- 1,167وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
کشف القبور کا شعورازطرف سیدنا گوھر شاہی:
ایک بہت بڑا مسئلہ اُمت مسلمہ میں چلا آ رہا ہے۔مرنے کے بعد جب انسان کو قبر میں ڈال دیا جاتا ہے تو وہ نہ سن سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے ۔ اور پھر قرآن مجید کی آیات کے مفہوم میں بھی بگاڑ پیدا کیاجاتا رہتاہے کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ اپنی آواز مردوں تک نہیں پہنچا سکتے ہیں ۔ وہابی، سلفی اور دیو بندی بڑے ہی تکبر کے ساتھ اہل القبور کو مردہ کہتے ہیں ، مزاروں پر جانے کو شرک و بدعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو ولیوں کے ماننے والے ہیں جو مزاروں پر جاتے ہیں اُن کے پاس علم نہیں ہے لہذا جو مزاروں پر جاتے ہیں وہ اپنی محبت کے بل بوتے پر جاتے ہیں کوئی علمی دلیل اُن کے پاس نہیں ہوتی ہے۔ محبت اور عقیدت کو بنیاد بنا کر اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ چلتا رہا ۔ جہاں محبت و عقیدت تھی وہاں تو کامیابی ہو گئی اور جہاں محبت و عقیدت پیدا نہ ہو سکی وہاں پھر بڑے بڑے شگاف پیدا ہونے لگے خاص طور پر جو نئی پود آئی کوئی کالج و یونیورسٹی میں چلا گیا وہاں اسکو وہابی ، دیو بندی، سلفی ٹکرا گئےیا کوئی پاکستان ہندوستان سے سعودی عرب کام کرنے کیلئے چلا گیا تو وہاں جا کر اُن کے عقائد انتہائی گستاخانہ ہو جاتے ہیں کہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی کافر کہنے سے نہیں چُوکتے ہیں ۔ ایک فرعونیت اور رعونت اُنکے چہرے پر آ جاتی ہے ۔اور اگر اہل سنت والجماعت کی طرف دیکھیں تو تصوف اور روحانیت کو ماننے والا اپنی لاعلمی کی وجہ سے خاموش تماشائی بن کردیکھتا رہتا ہےاور ویسے بھی جو ولیوں کے ماننے والے ہیں اُن میں ظاہری تعلیم کا بھی فقدان ہے۔اہل اللہ کے مقابرو مزارات کوشرک اور بدعت کا اڈا کہہ دینا اور تو اور نبی کریمﷺ کے روضہٴ انور کو مسمار کرنے کے ارادے کرنا ، یہ تمام مشکلات اُن مسلمانوں کو آج بھی درپیش ہیں جو نبی کریمﷺ سے حقیقی محبت کا دم بھرتے ہیں ۔ جو آج بھی سیدنا غوث اعظم سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں ، جو آج بھی داتا کی نگری جاتے ہیں اور بڑے ادب سے لنگر کھاتے ہیں ۔ اُن میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کئی سالوں سے اُس لنگر کا اہتمام کروا رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔یہی حال ہندوستان میں بھی ہے داتا علی ہجویری کے مزار پر آنے والے، معین الدین چشتی کے مزار پر لوگوں کا جم غفیر لگا رہتا ہے ۔مزارات پر جانا ، اہل اللہ کے قبور پر جانا یہ نبی پاکﷺ کی تعلیمات سے ثابت ہے لیکن وہ مزار والے کیسے زندہ ہیں اور کسی کو اہل اللہ کی قبر پر جا کر کیا ملتا ہے ، اس سے لو گ بے خبر ہیں ۔ اس کا جو روحانی نظام ہے اس سے لوگ بے خبر ہیں ۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہان کو پیغام:
