بھی کیا توہمارے ہی مسلمانوں میں کچھ فرقے اس کے پیچھے پڑگئے کہ یہ تعلیم تو حرام ہے حالانکہ یہ قرآن مجید سے ہی نکلی ہوئی تعلیم ہے ۔
مرشد کامل کا کیا کام ہوتا ہے ؟
مرشدِ کامل اپنی نظروں سے لطیفۂ نفس کے گرد نور کا حصار باندھ دے گا یعنی نگاہِ نور سے اُس کو قید کرلے گا ۔ یوں سمجھ لیں نفس کے چاروں طرف نور کی دیوار بنا دے گا۔ اب اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو بھی نار آرہی ہے وہ نور کی دیوار سے ٹکرا کے واپس ہوجائے گی اس طرح نار کی رسد بند ہوجائیں گی۔ آرمی والے بھی جنگ میں یہی کرتے ہیں کسی ملک کو شکست دینی ہو تو اہم ترین کاموں میں ایک کام یہ ہوتا ہے کہ اُن کی رسد کو ختم کردیں تاکہ اس کی مدد رُک جائے اور دشمن ہار جائے۔ اسی طرح جب مرشدِ کامل نور کی نظروں سے نفس کے گرد حصار بنا دیتا ہے تو اُس کی غذا رُک جاتی ہے اور وہ بھوک سے مجبور ہوجاتا ہے۔ پھر مرشدِ کامل نفس سے مخاطب ہوتا ہے : ’’ہاں بھئی ہمارے پاس غذا ہے لیکن نور کی غذا ہے اگر کھانی ہے تو بولو‘‘۔ تب پھر مرشدِ کامل نفس کو اپنی باطنی توجہ سے لقمۂ نور دیتا ہے۔ وہ بحالتِ مجبوری نور کا لقمہ لے لیتا ہے ۔ اب بھوک تو روزانہ لگتی ہے ۔ اس کے لئے پھر مرشدِ کامل نفس کو کہتا ہے کہ تم کو غذا چاہئے ناں تو تم کلمہ پڑھ لو: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ کلمہ پڑھتے رہو گے اُس سے نور بنے گا وہ تمہاری غذا ہوگی۔ نفس بیچارہ پھر مجبوری کی حالت میں کلمہ پڑھنا شروع کردیتا ہے۔ کلمہ پڑھتے پڑھتے نار تو بند ہوگئی جو اُس میں موجود تھی کیونکہ نورِ الٰہی اُس نار کو ختم کرنا شروع کردیتا ہے اور وہ نفس امارہ تھا سال چھ مہینے میں نور کی وجہ سے لوامہ ہوجاتا ہے،کلمہ جاری رہتا ہے۔ لوامہ سے ملہمہ بن جائے گا، جب وہ ملہمہ بن گیا تو اُس وقت مومن کا مقام پورا ہوگیا۔ ملہمہ نفس وہ ہوتا ہے جس پر مرشد کی طرف سے الہام آتا ہے۔ اگر تُو ملہمہ والا بن گیا اور پھر کبھی گناہ کی طرف جائے گا تو مرشد کی طرف سے الہام آجائے گا یہ کام نہیں کرنا۔ اس طرح تُو بازِ گناہ ہوجائے گا۔
اب مرشد نے نفس کو ذکر میں لگا دیا یعنی لا الہ اللہ کے وِرد میں لگا دیا اور دوسری طرف ہماری روحوں کو بھی نور فراہم کرنا شروع کردیا۔ لطیفہ قلب بیدا ر ہوگیا اللہ ھو اللہ ھو۔ نور بننا شروع ہوگیا۔ سلطان باہوؒ نے فرمایا کہ اگر تیرے دل نے ایک دفعہ اللہ ھو کہا تو تجھے بہتر ہزار قرآنِ مجید پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ شاہ ولی اللہ نے فرمایا کہ ساڑھے تین کروڑ اللہ کہنے کا ثواب اور ملے گا کیونکہ تیرے جسم میں ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں دل نے ایک دفعہ اللہ ھو کہا ساڑھے تین کروڑ نسوں میں وہ آواز گونجے گی۔ دل ایک گھنٹے میں تین ہزار سے لے کر چھ ہزار دفعہ تک اللہ کا ذکر کرسکتا ہے اور چوبیس گھنٹے میں ایک لاکھ چوالیس ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ظاہری دل کا کام ہے خون کو صاف کرنا ۔ ہمارے جسم میں دو طرح کی نسیں ہوتی ہیں ایک شریان اور دوسری ورید۔ ورید وہ نسیں ہوتی ہیں جو دل میں گندا خون لے کر آتی ہیں۔ گندا اس لئے کہا کہ روزانہ جو کھانا ہم کھاتے ہیں اس سے سیلز بنتے ہیں بلڈ بنتا ہے تو وہ جو بلڈ ہوتا ہے ریفائنڈ نہیں ہوتا جیسے آپ زمین سے پیٹرول نکالتے ہیں تو اُسے ریفائنری میں لے کے جاتے ہیں ۔ اسی طریقے سے جو تازہ تازہ خون جگر سے بنا ہے وہ اب ورید کے ذریعے دل میں جائے گا کیوں جائے گا تاکہ دل اُس خون کی نجاستوں کو ہٹا دے اور اُس کو آکسیجن زدہ بنا دے ۔ دل کے اوپر جو پلمونری والو ہے اُس کا کام ہی یہی ہے کہ آنے والے خون کے قطرے میں آکسیجن ڈالے ۔ہمارے خون میں کارپسلز دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ریڈ بلڈ کارپسلز دوسرے وائٹ بلڈ کارپسلز ۔ وائٹ بلڈ کارپسلز کے اندر آکسیجن کی سٹوریج ہوتی ہے ۔ تو جو گندا خون دل میں آئے گا دل کا کام ہے اُس کو پاک کرکے اُس میں آکسیجن لگانا، پھر آکسیجن لگ کے وہ خون آگے جائے گا اُس وقت جب دل کی دھڑکنیں اللہ ھوبھی کر رہی ہوئیں تو آکسیجن کے ساتھ وہ نور بھی خون میں شامل ہوجاتا ہے ۔تو جب اُس خون میں اللہ کا نور بھی شامل ہوا تو وہ نور نس نس میں پہنچ گیا جب نور نس نس میں پہنچ گیا تو انسان کا پورا وجود نور کے تابع ہوجائے گا۔
“جب نس نس میں نور آجائے اور قلب و قالب دونوں ہمہ وقت اللہ اور اُس کے احکامات کے تابع ہوجائیں تو یہ وہ مقام ہے جس کو حقیقی طور پر اسلامی اصطلاح میں اسلام کہا جائے گا یعنی قلب و قالب کا کُلی طور پر اللہ اور اُس کے احکامات کے تابع ہوجانا اسلام ہے”
یعنی مکمل اطاعت میں چلے جانا، اس کے بغیر ہم کہاں مکمل تابع ہوتے ہیں کبھی ہم گناہ کرنے سے رک جاتے ہیں اور کبھی کبھی ہمارے اوپر نفس کے خیالات شہوت کے خیالات اتنے حد سے زیادہ غالب ہوجاتے ہیں کہ ہم نفس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ہم شیطان کے قابو میں آجاتے ہیں لیکن جب چاروں طرف سے نور کے قیدی ہوگئے جس طرح بندہ کسی کے حسن کایا کسی کی زلفوں کا اسیر ہوجاتا ہے اسی طرح جب نس نس میں نور چلا گیا تو وہ اسیرِ نور ہوگیا ، وہ بندہ پھر اللہ کے نور پر ہے ۔یہ پہلا درجہ ہے جب یہاں پہنچ جائیں گے تو اُس وقت آپ کو حضور نبی پاک ﷺ کے لطیفۂ نفس کا دیدار ہوگا اور لطیفۂ قلب کا دیدار کرنے کے لئے پوری باطنی شریعت اور پوری طریقت کے اوپر کم سے کم عمل پیرا ہونا ہو گا۔ طریقت کے چار جزو ہیں۔طریقت کاپہلا باب ذکوریت ہے ۔ اُس میں ذکر کی مہارتیں ہیں کہ کس طرح اپنے قلب کو ذکر میں لگانا ہے؟ روح سری خفی اخفی انا نفس، کس طرح ان سب کو ذکر میں لگانا ہے ۔ اُس کے بعد ہمارے اندرجو ارضی ارواح ہیں روحِ جمادی وغیرہ اس کو ذکر میں کیسے لگانا ہے؟ انسان اشرف المخلوقات ہے کہ نہیں؟
قرآنِ مجید میں آیا ہے کہ کچھ خاص انسان ایسے ہیں جو رحمان کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ خاص پتھر ایسے ہیں جو رحمان کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر تُو نے اپنی سماوی ارواح کو ذکر میں لگا لیا اور تیری ارضی ارواح ذکر میں نہ لگیں تو پھر تو کمی رہ جائے گی تُو کامل مومن نہیں بن سکے گا۔ بہت سے پتھر ایسے ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اُن میں روحِ جمادی موجود ہے تُو انسان ہے اشرف المخلوقات ہے تیری روحِ جمادی اللہ کا ذکر کیوں نہیں کرتی ؟ کیونکہ تجھے طریقہ نہیں آتا ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ولیوں کو ماننے والے کچھ لوگ انگوٹھیاں پہنتے ہیں ۔ وہ پتھر ہوتے ہیں کوئی عقیق پہنے گا کوئی سیفائر، کوئی کچھ کوئی کچھ ۔ اب جن کے پاس روحانی علم نہیں ہے اور وہ وہابی ہے وہ کہے گا یہ شرک ہے پتھر کیوں پہنے ہوئے ہیں ؟ اور اگر وہ بریلوی ہے تو کہے گا بہت اچھی بات ہے پہنو لیکن کیوں پہنو یہ نہیں پتہ۔ کچھ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی عقل سے جاہل ہوجاتے ہیں : ’’ابے ہاں یار بات تو صحیح ہے یہ میں نے عقیق کی انگوٹھی کیوں پہنی ہوئی ہے ؟ ہٹاؤ شرک ہے یہ تو‘‘ ۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ وہ پتھر ہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ان پتھروں کو پہننا توہم پرستی نہیں ہے۔ یہ پتھر اللہ کا ذکر کر رہا ہے ذکرِ الٰہی کی برکت شامل ہوگئی تیرے وجود میں۔ اگر یہ عام پتھر ہوتے تو باہر پڑے ہوتے ان کو عزت کیوں مل رہی ہے؟ تم اِس کوچومنے کیوں لگ گئے ؟ کیونکہ یہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔اسی طرح جنت میں مومنین کو جو محلات دیئے جائیں گے اُن کے بارے میں بھی آیا ہے کہ وہ بھی انہی پتھروں کے بنے ہوئے ہونگے ۔ مولوی آپ کو سناتے ہیں : ’’دیکھا !کتنا قیمتی محل ہوگا یاقوت اور عقیق اور نہ جانے کس کس اعلیٰ پتھر سے اللہ تعالیٰ تمہارے محل بنائے گا‘‘ لیکن وجہ یہ نہیں ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ محلات اس لئے بنائے گا کہ وہ مہنگے پتھر ہیں بلکہ اس لئے بنائے گا کہ میرا یہ جو مومن بندہ ہے ساری زندگی اس کی روحوں نے اللہ کا ذکر کیا اس کے وجود میں جو روحِ جمادی تھی وہ بھی اللہ کا ذکر کرتی تھی تو اب یہ انصاف نہیں ہوگا کہ میں یہاں پر اس کا جو گھر بناؤں اس میں جو جمادی روحیں ہوں وہ ذکر نہ کریں۔ میں جنت میں ان کو ایسے گھروں میں بساؤں جن کے درو دیوار ذکر میں مزین ہوں تاکہ جب وہاں جا کے ان کا وجود مقیم ہو تو اُنسیت کا ایک رشتہ پیدا ہوجائے ۔ ان کے وجود میں موجود روحِ جمادی بھی ذکر کرے اور اُن پتھروں میں موجود روحِ جمادی بھی ذکر کرے۔
اب کچھ لوگ کہیں گے کہ روحِ جمادی کیسےاللہ کا ذکر کرتی ہے! سورہ رحمن میں آیاوَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِپتھروں میں روحِ جمادی ہوتی ہے اور شجر میں روحِ نباتی ہوتی ہے ۔ اگر وہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں تو تُو کیوں نہیں کرسکتا تُو تو اشرف المخلوقات ہے ۔ تُو بھی اپنی جمادی روح کو اللہ اللہ میں لگا کیونکہ وہ پتھروں میں ہے وہ بھی کرتے ہیں ۔ تُو بھی اپنی روحِ نباتی کو اللہ اللہ میں لگا کیونکہ درختوں کے بارے میں بھی اللہ نے کہہ دیا ہےوَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ تو پتھر کے اندر روحِ نباتی تو اللہ کا ذکر کرے اور تیرے اندر جو روحِ نباتی ہے وہ نہ کرے پھر تیرے انسان ہونے پر تُف ہے ۔ آج کا مسلمان صرف اس زبان سے اللہ اللہ کرنا جانتا ہے ۔ ذرا سوچ! یہ شجر اور یہ حجر یہ پتھر اور یہ درخت یہ اللہ کا ذکر کر رہے ہیں تیرے اندر جو یہی روحیں موجود ہیں تجھے پتہ ہی نہیں اُن کو اللہ کے ذکر میں کیسے لگانا ہے ۔ یہ تب پتہ چلے گا جب کوئی اصل طریقت تجھ کو سمجھائے گا جب کوئی اصل مرشد ملے گا جو تیری نس نس میں اللہ کا نور اُتار دے گا۔ جب سماوی روح اور ارضی روح دونوں منور ہوجائیں نفس بھی منور ہوجائے پاک ہوجائے اُس کے بعد تجھے حضور ﷺ کا ملکوتی دیدار ہوگا۔ اور جب دیدار کا علم سیکھ کے تیرا لطیفہ انا اوپر جائے گا مقامِ محمود پر اللہ کے دیدار کے لئے تو اُس وقت دیدارکے لمحے حضورﷺ کی روحِ انور ہی تجھے سامنے لے کے کھڑی ہوگی اللہ کو کہے گی یہ میرا اُمتی آپ کو دیکھنا چاہتا ہے ۔ تو اُس لمحے حضور ﷺ کا بھی اصلی دیدار ہوجائے گا ۔
تخلیق آدم اور اللہ اور فرشتوں کا مکالمہ :
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
سورة البقرة آیت نمبر 30-32
اور جب فرمایا تیرے رب نے ملائکہ سے بے شک میں زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ تو خلیفہ مقرر کرے گا وہ وہاں پر جا کے فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور کیا ہم تیری تسبیح اور تقدیس بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں نے یہ کیوں کہا کہ یہ فساد کرے گا اور خون خرابہ کرے گا؟ خون خرابہ دہشت گردی ہی ہیں۔ تو انسان پر یہ الزام تو فرشتوں نے بھی لگایا ۔ معلوم ہوا کہ انسان آفرنیش سے خون خرابہ کرتا آرہا ہے اور کیوں نہ کرے ہابیل قابیل نے ہی ایک دوسرے کومار دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کوے کو بھیج دیا اُس نے دوسرے کوے کو مار دیا۔ گڑھا کھودا اور کوے نے کوے کو دفن کردیا ۔ کوے نے کوے کو دفن کردیا اور ہابیل قابیل میں سے جو زندہ رہا وہ سوچنے لگا کہ میں اب اس کا کیا کروں ؟ کوے کو دیکھا تو اُس کو دفن کرنا آیا۔ انسان کی تاریخ تو شروع سے ہی دہشت گردی والی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اللہ نے پھر کیا کہا۔ فرشتوں نے تو اپنے شکوک کا اظہار کردیا کیونکہ فرشتے جو کہہ رہے رہیں تو یقیناًاپنے مشاہدات کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ایسا تو نہیں ہے کہ فرشتوں کو کوئی وسوسہ آگیا۔ انہوں نے پچھلی قوموں یعنی قومِ عاد ، قومِ ثمود وغیرہ کا حال دیکھا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں چودہ ہزار آدم بنائے ۔ اسی زمین پر یہیں کی مٹی سے بنائے اور اُن کو گمراہ کرنے کے لئے چھوٹے موٹے جنات ہی کافی تھے لیکن پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے آدم صفی اللہ کو تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا اور اُس کو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ مٹی سے ایک بت بناؤ ! تو فرشتے چوکنا ہوگئے کہ پھر آدم کو بنایا جارہا ہے ۔ لہٰذا بول پڑے: ہم تیری عبادت کے لئے کافی نہیں ہیں؟ ہم کر تو رہے ہیں اس کو بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔ فساد کرے گا خون خرابہ کرے گا۔ تو اللہ نے کہا ’’جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے‘‘۔ اُس کے بعد کہا : ’’میں اُسے ایک خاص علم دے رہا ہوں : علم الاسماء: اپنے اسماء کا علم دے رہا ہوں ۔ اس خاص علم کی وجہ سے وہ خون خرابہ نہیں کرے گا۔ وہ خاص علم کیا تھا ؟ ان روحوں کا باطنی علم جس کے ذریعے اُس کا تعلق رب سے جُڑ جائے گا ۔ یہ جو خاص فضیلت والی تعلیم تھی یہ آدم صفی اللہ کو دی۔ اس تعلیم کے ذریعے انسان کا تعلق رب سے جڑ گیا ۔ اس سے پہلے جو تیرہ ہزار نو سو ننانوے آدم آئے تھے وہ سارے بدنی عبادت کرتے تھے کسی کو باطنی تعلق نصیب نہیں تھا۔ یہ باطنی تعلق یہ باطنی علم یہ روحوں کو بیدار کرنے کا علم اللہ تعالیٰ نے پہلے متعارف ہی نہیں کرایا تھا اس سے پہلے صرف جسمانی عبادت کیا کرتے تھے ۔روح کی تعلیم عام نہیں ہوئی تھی باطنی علم نہیں دیا گیا تھا لہٰذا اُن کے کردار کی تشکیل نہیں ہوئی اُن کا جو خلق تھا وہ بیدارنہیں ہوا ۔ خلق بیداراُس وقت ہوتا ہے جب نفس کی غلاظت دُور ہوجائے ، نفس سے نجس دُور ہوجائے اور قلب سے جو ایک لاکھ اَسی ہزار زنار اللہ نے اُس پر ڈالے ہیں یعنی تیس ہزار شہوت کے ، تیس ہزار حسد کے ، تیس ہزار بغض کے ، تیس ہزار تکبر کے زنار ، وہ نکل جائیں ، قلب آباد ہوجائے اللہ کی بارانِ رحمت اُس پہ پڑنے لگیں سلامتی کی منزل پر فائز ہوجائے ۔ ہر وقت دل میں اللہ کا ذکر ہوتا رہے ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ کھڑے اُٹھتے بیٹھے کروٹوں کے بل بھی تم اللہ کا ذکر کرتے رہو ،جب نفس پاک اور قلب آبادہوجائے تو اب خلق و کردار کی تعمیر شروع ہو ۔
محمد ﷺ کا خلق اُمت کے لئے سنت ہے:
نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ ترین خلق عطا فرمایا ۔ کیا حضورﷺ کا خلق کہیں چھپا ہوا تھا اور آپ کے کردار میں نہیں تھا؟ روزہ مرہ کی زندگی میں ، افعال و اعمال و گفتار میں نہیں تھا؟ معلوم یہ ہوا کہ خلقِ مصطفیٰ ﷺ اُمت کے لئے سنت ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌاللہ تعالیٰ نے یہ تاکید کے ساتھ فرمایا کہ تمہارے لئے نبی کریم ﷺ کو ماڈل بنا کے بھیجا ہے اب تم نے ان کے رنگ میں رنگ جانا ہے ۔ ظاہر و باطن میں ان کی پیروی کرنی ہے۔ تم نے اپنے خلق کی تعمیر بھی اُسی نہج پہ کرنی ہے جو کہ خلقِ مصطفی ﷺ ہے۔ اب ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ خلق ہوتا کیا ہے۔زیادہ سے زیادہ کرینگے تو میٹھی آواز میں السلام علیکم۔ یہ خلق تھوڑی ہے یہ تو میٹھی گفتگو ہے ۔ زبان پہ مٹھاس اور دل میں خنجر یہ تو نفاق ہے ۔ لوگوں نے اپنے لہجے میں نرمی اختیار کرلی اور دل میں زہر بھرا پڑا ہے اور اس کو سمجھتے ہیں یہ اچھے اخلاق ہیں۔ یہ اچھےاخلاق کہاں سے ہوئے۔ زبان پر جلیبی نماں الفاظ اور دل میں نفاق بھراہوا ہے۔ تو یہ خلق کہاں ہوا۔ یہ تو خلق نہیں ہے۔ جیسی زبان ویسا ہی قلب۔ نبی کریم ﷺ نے یہودیوں کے لئے بھی چادر بچھائی ۔ نبی کریمﷺ نے کسی سے نفرت نہیں کی۔ نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم کسی کو کسی کی ملکیت سے محروم نہ کرو ۔ تمہارے وجود سے تمہارے الفاظ سے تمہارے ہاتھوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ لوگوں کے بیچ میں نفرتوں کا تو یہ عالم ہے کہ سُنی وہابی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ تبھی تو قتلِ عام ہورہا ہے۔ یہ دہشت گردی کیوں ہے کہ بس میں صحیح ہوں باقی سب غلط ہے۔ دہشت گردی صرف اس وجہ سے دنیا میں پنپ رہی ہے کہ یہ باطنی تعلیم نہیں ہے ۔ قرآنِ مجید کو دیکھیں تو ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟ فرشتے اعتراض کرتے ہیں اے اللہ یہ دنیا میں پھر دنگا فساد کرے گا خونریزی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے نہیں اس دفعہ میں اس کو خاص تعلیم دے رہا ہوں یہ بلڈ شیڈ نہیں کریگا۔ تو معلوم یہ ہوا کہ دہشت گردی کی یہ جو لہر گزشتہ پندرہ بیس سال سے چل رہی ہے یہ کوئی نئی نہیں ہے انسان ہمیشہ سے خونخوار رہا ہے ۔ ہمیشہ سے اُس نے دنگا کیا ہے خون بہایا ہے۔ لیکن آخر میں جب اللہ نے آدم صفی اللہ کو تخلیق کیا ہے تو یہ بیان کردیا کہ اب یہ دنگا فساد اور خون خرابہ نہیں کریگا کیوں نہیں کریگا کہ اس کو ہم عظمت والی تعلیم دے رہے ہیں اور آپ یقین جانیں جن جن کے پاس یہ عظمت والی تعلیم گئی انہوں نے تو پوری دنیا میں محبت و رحمت کا پرچار کیا ہے اور کیوں نہ کریں اللہ رب العالمین ہے سب کی پرورش کرنے کا ٹھیکہ اُس نے لیا ہے۔رب کا مطلب ہے پرورش کرنے والا ۔ کافر کو بھی دے گا منافق کو بھی دے گا ۔ سب کو دے گا اور اسی طرح نبی کریم ﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺ کی رحمت صرف مسلمانوں تک محدود ہے تو آپ کے دماغ میں خلل واقع ہے۔ کہیں حضور ﷺ نے مومنوں کو اپنے اُمتیوں کو مخاطب کیا ہے اور کہیں ابنِ آدم کہہ کے پکارا۔ یعنی حضور ﷺ نے صرف دینِ اسلام پر عمل پیرا لوگوں کو ہدایت فراہم نہیں فرمائی بلکہ عامۃ الناس میں جو غیر مسلم تھے اُن سے بھی خطاب کیا، اُن کو بھی نصیحتیں فرمائی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رحمت اللعالمین ہیں۔
جن جن لوگوں میں یہ عظمت والی تعلیم پہنچی کوئی خواجہ بن گیا کوئی داتا بن گیا کوئی غوثِ اعظم بن گیا۔ اور انہوں نے مسلمان اور غیر مسلمان سب کو پیار دیا محبت دی ۔ سب پر رحمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی اولیاء کرام کے مزارات ہیں اُن پر ہر دین ہر دھرم والا جاتا ہے ۔ نظام الدین اولیاء پہ چلے جائیں مسلمانوں سے زیادہ تو وہاں ہندو ہوتے ہیں۔ بختیار کاکی ؒ کے مزار پرچلے جائیں ہندو بھرے ہوئے ہیں۔ ممبئی چلے جائیں حاجی علی بابا کے مزار پہ عیسائی سکھ قطار میں لگے ہیں۔ وہ پاگل تو نہیں ہیں جو بلاوجہ آرہے ہیں ۔ ہندوؤں سے پوچھا بھئی تم کیوں آرہے ہو یہ تو مسلمان تھا ؟ کہا نہیں یہ اللہ والا ہے دعا کرتے ہیں ہماری پوری ہوجاتی ہے۔ لوگ اپنے من میں اپنی کامنائیں لے کے جاتے ہیں اُن کے کام ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی سنتا ہے اور اللہ جو سن رہا ہے تو اللہ کو بھی پتہ ہے کہ یہ جو مزار پہ آیا ہے یہ ہندو ہے۔ اللہ کا دل چھوٹا نہیں ہے اللہ کا دل بہت بڑا ہے۔ ہم لوگ تو دیکھتے ہیں یہ مسلمان ہے اس کی مدد کردو یہ ہندو ہے جانے دو۔ ہم جو اپنا مشن بیان کرتے ہیں اور جو سرکار گوہر شاہی کا فیضانِ طریقت ہے یہ تمام انسانوں کے لئے کھلا ہوا ہے۔ سکھ ہوں عیسائی ہوں یہودی ہوں ہندو ہو ں مسلم ہوں لیکن یہ میراثِ مصطفی ﷺ ہے ، یہ فیضانِ قرآن ہے، نبی کریم ﷺ کے سینۂ مبارک کا فیض ہے۔ یہ علمِ باطن حضورﷺ کے سینۂ اقدس سے نکلا ہوا ہے: علمأ من صدری کہ جن کو یہ علم ملے گا تو میرے سینے سے ملے گا۔ ’’علماء من صدری، سادات من صلبی ، فقراء من نور اللہ تعالیٰ‘‘۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 28 جولائی 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