کیٹیگری: مضامین

ہم اس وقت جس پرفتن دور سے گزر رہے ہیں وہ تاریخ انسانی کا بدترین دور ہے درحقیقت یہ فتنہ انگیزی ادیان میں بگاڑ پیدا ہونے کا نتیجہ ہے۔ مذاہب میں فتنہ کیسے شروع ہوتا ہےاس موضوع پر ہم بارہا گفتگو کر چکے ہیں کہ جب دین میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو فتنہ سر اٹھاتے ہیں اور وہ کیا وجہ ہے کہ کوئی دین ہدایت سے خالی ہو جاتا ہے؟ دین دراصل کڑے اصول وضوابط کا نام ہے جسکا مقصد انسان کو نظم و ضبط سکھانا ہے۔ جب انسان کو اسکےہر عمل پر دین کی طرف سے شدید رد عمل کا سامنا ہو اور اس عمل سے کوئی فائدہ بھی نہ ہو تو دین کی اس سختی کا الٹا اثر ہوتا ہے تو اندرایک آگ بھڑک جاتی ہے اور اس پر علماء دین پرنفسا نفسی کا عالم طاری ہے انکےقلوب سیاہ اور سخت ہوچکے ہیں دین محض مذہبی رسومات نبھانے کی حد تک رہ گیا ہے ۔

صوفی رہنما کے بھیس میں طاہر القادری قاتل اور دہشت گرد ہے:

ماضی میں بھی انسانیت ادیان میں رونما ہونے والے اس فتنہ اور انتشار کے گہرے اثر میں رہی ہے اور یہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے اور اس فتنہ کو بڑھانے میں ٹیکنالوجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ایسے میں دنیا کو اپنی اکیلی آواز میں محبت اور امن کی بات کی طرف بلانا ، ویرانے میں آواز لگانے کے مترادف ہے ۔ مفاد پرست لوگ ایسے ہی موقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اپنی تجارت کو چمکانے کے لیےمحبت اور امن کے نعرے لگانے لگ جاتے ہیں اس کاروبار میں فائدے کے لیےدین تو ایک طرف خدا اوررسول سمیت ہر اس چیز کواستعمال کرتے ہیں ۔اس دور میں فتنہ اور شر انگیزی اپنے عروج پر ہے ، دینی شدت پسندی کو نوجوانوں اور نو مسلموں کے ذہنوں میں اس طرح راسخ کیا جا رہا ہے کہ وہ دین اسلام کے بنیادی اصولوں پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے ہیں ، دینی شدت پسندی، شر پسندی اور مخالف دین والوں سے نفرت خصوصی طور پر اس وقت زور پکڑتی ہے جب دین کی تبلیغ کرنے والےکوڑھ مغز، ان پڑھ جاہل اور سیاہ قلب ہوں ۔کچھ صوفی عالم جو اپنے آپ کو صوفی کہتے ہیں وہ اس صورتحال کا پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

مثال:

کرکٹ کے کھیل کا مایہ ناز کھلاڑی جو فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والا ہو وہ کرکٹ کے بارے میں کسی ایسے شخص کو اس کھیل کے بارے میں بتائے جس کو اس کھیل کی کوئی سدھ بدھ نہیں تو اسکو کوئی فرق نہیں پڑے گا اسی طرح اس دور میں وہ لوگ صوفی ازم کی بات کر رہے ہیں جو خود تصوف سے نابلد ہیں لیکن تصوف کو طوطے کی طرح رٹا ہوا ہے اور نہایت بے خوفی سے خود کو صوفی کہلواتے ہیں کیونکہ اندر ہی اندر ان کو معلوم ہے کہ لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ تصوف کیا ہے لہذا کچھ بھی کہہ دو کیا فرق پڑتا ہے۔
صوفی ازم کسی عمل کا نام نہیں ہے بلکہ علم تصوف ایک میکینزم ہے جو کہ دل کی دھڑکنوں میں پیوستہ ہے۔کسی نے ہم سے سوال کیا کہ مذہبی عالم طاہر القادری صوفی اسکالر ہونے کا دعوی کرتے ہیں یہ کہاں تک درست ہے؟ اسکے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے شیخ عبد القادر جیلانی سے براہ راست فیض حاصل کیا ہے پھر ایک دفعہ یہ بھی کہا ہے کہ نو سال تک علم شریعت حاصل کیا کسی دوسرے موقع پر کہا بارہ سالوں تک خواب میں امام ابو حنیفہ سے انہوں نے علم شریعت حاصل کیا ہے ۔ یہ تمام دعوے جو طاہر القادری نے کیے ہیں یہ دراصل تصوف کی کتب کا علم ہے ۔علم تصوف کی بات کرنا تصوف نہیں ہے ، جس طرح بیماری کی دوا لینے سے کچھ دیر میں ہی افاقہ محسوس ہونے لگتا ہے لیکن اگر بیمار شخص بجائے دوا کھانے کے صرف دوا کا نام ہی دہراتا رہے تو کیا دوا اس پر اثر کرے گی؟ بالکل اسی طرح اگر یہ کہا جائے اللہ سے محبت کرو اللہ کے رسول سے محبت کرو تو کیا یہ کہنے سے اللہ اور اسکےرسول سے محبت ہو جائے گی؟ چاہے کتنی ہی بلند آواز سے ہی کیوں نہ کہیں کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اسطرح کہنے سے محبت نہیں ہوگی! بیماری بھی اسی وقت بہتر ہوگی جب دوا لیں گے اور اسکے لیے دوا کا معدے میں جانا شرط ہے ،کیونکہ جب دوا کے اجزاءخون میں شامل ہوتے ہیں تو بیماری سے افاقہ محسوس ہوتا ہے۔

