- 612وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
چچنیا کا دورہ :
08 اگست 2018 کو مہدی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی ایک ٹیم نے چیچنیا کا دورہ کیا اور مشن کی سرگرمیوں کا آغاز دارالحکومت گروزنی سے شروع کر دیا۔ مشن سرگرمیوں صرف دارالحکومت تک محدود نہیں تھا بلکہ ٹیم نے مختلف شہروں جیسے آرگن، ویڈسنکی ریون، کرچالوئے، ویڈینو نوزئی اور یوٹوسوسکی کا دورہ کیا۔سب سے پہلے دن ٹیم نے گروزنی کی سب سے بڑی جس کا نام “احمد کادریوف مسجد “ہے وہاں کا دورہ کیا۔ مسجد کے امام سے ملاقات کی اور ذکر قلب کی اہمیت کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا ۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم صوفی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہیں اور تصوف پر یقین رکھتے ہیں ۔گروزنی میں مختلف دیگر مساجد کا دورہ کیا اور ادائیگی نماز کے بعد ذکر قلب کی اہمیت سے متعلقہ لیفلٹ بھی تقسیم کئے گئے۔
دوسرا دن آرگن شہر کی مساجد کا دورہ کیا جو کہ دارالحکومت سے تقریبا 20 کلومیٹر دور ہے اوروہاں بھی لیفلیٹ تقسیم کئے گئے۔ہماری ٹیم نے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا اور اُن لوگوں کے ساتھ رابطے کیے جو ذکر اللہ کرتے تھے اور صوفی ازم پر یقین رکھتے تھے اور ولیوں کے ماننے والے تھےجن میں (Kurchaloy) شہر جوکے گروزنی سے 60 کلومیٹر دور واقع ہے اوریہ لوگ صوفی ازم پر یقین رکھنے والےاور اولیاء اللہ کا ادب کرنے والے ہیں۔یہ لوگ ایک بزرگ حاجی کاشیف کے ماننے والے تھے اوران کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ لوگ صوفی مسلمان ہیں لیکن اپنےآباؤ اجداد کے بتائے طریقے سے ذکر جہرپر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔یہ ذکر کافی جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے جسے ہر عمر کے آدمی کے لئے کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس سیدنا گوھر شاہی نے جو ذکر جہر کا طریقہ کار وضع فرمایا ہے وہ ہر مذہب اور ہر عمر کے شخص کے لئے قابل قبول ہے ۔ہماری مہدی فاؤنڈیشن کی ٹیم نے ان کی ذکر کی محفل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور ان لوگوں نے اسے بہت سراہا اور پھر اختتام پر ہم نے انہیں وہ طریقہ ذکراور اسمائے الہی کی تکرار والا ذکر بھی بتایا جو سیدنا گوھر شاہی نے عوام الناس کے لئے وضع کیا ہے۔انہیں بھی ذکر قلب کی اہمیت اور سیدنا گوھر شاہی اس قحط الرجال میں جو فیض عطا کر رہے ہیں اس حوالے بھی سمجھایاجس کو انہوں نے بہت پسند کیا اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ ابتداء میں تبادلہ خیال کے لئے زبان کا بہت مسئلہ آ رہا ہے لیکن ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ مسئلہ بھی حل ہو گیا تھا ۔سب کے درمیان ہم نے لیفلٹ بھی تقسیم کئے ۔ان لوگوں کے ساتھ مل کر مستقبل میں پروگرام کرنے کی بھی بات چیت ہوئی ہے ۔
ہماری ٹیم نے نزہوئے یاتروسکی میں نقشبندی سلسلے کے صوفی بزرگ کے مزار کا بھی دورہ کیا اور اس مزار پر آنے والے سیاحوں کے درمیان کتابچے اور لیفلیٹ تقسیم کئے اس کے علاوہ سیدنا گوھر شاہی کی چاند اور حجر اسود میں منجانب اللہ ظاہر ہونے والی نشانیوں والے لیفلٹ بھی تقسیم کئے۔ زبان کی رکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے ہم ٹرانسلیٹر ایپ کی مدد سے اپنے پیغام کو آڈیو میسج میں منتقل کر لیا تھا ، جب ہم لوگوں کو لیفلٹ دیتے تو ساتھ ہی وہ ٹرانسلیٹ شدہ آوازی پیغام بھی انہیں سنا دیتے تھے جس سے انہیں ہمارے آنے کا مقصد واضح ہو جاتا تھا ۔ کچھ ایسے لوگ بھی ملے جنھوں نے پیغام سن کر مسرت کا اظہار کیا اور ذکر قلب کی اجازت بھی لی۔ الغرض چچنیا کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور کئی لوگوں تک سیدنا گوھر شاہی کا پیغام محبت اور ذکر قلب پہنچا ۔
استنبول کا دورہ:
چچنیا کے کامیاب دورے کے بعد ہماری ٹیم روس سےترکی کے شہراستنبول میں آئی اور پہلے دن ایپ سلطان کے علاقے میں واقع حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری دی۔ یاد رہے کہ ابوایوبؓ انصاری بھی ان منتخب بزرگان مدینہ میں ہیں، جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر آنحضرتﷺ کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تھی اور جب حضوؐرنے مکے سے مدینے ہجرت فرمائی تو آپ ؐکی اونٹنی نے حضرت ایوب انصاری کا ہی گھر مہمان نوازی کے لئے منتخب کیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار کے گردو نواح میں سیدنا گوھر شاہی کی منجانب اللہ ظاہر ہونے والی نشانیوں اور مرتبہ مہدی والے لیفلیٹ تقسیم کئے۔لوگوں نے خوشی سے لیفلیٹ لئے اور اور اس پر لکھی عبارت کو بڑے غور سے پڑھا۔
اگلے ہی دن ٹیم نےترکی کے شہر”قونیہ ” کا دورہ کیا جو کہ اولیاء کرام کا گہوارہ رہا ہے ۔قونیہ شہر استنبول سےتقریباً 800 کلو میٹر دور ہے۔قونیہ میں مولانا جلال الدین رومی کے مزار کا دورہ کیا۔ آپ کو ترسیل فیض اپنے پیرو مرشد شمس تبریز سے ہوا ہے اور آپ کی کتب میں دیوان شمس تبریز مشہور کتب ہیں ۔شمس تبریز سے نسبت کی وجہ سے انہوں نے اپنی مثنوی میں لکھا تھا
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم۔۔۔ تا غلام تبریزی نہ شد
مولانا روم کا سلسلہ ابھی بھی قائم ہے ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں اُن کے فرقے کے نام “جلالیہ ” لکھا ہے لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ “مولویہ” کہتے ہیں۔ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔مولانا روم کے مزار پر کسی روحانی کیفیت کا تجزیہ نہیں ہوا بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ ایک تاریخی مقام کی یادگار بن کر رہ گیاہے۔ یہاں زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے لہذا زائرین میں ہم نے سیدنا گوھر شاہی کے نشانیوں والے لیفلٹ تقسیم کئے اور مرتبہ مہدی کے متعلق آگاہی دی۔
پھر وہاں سے ہماری ٹیم قونیہ سے تقریباً سو کلو میڑ کی دوری پر واقع شہر کرامان کے لئے نکل گئی کرامان شہر میں جانے کا مقصد حضرت یونس ایمرے کے مزار پر حاضری دینا تھا۔یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے مرشد و شیخ “تاپدوک ایمرے “کے قدموں میں گزار دیئے اُن کی زیر نگرانی انہوں نے طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ئی حاسل کی ۔ اُن کے کلام میں رباعی، گیت،نظمیں، غزلیں سبھی نظر آتی ہیں ۔ترکی ادب پر یونس ایمرے کے اثرات ان کے زمانے سے لے کر دورِ حاضر تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ احمد یسوی اور سلطان ولد کے بعد یونس ایمرے پہلے شاعر تھے جنھوں نے فارسی یا عربی میں شاعری کرنے کی بجائے اپنے زمانے اور خطے میں بولی جانے والی ترکی زبان میں شاعری کی۔
یونس ایمرے ترکی کے ایک مشہور شاعر اور ولی اللہ تھے انہوں نے اپنی صوفی شاعری سے بہت سے لوگوں کو فیضیاب کیا۔ انکی صوفی شاعری کا دیوان آج بھی ترکی میں دستیاب ہے ۔ انہوں نے ترک زبان میں شاعری کی اور اسکا انگلش میں بھی ترجمہ ہوا۔ انکی شاعری میں خاص طور پرمرشد سے محبت اور فیض حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ آخر میں یونس ایمرے کے مزار پرہماری ٹیم گئی جہاں اُن کے پیرو مرشد تاپدوک ایمرے بھی مدفن ہیں ۔ مزار پر ذکر کے حلقے کا اہتمام کیا گیا اور کرامان شہر میں سیدنا گوھر شاہی کے چاند اور حجراسود میں نشانیوں والے لیفلٹ بھی تقسیم کئے۔دورہ کے آخری دن ہماری ٹیم نےٹوپ کاپی کے میوزیم کا دورہ کیا اور وہاں اسکے گردو نواح میں لیفلیٹ تقسیم کئے۔