کیٹیگری: مضامین

فقر باکرم اور فقر با کمالیت:

مومن وہی بنتا ہے جس کے مقدر میں اللہ تعالی نے ایمان لکھا ہو اگر تقدیر ازل میں اللہ نے ایمان نہیں لکھا تو آپ کوئی بھی مذہب اختیار کر لیں مومن نہیں بن سکتے، ایمان سے بڑی چیز ولائت ہے ، ولائت اللہ کی دوستی کو کہتے ہیں اب ولائت کا باب اتنا عظیم ،طویل اور بڑا ہے اور اس میں ولائت کے درجات اتنے زیادہ ہیں کہ ولائت کی کوئی ایک تشریح سب کے اوپر فٹ نہیں ہو سکتی ۔ولائت کی دو بڑی اقسام کی جا سکتی ہیں ایک تو کہلاتی ہے ولائت کبری اور ایک ہے ولائت صغری۔ ایک فقر با کمالیت ہے اور دوسری فقر با کرم ہے ۔
فقر با کمالیت بھی دو طرح کی ولائت ہے اس میں بڑا درجہ ان کا ہے جن کو اللہ کا دیدار ہو جاتا ہے وہ فنا فی اللہ اور لقا باللہ کی منازل طے کر کے جب اللہ تک پہنچ جاتے ہیں تو اللہ کا نقشہ ان کے دل پر ثبت ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالی روزآنہ ان کی دل پر تین سو ساٹھ تجلیات ڈالتا ہے ایک تجلی جس کو نظر رحمت بھی کہا جاتا ہے سات کبیرہ گناہوں کو جلاتی ہے اب اس ولی کے تو کوئی گناہ ہوتے نہیں ہیں کیونکہ ولی باز گناہ ہو جاتا ہے تو اس ولی کی صحبت میں بیٹھنے والے جو اس کے مریدین ہوتے ہیں تو ان تجلیوں کی زد میں آ کر ان کے بھی گناہ دھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔اسی راز کو واضح کرنے کے لیے مولانا روم نے کہا تھا
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

یعنی ایک لمحے کسی ولی کی صحبت کا سو سال کی بے ریا عبادت سے افضل ہے۔اب وہ افضل کیسے ہوگئی؟ کہ تو عبادت کرتا رہے کبھی بھی نہیں ہو گا کہ تو تجلی کی زد میں آ جائے لیکن اگر کسی ولی اللہ کی صحبت میں ایک لمحہ تجھے مل گیا اور اس لمحے میں وہ تجلی بھی پڑ رہی ہے تو اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔تو ایک تو ولائت یہ ہے کہ جس میں انسان کو اللہ کا دیدار ہو جاتا ہے اور پھر تین سو ساٹھ تجلیاں بھی ہیں۔ اب ایک درجہ اس سے کم یا چھوٹا ہے اس میں وہ ولی ہوتے ہیں جن کو دیدار تو نہیں ہوتا لیکن وہ ولی ، اللہ سے ہم کلام ہو جاتے ہیں ۔قرآن مجید ولائت کے بارے میں فرماتا ہے

اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ
سورة البقرة آیت نمبر 257
ترجمہ : اللہ تعالی مومنوں میں سے ولی بناتا ہے اور انہیں ظلمات سے نکال کر نور میں لے آتا ہے۔

ظلمات سے نکالنا کیا ہے؟

انسان میں ایک لطیفہ نفس ہے، قرآن نے فرمایا نفسِ امارہ برائی کا حکم دیتا ہے، یہ نفس ہی ہے ہمارے اندر جو ساری برائی کی جڑ ہے اسی سے وسوسے آتے ہیں اسی کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کی حق تلفی کرتے ہیں۔ بابا بلھے شاہ نے کہا
اس نفس پلیت نے پلیت کیتا
اسیں مونڈھوں پیلت نا سی

یہ جو لطیفہ نفس ہمارے اندر آیا یہ پلیت تھا اسی نے ہمارے اندر آکر ہم کو پلیت یعنی گندہ کردیا ورنہ یوم ازل میں ہمارے اندر ناپاکی والی کوئی چیر نہیں تھی ۔اس لیے پھر قرآن مجید نے کہا کہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاعلی آیت نمبر 14
ترجمہ: کامیاب ہوگا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔

نفس کی غذا نار ہے ظلمت ہے، ظلمت سے نکلنا، لطیفہ نفس کو پاک کرنا ہے ، جنہوں نے لطیفہ نفس کو پاک کر لیا اور پھر قلب کو نور سے منور کر لیا وہ ظلمت سے نکل کر نور کی طرف گامزن ہو گئے۔نفس کو پاک کر نے کیلئے باطنی شریعت کی ضرورت ہے ،باطنی شریعت کے بغیر نفس پاک نہیں ہو سکتا، نفس پاک نہیں ہو سکتا تو تو مومن نہیں بن سکتا ، مومن نہیں بنے گا تو پھر تو ولی کیسے بنے گا؟ اسی لیے ولائت کے لیے شریعت ضروری ہے لیکن شریعت کا باطنی حصہ۔ لوگ کہتے تو ہیں کہ شریعت کے بغیر ولائت نہیں لیکن انہیں پتا نہیں ہے کہ وہ کونسی شریعت ہے اگر یہ وہی شریعت ہے ،داڑھی رکھنے حلوے کھانے والی شریعت تو یہ جو اتنے مولوی پھر رہے ہیں تو یہ ولی کیوں نہیں بنے؟ تم بھی شریعت پرعمل کرتے ہو نا جو لوگوں پر طنز کرتے ہو تم کو تو ولی ہونا چاہئے تم ولی کیوں نہیں بنے؟ اس لیے کہ تم کو اس شریعت کا پتا ہی نہیں ہے کہ جس شریعت کے بغیر ولائت ممکن نہیں ہے ۔
وہ شریعت نفس کو پاک کرنے والی شریعت ہے، جس میں نفس کو گردن سے پکڑ کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھایا جاتا ہے ابھی اس کی غذا جو نار ہے وہ نار روک کے اس کو نور کی غذا فراہم کی جاتی ہے پھر لطیفہ نفس ، نفس امارہ سے نور کی وجہ سے نفس لوامہ بن جاتا ہے اب اس کے اندر ملامت کا مادہ پیدا ہو گیا اب تو گناہ کرے گا تو وہ تجھے ملامت کرے گا ۔مرشد کی نظر کرم جاری رہے ،ذکر و فکر جاری رہے نور کی فراہمی جاری رہے تو نفس لوامہ سے ملہمہ بن گیا ، جب نفس ملہمہ بن گیا تو اب جب بھی تو گناہ کی جانب مائل ہو گا تو مرشد کی طرف سے الہام ہوجائے گا کہ کہ یہ گناہ مت کرنا ،اس مرحلے پر تو باز گناہ ہو جائے گا، جب تو باز گناہ ہو گیا تو تیرا نفس پاک ہو گیا، اب جب تیرا نفس پاک ہو گیا تو اب اللہ تیری ولائت کی درخواست پر غور کرے گا اور اگر منظور کر لیا تو تجلی ڈالے گا وہ تجلی قلب کے اوپر پڑے گی اور قلب شہید ہو جائے گا اور باقی ماندہ تجلی نفس کے اوپر پڑے گی اور نفس مطمئنہ بن جائے گا، جب وہ نفس مطمئنہ ہو جائے گا تو اللہ تعالی فرمائے گا اے میرے بندے میں تجھ سے راضی ہو گیا اب تو مجھ سے راضی ہو جا اور میری بانہوں میں آجا۔اللہ کی کون سے جنت ہے ، جنت تو انسانوں کے لیے بنائی ہے وَادْخُلِي جَنَّتِي میری جنت میں آجا سے مراد میری بانہوں میں آ جا۔جنت کا مطلب ہے رہنے کا مقام۔جسطرح ہندی زبان میں استان جگہ کو کہتے ہیں تو پاکستان کیا ہو گیا پاک جگہ ، استان ہندی کا لفظ ہے اسی طرح جنت کا مطلب بھی رہنے کہ جگہ ہے یہ سریانی زبان کا لفظ ہے یعنی جگہ، اللہ کہتا ہے پھر میری جگہ میں داخل ہو جا ، اب اللہ کی جگہ کون سی ہے، اس کا کوئی زمان و مکان ہی نہیں ہے ، اس کی جگہ اس کا وجود ہے تو اللہ سے بغل گیر ہو جا، تو یہ ولائت ہے۔
دوسری ولائت جو عملی ولائت نہیں ہے اعزازی ولائت کہلاتی ہے۔ جسے فقر باکرم کہتے ہیں اس میں کوئی روحانیت نہیں ہوتی ہے ، اس میں کوئی تجلیات نہیں ہوتیں ہیں اس میں اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ، اس کے اندر نفس مطمئنہ نہیں ہوتا ہے ،اس میں کوئی قلب شہید نہیں ہوتا ہے ، بس ولائت ہے یہ ، نہ یہ کسی کی بخشش کرا سکتے ہیں ، جو شفاعت کرانے والی ولائت ہے وہ ولائت کبری ہے جس میں تجلیاں ہوتی ہیں ۔یہ ولائت صغری والے کسی کی بخشش نہیں کرا سکتے۔
غوث قطب سب ارے اریرے ،عاشق جان اگیرے ھُو
جس منزل تے عاشق پہنچن، اتھے غوث نہ پاندے پھیرے ھُو
عاشق وچ وصال دے رہندے ،جنہاں لامکانی ڈیرے ھُو
مَیں قربان تنہا نتوں یا حضرت باہو جنہاں ذاتوں ذات بسیرے ھُو

کفر کے بغیر فقر نہیں:

ایک جگہ کسی بزرگ نے یہ بھی کہہ دیا کہ” کفر کے بغیر فقر نہیں ہے”۔ کفر کرنا پڑتا ہے، کفر کرے گا تو فقر ملے گا اب وہ کفر کون سا ہے جو کرنا پڑتا ہے؟یہی سنتے ہیں نا کہ اللہ عرش پر ہے دیکھا تو نہیں ہے نا، نا دیکھا ہے نا دیکھ پاؤ گے ، اب ایک رسک لینا پڑے گا ،کہ جی سنا ہے کہ یہ جو مرشد ہوتے ہیں اگر ان سے کوئی تعلق یا نسبت جڑ جائے تو پھر یہ اللہ تک پہنچا دیتے ہیں ، اس کا رسک پھر یہ لینا پڑتا ہے کہ جس کو ہم ڈھونڈ رہے ہیں اور عرش الہی پرتو ہم جا نہیں سکتے تو وہ اللہ زمین پر ہی اس بندے مرشد کے اندر موجود ہے اسی کو رب مان لو ، مرشد کو رب ماننا یہ کفر ہے لیکن اس کے بغیر فقر نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں یہ کفر ہے لیکن ہم نے یہ رسک لیا ہے، یہ رسک نہیں لیتے تو کفر تو نہیں ہوتا لیکن پھر رب بھی نہیں ملتا ، تو کیا فائدہ ایسے ایمان کا جو رب نہ ملے پھر ہم نے رسک لے لیا۔کوئی بھی کاروبار ایسا نہیں ہے کہ جس میں منافع ہی منافع ہو ، رسک پہلے ہے، اس لیے ہم نے بھی سوچا کہ رسک لیں ، تو کفر کے بغیر فقر نہیں ہے ، کفر کیا ہے؟ جس کو ڈھونڈ رہے ہیں پتا نہیں ملے گا بھی یا نہیں ملے گا سنا ہے کہ یہ جو اللہ والے ہیں یہ اللہ سے ملا دیتے ہیں
اللہ اللہ کیے جانے سے اللہ نہ ملے
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

تو کوئی اللہ والا ڈھونڈیں ،کوئی جب اللہ والا مل جاتا ہے تو اس وقت انسان اس میں رب کو محسوس نہیں کرتا جب تو مرشد سے ملنے پہلی دفعہ جائے گا تووہ انسان ہوگا اور تو بھی انسان ہوگا ، پھر مرشد تجھے اسم ذات اللہ کا ذکر دے گا اور اگراسم اللہ تیرے دل میں چل پڑا، اللہ کے حکم سے دل میں نور داخل ہوا اور نور دل میں جمع ہونا شروع ہو گیا پھر وہ نور تجھے مرشد کی طرف کھینچے گا۔شروع شروع میں جب دل میں نور آیا تو سب سے پہلے مرشد کے بارے میں ارادت ہوگی ، جیسے جیسے نور بڑھے گا عقیدت بڑھے گی اور نور اور زیادہ بڑھے گا زیادہ مقدار میں ہوجائے گا تو عقیدت محبت ہو جائے گی اور وہ محبت کیا چیز ہوگی وہ نورجو تیرے اندر اسم اللہ سے جمع ہوتا جا رہا ہے اور تو اور زیادہ مرشد کی طرف کھنچتا چلا جا رہا ہے تیرے اندر اسم اللہ کا نور اور مرشد کے اندر اللہ کی ذات کا نور ہے تو تیرے دل اور مرشد کے دل میں وہ کھنچاؤ اورکشش پیدا ہوگئی ۔تیرے دل میں اسم اللہ مرشدکے دل میں ذات اللہ، اب تجھے مرشد سے محبت ہو گئی تیرا دل تجھے مرشد کی طرف کھینچے اور چپک گیا جا کر پھر ایک دن کیا ہوا مرشد کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کسی تجلی کی زد میں آ گیا اور وہ جو اپنا ذکر فکر تھا اس سارے ذکر کا مزا ایک سیکنڈ میں کرکرا ہو گیا۔
اپنی چھب بنا کے جو میں پی کے پاس گئی
سج دھج پیا کی دیکھ میں اپنی بھول گئی

پہلے مجھے اپنے ذکر فکر پر بڑا ناز تھا پھر مرشد کے ایک لمحے کی صحبت ملی اور وہ جو ذاتی تجلی کی زد میں آیا تو اس تجلی کے بعد کفر ہو گیا نا اس کے بعد یہ ہوا کہ یہ ہی رب ہے۔
پھر میرا جو دارو مدار جو اپنے نور پر ذکر و فکر پر تھا ، خوب اللہ ھو کیا بڑی مستی میں کیا لیکن جب ایک بار اس کی نظروں میں تجلی میں آ گیا اس کے بعد یہ ذکر فکر جو تھا یہ بے مزا ہو گیا اس کے بعد اس تجلی کی تلاش میں رہے ،چلو مرشد کے جوتے اٹھا لیں ، مسکرائیں تو تجلی پڑ جائے ، جب کفر کا یہ مقام آگیا تو نے کہا بس یہ ہی ہیں جس کو میں اوپر ڈھونڈ رہا تھا وہ یہیں مل گیا ہے ، یہ تو کفر ہو گیا اس کے بعد وہ تجھے اپنے سینے سے لگا کررب کا کوئی خاص حصہ تیرے اندر منتقل کر دے گا تو پھر کفر ختم ہو گیا اب تو فقیر ہو گیا۔

فقیر کی نظروں میں اللہ کا نور:

یہ جو نقشبندیوں کے بہت بڑے پیشوا ہیں بہا الدین ذکریا، ان ہی سے نقش بندی سلسلہ آگے بڑھا یہ اپنے گھر میں کوٹھے پر بیٹھے تھے تو گلی میں شور ہوا پوچھا کیا ہوا تو بتایا کہ بچہ کنویں میں گر گیا ہے اسی کا کہرام مچا ہوا ہے آپ نے فرمایا ہٹو ادھر سے اور نظر کی اور بچہ کنوئیں سے باہر آگیا ، وہاں سے ایک فقیر گزر رہا تھا اس نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ یہ فقیری نہیں ہے یہ چھچھورا پن ہے، فقیری تو یہ ہے کہ حرام کھائے ، حرام پئیےحرام کرے اور فقیری نا جائے، اب اس نے اتنی جرائت سے جو یہ باتیں کہیں تو بہا الدین ذکریا کھٹک گئے کہ یہ انہوں کیا کہہ دیا کیونکہ ان کی تو وہاں سارےعزت کرتے تھے اتنے بے باک لہجے میں ان سے کوئی گفتگو کرنے کی جرائت نہیں کرتا تھا، بہا الدین زکریا نے روحانی طور پر پتا لگانے کی بڑی کوشش کی لیکن کچھ پتا نہیں چلا پھر انہوں نے یہ کیا کہ اپنی ایک باندی کو بلایا ، کتے کے گوشت کا پلاؤپکوایا اور شراب کی ایک بوتل دے کر فقیر کے پاس بھیجا ، اس فقیر نے باندی کو بھی نوازا، کتے کا پلاؤبھی کھایا اور شراب کی بوتل بھی چڑھا لی اور باندی کو کہا کے اپنے مرشد کو کہنا ان چیزوں سے فقیر کے اوپر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ باندی نے جا کر سارا حال بیان کیا تو بہا الدین زکریا بڑے پریشان ہو گئے یہ کیا ماجرا ہے، خیر ایک دن ان کا آمنا سامنا ایک دریا پر ہوا، پرانے وقتوں میں کم گہرائی کے دریا یا ندی نالے گھوڑے پر سوار ہو کر عبور کر لیا کرتے تھے ، سامنے سے فقیر اپنے گھوڑے پر آ رہا ہے اور ادھر سے بہا الدین نقش بند اپنے گھوڑے پر ہیں اتنے میں بہا الدین نقش بند کے گھوڑے نے دریا میں پیشاب کر دیا تو فقیر چہکا اور کہا بڑے شریعت کے عالم بنے پھرتے ہیں لوگ ، دیکھو ان کے گھوڑے نے سارا دریا ناپاک کر دیا بہا الدین کوفورا اپنی عالمانہ روش پر اترائے اور کہا اے بے شرع فقیر جاہل تجھے اتنا بھی معلوم نہیں چلتا بہتا ہوا پانی کبھی بھی ناپاک یا گندا نہیں ہوتا یہ تو چلتا ہوا سیل رواں ہے وہ جو گھوڑے کا پیشاب تھا وہ تو بہہ گیا دریا کہاں گندا ہوا تو فقیر نے کہا اچھا، یہ چھوٹا سا دریا جو بہہ رہا ہے اس وجہ سے یہ گندا نہیں ہوا اور فقیر جو بحر وحدت میں غوطہ زن ہے اس کے اندر کتے کی بریانی، تیری باندی اور شراب کی بوتل ابھی بھی ٹہری ہو گی۔کتے کی بریانی کھائی شراب کی بوتل پی اور باندی بھی آگئی اس سے مراد کیا ہے؟ کتے کی بریانی کھانے سے مراد یہ ہے کہ فقیر وہ ہوتا ہے کہ وہ مرید جس کا نفس کتا ہو اس کے گناہوں کو بھی اپنے اوپر لے لے تو کبھی بھی اس کے فقر میں کوئی فرق نہ پڑے اور وہ جس کا نفس کتا تھا اس کو بھی رب تک پہنچا دے، بات یہ نہیں تھی کہ فقیر کتے کی بریانی کھاتا ہے یا شراب کی بوتلیں پیتا ہے بات یہ تھی کہ کتے کی بریانی سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی نفس امارہ والے کو بھی پاس بٹھا لےکسی شرابی کبابی کو بھی اپنے پاس بٹھا لے ، کسی ازلی جہنمی عورت کو بھی اپنے پاس بٹھا لے تو وہ اس کی نظروں سے پاک و صاف ہو جاتے ہی کیونکہ اس کی نظروں میں اللہ کا نور ہوتا ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ

اتقوا فراسة المؤمن؛ فإنه ينظر بنور الله
حدیث نبوی الترمذی (3127)
ترجمہ: مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

اس کی آنکھوں میں اللہ کا نور ہو گا تب ہی وہ اللہ کے نور سے دیکھے گا نا، تو اگر مومن کی نظروں میں اللہ کا نور ہے تو پھر فقیر کا کیا حال ہو گا اس کی نظروں میں بھی تو اللہ ہی دیکھتا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندوہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 23 فروری 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس