کیٹیگری: مضامین

یو ٹیوپ لائیو پر کیا گیا سوال:
سوال: اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر ہے قرآن میں سورۃ المائدہ میں اس کا ذکر ہےاور سعودی عرب میں یہ قانون رائج بھی ہے،کیا اس دور میں بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے کیا یہ اذیت نہیں ہے؟

نمائندہ گوھر شاہی کی وضاحت:

امریکہ کا پورا نام (United State of America)ہے یعنی اس میں بہت ساری ریاستیں ہیں۔ ، جیسا کہ ساؤتھ کیرولائنا، کیلیفورنیا ، ٹیکسس، فلوریڈااور ورجینیا وغیرہ شامل ہیں اور ہر ریاست کا قانون ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کسی ریاست میں سزائے موت کا قانون ہے اورکسی میں نہیں ہےاور کسی ریاست میں سزائے موت کے طریقے الگ الگ ہیں۔

اوائلی دور میں اسلام کا نظام:

پہلے تو آپ اُس وقت کے اسلام کا قانون سمجھیں ، اُس وقت کا اسلام یہ کہتا ہے کہ وہ مومن نہیں ہو سکتا کہ جسکا پڑوسی بھوکا سو جائے۔ اُس وقت کا اسلام یہ تھا کہ آپ بھوکے نہیں سو سکتے تھے لوگ زکوۃ اور خیرات نکالتے جس سے غریبوں کا گزارہ ہوتا تھا، کسی کو چوری کرنے کی ضرورت نہیں تھی، جب اسلام کا نظام وہاں قائم ہو گیا تو کسی کو چوری کرنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی، لوگ اللہ کے نام پر بہت کچھ لٹاتےتھے ۔ دوسری بات یہ کہ آج سے1436سال پہلے لوگوں میں ایسی ترغیب نہیں تھی جو آج ہے ، اور نہ اس طرح کے شاپنگ مالز تھے، نہ ہی اس طرح کی بلڈنگ تھیں جہاں کوئی جا کر آئی فون یا آئی پیڈ چرا لے، سونا چرا لے ، اُس وقت کی زندگی مختلف تھی، کھانا پینا ، پہننا ،یہ بنیادی چیزیں ہی انسان کے لیے ضروری تھیں ۔اگر موجودہ زمانے سے موازنہ کیا جائے تو آج کی بنسبت چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں اشیاء کی شہوت ذرا سی بھی نہیں تھی ، رہ گئی بات کھانے پینے کی تو وہ لوگ زکوۃ، خیرات اور صدقات کرتے تھے، زکوۃ سے کام نکلتا تھا، جتنے بھی لوگ زکوۃ دیتے وہ تمام زکوۃ حضور پاک کے پاس جاتی تھی اور اللہ کے رسول اس کو ناداروں اور غریبوں میں تقسیم فرماتے تھے، اُس وقت وہاں اسلام کے حکمران آپ کے نواز شریف جیسےتو نہیں تھے کہ زکوۃ کے پیسے بینک سے پہلے سے ہی کاٹ لیے جاتے ہوں ، وہاں تو جو زکوۃ کا پیسہ آتا وہ مسلمانوں پر، ضرورت مندوں پرخرچ ہوتا تھا ۔ اب جب اسلام کا نظام ایسا تھا کہ سب کی ضروریات پوری ہو جائیں پھر کوئی چوری بلا ضرورت ہی کرے گا ۔ جب آپکے پاس نہ ضرورت ہو نہ چوری کرنے کی وجوہات ہوں پھر آپ چوری یا تو عادتاً یا پھر شرارتاً کریں گےاور سخت سزا ؤں کا مطلب یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں معاشرہ صاف ستھرا رہے معاشرے میں برائی نہ پھیلے، اگر ذرا سی ڈھیل دی توجرائم کی شرح بڑھ نہ جائے۔جتنی زیادہ سختی ہوگی، جرائم کی شرح اتنی ہی نیچے جائے گا۔
نیو یارک میں ایک وقت جرائم کی شرح اتنی زیادہ تھی کہ آپ نیویارک کی سڑکوں پر چل نہیں سکتے تھے لیکن پھر وہاں پرایف بی آئی اور ضلعی پولیس نے مل کر سخت چھاپے مارے جس سے نیو یارک میں جرائم کی شرح گر گئی ۔اسی طرح لندن میں( Brixton ) کے علاقے میں جرائم کی شرح بہت زیادہ تھی ۔ پھر وہاں پولیس نےچھاپے مارے اور ایسا نہیں تھا کہ بندوں کو مارا بلکہ جگہ جگہ کیمرے لگا دئیے اور لوگ پکڑے گئے اور وہ علاقہ صاف ہوگیا۔

سخت قوانین معاشرے کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے ہوتے ہیں:

اسلام میں سخت قوانین اس لیے بنائے گئے تھے کہ وہاں پر کچھ لوگوں کو غلط کام کرنے کی عادت تھی ، چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا اسلام کے اوائل کا قانون تھا، جس جگہ اسلام کا نظام قائم کیا جا رہا تھا ،اور یہ ان لوگوں کے جو بہت ہے ڈھیٹ قسم کے واقع ہوئے ہیں ، یعنی انکی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم چوری کیوں نہیں کر سکتے جبکہ ہم نے ساری زندگی چوری کی ہے،ہمارے باپ نے چوری کی ہم سے بہتر تو کوئی دنیا میں نہیں آیا تو ہم چوری کیوں نہیں کر سکتے،اب اُن لوگوں کو آپ کچھ سمجھا نہیں سکتے لہذا ہاتھ کاٹنے کی سزا رکھی گئی، وہاں یہ ہی چلتا تھا ۔
اب بات کرتے ہیں کہ سعودی عرب میں بھی چور کے ہاتھ کاٹتے ہیں، صحیح ہے ،لیکن وہاں صرف غریبوں کے ہاتھ کاٹتے ہیں ، سعودی عرب کے شاہی خاندان کے گناہوں پر انہوں نے کتنی مرتبہ یہ شریعت لاگو کی ہے؟ یہ لوگ بڑے بڑے جہاز منشیات سے لاد کر لے جاتے ہیں ، سعودی عرب کا شہزادہ طلال اغلام باز ہے لیکن یہ انکے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر کوئی عام انسان اغلام بازی کرتا ہے تو اسے سزا ملتی ہے اور بلڈنگ سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔عام اور خاص دونوں کے لئے برابر قوانین ہونا چاہئیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ، ہم سنگا پورکی مثال دیں گے، سنگا پور میں جرائم کی شرح بالکل صفرہے، نہ ہونے کے برابر، وہاں کوئی چوری یا دیگر جرائم نہیں کرتا، کوئی شاذو نادر ہی واقعہ ہو گیا تو ہو گیا۔ پولیس والے مکھیاں مارتے رہتے ہیں ۔اس ملک کے رہنے والے مسلمان بھی نہیں ہیں اور غلط کام بھی نہیں کر رہے تو اِس کا مطلب ہے دنیاوی طور پر کوئی ایسا قانون ہے کہ جو انسانوں کو اُن کاموں سے دور کر سکتا ہے اور تم اسلام لانے کے باوجود بھی انہی کاموں کو کر رہے ہو، تو تم ہی خراب ہو نا اور پھر خرابوں کو سدھارنے کے لیے کوئی نہ کوئی سختی تو کرنا پڑے گی۔

“ لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اب ہاتھ پاؤں کاٹنے والا قانون اِس دور میں خاص طور پر یورپ امریکہ، اسٹریلیاء میں لاگو نہیں ہے اور اگر ہوتا بھی تو مسلمانوں کے لیےہوتا غیر مسلم کے لیے اسلام کا قانون نہیں ہے۔جو اسلام کا قانون غیر مسلم پر لگاتے ہیں وہ اِس مذہب کا ، اِس دین کا ، اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالی جہنم میں ڈالے”

اگر آپ پوچھتے ہیں کہ کیا آج بھی یہ قانون ہونا چاہیے تو اسکا جواب ہے، نہیں! کیونکہ اب یہ قانون کار آمد نہیں ہے ، جب اسلام ہی ٹوٹ پھوٹ اور فتنہ کا شکار ہو گیا تو اب اسلام کی شریعت کیا بچی ہوگی کہ چوروں کے ہاتھ کاٹیں ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے 16 مئی 2017 کے یو ٹیوب پر کئے گئے لائیو سیشن سے ماخوز کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس