- 981وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
امیر معاویہ کی اہل بیت کے خلاف گھناؤنی سازش:
دنیا بھر میں اہلِ بیت عظام سے محبت کرنے والے لوگ یومِ عاشورہ کی نسبت سے مغموم ہیں اور بہت سے لوگ اس غم کو تہوار بنا لیتے ہیں۔ پیسے کے لئے انسان کچھ بھی کرلیتا ہے لیکن وہ وجوہات جن کی بِناء پر ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا اگر اُن پر توجہ دی جائے تو شاید اِس طرح کے واقعات نہ ہوں۔ کربلا کا واقعہ کسی انسان کے ظلم کی داستان ہی نہیں ہےبلکہ وہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ دین پر عمل پیرا ہونے والے اور نبی کریم ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے لوگ اُس وقت تک قابلِ بھروسہ نہیں ہونگے جب تک اُن کے دل اور نفس پاک نہیں ہوجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سینے میں لطائف کے ساتھ امتحان کے طور پر جو برائیاں لگائی ہیں جیسے بغض و عناد ،حرص و حسد ، تکبر وغیرہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی موجودگی کی وجہ سے کسی بھی انسان کاکسی بھی مرحلے پر پاؤں پھسل سکتا ہے اور وہ ظلم کی اتنہاء تک پہنچ سکتا ہے ۔جب مولا علیؓ کی شہادت ہوگئی تو مسلمانوں نے مولا علیؓ کی جگہ آپ کے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو خلیفہ منتخب کرلیا۔ امیر معاویہ اور اُس کے ساتھیوں نے کہا کہ کیا اہل بیت خلافت کو وراثت سمجھتے ہیں کہ باپ خلیفہ تھا تو بیٹا بھی خلیفہ بنے گا لیکن امام حسن علیہ السلام کو مولا علیؓ نے تو خلیفہ نہیں مقرر نہیں کیا تھا وہ تو مسلمانوں کے کہنے پر آگے آئے لیکن اُس دَور میں ایک فتنہ بپا ہوگیا یہی بات بار بار اُٹھائی گئی کہ کیا یہ وراثت ہے؟ پھر امام حسن علیہ السلام نے اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے کہا کہ ٹھیک ہے تم اس بات کی گارنٹی دے دو کہ یہ وراثت نہیں ہوگی تو میں دستبردار ہوجاتا ہوں ۔ لہٰذا اس فتنے کو ختم کرنے کے لئے وہ خلافت سے دستبردار ہوگئے۔
اسلام میں بہت سارے فرقے آج امام حسن علیہ السلام کی اس صلح پسند طبیعت کو غلط رنگ دیتے ہیں۔ بہت سے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ امیر معاویہ کے بیت المال سے اُن کو وظیفہ بھی ملتا تھا۔ یہ جو دنیا ہے اس کے بڑے رنگ ہیں اس دنیا نے کسی کو نہیں بخشا۔ نہ اللہ کو بخشا، نہ اللہ کے کسی رسول کو بخشا اورنہ اُن کے اہلِ بیت کو بخشا۔ انسان اگر اپنی کمینگی پر اُتر آئے تو پھر اُس جیسا کمینہ کوئی ہونہیں سکتا۔ امام حسن علیہ السلام تو دستبردار ہوگئے اور انہوں نے امن معاہدہ بھی کرلیا کہ ٹھیک ہے خلافت وراثت نہیں ہوگی۔ پہلے امام حسن علیہ السلام کوطعنے دے دے کر فتنہ کراکے خلافت سے نیچے اُتارا ۔ جب وہ دستبردار ہوگئے تو پھر اُن کو زہر دلوا دیا اور جب زہر کی وجہ سے اُن کا انتقال ہوگیا تب پھر امیر معاویہ نے جو بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ تھے اُن کے پاس جا کر کہا کہ تم میرے بیٹے کے خلیفہ ہونے پر بیعت کرلو! تو بہت سے صحابیوں نے کہا کہ ایک ہی وقت میں دو خلیفہ کی بیعت کیسے ہوسکتی ہے ؟ تم تو ابھی زندہ ہو اپنی زندگی میں ہی تم چاہتے ہو کہ تمہارا بیٹا بھی خلیفہ بن جائے اور پھر یاد دلایا کہ وہ امن معاہدہ کیا تھا؛ لیکن اُس نے لوگوں پر ظلم کیا ۔ جس نے اُس کی بات نہیں مانی اُس کو مروادیا ۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں بڑے بڑے علماء یہ تمام باتیں جاننے کے باوجود بھی امیر معاویہ کے حق میں بات کرتے ہیں۔ اگر امام حسین علیہ السلام خاموشی سے کہہ دیتے کہ ٹھیک ہے بن جاؤ خلیفہ ہمیں کیا تو اسلام تو ختم ہوجاتا۔
واقعہ کربلاکا سبب باطنی علم سے دوری:
کیا مظلوم کا ایک ہی کردار تھا؟ کیا ظالم کی ایک ہی صورت تھی؟ چودہ سو سال پہلے دین میں فتنہ پیدا ہوگیا تھا تو کیا آج دین میں فتنہ نہیں ہے؟ کیا آج کوئی حسین کا کردار نہیں ہے؟ کیا آج آپ کویزید کا کردار زمانے میں نظر نہیں آتا ؟ ظلم اور مظلومیت یہ کردار دنیا میں آتے رہتے ہیں بس نام بدل جاتے ہیں زمانہ بدل جاتا ہے ،صورتیں بدل جاتی ہیں لیکن حق اور باطل کا آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ یہ واقعہ اس لئے پیش آیا کہ جو لوگ اُس وقت اسلام پر عمل پیرا تھے وہ صرف ظاہری علم جانتے تھے لیکن باطنی علم سے نابلد تھے۔ آپ لوگوں کو مولویوں نے بڑی جھوٹی جھوٹی کہانیاں سنائی ہیں ۔ اسلام کی صحیح صورت پیش نہیں کی ۔آپ صرف یہی جانتے ہیں کہ زبان سے کلمہ پڑھ لیا مسلمان ہوگئے کافی ہے۔ اگر زبان سے کلمہ پڑھنا کافی ہوتا اور اللہ کی نظر میں قابلِ اعتبار ہوتا تو پھر امیر معاویہ نے تو حضور ﷺ کی صحبت بھی اُٹھائی تھی کلمہ بھی پڑھا تھا پھر کیسے اُنہوں نے مسجدوں میں جا جا کے کہا کہ علیؓ کو گالیاں دو اُن پر لعنت بھیجو (معاذ اللہ)۔ یزید کے کردار سے پہلے تو امیر معاویہ کا کردار آتا ہے ۔ کیا کیا اُس نے؟ اور اُن علماء کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جو ایسے شخص کو صحا بیٴ رسول گردانتے ہیں بلکہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ٹھیک ہے وہ غلطی پر تھے لیکن خاموشی اختیار کرو اُن کو برا نہ کہو! جبکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ برائی کو دیکھو تو طاقت ہے تو روک دو ۔ اتنی طاقت نہیں ہے تو زبان سے بُرا کہو ۔ زبان سے بھی بُرا کہنے کی جرات نہیں ہے تو دل میں بُرا جانو ۔ اب ہم کیا کریں؟ مولا علیؓ کو گالیاں دینے والے کو بُرا نہ کہیں۔
آج کے اسلام میں یزیدیت کو فروغ حاصل ہے:
آج کا اسلام بڑاعجیب و غریب اسلام ہے۔ آج کے اسلام میں محمد ؐ رسول اللہ ،اُن کے گھرانے اور اُن کے چاہنے والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ وہ اسلام ہے کہ جس کے پاس طاقت اور پیسہ ہے اُس کا فرقہ سچا ہے اور جس کے پاس طاقت نہیں ہے جس کو کسی کی سرپرستی حاصل نہیں ہے اُس کو توہینِ رسالت میں مبتلا کردیا جائے گا۔ اُس پر توہینِ قرآن کی شق نافذ کردی جائے گی ،اُس کو رسوائے زمانہ کیا جائے گا۔ وہابی ازم کو سعودی عرب کی سرپرستی حاصل ہے ۔ شیعہ ازم کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے اور صوفیوں کو کسی جہان میں کوئی خوش آمدید کہنے والا نہیں ہے کیونکہ صوفی ازم‘ تصوف ‘روحانیت یہ وہ راستہ ہے جو کسی انسان کو یزید نہیں بننے دیتا، کسی کو شمر بننے نہیں دیتا اور تصوف کا راستہ وہ راستہ ہے جو حسینؓ کی کاشت کاری کرتا ہے اگر ایک حسینؓ ہو تو تصوف ایک ہزار حسینؓ بنا دیتا ہے ایک ہزار حسینؓ ہوں تو تصوف ایک لاکھ حسینؓ بنا دیتا ہے۔ سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا فرمان ہے کہ ہر متقی محمدؐ کی آل ہے ۔ اگر حضور ﷺکے زمانے میں ایک ایسا شخص جو آتش پرست تھا پارسی تھا (سلمان فارسیؓ) وہ ایمان لا کے ایسا علم حاصل کرگیا کہ اللہ کا نور اُس کے خون میں شامل ہوگیا ، نس نس میں چلا گیا اور حضورؐ نے فرمایا کہ تُو میری اہلِ بیت سے ہے ۔اگر ایک غیر اہلِ بیت شخص حضورؐ کے دَور میں اہلِ بیت میں شامل ہوسکتا ہے تو کسی مرحلے پر بھی ہوسکتا ہے۔ اگر وہی تعلیم آج کے انسان کو دے دی جائے جو تعلیم مصطفی ﷺنے سلمان فارسیؓ کو دے کر اہلِ بیت میں شامل کیا تھا تو کیا وجہ ہے کہ آج کا انسان اہلِ بیت میں شامل نہ ہوسکے۔ ایسے اسلام کا کیا کروگے جو تمہیں یزید اور امیر معاویہ بنا دے ۔ جو تمہیں شمرِ لعین بنا دے۔ تمہیں تو ایسے اسلام کی ضرورت ہے کہ غیر آئے اور اہلِ بیت میں شامل ہوجائے ، تمہیں حسینؓ کا بازو بنا دے ، تمہیں مولا علیؓ کا بازو بنا دے ۔ تمہیں حسینؓ کی ڈھال بنا دے ۔ ایسے طاہر بن جاؤ ایسے پاکباز بن جاؤ کہ ظلمت اور مظلومیت دونوں تم سے بہت دُور رہ جائیں اور حق کا عَلم زمین پر گاڑھنے کے بجائے لوگوں کے دلوں پر گاڑنا شروع کردو۔ اگر تصوف کو اسی طرح دبایا جاتا رہے گا اور صوفیوں کو اسی طرح کارنر کیا جاتا رہے گا تو یزیدیت کو فروغ ملتا رہے گا۔ پاکستان میں اگر وہابیوں کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں صوفی ہے اور تصوف پر عمل پیرا ہے تو فوراً اُس کے اوپر 295A,B,C,Dکاٹ دیتے ہیں کہ یہ تو توہینِ رسالت کررہا ہے جیسے سیدنا گوھر شاہی نے حیدرآباد سندھ میں ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال پر فرمایا: ’’جو محمدؐ رسول اللہ مجھے بتاتے ہیں وہ تعلیم میں تمہیں آگے بتا دیتا ہوں‘‘۔ اس جملے کے اوپر توہینِ رسالت کا مقدمہ بنا دیا گیا کیوں؟ اسلام کی جو شکل آپ کے پاس ہے اُس سے تو صرف یزیدیت اور شیطانیت کو فروغ ملتا ہے ۔ آج جس اسلام پر آپ عمل پیرا ہیں تہتر فرقوں میں بٹا دینے والا اسلام وہ اسلام ابلیس اور شیطان کا پسندیدہ مذہب ہے اس لئے کہ وہ فریب والا راستہ ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے آدمی ابلیس کا غلام بھی بن جاتا ہے اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ اس نے ابلیسی اخیتار کرلی ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جس میں سفید پگڑ ہوگا ،ہاتھ میں تسبیح ہوگی ،مالائیں گلے میں لٹکی ہونگی، دُرود بھی زبان پر ہوگا لیکن وہ یزید ہوگا کہ اگر مولانا الیاس قادری کی صورت میں آتا ہے تو امیر معاویہ کے نعرے لگاتا ہے ، امیر معاویہ کے نام سے دو دو سو مساجد بنانے کا اعلان کرتا ہے ، امیر معاویہ سے وفا کا اعلان کرتا ہے اور زبانوں پر کیا ہے ’’ میٹھا مدینہ ، میٹھے آقا ، سنتوں کا پرچار ‘‘ ؛ لیکن جو لوگ خود کو تصوف اور ولیوں کا ماننے والا کہتے ہیں وہ بھی ان چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں قاصر اس لئے کہ جس طریقے سے یہ مسلمان ہیں اسی طریقے سے وہ صوفی ہیں جنہوں نے تصوف بھی طاہر القادری کی کتابیں پڑھ کے اختیار کیا ہے ۔
علم ِتصوف کے بغیر غم حسین منانا منافقانہ ہے:
حقیقی صوفی تو وہ ہوتا ہے کہ جس کا قلب نور سے منور ہوجائے ، جس کے دل میں کوئی کامل اپنی نظروں سے اللہ کا نقش اور اللہ کا کلمہ جما دے ، اپنی نظروں سے اُس کو پاک اور صاف کردے۔ اُسی کے دل میں اللہ کی محبت ہوگی اُسی کے دل میں اللہ کے رسول کی محبت ہوگی اور جو تصوف کی کتابیں پڑھ کے صوفی بنے ہیں وہ ایسے ہی صوفی ہیں جیسے عام آدمی قرآن پڑھ کے مسلمان بنا ہوا ہے۔جب تک تصوف اختیار نہیں کروگے بھلے اللہ اکبر کے نعرے لگاؤ ، توحید کا پرچم بلند کرو یا الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اللہ ، میٹھا مدینہ ، سچا مدینہ کے نعرے لگاؤ یا غمِ حسینؓ میں ماتم کرو ، یزیدیت کو فروغ دیتے رہو گے کیونکہ یزیدیت کو ختم کرنے والا علم طہارت کا علم ہے اس لئے کہ اہلِ بیت کا طرۂ امتیاز ہی آیتِ تطہیر ہے۔ اُن کے لئے آیتِ تطہیر ہے تو تیرے لئے بھی آیتِ تطہیر کا پیغام ہے : قد افلح من تزکی کہ اگر تجھے حسینؓ کی طرح کامیاب ہونا ہے تو تُو بھی اپنے آپ کو پاک کرلے ۔ وہ اسپیشل ہیں اُن کو اللہ نے پاک کیا ۔ تُو عام انسان ہے تُو کوشش کرکے خود کو پاک کرنے کا علم ڈھونڈ لے اور جس جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا وہ اہلِ بیت کا غلام بن گیا اور جس نے اپنے آپ کو پاک نہیں کیا تو باہر کے نعرے ،نمازیں ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ؛کوئی بھی چیز اُس کے سینے میں اسلام کو داخل نہیں کرپائی۔ نمازیں ، قرآن ، کلمہ پڑھنے کے باوجوداُس کا باطن یزید ہی رہا ۔ اگر یہی اسلام چلتا رہے گا تو واقعہ کربلا ہر موڑ پر رونما ہوتا رہے گا ۔ جب تک وہابی ازم ، سنی ازم ، شیعہ ازم کا اسلام چلے گا یزیدیت کو فروغ ملتا رہے گا ، ظلم بڑھتا رہے گا۔ اگر اہلِ بیتِ عظام سے محبت ہے تو اُس تعلیم کو فروغ دینا ہوگا جو عام انسان کو بھی اہلِ بیت میں شامل کردے اور اگر یہ علم اختیار نہ کیا تو غمِ حسین منافقانہ ہوگا ۔ تمہارا غمِ حسین منانا ریا کاری سمجھا جائے گا۔ حضورئ قلب کے بغیر اگر نماز ریا کاری ہوسکتی ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو سینہ کوبی کر رہاہے زنجیر زنی کررہا ہے اپنی کمر پر چھوٹے چھوٹے بلیڈ مار کر خون بہا رہا ہے اُس کا غمِ حسین منانا سچا ہے ۔ اگر کسی کا نماز پڑھنا مشکوک ہے تو ماتم کرنا کیسے گارنٹی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے یہ بھی ریا کاری ہوسکتی ہے قرآن پڑھ رہا ہے یہ ریا کاری ہوسکتی ہے اور وہ جو غمِ حسین منا رہا ہے کیا اُس کا ہر عمل سچا ہوسکتا ہے ؟ ہوسکتا ہے کسی کے دل میں غمِ حسینؓ ہو اور وہ حقیقتاً اُن کی یاد میں غم منا رہا ہو لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے وہ صرف ریا کاری کر رہا ہو۔ اُس کے سینے کا اُس کے دل کا امامِ حسین علیہ السلام سے دُور دُور کا واسطہ نہ ہو۔ جس طرح یزید بن معاویہ کا جو باوجود اس کے کہ قرآن بھی پڑھتا تھا کلمہ بھی پڑھتا تھا نماز بھی پڑھتا تھا اللہ اور اسلام اور نبی پاک سے دُور دُور کا کوئی واسطہ نہیں۔ آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں آپ یقین کیجئے کہ یہ دور دورِ یزید سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں خطرناک ہے ؟ اس لئے کہ اُس دور میں تو لوگوں کو پتہ تھا کہ امام حسین حضور ﷺ کے نواسے ہیں اور یہ تو وہ دَور ہے کہ جس میں سیدنا امام مہدی سرکار گوہر شاہی کی ہستئ معظم تشریف فرما ہے جن کی یاد میں جب نبی مکرم ﷺ آنسو بہاتے تو بڑی مشکل سے آنسو رکتے تھے آپ ؐ امام مہدی کی یاد میں ہچکیاں بھر بھر کے روتے ۔ سیدنا گوہر شاہی کی ہستی وہ معظم ہستی ہے کہ جن کے لئے مولا علیؓ نے فرمایا کہ اگر مجھے امام مہدی کا زمانہ مل جائے تو ساری زندگی اُن کی غلامی میں گزار دوں۔ اس ہستی پر کیا کیا ظلم نہیں کیا گیا جن کی ایک نظر سے اندرونی اور بیرونی طور پر ناپاک ایک عام انسان حضورؐ کی ذات تک پہنچ جائے ۔ اُسے نبی کریم ﷺ کا دیدار نصیب ہوجائے اُس ذات پر توہینِ رسالت کے مقدمے بنا دیئے جاتے ہیں۔ کبھی اُن کے اوپر ہینڈ گرینیڈ پھینکا جاتا ہے کبھی مانچسٹر میں آستانے پر پٹرول بم مار دیا جاتا ہے کبھی اُن کے سر کے اوپر قیمت لگادی جاتی ہے پچاس لاکھ ستر لاکھ۔ کبھی سعودی عرب کے علما ء فتویٰ دیتے ہیں کہ گوہر شاہی اگر سرزمینِ سعودی عرب پر قدم رکھے تو سر قلم کردیا جائے( نقلِ کفر کفر ناباشد)۔
یزیدکے مرنے کے بعد کیا یزیدیت ختم ہوگئی؟ یزیدیت ختم نہیں ہوگی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کی قوم نا حسینیت جانتی ہے نہ یزیدیت جانتی ہے۔ جب آپ یہ ہی نہیں جانتے حسینیت کس چیز کا نام ہے، یزیدیت کیا ہوتی ہے تو کیسے امام حسین کے غم میں روئیں گے اور کیسے یزیدیت سے بچ سکیں گے ؟کیا ابلیس اور شیطان ہنستا نہ ہوگا جب دیکھتا ہوگا کہ آج کے دور میں یزید بھی یزید پہ لعنت بھیج رہا ہے ؟ آج کے دور میں یزیدی لوگ یا حسین کررہے ہیں اگر شیطان اُن کے اندر جھانک کے دیکھے تو کہے ارے یزید بھی ماتم کررہا ہے ۔کیا تم یزیدی نہیں ہو ؟ تمہارے سینے میں اللہ کے رسول کا نور ، اللہ کا نورکہاں ہے ؟ مولا علیؓ کا نام اگر چرسی موالی بھی لیں تو نور بنے اور تم تو مولا علیؓ کے چاہنے والے ہو تمہارے سینوں میں نور کیوں نہیں ہے؟ یہ یزیدیت کا فروغ ہے ۔ بات فرقو ں کی نہیں ہے۔ بات صرف ایک ہے یا تو تُو اندر سے پاک ہے یا ناپاک ۔ جو پاک ہے وہ آیتِ تطہیر والوں کے ساتھ ہے ۔ جو ناپاک ہے وہ ناپاکوں کے ساتھ ہے وہی یزیدی ہے۔ ذرا سوچو! اللہ نے اہلِ بیت کے لئے آیتِ تطہیر نازل فرمائی ؛تو طہارت اچھی چیز تھی ناں ۔ کتنی بڑی خوشخبری سنائی ۔ اپنے گریبانوں میں جھانکو !کہ اللہ نے اُن کو طہارت عطا فرمائی آپ کو طہارت کیوں پسند نہیں ہے؟ آپ کو بھی تو حکم ہوا ہے : قد افلح من تزکی؛ کہ اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو نفس کو پاک کرلو! لیکن آپ تو بس آیتِ تطہیر کا راگ الاپے جارہے ہیں اور خود کو پاک نہیں کررہے ۔ یہ کیسی منافقت ہے ؟ یہ کیسا غمِ حسینؓ ہے ؟ جس میں حسینیت آپ سے کوسوں دُور ہے ۔ یہ کیسی حسینیت ہے آپ کی اختیار کی ہوئی ، جس میں آپ کے پاس حسین کے پیروکار بننے کا علم نہیں ہے ۔ راہِ حسینؓ راہِ شبیر آپ کو میسر نہیں ہے ۔ نہ آپ جاننا چاہتے ہیں۔ اُن کے لئے آیتِ تطہیر آئی کہ ہم نے ان کو پاک کردیا ہے کیا آپ کے لئے بھی کوئی ایسی آیت آئی ہے کہ اللہ نے آپ کو پاک کردیا ہے ۔ وہ تو اسپیشل ہیں وہ تو محمدؐ رسول اللہ کا گھرانہ ہے۔ اُن کو تو محمدؐ رسول اللہ کی نسبت ہے اُن کے تو خون میں نور ہے آپ کے خون میں کیا ہے؟ کیا آپ بھی آٹومیٹیکلی پاک ہیں؟ نہیں ہیں ناں پاک؟
