کیٹیگری: مضامین

امام مہدی کا موضوع عالم اسلام میں اتنا ہی پرانا ہے جتنا اسلام پرانا ہے۔یوں تواحادیث میں آیا ہے کہ امام مہدی کا ظہورقرب قیامت میں ہوگا لیکن احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضور ؐکے دور میں جب کوئی آسمانی آفت آتی بار بار یہ جملہ سننے کو ملتا ” قیامت تو نہیں آ رہی“ ۔ یعنی آپ ؐکے دور سے لے کر اب تک امام مہدی کا انتظار ہوا ہے اور مرتبہ امام مہدی کے جو دعویدار ہوئے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ گذشتہ تین چار سو سالوں کے بیچ میں ہی ہوئے ہیں ابتدائی زمانے سے مرتبہ مہدی کے دعویدار تاریخ کے اوراق میں نظر آتے ہیں۔ احادیث میں یہ تو آیا ہے کہ

” امام مہدی اس وقت آئیں گے جب دنیا میں ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہو گااور وہ عدل و انصاف سے بھر دیں گے “

اور المیہ یہ ہے کہ اردو زبان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کے اندر جو الفاظ ہیں یا تو عربی کے ہیں، یا فارسی کے ہیں یا ہندی کے ہیں۔ عربی الفاظ کو جب اردو زبان بولنے والوں نےاستعمال کرنا شروع کیا تو اس لفظ کاجو اصلی معنی تھاوہ پس ِپردہ چلا گیا اور جو استعاری طور پر تھا وہ رائج الغت ہو گیا جس کی وجہ سے غلط فہمی اور اشکال پیدا ہو گیا۔ اب ایک ایسا شخص جو اردو بولنے والا ہواور وہ بہت زیادہ مختلف جہتوں کے ساتھ وہ مختلف معاشرتی علوم پر دسترس نہ رکھتا ہو ،مختلف زبانوں سے واقفیت نہ رکھتا ہوتو عمومی طور پر وہ ظلم کا مطلب سمجھے گا Tyranny۔ظلم کا جو مطلب اردو زبان بولنے والے لیتے ہیں اس کے لیے عربی کا لفظ ہے”جبر“ جبکہ ظلم کے معنی کچھ اور ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب اسی خاندان کا دوسرا لفظ اردو میں بولا جاتا ہے تو صحیح معنی اخذ کئے جاتے ہیں ، وہ لفظ ہے” ظلمت“ ۔ ظلمت noun ہے اور ظلم adjective ہے ۔ظلم کا معنی ہم جبر کے طور پر لے لیتے ہیں ۔ظلم کا معنی ہے باطنی اندھیرا، دلوں کا اندھیرا۔جن کی مادری زبان اردو ہے وہ بھی اردو زبان کی حقیقت سے نا واقف ہیں۔
اگر صحیح طریقے سے احادیث کا مفہوم تلاش کیا جائے تو پھربات واضح ہو جاتی ہے۔ لوگ جب ان احادیث کا ترجمہ کر کے یہ کہتے ہیں کہ جب امام مہدی کا زمانہ ہوگا تو اس وقت ظلم اپنی انتہا پر پہنچ چکا ہو گا اور جب امام مہدی آ جائیں گے تو بھیڑیا اور بکری دونوں ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے امام مہدی اتنا انصاف کریں گے کہ بھیڑیا اور بکری دونوں بھائی بھائی بن جائیں گے ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔اس سے مراد بھیڑیا یعنی خونخوار نفس والے لوگ اور بکری یعنی نفس الہامہ والے لوگ ،دونوں قسم کے نفوس جب امام مہدی کی بارگاہ میں جائیں گے تو دھیمے پڑ جائیں گے دونوں کو فیض ہو گا دونوں اُس گھاٹ سے پانی پئیں گے۔
ظلم انتہا کو پہنچنےسےمراد: دنیا میں تاریخ انسانی میں کسی نبی یا مرسل کے دور میں باطنی سیاہی اِس درجے کو پہلے کبھی نہیں پہنچی کہ جس درجے کودلوں کا اندھیرا امام مہدی کے دور سے پہلے کا جو دور ہوگا اس میں پھیل چکی ہو گی۔ اتنی باطنی سیاہی اور دلوں کی کدورت پہلے نہیں تھی۔آپ دیکھیں دلوں کا اندھیرا دور کرنے کے لیے اللہ نے مذاہب بطور مدارس قائم کیےہیں ۔ یہ وہ دور آ گیا ہےکہ اب کوئی بھی مذہب اس قابل نہیں رہا کہ وہ دلوں میں چراغ ِعشق ِالہی کوروشن کئے رکھے۔ مندروں میں چلے جائیں وہاں تاجر بیٹھے ہیں وہ بھگوان کو بیچ رہے ہیں، چرچوں میں جائیں GOD بک رہا ہے، مسجدوں چلے جائیں تو وہاں اللہ تعالی بک رہے ہیں۔
رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی۔۔۔۔۔ فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی ۔۔۔۔۔بر ق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں نمازی نہ رہے۔۔۔یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

موجودہ مذاہب کا حال:

دلوں کا اندھیرا دور کرنے کی جو تعلیم ہے اس کا کسی مذہب میں آج ذکر ہی نہیں ہے۔ ہندو دھرم میں جائیں تو بس پوجا پاٹ ہی ہے۔ مسلمان نماز پڑھ کرروزہ رکھ کے کاروبار میں برکت مانگتا ہے۔ ہندؤں نے برکت کے لیے الگ بھگوان بنایا ہوا ہےزیادہ تر لوگ لکشمی کی پوجا کرتے ہیں تاکہ پیسہ ملے۔لوگوں نے تو اپنی دنیا سدھارنے کے لیے مذاہب کو اختیار کیا ہوا ہے۔ بنکاک میں دیکھا کہ ٹیکسی ڈرائیور نے کار میں بدھا کا مجسمہ رکھا ہوا ہے ہم نےاس کو کہا LORD کوتو ٹیمپل میں ہونا چاہیے۔ کہنے لگا جبLORD ٹیکسی میں ہوتا ہے تو کاروبار بوم بوم ہو جاتا ہے تو ہمیں خیال آیا کہ ان کی زندگیوں میں خدا کی ضرورت کاروبار میں برکت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ خدا کو ماننا اپنے مطلب کے لیے ہے، خدا کو پانے کے لئے خدا کو نہیں مان رہے۔ دنیا میں ایک اصول ہے ، یہ جملہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ مطلب پڑے تو گدھے کو بھی باپ بنا لو، ہم نے کبھی غور نہیں کیا یہ کتنا منافقانہ جملہ ہے۔کبھی غور نہیں کیا ہم نے کہ یہ توہم کونفاق اور مکر سکھایا جا رہا ہے اتنی سوچ کہاں ہے اور اگر مطلب کے لیے گدھے کا باپ بنا لیں تو ہم مطلبی ہو گئےاور اب تو لوگوں نے خدا کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ مسجدوں میں جا کر سب یہ ہی رونا روتے ہیں کاروبار میں برکت ہو جائے۔
ہم سے بھی لوگ ہمارا براہ راست ای میل مانگتے ہیں کہ آپ سے پرسنل بات کرنا ہے اور وہ پرسنل بات کاروبار میں ترقی، جاب مل جائے جیسی بات ہوتی ہیں ، ہوائی جہاز کے ٹکٹ بیچنے والے سے تم بس کی ٹکٹ مانگ رہے ہو۔

”ہم یہاں جو اشیاء تقسیم کر رہے ہیں وہ اشیائے یدّلہی ہیں۔خدا کے ہاتھ سے دی ہوئی محبت کی اشیاء جو لوگوں کے دلوں کو روشن کرنے والی ہیں “

یہودی مذہب کا حال:

آج مذاہب کا جو حال ہمارے سامنے ہے ، آپ خود دیکھ لیں آج کوئی ایسا مذہب بتا دیں کہ جس پر اُس کے ماننے والے عمل پیرا ہوں۔کیا یہودی اپنے مذہب پر عمل پیرا ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب فلسطین کا وجود تھا اب فلسطین کی ایک پٹی رہ گئی ہے، ناجائز قبضہ کرتے کرتےاسرائیل کہاں پہنچ گیا ہے۔ کیا ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہا تھا کہ جھوٹ بول کے،بے ایمانی کر کے اللہ نے جس زمین کا وعدہ کیا ہے اس بے ایمانی اور فراڈ سے وہ زمین مل جائے گی ۔کیا جو وعدہ اللہ نے کیا تھا زمین دینے کا وہ اللہ دے گا، تم فراڈ کر کے کیوں حاصل کر رہے ہو۔ اللہ نے وعدہ کیا ہے تو تم فراڈ کیوں کر رہے ہو؟ جو قبضہ تم کر رہے ہو وہ ناجائز ہے حرام ہے اس سے ابراہیم علیہ السلام خوش نہیں ہوں گے ۔ تم فراڈ کر رہے ہو اس کا مطلب ہے تم کو اللہ کے وعدے پر بھروسہ نہیں ہے۔ایک آدمی اگر یہ کہے میرا اللہ پر توکل ہے اور دوسری طرف کاروبار میں بے ایمانی اور فراڈ بھی کرتا ہے تو کون سی بات سچی ہے، کیا اس کے دعوی توکل کو سچ مان لیا جائے گا۔ اللہ پر توکل ہے تو فراڈ کیوں کر رہے ہو۔لہذامعلوم یہ ہوا کہ بے ایمانی، فراڈ اور جورو ظلم کر کے نہتے معصوم بچوں پر گولہ باری کر کے، لاشیں گرا کے وہاں اپنا جھنڈا گاڑ رہے ہو ، ہم سچ بیان کر رہے ہیں، ہم کسی کی سائیڈ پر نہیں ہیں۔ نہ کسی مسلمان کی ،نہ کسی یہودی کی سائیڈ پر ہیں ہم ایک سچ بیان کر رہے ہیں۔ لاشیں گرا گرا کراپنا جھنڈا گاڑو اور کہو یہ اللہ کا کرم ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہیں ۔اور آپ کا اس بات پر ایمان ہی نہیں ہے کہ اللہ نے جس زمین کا وعدہ کیا ہے اللہ وہ زمین لوٹا دے گا۔ اگرآپ کو اللہ کے اس وعدے کا پاس ہوتا تو بے ایمانی کر کے زمین حاصل کرنے کی کوشش نہ کرتے، اللہ کے وعدے کے پورا ہونے کا انتظار کرتے، تو معلوم یہ ہوا یہودی بھِی اپنے مذہب پر عمل پیرا نہیں ہیں ۔

عیسائی مذہب کا حال:

اب عیسائیوں کا بھی حال دیکھ لیں ۔کیا عیسائی کرسمس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یاد میں مناتے ہیں ؟ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس نے پیسہ بنانے کے لیے ، معاشرتی طور پر کئی تہوار گڑھ لیے ہیں، ان تہواروں کے سیزن آتے ہِیں جیسا کہ haloween ۔ یہ بھِی ایک سیزن ہے، امریکہ ایک capatilist society ہے جہاں ہر چیز کمرشل ہے۔ جیسا کہ سانٹا کا تصور ہے اس کا عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات بھی طے نہیں ہے کہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش پچیس دسمبر کو ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہے۔

ہندو مذہب کا حال:

ہندؤں کو دیکھ لیں ہندؤں میں ذات پات کا فرق ہے ، یہ کھتری ہے ، یہ شودر ہے ، یہ برہمن ہے۔ سب کو بھگوان نے بنایا ہے کیا شودر کیا برہمن،کیا کھتری۔ یہ سب بکواس ہے اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔

مسلمان مذہب کا حال:

مسلمانوں کو دیکھ لیں سارے فرقے ایک ہی خدا کو مانتے ہیں اور ایک دوسرے کی مساجد میں بم بلاسٹ بھی کرتے ہیں ۔اگر قرآن میرے ہاتھ میں ہے تو قابل تعظیم ہے اور اگر تیرے ہاتھ میں ہے تومجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ جو ناقابل فہم اور ناقابل بیان تھا۔ پاکستان میں سیدنا گوھر شاہی کے ماننے والوں کے گروہ نے عید میلاد النبی کا جلوس نکالا، پورے پاکستان میں دل کے اوپر اسم ذات اللہ کا نشان مشہور تھا۔عید میلاد النبی کے جلوس میں بہت بڑا دل بنوایا گیا جس میں اسم ذات اللہ لکھا اور بلب وغیرہ سے اسے روشن کیا ، بڑا چمکدار قسم کا وہ دل ٹرک پر رکھوایا اور جلوس رواں دواں ہوا توالصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ پڑھنے والے سنی بریلوی والوں کو سرکار گوھر شاہی سے بغض ہو گیا اس بغض میں انہوں نےاُس اسم ذات اللہ کو جو کہ ہمارا نشان تھا، جس پر لفظ اللہ لکھا ہوا تھا اس کو جوتے مارے، جبکہ وہ نام” اللہ“ ہے اس واقعے سے یہ معلوم ہوا کہ اُن کو سیدناگوہر شاہی سے نہیں بلکہ اُن کو اللہ سے بغض ہے۔
کوئی بھی مذہب کوئی بھی دین اب ایسا نہیں بچا کہ جہاں پر دلوں میں روشنی ، دلوں میں نور بنانے کی صلاحیت موجود ہو۔ کوئی دل منور نہیں رہا ،کوئی سینہ آباد نہیں رہا۔ یہ وہ دور آ گیا ہے جس کے لیے حضور نے فرمایا تھا جب ظلم اپنی انتہا پر پہنچ جائے گا تب امام مہدی آئیں گے۔ ظلم سے مراد تھی ”ظلمت “ اور ظلمت کیا ہے دلوں کا اندھیرا۔ اب وہ دور آ گیا لیکن اس حدیث کی تشریح کون کرتا؟ اِس کی تشریح کرنے کے لیے بہت سارا بگاڑ جو پیدا ہو گیا، الفاظ کے معنی تبدیل ہوگئے جن کے دلوں میں روشنی تھی وہ روشنی چلی گئی۔اب ایسے عالم آ گئے کہ جن کے دل ودماغ خراب ہیں۔ جنہوں نے مذہب کو اپنی لونڈی بنا لیا ، مذہب سے اپنی خدمت کرا رہے ہیں۔ آج کے دور میں کوئی اعتبار نہیں کہ کوئی یا حسین کہہ رہا ہے تو وہ شیعہ ہی ہے ۔ ہمارا ایک جاننے والا سنی تھا لیکن باتیں شیعوں جیسی کرتا تھا۔لوگوں نے اپنی پیٹ پوجا کے لیے نہ اللہ کو چھوڑا نہ رسول کو چھوڑا اور جب امام مہدی آ گئے تو انجمن سرفروشان اسلام نے ان کے نام کو بھی استعمال کیا، مزار بنا کر گلہ رکھ کر بیٹھ گئے۔ جائیں تو جائیں کہاں ،کہاں سے حق کی روشنی ملے گی ، یہ ظلمت کی انتہا ہو گئی۔ جائیں تو کہاں جائیں؟
چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے
کہیں سے لوٹ کے آؤ بہت اندھیراہے

اُمت مسلمہ میں دشمن ِ خدا :

لیکن یہ دلوں کی روشنی کیا اِسی دور میں ختم ہوئی ہے؟دلوں کی روشنی تھی کب زمانے میں؟ زمانے میں انسان دو طرح کے ہوئے ایک خدا دوست اور ایک خدا دشمن باقی جو ہیں وہ دنیا دار ہیں۔ دنیا دار بے چاروں سے بغض نہ رکھو یہ گناہوں میں ہیں ۔ فقراء درویش کے پاس جو معیارہے کہ اگر یہ خدا دشمن نہیں ہے، گناہ گار ہے دنیا دار ہے تو کہتے ہیں خیر ہے، پیار سے ملتے ہیں، گناہ گار ہی تو ہے خدا کا دشمن تونہیں ہے۔
جو خدا کا دشمن ہوتا ہے وہ خدا تک جانے والے راستے پر کسی کو چلتا ہوا دیکھ نہیں سکتا ، برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی صراط مستقیم پر چلے اور وہ آرام سے بیٹھ جائے ۔ تم تو شیطان کے پیچھے لگے ہوئے ہو جو نظر بھی نہیں آتا۔انسانوں کی صورت میں شیطان سے بڑے بڑے سورما بیٹھے ہوئے ہیں جو اُس راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں جو خدا کی طرف جا رہا ہے۔ تم تو اتنےبڑے احمق ہو کہ تمہیں سمجھ نہیں آیا کہ جناب نمازوں اور ذکر سے روکنے والے جو ہیں یہ اتنی بڑی بات نہیں ہےاس مقابلے میں کہ جوانسان تمہیں اس راستے سے روکے جو خدا کی طرف جا رہا ہے۔وہ راستہ، وہ صراط مستقیم دل والا راستہ ہے۔ اس راستے سے ہٹا کر تمہیں الصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ اور مصطفی جان رحمت میں لگا دے، دین کے کام میں لگا دے ۔ارے بھائی ڈاکٹر کا لباس پہننے سے پہلے ڈاکٹر تو بن جائو، جہاز اڑانے سے پہلےپائلٹ بن جاؤ، دین کا کام کرنے سے پہلے اہل اللہ بن جاؤ۔ تم شیطان ہو اور شیطان کو اندر بٹھا کر دین کا تبلیغ کا کام کر رہے ہوتو لوگوں کو شیطان ہی بناؤ گے ۔ زمانے میں ایک دشمن خدا اورایک خدا دوست لوگ ہوتے ہیں۔ اب سب سے زیادہ دشمن خدا کی تعداد امت مسلمہ میں آئی ہے، امت مسلمہ میں منافق کم، دنیا دار کم، دشمن خدا زیادہ ہوئےہیں۔
حضور پاک ایک دن دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ ابراہیم علیہ السلام کی اُمت اور موسی علیہ السلام کی اُمت دنیا کی طرف راغب ہو گئی تھی تو میری اُمت کو دنیا کی رغبت سے محفوظ فرمانا۔ اللہ نے فرمایا دنیا کی محبت اور رغبت میں وہ رب سے دور ہوئے لیکن انہوں نے رب والوں کو تو رب سے دور نہیں کیا ۔ تمہاری امت میں سب سے بڑا امتحان یہ ہے اس میں دشمن خدا زیادہ ہوں گے۔
آپ دیکھ لیں حضور سخت بخار کی حالت میں ہیں، آپ کو معلوم ہے آپ عنقریب دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں ، آپ نےکسی لکھنے والے کو بلانے کا فرمایاکہ خلافت کے بارے میں کچھ نصیحتیں کر دوں تاکہ بعد میں انتشارپیدا نہ ہو۔اس وقت عمربن خطاب تلوار نکال کر حضور ؐ کے سامنے کھڑے ہو گئے کہ اب دین مکمل ہو گیا ہے ہمیں کسی نصیحت کی ضرورت نہیں ہے ، ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔اُسی وقت اُمت دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔حضور سخت بخار اور نقاہت کی حالت میں ہیں ، آج جس قرآن کو پڑھ کر ہم کہتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
سورۃ الحجرات آیت نمبر 2
ترجمہ: اے مومنوں اپنی آوازوں کو نبی کریم ؐ کی آواز سے اونچا نہ کرنا۔ورنہ تمھارے سارے اعمال غارت جائیں گےاور تمھیں شعور بھی نہیں ہوگا۔

یہ آیت ہمارے لیے نہیں ہے حضورؐ ہمارے سامنےتو نہیں ہیں ہماری آواز انکی آواز سے اونچی کیسے ہوگی !! یہ آیت اُن کے لیے تھی جن کے درمیان حضورؐ جسمانی حالت میں موجود تھے اورانہوں نے نہ صرف آوازاونچی کی بلکہ تلوار بھِی نکال لی ۔ کہاں ہے دل کی روشنی؟؟؟ کیا کوئی ہے جو یہ کہہ دے یہ آیت ہمارے لئے ہے؟ ہماری آواز حضورؐ کی آواز سے اونچی کیسے ہو گی؟ اور یہ جو بدھو ہیں انہوں نے حضورؐ کے روضے پراس آیت کو بڑا بڑا لکھ کر لگایا ہوا ہےکہ یہاں خاموش، گستاخی ہو جائے گی۔کیسے گستاخی ہو جائے گی، سوچیں نا ، حضور بول رہے ہوں اور آپ کی آواز حضورؐ کی آواز سے اونچی نہ ہو اس کی ممانعت ہے۔ یہ ممانعت نہیں ہے کے ان کے روضے پرجا کر اونچی آواز میں انہی پر درودو سلام نہ پڑھ سکیں۔حضور کی آواز سے اونچی آواز نہیں نکالنی لیکن روضے میں تو حضورؐ خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو کیا اب اونچی آواز میں ان کے لیے نعت بھی نہیں پڑھ سکتے۔اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو قرآن سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ یہ آیت ہم پر لاگو نہیں ہوتی، جن پر لاگو ہوتی تھی کیا انہوں نے اِس پر عمل کیا؟ مولویوں نے ہم کو کیا پاٹ پڑھایا ، جھوٹی حدیثیں سنائیں معاذ اللہ کہ

” میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ، ہدایت پاجاؤ گے“

فرض کریں اگر صحابہ کرام میں سے صرف عمر بن خطاب کو ہی پکڑ لیں تو کیا ہمیں ہدایت مل جائے گی؟ عمر بن خطاب کو حضرت علی نے کئی مواقعوں پر درست کیا کبھی حجر اسو د کے معاملے میں ،کبھی انصاف کے معاملے میں تو کبھی خلافت کے معاملے میں۔ایک دفعہ عمر بن خطاب کہتا ہے کہ جب سے میں خلیفہ بنا ہوں دیکھو کتنی ترقی ہو رہی ہے تو اسوقت سلمان فارسی نے کہا تمھاری خلافت اچھی ہے کہ تمھارا مشیر علی کرم اللہ وجہہ ہے ۔اگر علی کےمشورے نہیں ہوتے تمھارے لئے تو تم ہلاک ہو جاتے ۔ اب اگر ہم ان صحابہ کی بات مان لیں جو اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور محمد ؐ کا نواسہ کربلا کے ریگزاروں پر سات دن کا بھوکا اور پیاسا تڑپ تڑپ کراپنا خون بہا دیا اور کوئی صحابی رسول ان کی مدد کو نہیں گیا ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔کیا ہم بھی ہدایت کے لئے ایسے ہی صحابہ کی پیروی کریں ؟ آج کے اس دور میں اگر ہمیں پتہ چلے کہ کسی ملک میں نبی کے نواسے کی جان پر بنی ہوئی ہے تو کیا ہم اُن کی مدد کےلئے نہیں جائیں گے ۔کیونکہ اُن کی محبت تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔ لیکن حضورؐ کے دور کےجو افضل مسلمان تھے انھوں نے کیا کیا ! وہ تو بڑے متقی تھے ، ستاروں کی مانند تھے لیکن نبی کے نواسوں کو بچانے کےلئے نہیں گئے ۔
جب سیدنا گوھر شاہی نے اسم ذات اللہ عطا فرمایا اور دل میں روشنی آئی تو پھر سرکار کی بارگاہ سے سنا کہ حضور پاک ؐ نے صرف نو صحابہ کرام کو اسم ذات اللہ عطا کیا۔ اب سیدنا گوھر شاہی کی ذات ِ مبارکہ کو دیکھ لیں پروگرام ہو رہا ہے اور لوگوں کا جم غفیر وہاں موجود ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ جس کو اسم ذات لینا ہے وہ اللہ ھو کہتا ہوا سامنے سے گزر جائے۔کائنات میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔دنیا اب اس نہج پر پہنچ گئی کہ اب نمازیں کھوکلی رہ گئی ہیں ، عشق رسول کے بغیر الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ رہ گیا اور مصطفی جان رحمت پر لاکھوں سلام کسی اور غرض اور غایت سے پڑھا جانے لگا۔دین عمامے ، داڑھیوں اور نعلین کا نقش اپنے اوپر لگانے کو سمجھ لیا ہے ۔پھر امام مہدی کیوں آئیں گے !

”دلوں میں جو اندھیرا ہے ، دلوں میں جو شیطان ہے ، دلوں کا شیطان نکالنے کےلئےاور دلوں کا اندھیرا دور کرکے وہاں اسم ذات اللہ کا چراغ روشن کرنے کےلئے امام مہدی تشریف لائیں گے “

امام مہدی وہ ذات ہے جس ذات کے پردے میں رب الارباب زات را ریاض موجود ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں کو حق سمجھ میں آ گیا ان کو مذہبی حلقوں نے معیوب اور معتوب سمجھ لیا ۔ جیسے ابو زر غفاری اور زید بن حارث تھے۔ جس کو بھی حق مل گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ چھوڑو کیا نماز پڑھنی بس حضور کے قدموں میں بیٹھے رہتے ہیں ہماری تو مسجد ، مندر اور کعبہ ہی حضور ؐ کے نعلین ہیں ۔جس کو راز پتہ چل گیا وہ حضور ؐ کے قدموں سے وابسطہ ہو گیا ۔آج کا مسلمان داڑھی رکھنے کو مذہب سمجھتا ہے ، داڑھی رکھنے سے انسان تبدیل نہیں ہوتا اگر اتنی معتبر چیز ہوتی تو اس کے رکھنے سے کردار میں بھی تبدیلی آتی ۔لیکن اگر آج کے اس دور میں دیکھیں تو داڑھی رکھنے والے زیادہ شیطان نظر آتے ہیں ۔اب لوگوں کہ یہ حدیث سمجھ میں نہیں آئی کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا لیکن ظلم کیا ہو گا یہ کسی کو سمجھ نہیں آیا !! لوگوں نے ظلم کا مطلب یہی لے لیا کہ آپ پر جبر کرے ۔کیا امام مہدی لوگوں کو جبر سے بچانے کےلئے آئیں گے ،ہر گز نہیں ، امام مہدی لوگوں کو اللہ سے ملانے کےلئے آئیں گے۔ظلم ختم کرنے کےلئے تو کسی اچھے سیاسی لیڈر کی ضرورت ہے یہ امام مہدی کی جاب نہیں ہے ۔ امام مہدی منجانب اللہ ہوں گے تو اُن کا کام بھی اللہ سے متعلقہ ہو گا ۔لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ جب دنیا ظلم سے بھری ہو گی تو امام مہدی دنیا کو انصاف سے بھر دیں گے ۔ پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ

امام مہدی خانہ کعبہ میں مدفون خزانہ نکال کر فی سبیل اللہ تقسیم کر دیں گے۔

مذاہب نےمال ومتاع کو شیطان کی میراث کہا ہے اور آپ کہہ رہے کہ وہ خزانہ ہیرے جواہرات،سونا چاندی ہو گا جو امام مہدی تقسیم فرمائیں گے۔امام مہدی منجانب اللہ ہوں گے اور شیطان کی میراث تقسیم فرمائیں گے ۔دنیا میں کیا پیسے کی کمی ہے ؟ کتنا پیسا ہے دنیا والوں کے پاس ۔ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا بھوکی اور فاقوں پر ہے جو امام مہد ی ان کو خانہ کعبہ سے سونا اور چاند ی نکال کر تقسیم فرمائیں گے ۔ایک دفعہ حضور ؐ اپنی چہیتی بیٹی فاطمتہ الزہرہ کے گھر تشریف لے کر گئے اور دستک دی۔اندر سے بیٹی کی آواز آئی کہ باباجان میرے جسم پر اتنے کپڑے نہیں ہیں ڈھانپنے کے لئے کہ میں دروازہ کھولوں اور آپ کو آنے دوں۔تو آپؐ نے دیوار کے اوپر سے اپنی کملی پھینکی اور فرمایا کہ بیٹا اس کو اوڑھ لو۔اور اندر تشریف لے کر گئے تو فاقوں کی حالت میں تھی بیٹی ۔ اس کو دیکھ کر آپ ؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ فاطمہ تیرے باپ کو اللہ نے اتنی طاقت دی ہے کہ میں تیرے گھر کے درودیوار پر ایک نظر ڈال دوں تو اُن کو سونے اور چاند ی کا بنا دوں ۔ لیکن کیا تجھے دُنیا کی محبت راس آ جائے گی ، کیا تو دنیا کی محبت چاہتی ہے ؟ تو فاطمتہ الزہرہ نے کہا کہ مجھے فقرو فاقے میں اللہ کی محبت کی خوشبو آتی ہے ، مجھے سونا اور چاندی نہیں چاہیے ۔
ایک موقع پر اللہ تعالی نے حضورنبی کریم کو فرمایا کہ اللہ کی نظر میں دنیا کی حیثیت ایک مکھی کے پر کے برابر بھی ہوتی تو ان کو ایک قطرہ پانی کا بھی نہ دیتے ۔ دنیا کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے نہ حضور ؐ کی نظر میں اور نہ اللہ کی نظر میں ۔ اور قرآن مجید میں اللہ نے کہا کہ

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
سورة آل عمران آیت نمبر 185

یہ دنیا متاع غرور ہے ، دھوکے کی ٹٹی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں امام مہدی وہی دھوکے والی چیز ، سونا چاندی بانٹیں گے ۔ یہ ہے آپ کی تشریحات ِ قرآن اور حدیث ۔ قرآن وحدیث بھرا ہوا ہے کہ مال ومتاع دھوکے والی اور اللہ سے دور کرنے والی چیزیں ہیں اور آپ حضور ؐ کی حدیث کا یہ مطلب اخذ کر رہے ہیں کہ امام مہدی سونا چاندی تقسیم کریں گے ۔وہ خزانہ ما ل متاع نہیں بلکہ حجر اسود ہے اور وہاں سے شفاعت تقسیم ہو رہی ہے ۔ وہ خزانہ اسم ذات اللہ کا ازن ہے جس سے لوگوں کے دلوں میں اُجالا ہو ،نور آئے اور اللہ سے تعلق جڑ جائے ۔لوگ یہ تو کہتے ہیں حدیث کی روشنی میں ہم کو ثابت کروکہ سرکار گوھر شاہی امام مہدی ہیں لیکن ستم یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو حدیث ہی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔ جو ادوار اوراصول ِ حدیث پڑھاتے اور پڑھتے ہیں ، حدیث تو اُن کے سمجھ میں نہیں آئی ۔ حدیث سمجھنے کے لئے کسی ایسے شخص کے پاس بیٹھنا پڑے گا جو مزاج رسول سے واقف ہو اور اُن سے رابطے میں ہو اور ان سے منسلک ہو ۔ہمارے پاس امام مہدی کے حوالے سے جتنی تعلیم اور گفتگو ہے وہ ہم نے براہ راست امام مہدی سے حاصل کی ہے اس کے بعد پھر ہم نے حدیثیں پڑھیں ہیں ۔

متعلقہ پوسٹس