- 711وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
فنا فی الشیخ کے منازل:
تصوّرِ شیخ:
روحانیت میں جو پہلا سبق ہے وہ تصورِشیخ ہے۔ تصورِشیخ مرید اورمرشد کے درمیان وسیلہ بنتا ہے۔ مرشد کے اندرطاقت ہوتی ہے کہ جب وہ مرید کے بارے میں سوچتا ہے تومرید کا چہرہ سامنے آجاتا ہے لیکن مرید کے پاس یہ طاقت نہیں ہوتی لہٰذا مرید کوتصورِشیخ کرنا پڑتا ہے تاکہ غائبانہ طورپر بھی کہیں بھی رہیں مرید مرشد کودیکھ سکے اورمرشد تودیکھ سکتا ہے۔ اِس تصورکے ذریعے ایک روحانی رشتہ قائم ہوجائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ
جب آپ مرشد کا تصورکرتے ہیں شیخ کا تصورکرتے ہیں توشیخ کا نورآپ کی طرف آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ جو نورآتا ہے اُس سے آپ کے گناہ دُھلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جتنا وہ تصور،مرشد کا شیخ کا کرتا ہے اُتنے ہی زیادہ اُس کے گناہ دُھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
پرانے وقتوں میں جوکامل ذات ہوتے تھے فقراء، صالحین اور مقربین ہوتے تھے اُن کا جوطریقہٴِ اکتسابِ فیض تھا اُس کا پہلا قاعدہ یہ تھا کہ وہ مریدین کواپنا تصورسکھاتے تھے۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی شریف میں تصورِشیخ کے حوالے سے ایک مرید کا حال بیان کیا ہے کہ ایک شخص ایک مرشدِ کامل کے ہاتھ پربیعت ہوتا ہے اورمرشد جواُس کوپہلا سبق پڑھاتا ہے وہ یہ ہے کہ باقی چیزیں بعد میں ہونگی ابھی تم شیخ کا تصورکرو، جاوٴ تصور پکاوٴ جاکر، تصورکی مشق کرو اور جب تصور میں کامل ہوجاوٴ توپھراگلے سبق کیلئے آنا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ مرید مرشد کے پاس یہ سوچ کر آگیا کہ تصورِشیخ میں وہ کامل ہوگیا ہے۔ مرید نے دروازے پردستک دی تومرشد نے پوچھا کہ کون؟ اُس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں۔ مرشد نے کہا کہ ابھی تمہارا تصورصحیح نہیں ہے توتم واپس جاوٴ۔ پھروہ چلا گیا اورکچھ عرصے کے بعد آیا تواب دستک دے کرجب مرشد کی آوازآتی ہے کہ کون ہے تومرید کہتا ہے کہ پتہ نہیں میں ہوں یا پتہ نہیں آپ ہو! مرشد کہتا ہے کہ جب تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ تم کون ہوتوتم واپس جاوٴ تومرید واپس چلا گیا۔ مولانا روم نے اِسطرح بیان کیا ہے لیکن ایک اور صوفی کتاب ہے جس میں مختلف طریقے سے یہ بیان ہوا ہے۔ پھرکچھ عرصے کے بعد جب مرید دوبارہ آتا ہے اوردستک دیتا ہے تومرشد کہتا ہے کہ کون ہے تواب مرید مرشد کا نام لے کرکہتا ہے کہ میں ہوں۔ پھرمرشد کہتا ہے کہ ہاں ٹھیک ہے اب اندرآجاوٴ۔ یعنی تصوراتنا پختہ ہوجائے اور آپ کے ہَواس پرچھا جائے، آپ کے جذبات پرچھا جائے کہ آپ کواپنا ہوش ہی نہ رہے بلکہ آپ تصورِشیخ میں اتنے مدہوش ہوجائیں کہ شیخ کا ہی نام، شیخ کی ہی شناخت باقی رہ جائے اورباقی سب آپ بھول جائیں۔
تصورِشیخ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب جب آپ تصورِشیخ کریں گے آپ کے گناہ دُھلنے شروع ہوجائیں گے۔ جب آپ شیخ کا تصورکریں گے توشیخ کے پاس آپ کی طرف سے یہ نِدا جائے گی اور ایک روحانی تعلق بنتا جائے گا۔ آپ شیخ کا تصوّرکریں اور شیخ آپ کے بارے میں سوچے گا۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ
سورة البقرة آیت نمبر 152
ترجمہ: تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔
جب تصوّرِ شیخ میں کامل ہوگیا اُس کے بعد وہ اگلا مرحلہ ہے۔ ابھی توتصورمیں کامل ہوا ہے، تصور ہی ہے کہ تُو شیخ ہے۔
محبتِ شیخ:
دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ پھرشیخ دوسرے مرحلے میں اپنے سینے کی کوئی مخلوق نکال کرتیرے سینے میں ڈال دے گا، اب تصوّرِ شیخ بھی ہوگیا اور شیخ کا وجود بھی تیرے اندر آگیا۔ پہلا سبق تصوّرِ شیخ ہے اور دوسرا سبق محبتِ شیخ ہے جوکہ انسان کو فنا فی الشیخ کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
فنا فی الرسول کی منزل:
جب فنا فی الشیخ ہوگیا ہے توپھراُسے حضورؐکی بارگاہ میں لے جائیں گے۔ جب نبی کریمؐ کی بارگاہ میں لے جائیں گے توحضورؐکا دیدارہوگا اورحضورؐ کے دیدارکے بعد اب اُن کی مرضی ہے کہ وہ تجھے کیا نوازتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کوروحانیت کی منزل میں آگے جانا ہوتا ہے، حضورؐ کی تعلیم درکارہے۔ ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہے کہ
مرشد کبھی بھی تمہیں ظاہرمیں تعلیم نہیں دے گا۔ مرشد کی تعلیم دینے کا طریقہ یہ ہے کہ مرشد اپنے سینے کی کوئی مخلوق تمہارے سینے میں ڈال دے گا اور وہ مرشد کی مخلوق تمہارے سینے میں بیٹھ کرتمہارے لطائف کوروحانی علم وعرفان اور محبت عطا کرے گی۔ اسی لئے علمِ طریقت کوسینہ بہ سینہ کہا جاتا ہے۔
فنا فی الشیخ کے بعد اب تم دربارِرسالت تک پہنچ گئے۔ دربارِرسالت میں اب تمھیں آگے کی تعلیم حضورؐ سے چاہئیے توتعلیم دینے کی غرض سے نبی پاکؐ کا ایک جُثّہ مبارک مرید کے سینے میں آکربیٹھ گیا۔ جب ایسا ہوگیا تواب یہ فنا فی الرسول کا مقام ہے۔ فنا فی الرسول کے مقام کونائبِ رسول بھی کہتے ہیں۔ جوپھرایسے شخص کودیکھ لیتا ہے یعنی اگرتم نے فنا فی الرسول کودیکھ لیا توجہنم کی آگ تم پرحرام ہوگئی کیونکہ اُس کی آنکھوں میں، اُس کے چہرے پراوراُس کے لبوں پرلمسِ محمدؐ مچلتا ہے، محبتِ محمدؐ اُس کے جسم کے مسام سے خارج ہوتی ہے، اُس کی صحبت میں بیٹھنا حضورؐ کی صحبت میں بیٹھنا ہوجاتا ہے اور اُس کودیکھنا حضورؐ کودیکھنا ہوجاتا ہے۔ روحانیت میں سب سے زیادہ ضروری تصوّرِ شیخ ہے۔
سیدنا گوھرشاہی نے اپنی تعلیماتِ مبارک کا آغاز کیسے فرمایا؟
سیدنا سرکارگوھرشاہی نے جب اپنی تعلیمات کا آغازفرمایا توسرکارگوھرشاہی نے لوگوں کوتصورِ شیخ نہیں سکھایا بلکہ براہِ راست اسمِ ذات اللہ کا تصورسکھایا۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ تصورِ شیخ جوہوتا ہے وہ بڑا دشوارراستہ ہوتا ہے۔ جب تک تصورِشیخ پختہ نہ ہوجائے اورجب تک کہ مرشد کی طرف سے تصدیق نہ ہوجائے اُس وقت تک تصورِ شیخ میں شیطان بھی آسکتا ہے۔ سرکار گوھرشاہی کا مزاجِ گرامی ایسا ہے کہ آپ نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ روحانیت کے اِس راستے میں کوئی ایسا عمل لوگوں کوسکھایا جائے کہ جس کے کسی بھی پہلوسے وہ شیطان کی گرفت میں آئیں لہٰذا آپ نے تصورِشیخ نہیں کرایا بلکہ تصورِاسمِ ذات اللہ کرایا کیونکہ اسمِ ذات اللہ کے تصور میں شیطان کا عمل دخل نہیں ہے۔ لہٰذا اسمِ ذات اللہ کا تصورکرایا گیا تاکہ اسمِ ذات اللہ کے تصورسے آپ کا روحانیت کا راستہ محفوظ رہے اور آپ کوکوئی پریشانی نہ ہو۔ اسمِ ذات کا تصورکرتے رہیں، اسمِ ذات کے تصورکے ذریعے نوربھی ملتا رہے اور اسمِ ذات کے تصورکے ذریعے آپ کویہ اطمینان بھی رہے کہ شیطان عمل دخل نہیں کرے گا۔
سرکارگوھرشاہی کے وسیلے سے اور ذریعہ مبارک سے میرے، ہمارے، آپ کے اور باقی ماندہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے جوقلب اسمِ ذات اللہ سے منورہوئے ہیں، یہ اللہ کا قائدہ اورقانون ہے کہ جس کے وسیلے سے آپ کے قلب میں ذکراللہ شروع ہوگا تواللہ تعالی کی طرف سے اُس ہستی کا عشق بھی آپ کے دل میں آئے گا۔ جیسے ہی کسی کا قلب اسمِ ذات اللہ سے منورہوتا ہے اوردل اللہ اللہ کرنے لگتا ہے توخودبخود اُس کوسرکارگوھرشاہی سے محبت محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ یہ فطری عمل ہے۔ اب جہاں محفل میں بہت سارے لوگ ہیں آپ پوچھیئے جن لوگوں کا دل اللہ اللہ کرتا ہے اور جن کوذکرِقلب میسرآگیا ہے آپ اُن سے پوچھیئے کہ کیا آپ کوسرکارگوھرشاہی سے محبت محسوس نہیں ہوتی ہے تویقیناً ایک بھی انسان یہاں ایسا نہیں ہوگا جوکہے کہ نہیں مجھے سرکارگوھرشاہی سے محبت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا قاعدہ قانون ہی نہیں ہے کہ جوذکرتمہارے دل میں جاری کرے اُس کی محبت تمہارے دل میں پیدا نہ ہو، یہ ہوہی نہیں سکتا ہے۔ جتنے بھی لوگ ہیں جن کا قلب اللہ کے ذکرسے بیدار ہوگیا ہے اذخود اللہ کی طرف سے اُن کے دلوں میں سرکارگوھرشاہی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
تصاویر سے فیض کیسے ہوسکتا ہے؟
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نمازپڑھتے ہیں تونمازمیں اُن کوسرکارکا چہرہ نظرآتا ہے۔ اب خدا جانے کہ وہ چہرہ مبارک سرکارگوھرشاہی کا ہے یا پھرمحمد الرسول اللہ کا چہرہ مبارک ہے کیونکہ احادیث میں لکھا ہے کہ
امام مہدی ہُو بہُو ہمشکلِ مصطفی ہونگے۔
اب آپ کونمازمیں جوچہرہ نظرآرہا ہے جنہوں نے حضورؐکا دیدارنہیں کیا وہ نہیں پہچان سکتے لیکن جنہوں نے حضورنبی پاکؐ کا دیدارکرلیا ہے اوراللہ رب العزت نے اُن کویہ توفیق اورسعادت عطا فرما دی ہے وہ پہچان جاتے ہیں کہ نمازمیں جوچہرہ آیا ہے وہ نبی پاکؐ کا چہرہ ہے یا سرکارگوھرشاہی کا چہرہ ہے۔ کچھ لوگوں کونمازمیں محمد الرسول اللہ کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے اورہرنمازمیں اُن کو حضورؐ کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے۔ بہت سے لوگوں کوسرکارگوھرشاہی کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضورؐ کا چہرہ نمازمیں نظرآنا یا سرکارگوھرشاہی کا چہرہ نمازمیں نظر آنا شریعت کے حوالے سے جائز ہے یا ناجائزہے! اگرآپ کونمازمیں خانہ کعبہ نظرآئے توآپ کیا کہیں گے! جائزہی جائزہے تووہ بھی ایک عمارت کا رُخ ہی ہے، وہ مسجد الحرام کی تصویرآپ کونظرآرہی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ تونہیں ہے توپھراگرخانہ کعبہ تمہیں نمازمیں نظرآئے توتم خوش ہوتے ہولیکن اگر کوئی چہرہ تمہیں نمازمیں نظرآئے توتم پریشان ہوجاتے ہو حالانکہ خانہ کعبہ میں اللہ نہیں بیٹھا ہوا، وہ صرف ایک قبلہ ہے۔ پھربھی اُس کا اگرتصورتمہیں نمازمیں آجائے توتیری نمازاللہ کی بارگاہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اوراگراُس ذات کا چہرہ نظرآجائے جس کا طواف خانہ کعبہ بھی کرتا تھا، ذاتِ مصطفیؐ کا چہرہ مبارک نظرآجائے، امام مہدیؑ کا چہرہ مبارک نظرآجائے تواِس کا مطلب تویہ ہوا کہ تیری نماز کوچارچاند لگ گئے اورتمہاری نمازاللہ کوجائے ہی جائے کیونکہ تیری نمازمیں وہ چہرے نظرآگئے جن چہروں کے پردے کے پیچھے خدا خود بیٹھا ہے۔ اِسطرح جب لوگوں کی نمازدرجہِ قبولیت پر پہنچتی ہے اور جب لوگوں کی نمازترقی کرتی ہے توپھراُن کونمازمیں کسی کونبی پاکؐ کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے، کسی کوسیدنا گوھرشاہی کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے اوریہ اُن کیلئے مقامِ عید اور مقامِ دید ہے۔ مقامِ دید ہی درحقیقت مقامِ عید ہے۔
دیدار کے قابل توکہاں میری نظر ہے
یہ تیری عنایت ہے کہ رُخ تیرا اِدھر ہے
سرکارگوھرشاہی کا تصورکرنا ٹھیک بھی نہیں ہے کیونکہ اُس تصورکرنے میں آپ کی خامی رہ جائے گی لہٰذا بہتریہ ہے کہ پہلے اسمِ ذات اللہ سے آپ کا قلب منورہوجائے، اُس کے بعد پھر سرکار گوھر شاہی کی طرف سے اپنی ذات کا تصورعطا ہوتواُس میں شیطان کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ اِس لئے تصورنہیں کرایا جاتا۔ تصورسے دوچارباتیں ایسی بھی نکلتی ہیں کہ جوآپ کوروزمرہ زندگی میں فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اب اگرآپ کے ذہن میں غلط چیزوں کے بارے میں کوئی غلط خیالات آتے ہیں اور تصورات میں آپ غلط غلط کام دیکھتے ہیں تواُس سے آپ کا نورضائع ہوتا ہے یا کسی ایسے آدمی کے بارے میں سوچیں جس کے اندرنورنہ ہوجیسے کہ آپ کوکسی بندے سے محبت ہوگئی یا کسی لڑکی سے محبت ہوگئی تواُس میں نورنہیں ہے اوراُس میں اُس کا ذکرِقلب نہیں ہے تواب جتنا آپ اُس کے بارے میں سوچیں گے توآپ کا نورضائع ہوتا رہے گا۔ جس آدمی میں نورنہیں ہے اُس کے بارے میں سوچنا اور اُس کا تصورکرنا آپ کی طرف نارلے کرآئے گا اور آپ کا نورضائع ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے کہ
موٴمنوں کو چاہئیے کہ وہ موٴمنہ سے شادی کریں، ذاکرین کوچاہئیے کہ وہ ذاکرات سے کریں، موٴکن کو چاہئیے کہ وہ موقنہ سے کرے اور محسن کوچاہئیے کہ وہ محسنہ سے کرے۔
جب دونوں کے دلوں میں نورہوگا، جب دونوں کے سینوں میں اسمِ ذات اللہ کا چراغ جل رہا ہوگا اور ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں گے تونورہی آئے گا اورجائے گا۔ اِس بندے میں بھی نورہے اُس میں بھی نورہے تواب یہ آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں گے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے توآدمی اکثراُس کے بارے میں سوچتا ہے۔
مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکرَهُ
ترجمہ: جس کوجس سے محبت ہوجاتی ہے وہ اُس کا ذکرکرتا ہے۔
جیسے کسی لڑکی کی کسی لڑکے سے منگنی ہوگئی تواب وہ مختلف مواقعوں میں دیکھے گی کہ کسی نے کوئی شرٹ پہنی ہوئی ہوئی ہے توکہے گی کہ میرے منگیترکے پاس بھی ایسی شرٹ ہے یعنی بات دنیا کی کوئی اورہورہی ہوگی وہ گھسیٹ کراپنے منگیترکولے آئے گی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ محبت ہوگئی ہے۔ مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکرَهُ کہ جس کوجس سے محبت ہوجاتی ہے وہ بہانے لے لے کراکثراُس کا نام لیتا ہے اور ذکرکرتا ہے توذکرکرنے سے اُنسیت پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جن کوغلط غلط خیال آتے ہیں، سوچتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ گناہ نہیں ہورہا۔ غلط قسم کے جومناظرہیں اُن کوسوچنا بھی ایک روحانی آدمی کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ اگرکسی سے دوستی ہے توٹھیک ہے رکھولیکن جب تک اُس کے دل میں نورنہ جائے اُس کے بارے میں زیادہ نہ سوچو کیونکہ اُس کی نار، اُس کے غلط خیالات اوروسوسے آپ اُس کے بارے میں سوچیں گے تو وہ آپ کی طرف آجائیں گے۔ جب ہم (یونس الگوھر) کسی کی طرف روحانی توجہ کرتے ہیں تو اُن کے وسوسے، پریشانیاں اورنارمیری طرف آجاتی ہے۔ اُس وقت جووہ سوچ رہے ہوتے ہیں، وسوسے آرہے ہوتے ہیں اورجس طرح کے خیالات ہیں وہ مجھ تک آجاتے ہیں توپھرمجھے کہتے ہیں کہ یہ ہماری جاسوسی کرتا ہے تواِس کوکیسے پتہ چلا لیکن میں روحانی آدمی ہوں، اگرمجھے نہیں پتہ چلے گا توکسکوپتہ چلے گا! لوگ توآسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ روحانی توجہ کرئیے گا لیکن اب اُنہیں پتہ نہیں ہے کہ روحانی توجہ میں کروں گا توروحانی توجہ کرنے سے میرا نورجائے گا لیکن اگرآپ کا ذہن اُس وقت کہیں لگا ہوا ہے کونسے خیالوں میں گُم ہیں۔ روحانی توجہ کیلئے جب آپ درخواست کرتے ہیں توآپ یہ چیزبھی اپنے ذہن میں رکھا کریں کہ آپ اُلٹی سیدھی باتیں نہ سوچیں، اِس سے نہ صرف یہ کہ آپ کا ذہن خراب ہوگا بلکہ ذہن خراب ہونے کے ساتھ ساتھ جوغلط باتیں آپ سوچ رہے ہیں اُن کی منفیت بھی آپ کی طرف آئے گی۔ تھوڑا بہت نورآپ کے قلب میں بنا ہے اوروہ اِدھراُدھر کے بارے میں سوچ سوچ کراپنے روزانہ کا نورضائع کردیا توفائدہ کیا ہوا!
شروع شروع میں جب ہم نے یہ بات لوگوں کوکہی توبہت سے لوگ کہنے لگے کہ تصویرسے فیض کیسے ہوسکتا ہے ہم نے اُن کوایک مثال دی۔ آپ کوپتہ ہے کہ ایک پلے بوائے میگزین آتا ہے جس میں ننگی تصویریں ہوتی ہیں تواب وہ ننگی عورت کی تصویردیکھ کرآپ پراثرہوگا اورفوراً آپ محسوس کریں گے کہ شہوت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگرتصویروں سے فیض نہیں ہوتا تو یہ فحاشی کیوں دیکھتے ہو، یہ ننگی فلمیں، عورتوں کا ناچنا کیوں دیکھتے ہواورفحش گانے کیوں دیکھتے ہواگر تصویروں سے کچھ نہیں ہوتا! یہ دیوبندیوں نے تمہارا دماغ خراب کیا ہوا ہے کہ گندی تصویروں سے تم شیطانی فیض لے لواوراچھی تصویروں سے دل کا فیض نہ لو،محروم ہوجاوٴ۔ جن کوروحانیت سمجھ میں نہیں آتی اُن لوگوں نے یہ کہانیاں بیان کررکھی ہیں کہ تصویروں سے فیض کیسے ہوسکتا ہے! اگرننگی تصویروں سے آپ کے حال میں تغیُرواقع ہوسکتا ہے اورآپ کی شہوت میں اضافہ ہوسکتا ہے تو پھر اولیاء اور مقربین کے تصورسے اور اُنکی تصاویرکودیکھ کے روحانی فیض بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی دلیل اورقرآن کا حوالہ نہیں ہے لیکن آپ کوچیلنج ہے کہ اِس بات کوجھٹلا کے دکھا دیں۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 30 مئی 2020 کو بزمِ مرشد کی لائیوخصوصی نشریات میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