اس وقت پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے جو سربراہ ہیں وہ سلسلہ قادریہ سے منسلک ہیں ان کو ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ سیدنا گوھر شاہی جو باطنی علم فراہم کر رہے ہیں وہ علم قرآن مجید کی چابی ہے ۔ وہ قرآن مجید کا جو دل اور روح اس کی حیات آواز ِ گوھر شاہی میں پوشیدہ ہے ۔ اب سیدنا گوھر شاہی کے علم کی روشنی میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ آج کی تاریخ سے لے کر قیامت تک قبر پر جانا شرک ہے یا بدعت ہے یا پھر باعث فیض و سعادت ہے اس کو آج حل کر دیں گے ۔آج ہم کشف القبور کےعلم کا شعور کھول کر دنیا کو بانٹ رہے ہیں ۔
چار مختلف انسانوں کی قبر ہم نے چن لی ہیں اور یہ چار قبروں کا ماجرہ اگر آپ کی سمجھ میں آ گیا تو پھر دنیا میں جتنی بھی قبریں بنی ہیں سب کا معاملہ سمجھ میں آ جائے گا۔ یہ شعوراور عرفان جو ہم بیان کریں گے یہ اس یقین کے ساتھ اور اس للکار کے ساتھ بیان کریں گے کہ ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔اس معمے کو سمجھانے کیلئے ہم نے چار قبروں کا انتخاب کیاہے ۔
۱۔ عام آدمی کی حیات اور موت کیا ہوتی ہے؟
۲۔ مومن کی حیات اور موت کیا ہوتی ہے ؟
۳۔ ولی اللہ کی حیات اور موت کیا ہوتی ہے ؟
۴۔ انبیاءاکرام کی حیات اور موت کیا ہوتی ہے؟
۱۔ عام آدمی کی حیات اور موت :
مندرجہ بالا تصویر میں یہ انسانی جسم میں موجود لطیفہ انا ، لطیفہ قلب، لطیفہ سرّی ، لطیفہ اخفٰی،لطیفہ خفی ، لطیفہ روح اور لطیفہ نفس ہے ۔انسانی جسم کو بنانے کیلئے ارضی ارواح کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ تین حصّوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے نام روح ِجمادی، روحِ نباتی اور روحِ حیوانی ہے۔یہ تمام ارواح انسان کے جسم میں موجود ہیں حدیث نبوی ہے کہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے ۔آج ہمیں یہ نکتہ سمجھنا ہے کہ انسان نےاِس دنیا میں بیک وقت دو زندگیاں جینی ہیں ایک زندگی جسمانی اور دوسری روحانی زندگی کہلاتی ہے ۔جن لوگوں کا کسی مذہب یا روحانیت سے تعلق نہیں ہے اُن کے اندر جتنے بھی لطائف ہیں وہ چالیس سال تک خفتہ حالت میں ہوتے ہیں اورچالیس سال کے دورانیے میں اگر ان کو بیدار نہ کیا جائے تو یہ جسم میں ہی مر جاتے ہیں ۔ جب یہ لطائف انسانی جسم کے اندر ہی مر جائیں تو آسمان والے بہت افسوس کرتے ہیں کہ آج کسی کی روحانی موت واقع ہو گئی ہے ۔ایسے انسان کا جینا یا مرنا ایک ہی ہے کیونکہ وہ اپنے جسم میں ہی مر گیا ۔اب ایسے بندے کا اللہ سے کبھی بھی تعلق نہیں جڑ سکتا اور نہ ہی کوئی دین اس کے کام آئے گا، نہ کوئی ولی اور نہ ہی کوئی نبی اِس کے کام آئے گا۔جن لوگوں کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
سورة البقرة آیت نمبر 6 تا 7
ترجمہ : یا رسول اللہ ان لوگوں نے حق کو جھٹلا دیا ہے اب کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اِن کو ڈرائیں یا دھمکائیں کیونکہ یہ ایمان والے نہیں بن سکتے ہیں ۔اللہ نے انکے دلوں کی زندگیوں کو ختم کر دیا ہے ، باطنی سماعت کو ختم کر دیا ہے بصیرت کو ختم کر کے پردے ڈال دئیے ہیں اور اُن کیلئے بڑا عذاب ہے ۔
واقعہ موت کے وقت کیا ہوتا ہے ؟
جب انکی جسمانی موت واقع ہوتی ہے تو باقی لطائف جسم میں ہی مر گئے ، لطیفہ روح اور لطیفہ نفس باقی رہ گئے ۔جو اضافی روحیں اللہ نے انسان کو دی تھیں کہ اس کی مدد سے اپنے مراتب بلند کرےوہ جسم میں ہی مر گئیں کیونکہ ان کو بیدار کرنے کیلئے اُس نے کچھ کیا نہیں ۔لطیفہ روح (روحِ انسانی) واپس عالم برزخ میں چلی گئی ۔ عالم برزخ میں دو مقامات ہیں جن میں سے ایک علیّین اور دوسرا مقام سجییّن کہلاتاہے ، ذاکر قلبی کو مقام علیّین میں بھیجا جاتا ہے اور جو ذاکر قلبی نہیں ہوتے ہیں اُن کو سجّین میں بھیجا جاتا ہے ۔ارضی ارواح فرشتے لے جاتے ہیں اور لطیفہ نفس قبر میں جانے کیلئے لاش میں ہی رہ گیا ۔ لطیفہ نفس جب جسم میں تھا تب بھی شیطانی کرتا تھا جب قبر میں گیا تو وہاں بھی شیطانی کرنے لگ جاتا ہے ۔ایسی قبروں پر جانا اور فاتحہ کرنا منع ہے کیونکہ وہاں کچھ نہیں ہے ۔
۲۔مومن (ذاکر قلبی) کی حیات اور موت:
اب جو ذاکر قلبی ہوتے ہیں ان کے دل نے اللہ اللہ کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے نس نس میں نور پہنچنا شروع ہو گیااور نور کی شعاعوں نے لطیفہ نفس کو اپنے گھیرے میں لے لیاجس کی وجہ سے یہ نفس پاک ہو گیا۔لطیفہ قلب کی بیداری کی وجہ سے جسمانی زندگی کے ساتھ ساتھ روحانی زندگی بھی ہو گئی۔یہی بات عیسیٰ علیہ السلام نے عیسائیوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔ اسی روحانی زندگی کیلئے حضوؐر نے فرمایا تھا کہ جو ذکر کرتے ہیں وہ زندہ ہیں ۔ لطیفہ قلب کے اللہ اللہ کرنے کی وجہ سے دیگر لطائف بھی اللہ اللہ کرنا شروع ہو گئے۔ابھی یہ انسان زندہ ہے تو اس کی جسمانی حیات بھی ہے اور روحانی حیات بھی ہے۔ اب مرشد نے اُس کے نفس کو پکڑ کر بارگاہ حضوری میں پہنچا دیاجس کو دیکھ کر شرکاء محفل عش عش کر اُٹھےکہ آفرین ہے اس پر اور اس کے مرشد کے اوپر کہ ایک کتے کو پاک صاف کر کے انسان بنایا اور اس محفل میں لے آ ئے۔جب یہ نفس بارگاہ حضوری میں پہنچ گیا تو پھر اس کی ساری نمازیں نبی پاکﷺ کے پیچھے ہونے لگیں اور جسم مسجد میں نمازیں پڑھنےلگا۔ابھی یہ لطائف جسم میں ہیں اور اس کی روحانی زندگی متحرک ہو گئیں۔
جب ذاکر قلبی مرتا ہے تو اس کی بھی لطیفہ روح عالم برزخ میں چلی جاتی ہے اور باقی اضافی لطائف جیسے لطیفہ قلب، سرّی، اخفٰی، خفی اور لطیفہ نفس قبر میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ اب چونکہ لطیفہ نفس نے حضوؐرکے پیچھے نماز پڑھنا اُسوقت ہی سیکھ لیا تھا جب جسم میں تھا تو قبر میں جانے کے بعد بھی وہی کام کرتا رہے گا۔اب یہ باقی لطائف اس انسان کی قبر میں بیٹھ کر اللہ ھو کر رہے ہیں ۔ لطیفہ نفس کے چار جثّے ہوتےہیں ایک حضوؐرکے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے تو باقی قبر میں ہی نماز پڑھ رہے ہیں ۔یہی لطیفہ نفس کسی کے خواب میں بھی چلا جاتا ہے اورذکر کرنا سیکھا دیتا ہے ۔ اب یہ سارے لطیفے قبر میں بیٹھ کر نمازیں بھی پڑھے رہے ہیں ، ذکرو اذکار بھی کر رہے ہیں اور دوروسلام بھی بھیج رہے ہیں لہذا یہ قبر روشن اور زندگی سے بھرپورہے۔ایصال ثواب بھی انہی قبروں کے اندر جاتا ہے جو اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔ایسی قبر پر جانے سے احساس نہیں ہوتا ہے کہ قبر پر آئے ہیں کیونکہ وہاں موت نہیں ہے بلکہ ایسی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے کیونکہ وہاں نور ہی نور ہے ۔مومن کیلئے بس اتنا ہی مقام ہے کہ یہ لطیفے ذکرو فکر اور نمازیں پڑھتے رہتے ہیں ۔
۳۔ اولیاء اللہ کی حیات اور موت:
جب کوئی ولی مرتا ہے تواس کی بھی روح انسانی عالم برزخ میں مقام علییّین میں چلی جاتی ہےباقی لطائف اور لطیفہ نفس قبر میں ہی رہ جاتا ہے۔ یہی لطائف اس کی قبر میں بیٹھ کر لوگوں کو فیض بھی دیتے ہیں ۔اگر کوئی ذاکر قلبی ان کے مزاروں پر جاتا ہے تو اہل مزار کا لطیفہ قلب جاری اور ذاکر قلبی کا قلب بھی جاری، جب ذاکر قلبی نے کوئی دعا کی تو وہ فوراً سن لیتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کی روحانی موت واقع ہو گئی ہے تو پھر اہل قبور تک اس کی آواز جا ہی نہیں سکتی ہے ۔ایسے ہی لوگوں کیلئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ جن کے لطیفے اُن کے سینے میں ہی مر گئے ، زندگی میں ہی ان کی موت واقع ہو گئی ان تک آپ کی آواز نہیں جائے گی۔ آپ کی آواز یا رسول اللہ ان تک جائے گی جن کو روحانی زندگی مل گئی ہے ۔یہ اُن مردوں کے لئے فرمایا جن کے جسم میں ہی ان کی روحانی موت واقع ہو گئی۔اللہ کے ولی بھی دو اقسام کے ہوتے ہیں جن میں ایک عارف ہوتا ہے ، عارف وہ ہوتا ہے جس کے جسم پر تجلی پڑتی ہے ۔ اب جو عارف تھا اس کے جسم پر تجلی پڑی تھی لہذااُس کی قبر سے دنیاوی فیض تو ہو سکتا ہے لیکن ملکوتی فیض نہیں ہو سکتاہے ۔ اور دوسرا معارف کہلاتاہے ، معارف وہ ہوتا ہے جس کے کسی روح یا لطیفے پر تجلی پڑتی ہے ۔ اگر کسی لطیفے پر تجلی پڑی ہے تو پھر لطیفے مرنے کے بعد بھی قبر میں جائیں گے اور اُس سےملکوتی فیض بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر کوئی کامل ممات ہے تو اس کی قبر پر تجلی پڑتی ہے اللہ تعالی 360 دفعہ اس کی قبر کو دیکھتا ہے اگر تم بھی ایسی قبر کی زیارت کیلئے چلے گئے تو ہو سکتا ہے کسی اہل اللہ کی قبر پر جانے سے ہی تُو اللہ کی نظروں میں آ جائے۔
جسمانی شہید اور شہید عشق
شہید دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ ہوتا ہے جو اللہ کے دین کی حفاظت کرتے کرتے مارا گیا وہ جسمانی شہید کہلاتا ہے اور اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اس کی ارضی ارواح اس کے جسم سے نہیں نکالی جائیں گی۔اب اس کے لطیفے کوئی اللہ کے ذکر سے جاری نہیں تھے اس لئے قبر میں کچھ بھی نہیں ہو گا۔اب اس کا لطیفہ نفس جس حالت میں ہوگا اسی حالت میں رہے گا تبدیل نہیں ہوگا کیونکہ اس کے اندر سے ارضی ارواح نکالی نہیں جائیں گی۔دوسرا شہید عشق کہلاتا ہے ، وہ روحانیت میں چل رہا ہوتا ہے دو چار لطائف جاری ہو گئے اور دو چار ابھی باقی تھے اور اسی حالت میں موت واقع آ گئی تو پھر اسکے لطائف قبر میں منتقل ہوتے ہیں کیونکہ وہ زندہ تھے۔
۴۔انبیا٫ کی حیات اور موت:
جب انبیا٫ کی موت واقع ہوتی ہے تو اُن کے جسم میں اضافی لطائف ، لطیفہ نفس کے ساتھ ساتھ اُن کی ارضی ارواح بھی موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جسم ہلنے جُلنے کی طاقت بھی رکھتا ہے ۔ کوئی ولی ہو یا نبی ہو صرف اُس کی روح اوپر جائے گی۔اب نبی کریمﷺ کو اللہ تعالی نے کہا کہ ہم تمھیں مقام محمود پر پہنچائیں گے ۔جب موسیٰ علیہ السلام کی قبر بنی تو وہاں پر جادوگروں اور خبیث جنات نے حملہ کر دیا ، یہودی وہاں پربُری حرکتیں کرنے لگے گئےاُس کی وجہ سے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کے لطائف کو ہٹا دیا ۔ اب حضوؐرکے لطیفے کو بطور نبوت فیض ہوا وہ لطیفہ اخفیٰ کا فیض تھااور جو دوسرے لطیفے کا فیض ہوا وہ لطیفہ اناّ کا فیض تھا وہ فیض بطور محبوب ہوا تھااُس میں دیدار کی تعلیم تھی ۔ اگر اُس لطیفے کو بھی مقام محمود پر پہنچا دیا جاتا تو دنیا میں دیدارِ الہی کی تعلیم کیسے عام ہوتی وہ لطیفہ انّابھی نبی کریمﷺ کی قبر انور میں سخت پہرے میں رہا۔ اب نبی کریمﷺ نےصحابہ کرام کو فرمایا کہ جب میری قبر بنائی جائے تو اُس کو بُتوں کا اڈا نہ بننے دینا ۔ورنہ جو لطائف وہاں موجود ہیں ان کو جانا پڑتا اور شیطانی چیز آ کر بیٹھ جائے تو اسی کی پوچا پاٹ شروع ہو جائے گی ۔لہذا نبی کریم ﷺ کے لطائف کو اتنے سخت پہرے میں رکھا کہ جبرائیل امین کو وہاں مقرر کر دیا کہ جب تک امام مہدی تشریف نہ لے آئیں یہاں سے ہٹنا مت۔جب امام مہدی کی آمد ہوئی تو حجر اسود کی باطنی کنجیاں ، نبی کریمﷺ کا لطیفہ اخفٰی ، نبی کریمﷺ کا لطیفہ انّا ،نبی پاکﷺ کی ارضی ارواح ان سب کا مجموعہ امام مہدی کے حوالے کر دیا گیا۔
ایک مقام محمود وہ ہے وہ عالم وحدت ، مقام محمدی میں ہے ۔ وہ جو اللہ نے مقام محمودکا وعدہ کیا ہے وہ اس کا وعدہ نہیں ہے ۔ حضورپاک کو اللہ تعالی نے لقا باللہ کا علم دیا جس کوتھوڑا بہت ہی پھیلا سکےکیونکہ و ہ امانتاً رکھا گیا تھااس کا اصل مقام امام مہدی کے وجود میں ہے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اِس کو اُس مقام تک پہنچا دوں۔یہی وجہ ہے کہ سیدنا گوھر شاہی نے اپنے خطاب میں ایک دن فرمایا کہ ” پتہ نہیں حضور پاک کو ایک دن کیا ہوا کہ وہ علم جو صرف اُن کیلئے تھا وہ ہمیں دے دیا “۔ اب وہ علم لطیفہ قلب کا تو نہیں تھا کیونکہ وہ تو سب کو دیا گیا تھا۔لطیفہ اخفٰی پر جو علم اُترا وہ بھی اُن کا ذاتی علم نہیں تھا اس سے دین بنا ۔ حضوؐرکا جو ذاتی علم تھا وہ لطیفہ انّا تھا کہ تُو مجھے دیکھ اور میں تجھے دیکھ لوں۔ وہ لطیفہ انّا کا علم حضوؐر پاک نے سیدنا گوھر شاہی کو دے دیا ۔ اللہ کے حکم پر خانہ کعبہ میں آدم صفی اللہ کی قبر بنائی گئی تاکہ کوئی حملے کا خطرہ نہ ہوکیونکہ آدم صفی اللہ کے جسم میں اُن کا لطیفہ قلب تھا جس کو امام مہدی کیلئے روکا گیا تھا۔ ہر وقت وہ لطیفہ تجلی میں ہے اور اسی کا سب طواف کرتے رہے ۔ جب وہ لطیفہ قلب بھی نکال لیا ، حجر اسود کو فیض بھی وہاں پر،تو پھر کسی نے فرمایا کہ عصمت کعبہ کو ٹھکرانے کا موسم آ گیا ۔اب حقیقت یہ ہے کہ قبلہ وجودِ گوھر شاہی ہو گیا ہے۔جو عرش الہی سے جوڑنے والا لطیفہ قلب تھا وہ بھی امام مہدی کے وجود میں ہے۔ امام زین العابدین ایک دن ساری رات حجر اسود کے سامنے روتے رہے اور جب تک نہیں اُٹھے جب تک وہ تجلی دیکھ نہ لی جو خانہ کعبہ پر پڑتی تھی۔اب حج بھی دو طرح کا ہوتا ہے ایک ظاہری حج جس میں وہ تجلی پڑتی ہے جو خانہ کعبہ پر بیت المامور سے پڑتی تھی اور دوسرا باطنی حج ہوتا ہے جس میں وہ تجلی پڑتی ہے جو اللہ کی جانب سے آدم صفی اللہ کے قلب پر پڑتی ہے۔اب حضوؐرکے جسم سے بھی جتنی چیزوں نے امام مہدی میں جانا تھا وہ چلی گئی ہیں اور باقی کو اللہ نے اوپر اُٹھا لیا ہے ۔ اب مکہ اور مدینہ ایک ہی مرکز پر جمع ہو گئے ہیں اسی لئے مولی علیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ امام مہدی کے دائیں پاؤں میں جمال اور بائیں پاؤں میں جلال ہو گا۔اب جس کو اللہ سے محبت ہے وہ بھی آئیں اور جن کو محمد الرسول اللہ سے ذاتی محبت ہے وہ بھی آئیں دونوں امام مہدی کےدر سے نوازے جائیں گے۔ اب جو نبی کریمﷺ کی قبر کا حال ہے دوسرا اور جو باقی انبیا٫ ہیں ان کی قبر کا حال دوسرا ہے ۔اُن کی قبروں میں اُن کے لطائف ویسے کے ویسے رہے اور قیامت تک رہیں گےاس کے بعد جب قیامت واقع ہو گی تواگر وہ نبی دیدار والا ہوا تو وہ لطیفہ ان کے اندر ڈالا جائے گااور اگر وہ نبی دیدار والا نہیں تھا تو پھر اُن لطائف سے اُن کا یوم محشر میں رشتہ ختم ہو جائے گا۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 2 نومبر 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئی گئی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔ مزارات پر جانے کے معاملے کو شرک و بدعت قرار دینے والوں کیلئے معلوماتی ویڈیو جلد ہی الرٰ ٹی پر ریلیز کی جائے گی تاکہ سامعین کو باآسانی سمجھ آ سکے۔