حسینیت کا فروغ دِلوں کو صاف کرنے میں ہے:
اگر ہم دیکھیں تو اہلِ بیت کے لئے دو چیزیں ملتی ہیں ۔ ایک : اہلِ بیت کے لئے قرآن کہتا ہے کہ یارسول اللہ ﷺ ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ آپ کے اہلِ بیت کو پاک کردیں۔ پھر قرآن میں یہ بھی ملتا ہے کہ یارسول اللہ ﷺ اپنی اُمت کو کہہ دو کہ بطورِ نبی یہ منسبِ رسالت و نبوت پر کام کرکے میں نے تمہارا اللہ سے جو تعلق جوڑا ہے اس کے عوض میں تم سے کچھ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ تم میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ تو کیا امیر معاویہ کو یہ بات پتہ نہیں تھی کہ قرآن میں لکھا ہے کہ جو احسان محمدؐ رسول اللہ نے کیا آخرالزمان نبی بن کر آئے ، حق کا راستہ دکھایا اُس کا کوئی اور اجر نہیں مانگا بلکہ فرما یا کہ اس کے بدلے میں تم صرف یہ کرو کہ میری اہلِ بیت سے محبت کرو ۔ کیا محبت کی اُنہوں نے یا گلا کاٹ دیا؟ کیوں گلا کاٹا محبت کیوں نہیں کی کیونکہ محبت وہ کریگا جو اُمتی ہوگا اور اُمتی وہ ہوگا جس کے سینے میں نور ہوگا۔ جس کے سینے میں نور نہیں ہے وہ حضوؐر کے دور میں ہو یا آج کے دور میں وہ امیر معاویہ ہی ہے وہ ابو لہب ہی ہے وہ ابو جہل ہی ہے۔ اگر سینے میں نور نہیں ہے تو زمانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ زمانہ حضور کا ہے یا آج کا ۔ اگر اُس زمانے میں کسی کے سینے میں نور نہیں تھا تو وہ اندھا تھا ۔ اُس نے اہلِ بیتِ عظام کو وہ عزت نہیں دی کیوں نہیں دی کہ یہ نور ہی تو ہے جو انسان کے دل کو کسی کی عظمت کے آگے جھکاتا ہے جس دل میں نور نہیں ہوتا نفس کی اکڑ ہوتی ہے تو وہ نفس کسی کے آگے جھکنے نہیں دیتا : اَنا خیر منہ : میں اس سے بہتر ہوں۔ جھکتا وہ ہے جس کے دل میں نور ہوتا ہے ۔
اگر مسلمانوں کی روش یہی رہی کہ زبانی کلامی اہلِ بیت کا ذکر کرتے رہے ، اپنے بچوں کے سروں پر چاقو چلا چلا کے خون بہا بہا کے غمِ حسینؓ مناتے رہے تو یہ تمام اعمال یزیدیت کے فروغ کو روک نہیں پائیں گے۔ حسینیت کو فروغ دینا ہے تو دلوں کو صاف کرنا ہوگا ، نفوس کو پاک کرنا ہوگا ۔ محمدؐ کا نام ، حسینؓ و علیؓ کا نام سینے پر رقم کرنا ہوگا اور اگر یہ نہ کیا تو یزیدیت کو فروغ ملتا رہے گا بھلے پوری دنیا میں ماتمِ حسینؓ کیا جاتا رہے۔ یزیدیت کو فروغ نہیں دینا تو تصوف اختیار کرو! سرکار گوہر شاہی کے قدموں میں آجاؤ۔ حسینیت کی ابتداء قدمِ گوہر شاہی سے ہوگی۔ جس نے حسینؓ بننا ہے گوہر شاہی کے پاس آجائے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھرسے 21 ستمبر 2018 کی یو ٹیوب لائیو سیشن میں یوم عاشورہ پر کی گئی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے۔