“بیداری قلب، تصوف کی طرف پہلا قدم ہے، جسکو یہی نہیں معلوم کہ بیداری قلب کیا ہے اور پھر وہ صوفی ہونے کا دعویٰ بھی کرے تو پھروہ ایک اور ابو بکر البغدادی ہی ہے ہم نے ایسا کیوں کہا؟ کیونکہ ابو بکر البغدادی انسانوں کو قتل کر رہا ہے اور جب تم نے (طاہر القادری )صوفی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بہت سے لوگوں کو مرید توبنا لیا لیکن بیداری قلب کا پتا ہی نہیں ہے تو تم دراصل انسانی جسم میں موجودسولہ روحوں کے قاتل ہو ، کیونکہ ہر انسان میں سولہ مخلوقیں ہوتی ہیں ، اس طرح صوفی رہنما کی آڑ میں تم ابو بکر البغدادی سے بڑے قاتل اور بڑے دہشت گرد ہو”

اس وقت یہ ہی تو ہو رہا ہے امریکہ چلے جائیں وہاں آپکو بہت سی ایسی تنظیمات ملیں گی جو خود کو صوفی تنظیم کہہ کر متعارف کروائیں گی۔ شام کا شیخ ہشام جو کہ شیخ ناظم کا مرید ہے جنکا سائپرس سے تعلق ہے وہ سلطان الاولیاء کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن بیداری قلب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

روحانی فیض کے بعد تصوف کی کتب بے معنی ہیں:

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طاہر القادری نے تو مرشد کامل شیخ عبد القادر جیلانی سے روحانی فیض لینے کے بعد بھی کیا انہیں تصوف کی کتابوں سے بھی ہدایت لینے کی ضرورت ہے؟ جواب ہے نہیں ! کیونکہ اللہ کا نظام ہدایت یہ نہیں ہے ، ایک عام انسان جو کہ بنیادی دینی اصولوں پر مبنی ایک متوازن معاشرتی زندگی گزارتا ہو اسکے لیے اللہ کا طریقہ ہدایت وہ نہیں ہے جو طریقہ اُس نے اپنےخاص بندوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، عام لوگوں کی ہدایت کے لیے کتابیں آئیں ہیں جن کو پڑھ کر اچھائی کے قریب اوربرائی سے دور رہتے ہیں اوریہ عام انسان کے لیے اللہ کا نظام ہدایت کا ہے اور جو اللہ کے مخصوص الخاص بندے ہیں انکو اللہ براہ راست اپنے نور سے ہدایت دیتا ہے اور یہ ہدایت قلب کو دی جاتی ہے اور یہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ قرآن سے بھی ثابت ہے؛

يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ
سورۃ النور آیت نمبر 35

جس کا انتخاب وہ خود کرتا ہے اسے اپنے نور سے ہدایت دیتا ہے سب کو نہیں دیتا، کیونکہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس کے نور کی ہدایت کا کون حقدار ہے کون نہیں ۔ جو لوگ مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے روحانی سلسلہ اپنا لیتے ہیں انکی ہدایت کی ابتداء اسم اللہ کےقلب میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ اگر طاہر القادری صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے شیخ عبد القادر جیلانی سے براہ راست روحانی فیض حاصل کیا ہے تو پھر غوث پاک نے آپکا قلب اسم ِذات اللہ کے ذکر سے کھول دیا ہو گا!!علم اور فقہہ میں فرق ہے۔آپ بھلے کتنے بڑے علم دان کیوں نہ ہوں ضروری نہیں کہ آپکو دین کی سمجھ بھی آچکی ہو۔

علم اور فقہہ میں فرق:

اشیاء کے بارے میں جاننے کو علم کہتے ہیں مثال کے طور پر اس چیز کا نام فون ہے اگر فون سامنے رکھا ہو اور اسکے بارے میں کوئی معلومات نہ ہو کہ یہ کیا ہے تو فون کیا ہے کیا کام کرتا ہے نہیں جان سکیں گے۔ بہت ممکن ہے آپ اسے کھلونا سمجھ لیں ، یعنی کسی چیز کے بارے میں جاننا علم کہلاتا ہے۔ دین کی سمجھ کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ بھلے کتنے ہی علم والے ہوں دین کی سمجھ سے کوسوں دور ہی ہونگے۔
فقہہ کتابوں سے حاصل نہیں کی جا سکتی، کتابوں سے علم ملتا ہے فقہہ نہیں، قرآن کے مطابق اللہ تعالی منور قلب میں فقہہ کا نور ڈالتا ہے، فقہہ کا تعلق دل کی نورانیت سے ہے،۔نور اللہ کی صفت ہے جب قلب اللہ کےنور سے منور ہو جاتا ہے تو اُس نور سے فقہہ قلب میں آتی ہے یعنی فقہہ کا تعلق اللہ کی صفات سے ہے اسی لیے اللہ کی صفت کو کاغذ پر لکھے حروف سے کوئی کیسے پا سکتا ہے!

“فقہہ رب کی صفت ہے جسکی عطا براہ راست رب کی طرف سے قلب میں داخل ہوتی ہے ۔ جسے ہم علم کہتے ہیں وہ علم حروف کی صورت میں کتابوں کے صفحات پر لکھا ہوتا ہے لیکن جو فقہہ ہے وہ کسی کتاب سے نہیں ملتی۔آج تصوف اور اسلام پر بیشمار کتب لکھی جا چکی ہیں ، ہماراطاہر القادری سے سوال ہے کہ بتائیں فاطمتہ الزہرہ نے تصوف پر کتنی کتابیں لکھی تھیں، یا حسن بصری نے کتنی کتابیں لکھیں ؟ بی بی فاطمہ کے دور میں تو قرآن مجید کو بھی کتابی صورت نہیں دی گئی تھی”

علامہ اقبال نے بھی اس بات کو اپنے شعر میں بہت خوبی سے بیان کیا ہےکہ
مکتب کی کرامات تھیں کہ فیضان نظر تھا
سکھلائے کس نے اسماعیل کو آداب ِفرزندی

پانچ ہزارسال پہلے مکہ میں کتنے اسلامی کتب گھر تھے ؟ اسماعیل علیہ السلام کونسے دینی کتب گھر جاتے تھے؟ کیا وہاں شیخ عبد القادر جیلانی کی کتابیں رکھی تھیں ؟ محی الدین ابن عربی، اخیار الاخیار شیخ شہاب الدین ، کیمیائے سعادت لکھنے والے امام غزالی، داتا علی ہجویری کی کشف المہجوب غوث پاک کی فتوح الغیب وہاں تھیں ؟تمام صوفیوں میں سب سے عظیم صوفی بی بی فاطمہ، مولا علی اور حسن بصری ، انکا مرتبہ وقت کی قید سے بالا تر ہے اور یہ وہ دور تھا جب کوئی کتاب تصوف پر موجود نہیں تھی پھر وہ سب کچھ کیسے جان گئے؟ يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ اللہ اپنے نور سے ہدایت کرتا ہے جس کو وہ چاہے، اور یہی سیدنا گوھر شاہی کی تعلیمات ہیں، سیدنا گوھر شاہی لوگوں کا رخ لائبریری کی طرف نہیں کرتے سیدنا گوھر شاہی کسی کوصوفیوں یا مذاہب کی طرف نہیں بھیجتے بلکہ سیدنا گوھر شاہی لوگوں کے قلوب کو ہدایت دے کر قلب کا رخ اللہ کی جانب موڑ دیتے ہیں ۔

“طاہر القادری کو دعویٰ ہے کہ انکو شیخ عبد القادر جیلانی سے براہ راست فیض ملا ہے تو پھر انہیں کتابیں پڑھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ انسان کے پاس یا تو عرفان ہوتا ہے یا علم ۔ اگر عرفان ہوگا تو علم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عرفان کے اندر ہی علم آ جاتا ہے۔عرفان کیا ہے؟ فیض اور علم کو ملا دیا جائے تو یہ عرفان کہلائے گا، اگرعرفان ہے تو علم کی ضرورت نہیں ہے۔علم کیا ہے؟اشیاء کے بارے میں جاننا علم ہے”

منور قلب کا حامل ہی اصل صوفی ہوتا ہے:

حضور پاک کے دور میں کوئی کتاب نہیں تھی نہ ہی وہ لوگ کسی لائبریری جاتے تھے اُس وقت لوگ حضور پاک کی مبارک صحبت میں بیٹھا کرتے اور محمد رسول اللہ کی نظروں سےبراہ راست فیض پایا کرتے۔ حضور پاک کی صحبت میں بیٹھنے سے ہی اُن کے قلب و نفوس پاک ہو گئے ، نگاہ محمد سے نکلنے والے نور کے روحانی فیض سے ان کے قلوب فقہہ اور علم سے بھر گئے۔صوفی در حقیقت اسی کو کہتے ہیں جس کا قلب منور ہو، قلب میں نور کے بغیر ایمان کا تصور نہیں ہے یہ ہی بات قرآن مجید کہہ رہا ہے

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورۃ التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ : اللہ جس کو مومن بنانا چاہتا ہے تو اسکے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔

سرکار گوھر شاہی کی عظمت و احترام دلوں میں جاگزیں ہوتا ہے:

مولانا الیاس قادری اور مولانا طاہر القادری نے سیدنا گوھر شاہی کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔طاہر القادری کے قلب کی غلاظت اور سیدناگوھر شاہی سے اُن کےحسد کا اندازہ لگائیں کہ ماضی میں تو طاہر القادری نے تصوف اور ذکر قلب پر بہت گفتگو کی لیکن جب سیدنا گوھر شاہی کی تعلیمات منظر عام پر آئیں کہ ذکر قلب کیا ہے کیسے عطا ہوتا ہے تو پھر کہنا شروع کر دیا کہ اسلام میں تو ذکر قلب کا ذکر ہی نہیں ہے۔سیدنا گوھر شاہی نے کتابوں کا علم نہیں بیان کیا پھر بھی لوگوں کے قلب و قالب سیدنا گوھر شاہی کی عظمت اور احترام سے بھرگئے۔اللہ نے قرآن میں کہا

وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ
سورۃ آل عمران آیت نمبر 26
ترجمہ :اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔

ان کتابی عالموں کی شہرت عزت سب پانی کے بلبلے کی مانند ہے جو اوپر اٹھتے ہی پھٹ جاتا ہے اور حقیقت سب پر عیاں ہو جاتی ہے لیکن سیدنا گوھر شاہی کی عظمت پانی کا بلبلہ نہیں ہے بلکہ سیدنا گوھر شاہی کی عظمت احترام اور محبت دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوجاتی ہے،اگر کوئی ایک مرتبہ سیدنا گوھر شاہی کی زلفوں کا اسیر ہو جائے تو پھر وہ نہ تو کسی کوجاننا چاہتا ہے نہ سننا چاہتا ہے اور نہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح گھڑی کی سوئی لمحہ لمحہ آگے ہی آگے بڑھتی رہتی ہے اُسی طرح ہر لحظہ سیدنا گوھر شاہی کی تعظیم و توقیر بھی لوگوں کے دلوں میں زیادہ سی زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔سیدنا گوھر شاہی نے آج بھی اپنا باطنی مطب سجایا ہوا ہے جس سے لوگ باطنی فیض پا رہے ہیں ، بےشمار انسانوں میں اور چاند سورج کی باطنی مخلوق کی صورت مامور ہیں ، مندر ہو یا مسجد ،چرچ ہو یا کلیسا ، کعبہ ہو یا بیت المقدس سیدنا گوھر شاہی کا فیض ہر جگہ پہنچ رہا ہے۔

مندرجہ بالا مضمون نمائندہ مہدی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے 26 جون 2017 کے یو ٹیوب پر کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس