- 645وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
قرآن کے مطابق شہید کا نظریہ :
قرآن مجید میں جو شہید کا نظریہ آیا ہے اس کے اندر صرف اتنا بتایا جا رہا ہے کہ جو شہید ہوتا ہےاُس کو مردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہے ، لیکن وہ کیسے زندہ ہے اِس کی قرآنِ مجید تشریح بیان نہیں کرتا بلکہ یہ کہہ کہ آگے بڑھ جاتا ہے کہ تمہیں اِس کا شعور نہیں ہے ۔لیکن لا انتہاء درود اورسلام ہوں سرکار گوھر شاہی کی عظمتوں پر ، آپ نے اِس راز سے پردہ اُٹھایا اور جو شعور قرآنِ مجید میں نہیں ملتا وہ شعور سیدنا گوھر شاہی کی نعلینِ مقدسہ سے ملے گا۔قرآن مجید میں ہے کہ
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِنْ لَا تَشْعُرُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 154
ترجمہ : جو لوگ اللہ کی راستے میں مارے جائیں انکو مردہ مت کہو ، وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں انکی حیات کا شعور نہیں ہے ۔
شہید کی دو تشریحات ہیں ایک ظاہری اور ایک باطنی تشریح ہے ۔
ظاہری تشریح:
اللہ کیلئے مارا جانا کیا ہے ؟ جب نبی کریم ﷺپیغام ِ حق دے رہے تھے ،مکےمیں آپ نے کام شروع کیا اور لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتایا ، پھر آپ کی تعداد تھوڑی تھوڑی بڑھنے لگی تو جو کفارِ مکہ تھے وہ اسلام کو تباہ کرنا چاہتے تھے ، وہ دعوتِ اسلام کو روکنا چاہتے تھے ، وہ حضور ﷺکو روکنا چاہتے تھے ، وہ اسلام کو مٹا دینا چاہتے تھے ، تو اُن سے پھر اللہ کے حکم پرجہاد کیا گیا ،اللہ کے رسول کے حکم پر جو جہاد کیا گیا تو وہ راہِ خدا تھا کیونکہ اللہ کا حکم تھا اِس لئے وہ اللہ کی راہ تھی ، تو اُس جہاد میں جو لوگ مارے گئے وہ شہید ہیں ۔ جو جہاد اللہ کے حکم پر تھا اور حضور ﷺنے اُس وحیِ الٰہی کی تشریح بیان کی کہ اللہ کا حکم جہاد کا آیا ہےاب جاؤ لڑو ۔ تو اُس میں جو مارے گئے وہ شہید ہیں ۔ اب یہاں پر یہ دیکھیئے کہ محمد الرسول اللہ ﷺنہ صرف آخری پیغمبر تھے بلکہ صحابہِ کرام کے مرشد بھی تھے اور آپ نے اُن کی روحانی تعلیم کا بھی آغاز فرمایا ہوا تھا ۔ اُن کے قلب بھی جاری تھے، اُن کے دلوں میں اللہ اللہ بھی ہوتی تھی ۔ اب ظاہر ہے کہ قلب جاری ہونے کے بعد روح کو بھی اللہ اللہ میں لگانا تھا ، باقی جو دیگر لطائف ہیں اُن کو بھی اللہ اللہ میں لگانا تھا لیکن پھر اچانک اللہ کا حکم آگیا کہ اسلام خطرے میں ہے جہاد کرو ،اُن کو اپنی جان دینی پڑی اسطرح وہ شہید کہلائے۔
باطنی تشریح:
اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم آنے کے بعد وہ جو راہِ خدا باطنی تھی ،اُس میں جو چل رہے تھے اُن کا کیا بنے گا ؟ اب وہ تو دونوں طرف سے راہِ خدا میں چل رہے تھے ۔ اپنے نفس کو پاک کر رہے تھے ،اپنے قلب کو پاک کررہے تھے تاکہ اللہ کی ذات تک پہنچ جا ئیں اور ابھی یہ اُ ن کی تعلیم جاری تھی کہ اسلام کی بقا کیلئے اللہ کا حکم آگیا کہ جہاد کرو ، تو پھر جہاد کیلئے جب اُنہوں نے اپنی جان کے نظرانے پیش کردئیے ، تو اب جو اُن کی باطنی تعلیم جاری تھی اُس کا کیا بنے گا ؟ تو اُس کا جو اللہ تعالیٰ نےانعام رکھا ہے کہ اِن کی قبروں کے اندر اِن کی روحوں کو روک لیا جائے گا ۔ اُس وقت تک جب تک اِن کی روحانی تعلیم پوری نا ہوجائے اور اِن کو باطنی مقام اور مرتبہ نا مل جائے ،اُس وقت تک اِن کی روحوں کو ان کی قبروں میں ہی روکا جائے گا ، اِن کی روحیں اِن کی قبروں میں حاضر رہیں گی ۔ حاضر ہونے کو عربی میں شہید کہتے ہیں ، لہٰذا وہ شہید ہوگئے ۔
جو شہادت کا درجہ ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ کل اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ بڑا اچھا کام ہے ،یہ اچھا کام کرتے ہوئے مارے جاؤ شہادت کا درجہ مل جائے گا ، تو نہیں ملے گا ۔پہلے اُس بات کو دیکھیں کہ اللہ نے اُن کو درجہِ شہادت کیوں دیا؟ مرنا تو اُن کو ہے اِک دِن ، اللہ کیلئے مرے تو پھر اللہ پر احسان کیا کیا ؟ اللہ کو اِس بات کا خیال ہے کہ جو اِن کا مرنے کا وقت مقرر ہے ، اُس کے اندر اندر اُن کی تعلیم پوری ہوجاتی۔ اب ہم اِن کو پہلے تو زندگی دے چکے ہیں اِتنے سالوں کی اور اب ہم نے محمد الرسول اللہ ﷺکی دین کی بقا کیلئے، اِن کی موت کو قریب کردیا ہے ، تو اِن کو معاوضہ ملنا چاہیئے ۔اِن کی تعلیم پوری ہونی چاہیئے ۔ تو اُس کا یہ انعام اللہ نے دیا ہے ۔ اب مسلم لیگ نون لڑے پاکستان تحریکِ انصاف سے ، ایم کیو ایم لڑے پیلپز پارٹی سے اور دونوں طرف لوگ ایک دوسرے کو دنیا داری کیلئے لڑیں ، سیٹوں کیلئے ،سیاست کیلئے لڑیں اور مرنے والے کو تم شہید کہہ دو ، تو وہ اللہ کے یہاں تو شہید نہیں ہوگا ۔ اللہ کا یہاں تو شہید وہی ہوگا کہ جس کو اللہ چاہے ۔شہید کےلئے اللہ نے جو اپنے قوانین رکھے ہیں اُن کو بھی مدِ نظر رکھیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کہیں کہ اللہ چاہے گا تو ہوگا شہید ، کوئی مارا گیا تو اب دن رات دعاؤں میں اللہ اِس کو شہید بنا دے ،اُس کو مقامِ شہادت دے دے ۔ ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ مقام ِ شہادت اُن کو دی جاتی ہے جن کی باطنی تعلیم رُک گئی ہو ۔ اللہ اُس کو شہادت کا درجہ کیوں دیگا ، شہادت کا درجہ دے گا تو کیوں دیگا ؟ اِن کو تو اِس لیئے دیا کہ اِن کی تعلیم رُک گئی تھی ۔
تقدیر ِمعلق کی موت کیا ہوتی ہے ؟
دوسری بات یہ کہ چلو کوئی مرگیا اور آپ کو ایک سال بعد دو مہینے بعد خیال آیا ارے اِ س کیلئے دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اِس کو شہادت کا رتبہ دے دے ، تو شہادت کا رتبہ جو دیا جاتا ہے پہلے سے اللہ کی طرف سے ہوتی ہے یہ بات اور اُس کی روحوں کو قبر میں روک لیا جاتا ہے ۔ اب وہ بندہ کوئی مر گیا آپ ایک مہینے بعد دعا کر رہے ہیں ،ا ُس کی روحیں تو واپس چلی گئیں ہیں اوپر اب وہ نیچے آ نہیں سکتی ہیں تو دعاؤں سے شہادت کا درجہ نہیں ملتا ہے ۔ یہ اللہ کا پہلے سے فیصلہ ہوتا ہے ۔ اب جیسے پاکستان اورانڈیا کے فوجی ہیں، انڈیا والے پاکستان سے لڑیں اور انڈیا کی فوج کےدس سپاہی مر گئے ، بیس سپاہی مر گئے انڈیا والے اُس کو شہید کہہ دیں ۔ اسی طرح پاکستانی فوجی جو ہیں، انڈیا والے اُن کو مار دیں تو پاکستانی اُس کو شہید کہتے ہیں ۔ اللہ کی یہاں نہ یہ شہید نہ وہ شہید ۔ اللہ کیلئے تو نہیں مرے نا تم ۔ تم انڈیا کیلئے مرے ،تم پاکستان کیلئے مرے ، تم شہید کدھر ہو ۔ بات رہ گئی شہادت کی ۔ تو شہادت تو اُن کیلئے ہے جن کی تعلیم رُک گئی تھی ۔ تمہاری تو شروع ہی نہیں ہوئی تمھیں تو پتا ہی نہیں ہے اس تعلیم کا ، تم کواللہ شہید کیوں کرے ۔ اب یہ جو شہید ہوگئے ، جن کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ چلو جہاد کرو اور اُن کی تعلیم بھی شروع کی ۔دوسرا یہ اب اسی ضمن میں ایک بات اور آرہی ہے وہ بھی ساتھ لگا لیں کہ جن کی باطنی تعلیم جاری ہے اور پھر اللہ نے کہہ دیا کہ دینِ اسلام کی بقا کیلئے جان کے نظرانے پیش کرو ، جہاد کرو اور جہاد میں وہ مارے گئے اور اللہ نے اُن کو شہادت کا درجہ دے دیا ۔ اگر یہ جہاد کا وقت نہ آتا ،تو کبھی بھی نہ مارتا اللہ وہ اپنے وقت کے مطابق مرتے ۔ جیسے یہاں گاڑیاں چل رہی ہیں ہوسکتا ہے کہ کسی کی ازلی تقدیر میں موت نہ لکھی ہو لیکن وہ بس کے سامنے آگیا غلطی سے مارا گیا ، یا کسی کو پانی میں زہر ملا کے دے دیا وہ مارا گیا، اُس کی ازلی تقدیر میں ابھی موت کا وقت ہی نہیں آیا تھا ۔ اِس کو کہتے ہیں تقدیر ِمعلق کی موت ۔ آپ نے کچھ جملے ایسے فلموںمیں اور گھروں پر اپنے والدین سے سنے ہوں گے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جب اللہ چاہے گا تبھی مریں گے ۔ اس پر ایمان تو ہے آپ کا لیکن اُس کے باوجود بھی اگر باہر گولیاں چل رہی ہوں تو پھر باہر کیوں نہیں نکلتے تم، اللہ جب مارے کا تبھی مرو گے نا تو پھر باہر کیوں نہیں نکل رہے ۔ اِس لیئے نہیں نکل رہے کیوں کہ تم کو علم نہیں ہے نا ، ہو سکتا ہے سامنے سے گولی آئے اور تم مر بھی جاؤ اور جو اللہ نے تمھاری تقدیر لکھی ہوئی ہے نا کہ یہ پچاس ، ساٹھ ، ستر سال کی عمر میں مرے گا و ہ لکھی کی لکھی رِہ جائے اور تم معلق میں مر جاؤ ۔ اللہ نے جو تمھاری موت لکھی ہے تقدیر ِ ازل میں اُس پر صرف وہی مرے گا ، جو ذاکرِ قلبی ہوگا ۔ کوئی نا گہانی آفت اُس بندے کو اُس وقت سے پہلے نہیں مار سکتی ۔
“اگر تو ذاکر ِقلبی ہے ،تو پھر جو اللہ نے تیرے ازل میں مرنے کا وقت لکھا ہے تو اُسی وقت مرے گا۔ بیچ میں کوئی گولی آگئی ، بس آگئی ، طوفان آگیا یہ ساری چیزیں تجھے وقت سے پہلے نہیں مار سکتیں ، لیکن اگر تو ذاکرِ قلبی نہیں ہے پھر اگر کوئی ناگہانی آفت آگئی تو تو مر بھی سکتا ہے ۔ اگر ذاکرِ قلبی بن گیا تو پھر جو ہے تجھے اللہ تعالیٰ پورا موقع دیگا کہ اپنی تعلیم پوری کرے تیری حفاظت ہوگی “
اگر کوئی ذاکرِ قلبی بن جائے تو ناگہانی آفت اور بے وقت موت اُسے واقع نہیں ہوگی ۔ جو ازل میں لکھا ہے اُس کے مطابق ہی مرے گا ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی انسان کو رب چن لیتا ہے اور جب رب چن لیتا ہے اور اُس کی ڈیوٹی لگاتا ہے کہ ہم تم کو یہاں بٹھا رہے ہیں ۔ ایک کام دیا ہے تو یومِ ازل میں جو اُس کی موت کا وقت مقرر کیا ہوتا ہے اُس پر طاری کرکے موت واقع کرا دیتے ہیں، یعنی جو ازل میں لکھا ہے وقت وہ موت، کاغذی کاروائی اس کی ہوجاتی ہے ۔ اب اُس کی زندگی اور موت کا کوئی پروانہ نہیں ۔ اب جب جس نے اُس ڈیوٹی پر مامور کیا ،جب تک وہ چاہے گا وہ بندہ زندہ رہے اور جب وہ چاہے گا بلا لے گا ۔ دوسری بات اب جب اُس کی موت واقع ہوگئی اُس کی کتاب بند ہوگئی ، اب وہ اچھے کام کیوں کرے اتنی مصیبت کر کے کتاب تو بند ہوگئی ۔جن کے قلب کو اور نفس کو انہوں نے اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے جن کا نفس ،جن کا قلب ، جن کی روح کاملن اُن کے حکم کے تابع ہے ۔اُن کا اٹھنا اُن کے حکم سے ،اُن کا بیٹھنا اُن کے حکم سے ، اُن کا گانا بجانا اُن کے حکم سے ، اُن کا کھیلنا اُن کے حکم سے ، اُن کا کھانا اُن کے حکم سے ، اُن کا جاگنا اور سونا اُن کے حکم سے ،وہ اپنی زندگی تو جی لیئے ، حساب کتاب سے تو بری ہوگئے ۔
اب یہ وہابیوں میں اور سنیوں میں ایک مسئلہ رہتا ہے حاضر و ناظر کا ۔ اب میرا سوال یہ ہے ۔ناظر کا مطلب ہو تا ہے دیکھنے والا ۔ سنیوں کا ،بریلویوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پاک حاضر و ناظر ہیں اور تم کہتے ہو حاضر و نا ظر نہیں ہیں ، قرآنِ مجید یہ تو کہتا ہے کہ وہ شاہد ہیں تو شاہد اندھا ہوسکتا ہے کیا ؟ شاہد یعنی گواہ اندھا ہوسکتا ہے گواہ ۔ تو کون ہوگا جو دیکھتا ہے ؟ تو قرآن سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ ناظر تو ہیں ۔ حضور کو شاہد بنایا اللہ نے تو شاہد ہونے کیلئے ناظر ہونا ضروری ہے پہلے ، دیکھے گا تو گواہی دیگا۔اندھے کی گواہی چلتی ہے ، اندھے کو تو کچھ نظر ہی نہیں آتا گواہی کیا دے گا ۔ اب حضور ﷺجب تک اِس دنیا میں تھے جب تک شاہد تھے یا بعد میں بھی شاہد ہیں ؟ اب اِس کا جواب سنیوں کے پاس بھی نہیں ہے ۔وہ کہہ دیں گے کہ ابھی تک شاہد ہیں لیکن اُن کو پتا نہیں کیسے ۔اگر حضور پاکﷺ شاہد ہیں اِس امت پر تو یہ فرشتوں کو کیوں رکھا ہے یہاں پر ، گناہ لکھنے کیلئے ،نیکی لکھنے کیلئے ۔ حضور پاک ﷺکی جو صفت ہے شاہد ہونے کی یہ صرف اُن لوگوں کیلئے ہے کہ جن کا کسی نا کسی طریقہ سے قادری سلسلے سے، چشتی سلسلے سے ، سہروردی سلسلے سے یا کسی اور باطنی سلسلے سے تعلق حضور ﷺ سے جڑ گیا ہے۔ حضورﷺکی قلب کی نگرانی میں اُن لوگوں کے قلب آجاتے ہیں پھر اُن کے قلوب پر حضورﷺ کا قلب شاہد ہے ۔ اِس طریقہ سے شاہد ہیں خواہ وہ حضورﷺکی دور کی بات ہو یا آج کے دور کی بات ہو ۔ جس کا قلب حضورﷺ سے جڑا ہے حضورﷺ اُس پر شاہد ہیں ۔