کیٹیگری: مضامین

عالم ذاتیہ اور عالم کونیہ کے درمیان خلاء کیا ہے ؟

وسیلہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک ملکوتی وسیلہ جو کہ کم درجے کا ہے اور ایک جبروتی وسیلہ ہوتا ہے جو کہ افضل درجے کا وسیلہ ہے ۔تین اوپر کے عالمین ہیں جو عالمین ذاتیہ کہلاتے ہیں اور تین عالم نیچے کے ہیں جو کہ عالمین کونیہ کہلاتے ہیں جسطرح جب سرور کونین کہا جاتا ہے تو وہ عالمین کونیہ کے تین عالم کی طرف اشارہ ہے ۔ عالم ذاتیہ اور عالم کونیہ کے بیچ میں خلاء ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں عالم کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے ۔جب تک نبی مکرمﷺ اس دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے تو بیت المامور میں جبرائیل مقرر تھے ، جبرائیل اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دونوں عالمین کو ملاتے تھے۔اب سوال یہ ہے کہ جبرائیل کو درمیان میں ہونے کی ضرورت کیوں ہے ؟ کسی کی بھی نمازیں ، سجدے، تلاوت ، ذکر جو بھی اوپر جائے گا اگر دونوں عالمین کے درمیان خلاء ہوگا تو وہ عبادتیں اوپر اللہ تک نہیں پہنچ پائیں گی ۔بیت المامور ہی اصل کعبہ ہے اس لئے تمام عبادتیں وہیں جاتی ہیں ، آدم صفی اللہ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو اُن کو خواب میں جو نقشہ دکھایا گیا وہ بیت المامور کا ہی تھا اور اُن کو کہا گیا کہ اسطرح کی عبادت گاہ زمین پر بناؤ، تو پھر انہوں نے کعبہ تعمیر کیا ۔لہذا زمین پر موجود کعبہ بیت المامور پر موجود کعبے کی نقل ہے اس لئے تمھاری ساری عبادتیں اُس کعبے سے ہوتے ہوئے اصل کعبے بیت المامور میں پہنچتی ہیں لیکن اُن عبادت کو اللہ تک بھی جانا ہے لیکن اگر دونوں عالمین میں فاصلہ ہو گا تو وہ عبادت وہاں نہیں پہنچ پائیں گی اس لئے اللہ نے جبرائیل کو دونوں عالمین ذاتیہ اور کونیہ کے بیچ میں رکھا تاکہ جبرائیل وہ عبادتیں پھر اللہ تک پہنچائے۔جب نبی کریمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو پھر جبرائیل وہاں سے ہٹ گئے اور اس کی جگہ حضوؐرکا ایک باطنی جثّہ وہاں تشریف فرما ہو گیا اور اس واقعے کو قرآن نے کہا

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
سورة الشرح آیت نمبر 4
ترجمہ : ہم نے تیری خاطر تیرے ذکر کو بلند کر دیا۔

یہاں ذکر بلند کرنے سے مراد یہ ہے کہ سب کی عبادتیں ، ذکر اور تلاوت جب اوپراصل کعبے بیت المامور میں پہنچی تو وہاں حضوؐرکا جو وجودمبارک موجود ہے اُس نے وہ تمام عبادتیں اللہ تک پہنچانا تھاتو جب کسی کی نماز وہاں بیت المامور میں پہنچی اور نماز میں اُس کو حضوؐرکا خیال بغیر سوچے آ گیا تو اس کا مطلب ہے وہ نماز اللہ تک پہنچ گئی ۔ وہ نماز جب حضوؐرسے جا کر ٹکرائی تو حضوؐر کی طرف سے القا آیا کہ اس وقت تیری نماز ہم تک پہنچی ہے اب ہم اس کو اللہ تک پہنچائیں گے اور اگر کوئی ذکر کر رہا ہوتو پھر اللہ ھو ، اللہ ھو خود بخود “یا محمد” میں تبدیل ہو گیا تو اس کا مطلب ہے تیرا ذکر خود بخود حضوؐرتک پہنچ گیا ہے اور وہ اللہ تک پہنچائیں گے ۔

عالم ذاتیہ اور کونیہ کے درمیان سیدنا گوھر شاہی کا وجود مبارک مقیم ہے:

نبی کریمﷺ کے بعد جب غوث پاک کا زمانہ آیا نبی کریمﷺ کا وہ وجود وہاں سے ہٹ گیا اور اس کی جگہ غوث پاک ؓ کا ایک وجود آگیااور اُن کے زریعے عبادات اللہ تک پہنچنے لگ گئیں ۔پھر جب غوث پاکؓ کا زمانہ ختم ہوا اور اسم ذات کی کنجی انہوں نے امام مہدی سیدنا گوھر شاہی کو دے دی تو بیت المامور میں سیدنا گوھر شاہی کا ایک وجودِ مبارک آگیا ۔ اب اگر کسی نے نماز پڑھی اور اُسکی نماز سرکار گوھر شاہی کے جثّےمبارک سے ٹکرائی تو اُس نے دیکھا کہ مقام ِسجدہ پر سرکار گوھر شاہی کی تصویر مبارک نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کاذکر اللہ ھو وہاں تک پہنچا تو وہ خودبخود “یاگوھر” میں تبدیل ہو گیا جس کا یہ مطلب ہے کہ اُس کا “اللہ ھو” جسمِ گوھر شاہی سے ٹکرا گیا ہے اور وہ آگے بھیج دیں گے۔

گوھر شاہی سے ٹکرائیں سجدے، کُل خدائی کے جبروت جا کر
ذکر سارے بنیں ذکر گوھر ، ہے سعادت یہی خشک و تر کی

اب اگر بیت المامور پر نبی کریمﷺ کا کوئی وجود ہے اور دنیا میں کسی کی بھی عبادت اوپر گئی ہے اور وہ حضوؐرکے بارے میں خیالات اچھے نہیں رکھتا ہے تو اُس کے سجدے وہیں پر زائل ہو جاتے ہیں اوپر اللہ تک نہیں جاتے ہیں۔ اسی لئے غوث اعظمؓ ایک دفعہ بیٹھے ہوئے وضو کر رہے تھے تو اوپر سے ایک چیل کا گزر ہوا اور اس نے فضلہ کر دیا جو آپ کے کپڑوں پر گر گیا ۔آپ نے جب آسمان کی طرف اُس چیل کو دیکھا تو اُس چیل کا سر کٹ کر نیچے گر گیا اور غوث پاک رونے لگے ۔مریدوں نے استفسار کیا کہ یہ تو حرام جاندار تھا اس کے مرنے پر آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کے مرنے پر نہیں رو رہا ہوں بلکہ میرے بعد حضوؐر کی اُمت میں کچھ لوگ آئیں گے جو میری برائی کریں گے اور اُن کے ایمانوں کی گردن اس طرح کٹ کر گرے گی ۔ یہ واقعہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ اگر کوئی غوث پاکؓ کی عظمت کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو ولایت سے صلب کر دیا جائے گا اور اُس کی کوئی عبادت اللہ تک اوپر نہیں پہنچے گی بلکہ وہیں بیت المامور میں کٹ جائےگی ۔ پھر جب سرکار گوھر شاہی کا زمانہ آ گیا اور آپ کو وجود مبارک وہاں پر تشریف فرما ہو گیا تو پھر پوری کائنات کی نمازیں سرکار گوھر شاہی کے اُس وجود سے جاکر ٹکرائیں گی ، سرکارگوھر شاہی نے چاہا تو وہ اوپر بھیجیں گے اور اگر انہوں نے نہیں چاہا تو وہ عبادات اوپر نہیں جائیں گی۔اگر کسی کی نماز اللہ تک پہنچ گئی ہے تو دوران نماز اُس کو قبلہ عالم سیدنا گوھر شاہی کا چہرہ مبارک نظر آئے گاجو کہ اس بات کی دلیل ہو گا کہ تیری نماز اللہ تک پہنچ گئی ہے ۔ قلبہ عالم سیدنا گوھر شاہی کا چہرہ مبارک دوران نماز نظر آنا اس بات کی برھان ہے کہ تیری نماز اللہ تک پہنچ گئی ہے اور اگر اللہ ھو کرتے کرتے خود بخود “یاگوھر ” شروع ہو گیا تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرا اللہ ھو ، یا گوھر سے ٹکرا گیا ہے اور وہ اللہ تک بھیج دیں گے ۔ بیت المامور کے اِس مقام پر جو وجود ہوتا ہے اُسے “وسیلہ ” کہتے ہیں ۔

یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ
سورة المائدة آیت نمبر 35

جبروتی اور ملکوتی وسیلہ کیا ہے ؟

یہ وہ وسیلہ ہے جو اللہ کی طرف جا رہا ہے ، دونوں عالمین کے بیچ میں جو ذات ان عالمین کو ملا رہی ہے یہ وسیلہ اللہ کی طرف جا رہا ہے جسے جبروتی وسیلہ کہتے ہیں ۔ ایک ملکوتی وسیلہ بھی ہوتاہے ، فرض کریں بیت المامور پر غوث پاکؓ کا وجود دونوں عالمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا ہے اور عالم ناسوت میں نظام الدین اولیاء موجود ہیں تو جو نظام الدین اولیاء کے قلب سے جڑا تو ملکوتی وسیلے سے جڑ گیا اور نظام الدین اولیاء کی رسائی جبروتی وسیلےیعنی غوث پاکؓ سے تھی اس طرح جبروتی وسیلے کو پکڑنے کے لئے ملکوتی وسیلہ پکڑنا ہو گا جو کہ ولیوں کی صورت میں ہو گا کہ تو نظام الدین اولیاء سے جڑا اور اُن کا دل غوث پاک سے جڑا ہوا ہے اس طرح ملکوتی وسیلے کے زریعے جبروتی وسیلے تک رسائی ہو گئی اور تمھاری عبادتیں اللہ تک پہنچ گئیں ۔اب اگر غوث پاکؓ سے جڑا کوئی بھی ولی تم نے نہیں پکڑا ہے اور ازخود نمازوں میں مشغول ہے تو وہ نمازیں عالم ناسوت میں بھٹکتی رہیں گی۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ تیری نمازیں ، ذکر فکر اللہ تک پہنچ جائے تو اس کے لئے اگر جبروتی وسیلے کا زمانہ ہے تو براہ راست اس سے مل اور اگر وہ جبروتی وسیلہ دسترس میں نہیں ہے تو پھر کوئی ایسا ڈھونڈ جو اُن سے جڑا ہوا ہووہ تیرے لئے ملکوتی وسیلہ ہو گا۔اس طرح ملکوتی وسیلے کے زریعے تم جبروتی وسیلے سے واصل ہو جاؤ گےاور یہ وسیلے کا اصل مفہوم ہے۔
جب بیت المامور میں سیدنا گوھر شاہی کا وجود مبار ک آ گیا تو وہ وجود ِ مبارک تیری نمازوں، ذکرو ازکار کی قبولیت کا اثر ہوا تو خود بخود تیری نمازوں میں چہرہ گوھر شاہی آ گیا ، خودبخود تیرا ذکر الہی ، ذکر گوھر شاہی بن گیا ۔اللہ کی طرف سے تیری نمازوں اور عبادات کی قبولیت ذکر گوھر کی صورت میں نظر آئے گی ۔ اگر تمھارا تعلق سرکار گوھر شاہی کے سینہ مبارک سے جڑ گیا تو وہ یا گوھر بھی اللہ تک پہنچتے پہنچتے اللہ ھو میں تبدیل ہو جائے گا۔اللہ ھو کرے گا تو یا گوھر میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہاں ہم یا جنید، یا خسرو، یا غوث ، یا باھوکی صدائیں سنتے ہیں لیکن جب تو درجہ کمالیت پر پہنچ جائے گااور عرش الہی پر جا کر بیٹھے گا تو پھر تجھے کوئی یا غوثؓ ، یا جنید یا باھوکی آواز نہیں آئے گی بلکہ وہ صدائیں یا اللہ میں تبدیل ہو جائیں گی، یہ راز ہے جو ہم کھول رہے ہیں ۔ یہاں زمین پر یہی نظر آئے گا کہ اس نے یا غوث کہا ہے ، یا جنید کہا ہے لیکن جب اوپر پہنچے گا تو اللہ ھو اللہ ھو کی صدا گونجے گی ۔ اسی لئے فرمایا کہ جو ہمارا منظورِ نظر ہو گیا اُس کو دیکھنا بھی نماز ہے کیونکہ اُس کا تعلق وہاں جڑا ہوا ہے ، تم نے اُس کا نام لیا اور وہ بیت المامورسے ہوتا ہوا وہاں اللہ تک پہنچ گیا ۔ اب اگر ہم یا گوھر ، یا گوھر کا ذکر کریں گے تو وہ یا گوھر بیت المامور میں موجود سیدنا گوھر شاہی کے وجود سے ٹکرائے گا اور وہاں سے خو بخود اللہ ھو میں تبدیل ہو کر گونجے گا۔ اسی کو کہتے ہیں خدا بھی نہیں تو جدا بھی نہیں۔اِدھر تم کسی کا بھی نام لو جو جڑا ہو اہے وہاں پہنچ کر خود بخود اللہ ھو میں تبدیل ہو جائےگا۔ اس کو کہتے ہیں توسّل یعنی وسیلہ ۔

“عبادات رب تک پہنچ کر قبول ہو گئی ہے اس کی گارنٹی یہ ہے کہ تیری زبان سے مرشد کا نام نکلے گااسی لئے مرشد کا ذکر برھان من اللہ ہے۔ مرشد کا ذکر جبروتی وسیلے میں بمثل بُرھان الہی ہوتا ہے “

جو ہم مختلف اولیاء کی منقبت اور قصائد پڑھتے ہیں تو تصوف کے راستے پر رہتے ہوئے بھی اس کی تشریح ہو تو بھلے آپ نے یا فرید کہا ، داتا علی ہجویری کہا یا خواجہ کا نام لیا ، وہاں جب پہنچے گا تو سب اللہ ھو میں تبدیل ہو جائےگا ۔ اللہ کہے گا یہ کس نے کہا ہے کہ یہ فریدکے نعرے لگاتا تھا ، یہ یا غوث کے نعرے لگاتا تھا یہ تو اللہ ھو کرتا تھا ہمارے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہے ۔اگر کوئی بابافرید سے قلبی طور پر جڑا ہو اہے تو پھر اگر یا فرید کہا تو وہاں یا فرید کے بجائے اللہ ھو کی صدا جائے گی ۔

حاصل کلام:

عالم ذاتیہ اور کونیہ کے درمیان خلاء کو پُر کرنے کے لئے کسی نہ کسی ہستی کو مقرر کیا جاتا رہا ہے تاکہ ہماری عبادات و اذکار اللہ تک پہنچ سکیں۔ ابتداء میں جبرائیل پھر نبی مکرمﷺ کا وجود مبارک پھر غوث پاک کا جثّہ اور دور آخر میں سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کا وجودِ مبارک مقیم ہے۔ اگر کسی کی نماز اللہ تک پہنچ گئی ہے تو دوران نماز اُس کو قبلہ عالم سیدنا گوھر شاہی کا چہرہ مبارک نظر آئے گاجو کہ اِس بات کی دلیل ہو گا کہ تیری نماز اللہ تک پہنچ گئی ہے ۔ قلبہ عالم سیدنا گوھر شاہی کا چہرہ مبارک دوران نماز نظر آنا اس بات کی بُرھان ہے کہ تیری نماز اللہ تک پہنچ گئی ہے اور اگر اللہ ھو کرتے کرتے خود بخود “یاگوھر ” شروع ہو گیا تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرا اللہ ھو ، یا گوھر سے ٹکرا گیا ہے اور وہ اللہ تک بھیج دیں گے ۔ عبادات رب تک پہنچ کر قبول ہو گئی ہے اس کی گارنٹی یہ ہے کہ تیری زبان سے مرشد کا نام نکلے گااسی لئے مرشد کا ذکر بُرھان من اللہ ہے۔ بیت المامور کے اِس مقام پر جو وجود ہوتا ہے اُسے “وسیلہ ” کہتے ہیں ۔
سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کے غیبت میں تشریف لے جانے سے پہلے جبروتی وسیلہ دستیاب تھا لیکن غیبت میں تشریف لے جانے کے بعد اب تم کو ملکوتی وسیلہ بھی درکار ہے کیونکہ تمھارا براہ راست جبروتی وسیلے سے رابطہ نہیں ہے ۔آج اس دور میں ہماری بصیرت عار ہے اور سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کے جبروتی وسیلے تک رسائی نہیں ہے اس لئے ہمارے لئے ملکوتی وسیلہ سیدی یونس الگوھر کی صورت میں موجود ہے ، اب اگر ہمیں اپنی عبادتوں اور اذکار کو رب تک پہنچانا ہے تو اس ملکوتی وسیلے کو پکڑنا ہو گاتاکہ اس کے زریعے جبروتی وسیلے تک رسائی حاصل ہو جائےاور یہ نیاری تعلیم نصاب در نصاب ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 24 جون 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس