کیٹیگری: مضامین

عام مسلمان اس بات سے واقف نہیں ہے کہ روزہ کیوں رکھا جاتا ہے، قرآن مجید میں ہے کہ

یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 183
ترجمہ : اے مومنو! ہم نے تم پر روزے فرض کئے ہیں جسطرح تم سے پہلے اُمتوں پر فرض کئے تھے تاکہ تم پاک ہو جاؤ۔

ہمارے مفسرین اور علمائے کرام قرآن کی اسی آیت میں سے لفظ اُٹھا کر لکھ دیتے ہیں کہ روزہ اس لئے رکھا جاتا ہے کہ تم متقی بن جاؤ لیکن متقی کی صحیح تشریح سے وہ بھی نا بلد ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر روزہ رکھنے سے آپ متقی بن گئے ہیں تو پھر متقیوں کےبارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ

الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 1 تا 3

تقویٰ کا علمی نکتہ :

وہ کتاب متقیوں کو ہدایت دیتی ہے ۔ لفظ تقویٰ نہ ہمارے علماء نے خود سمجھا ہے اور نہ اہل اسلام کو سمجھایا ہے۔ تقویٰ طہارت کا نام ہے، ایک طہارت جسم، دوسری طہارت نفس کی، تیسری طہارت قلب کی اور چوتھی طہارت سوچ کی ہوتی ہے۔ سب سے افضل و اعلیٰ طہارت سوچ کی ہے۔ سوچ کی طہارت یہ ہوتی ہے کہ اگر کپڑوں پر کوئی داغ لگ جائے تو شریعت کے مطابق کپڑے ناپاک ہیں اور اگر اس سے چھوٹا داغ لگ جائے تو کپڑے ناپاکی کے زمرے میں نہیں آتے ہیں لیکن کچھ اہلِ تقویٰ ایسے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ شریعت میں جائز ہے کہ اگر اتنا بڑا داغ لگ جائے تو وہ ناپاکی کے زمرے میں نہیں آتا ہے لیکن ہمارے دل کو یہ بھی گوارہ نہیں ہے اور یہی سوچ کا تقویٰ ہے ۔ سوچ کا تقویٰ تب حاصل ہوتا ہے جب باقی تمام طہارتیں حاصل ہو جائیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپکا نفس اور قلب پاک نہ ہو اور آپکی سوچ پاک ہو جائے۔ یہیں سے روزے کا عنصر بھی آیا ہے۔ کھانے پینے کا قرآن میں ذکر آیا ہے لیکن روزے کی حالت میں اسکو بھی ترک کر دینا ہے جسکی شریعت نے اجازت دے رکھی ہے ۔

كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّـهِ
سورة البقرة آیت نمبر 60
ترجمہ : اللہ کا رزق کھاؤ پیو۔

تقویٰ کے عملی معنی کیا ہیں؟

تقویٰ کا عملی معنی یہ ہے کہ آپکے نفس میں طہارت آنا شروع ہو جائے، ایک ماہ کے روزے موٴمنوں پر فرض کئے گئے ہیں تاکہ ایک ماہ میں روزہ رکھ کر، تراویح میں قرآنِ مجید سن کر آپکے نفس میں اتنا تقویٰ آ جائے کہ سال کے جو گیارہ مہینے ہیں اُن میں وہ خوفِ خدا اور طہارتِ نفس چلتی رہے ۔ روزہ اپنے پورے لوازمات کے ساتھ رکھنا ہی سود مند ثابت ہوتا ہے۔ جیسے قرآن مجید کی اس آیت کو دیکھیں کہ

یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 183
ترجمہ : اے موٴمنو! ہم نے تم پر روزے فرض کئے ہیں جسطرح تم سے پہلے اُمتوں پر فرض کئے تھے تاکہ تم پاک ہو جاؤ۔

اے وہ لوگوں جو موٴمن بن گئے ہیں ، جو درجہ ایمان پر فائز نہیں ہوئے وہ اس خطاب کے زمرے میں نہیں آتے ہیں ۔آج ہمارے معاشرے میں یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات کی فکر ہی نہیں ہے کہ ہمارا عقیدہ درست ہے یا نہیں ، نہ ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ کیا ہم مومن بن گئے ہیں یا کیسے بنیں گے اور نہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن مجید نے جو نماز یا روزے کا حکم دیا ہے کیا وہ ہمارے لئے ہے یانہیں! اس آیت میں بھی روزے کا حکم اُن لوگوں کو ہے جو ایمان والے بن چکے ہیں ۔

موٴمن روزہ رکھے تو کیا ہوتا ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف موٴمنین پر روزہ کیوں فرض ہے عام مسلمان بھی رکھ لے تو اس میں کیا حرج ہے؟ روزے کا مقصد یہ ہے کہ جو غذا ہم کھاتے ہیں اس سے نفس کو نار ملتی ہے اور نفس طاقتور ہوتا ہے۔ نفس کی طہارت کیلئے ضروری ہے کہ نار کی غذا روک کر نفس کو نور پر مامور کیا جائے لیکن ہمارے علماء نے روزے کی تشریحات ہی بدل دی ہیں ۔ یہ علماء کہتے ہیں کہ اللہ نے روزے اس لئے فرض کئے ہیں کہ ہمارے اندر صبر آئے اور غریبوں کا خیال آئے۔ جو غریب سارے سال فاقہ کرتے ہیں ہمیں اس کا تجربہ ہوکہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اگرغربت کا ہی مزہ لینا ہے تو رمضان ہی کیوں عام دنوں میں بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ روزے کا فائدہ صرف موٴمن کو ہی ہوگا اور اگر آپ موٴمن نہیں ہیں اور روزے رکھ رہے ہیں تو اس کا آپکو فائدہ نہیں ہوگا۔ قرآن کے مطابق صوم (روزہ) موٴمنین پر فرض کیا گیا ہے اور موٴمن وہ ہے جسکا قلب زندہ ہو یعنی ذاکرِ قلبی ہو ۔
اب یہ موٴمن کا قلب ہے جہاں ہر وقت اللہ کا ذکر ہو رہا ہے جس سے نور بن رہا ہے ۔ اب اس موٴمن میں نفس بھی موجود ہے جس کی غذا نار ہے ۔ ہم عالمِ ناسوت میں رہتے ہیں جس کی آب و ہوا میں بھی نار ہے ۔ جو نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس سے بھی نار ہمارے نفس میں جاتی ہے ۔ کانوں سے جو بُرے الفاظ سنتے ہیں اس سے بھی نار ہمارے نفس میں جاتی ہے ۔ پھر ہم جھوٹ بولتے ہیں اسکی بھی نار ہمارے نفس میں جاتی ہے ۔اب رمضان میں موٴمنین کیلئے اللہ کا حکم آ گیا کہ ایک ماہ تک روزے رکھیں۔ اب جب وہ روزہ رکھیں گے تو غذا پندرہ سولہ گھنٹے کیلئے بند ہو گئی جس سے نار میں کمی واقع ہو جائے گی اور نفس کمزور ہو جائے گا۔ اب چونکہ وہ موٴمن ہے لہذا اسکے قلب سے نور کی شعاعیں برآمد ہو رہی ہیں۔ جب نفس کو نار کی غذا نہیں ملے گی تو وہ قلب سے جو نور آ رہا ہے وہ لے لے گا جس سے اُس میں طہارت آنا شروع ہو جائےگی۔ عام دنوں میں موٴمن نماز پڑھتا ہے تو اسکا نورنفس کی مزاحمت کی وجہ سے بٹ جاتا ہے لیکن رمضان کے دنوں میں اسکا نفس کمزور ہوتاہے اور نماز پڑھنے سے نور زیادہ بنتا ہے اور کیف و سرور بھی زیادہ آتا ہے، ذکر و فکر میں بھی ترقی زیادہ ہوتی ہے۔ جب رات ہوئی تو آپ تراویح میں کھڑے ہوگئےتو قرآن مجید کی تلاوت کا نور بھی آپکے نفس اور قلب میں جا رہا ہے۔ اسطرح چاروں طرف سے نار کو کم کر رہے ہیں اور نور کو بڑھا رہے ہیں جس سے طہارت قائم ہوتی ہے ۔

عام مسلمان روزہ رکھے تو کیا ہوتا ہے؟

عام آدمی رمضان میں روزہ رکھے گا اور تیرا چودہ گھنٹے کیلئے غذا کو ترک کر دیا تو اس سے نار کا تناسب جسم میں کم ہوگیا لیکن اُسکا قلب سیاہ ہے کیونکہ اس میں نور نہیں ہے ۔ نار کی مقدار تو کم ہوگئی لیکن قلب میں نور نہ ہونے کی وجہ سےنفس میں طہارت نہیں آئی۔ پھرعام آدمی نے روزہ رکھ کرکھانا تو ترک کر دیا لیکن وہ فلمیں دیکھنے لگ گیا، غیبت میں ملوث رہا، بہتان میں لگا رہا، گناہوں میں ویسے ہی لگا رہا تو ہو سکتا ہے کہ غذا کے ترک کرنے سے پانچ فیصد نار کی کمی ہوئی ہو لیکن غِیبتیں اور گناہ کرکے پانچ سو فیصد نار کما لی ہو ۔
ہمارے معاشرے میں جب لوگ روزہ رکھتے ہیں تو کیا وہ بے ایمانی سے بعض آ جاتے ہیں؟ خوامخواہ لوگوں کو جتاتے ہیں کہ میں روزے دار ہوں۔ صرف اپنی تعریف کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے اس لئے عام انسان کو روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو صرف نمازی رمضان میں بنتے ہیں ، کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو رمضان میں ہی نمازیں پڑھتےہیں اور رمضان میں ہی داڑھی رکھتے ہیں اور عید المبارک کا چاند دیکھتے ہیں اُسترا پھروا دیتے ہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ جو ہم روزہ رکھ رہے ہیں اسکا مقصد کیا ہے؟ ایک حدیث شریف میں ہے کہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم : كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي
رواه البخاري (5927) ، ومسلم (1151)

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو میرے لئے ہے اور اسکا اجر بھی میں دوں گا۔ اب مسلم اُمہ سے سوال یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے کیا اُنکو اللہ مل گیا ہے؟ روزہ میرے لئے ہے اور اسکا اجر بھی میں دوں گا کا مطلب یہ ہے کہ

وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
سورة الذاریات آیت نمبر 21
ترجمہ : اور میں تمھارے نفوس کے پردے کے پیچھے ہوں۔

میں تمھارے نفس کے پردے کے پیچھے ہوں جب تم نفس کو پاک کرو گے تو مجھ تک پہنچ جاؤ گے۔ جو نفس کو پاک کرے گا وہی اللہ کی طرف آگے جائے گا۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ کہ کامیاب وہ ہوگا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا لہذا اللہ کی بارگاہ میں جانے کی سب سے بڑی رکاوٹ نفس کا ناپاک ہونا ہے اور جو نفس کو پاک کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ یہ کہتا ہے کہ یہ عمل مجھ تک پہنچنے کیلئے ہو رہا ہے تاکہ نفس پاک ہو اور یہ میری طرف آئے اور اسکا اجر اللہ ہی دے گا تو جس کے نفس روزے سے پاک ہوئے وہی اللہ کیلئے کر رہے ہیں اور جن کے روزوں سے نفس پاک ہوا ہی نہیں وہ تو اللہ کیلئے کر ہی نہیں رہے ہیں تو ایسے لوگوں کا نہ نفس پاک ہو گا اور نہ ہی اللہ تک پہنچیں گے۔
“باطنی قرآن میں بھی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر ہمیں یہ خوف نہ ہوتا کہ تیری اُمت پر یہ گراں گزرے گا تو ہم تزکیہ نفس تیری اُمت پر فرض کر دیتے”۔ تو کامیاب وہی ہوگا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور پھر فرمایا کہ

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورة الشعراء آیت نمبر 88
ترجمہ : اُس دن نہ تمھارا مال کام آئے گا اور نہ بیٹے، اُس دن وہ کامیاب ہ گا جو قلبِ سلیم اللہ کے پاس لایا۔

قرآن کے مطابق یہ کامیابی کا راستہ ہے اور ہمارے علماء نے آپ کو دوسری طرف لگا دیا اور آپ روزے کے حقیقی مقصد سے دور چلے گئے۔ روزے کا حقیقی مقصد اپنے نفس کو پاک کرنا ہے ، جس نے بھی اپنے نفس کو پاک کر لیا قرآن مجید کے مطابق وہ فلاح پا گیا اور جس نے اپنے نفس کو پاک نہیں کیا اُسکی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ آپکی ساری کی ساری توجہ اس نقطے پر مرکوز ہونی چاہیے کہ آپ اپنے نفس کو پاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ قلبِ سلیم میسرآ جائے۔ ہمارے علماء نے لوگوں کو کہہ دیا کہ روزِ محشر میں پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا اور نماز ہوتی کیا ہے لوگ اس بات سے نا آشنا ہیں، اور یہ بات نہ قرآن میں لکھی ہے اور نہ ہی کسی مستند حدیث میں لکھی ہوئی ہے۔ صرف مولانا روم کی شاعری میں یہ بات موجود ہے کہ روزِ محشر پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا لیکن اگر لوگوں کو اصلاح قلب کے بارے میں بتایا جاتا تو پھر اصلاح قلب میں لگ جاتے۔ ہمارے علماء اگر ہر تقریر میں اصلاحِ قلب پر زور دیتے، تذکیہ نفس پر زور دیتے، ذکر اللہ کی اہمیت بتاتے تو پھر لوگ اسکے حصول کیلئے کوشاں بھی ہو جاتے اور جب اصلاحِ قلب ہو جاتی تو پھر وہی نماز موٴمن کی معراج بن جاتی۔ قرآن مجید میں ہے کہ

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ
سورة الماعون آیت نمبر 3 تا 4
ترجمہ: ایسے نمازیوں کیلئے تباہی اور ہلاکت ہے جو نماز کی حقیقت سے غافل ہیں اور صرف ریاکاری کر رہے ہیں ۔

نمازِ حقیقت کیا ہے ؟

قربان جائیں سرکار گوھر شاہی پر آپ نے نماز کی حقیقت پر موتی پروئےہیں، آپ نمازِ حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

زبان اقرار کرے، جسم عمل کرے اور دل تصدیق کرے تو یہ نمازِ حقیقت ہے۔

زبان سے آپ نے اللہ کیا تو دل نے اسمِ اللہ سے اسکی تصدیق کردی اور جسم نے عمل کیا تو اسطرح ہم نمازِ حقیقت کو پہنچ گئے۔ عام آدمی کی نماز یہ ہے کہ اسکی زبان کہتی ہے “قل ھو اللہ ھو احد” دل جواباً یہ کہتا ہے کہ گھر میں آٹا نہیں ہے ، زبان کہتی ہے “اللہ ھو صمد”، دل کہتا ہے گھر میں بیوی بیمار ہے ، زبان کہتی ہے “لم یلد ولم یولد”، دل کہتا ہے ڈیوٹی سے لیٹ ہو رہا ہے جلدی چل۔ اسی بات کو بلھے شاہ نے بھی کہا ہے کہ
تیرا دل کھلاندا منڈے کڑیاں تو سجدے کرے مسیتی
تیرا دل تو بیوی ، بچوں اور کاروبار میں لگا ہوا ہے تیرا دل نماز کی طرف کہاں ہے ! سرکار گوھر شاہی نے ایک اور خوبصورت بات فرمائی کہ ایک آدمی ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپکی نماز کی تشریح بھی سنی تھی لیکن میں ذاکرِ قلبی نہیں ہوں ۔ جب میں نے نماز شروع کی تو دعوتِ اسلامی والے میرے پاس آئے انہوں نے مجھے نماز کی ترغیب دی ۔ میں نے نماز شروع کر دی ابھی دو تین ہفتے ہی گزرے ہیں میرے کاروبار میں برکت شروع ہو گئی، میرے بچے بیمار رہتے تھے وہ تندرست ہو گئے، گھریلو لڑائی جھگڑے ختم ہو گئے۔ اتنی برکتیں اس نماز کی وجہ سے میری زندگی میں آ گئی ہیں تو آپ کونسی نمازِ حقیقت کی بات کر رہے ہیں مجھے تو یہ سب بغیر حضوری قلب کے مل گیا ۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو سب صحیح ہے لیکن تمھارے ساتھ یہ ہوا کہ جب تم نماز میں گئے تو اس سے نور بنا اور جب خیال کاروبار کی طرف گیا تو تمھارا نور کاروبار میں چلا گیا اُدھر برکت ہو گئی۔ اب وہ نور یومِ محشر میں تو نہیں ملے گا۔ پھر کسی دن تمھیں دوران نماز اپنے بیمار بچوں کا خیال آ گیا تو وہ نماز کا نور بچوں کی بیماری میں چلا گیا تو وہ بچے ٹھیک ہو گئے ۔ نماز کا حقیقی مقصد تو یہ تھا کہ وہ نماز کا نور تمھارے قلب میں جانا چاہیے تھا تاکہ دل اسکو اللہ کے پاس پہنچائے۔ اس نماز سے تجھے فائدہ تو ہوا ہے لیکن یہ نماز اللہ تک نہیں پہنچی، اللہ کے سامنے تُو بے نمازی ہی ہے۔ اللہ کے سامنے نمازی اُس وقت بنو گے جب تمھارے پاس حضوری قلب ہو گی اور دل اللہ اللہ کرے گا پھر جو نماز کا نور ہوگا وہ دل میں جائے گا اور دل اُسے عرشِ معلی تک بھیجے گا پھر وہ نماز نماز حقیقت ہو جائے گی ۔
لہذا روزے کا مقصد نفس کو پاک کرنا ہے۔ موٴمن کا روزہ ایک ماہ کا ہے ۔ جو خاص لوگ ہیں انکے لئے علم بھی خاص ہے ، انکے لئے یہ ہے کہ تو بارہ سال کا روزہ رکھ لے کیونکہ یہ نفس بارہ سال میں پاک ہوتا ہے ۔ عام علم یہ کہتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں تیس روزے رکھ ورنہ تو گناہ گار ہو جائے گا لیکن وہ جو خاص علم (باطن کے دس حصے) ہیں وہ کہتا ہے کہ اگر تو نے روزہ رکھا تو بہت ہی سخت گناہ گار ہو جائے گا۔ایک بزرگ تھے انہوں نے اپنی بیوی کو کہا کہ میرا ایک دوست دریا کے اُس پار بیٹھا ہے اسے کھانا دے کر آ جا ۔ تو پھر وہ پوچھتی ہے میں دریا کے اس پار جاؤں گی کیسے؟ تو بزرگ نے کہا کہ جب تم دریا کے پہنچو تو کہنا میں اس کے پاس سے آ رہی ہے جس نے بارہ سال سے اپنی بیوی کو ہاتھ نہیں لگایا ۔تو وہ کہتی ہے کہ ابھی تو ہمارے یہاں بچی ہوئی ہے اور تم کہتے ہو بارہ سال سے ہاتھ نہیں لگایا۔ بزرگ کہتے ہیں تم اس بات کو چھوڑو بس یہ کہنا تو راستہ مل جائے گا۔ وہ جاتی ہے اور بزرگ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی کرتی ہے تو دریا راستہ دے دیتا ہے اور دوسرے کنارے پر بیٹھے بزرگ کو کھانا کھلا دیتی ہے ۔ پھر وہ دوسرے بزرگ سے پوچھتی ہے کہ اب میں واپس کیسے جاؤں گی؟ وہ بزرگ کہتا ہے کہ تم دریا کو کہنا کہ میں اس کے پاس سے آ رہی ہوں جس نے بارہ سال سے کچھ نہیں کھایا ہے ۔ وہ کہتی ہے تم نے ابھی ابھی کھانا کھایا ہے میرے سامنے اور جھوٹ بولتے ہو ۔تو وہ بزرگ کہتا ہے بس تم یہ کہہ دینا تمھیں راستہ مل جائے گا۔وہ پھر ویسا ہی کرتی ہے جیسا بزرگ نے کہا اور اسے راستہ مل جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے شوہر کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ تو مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ تم دونوں جھوٹے ہو لیکن یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ تم جھوٹوں کی باتوں میں اتنی تاثیر کہاں سے آئی۔ تو پھر بزرگ نے اسے تشریح کر کے سمجھایا کہ بارہ سال تک میں نے تجھے صرف تیرا حق ادا کرنے کیلئے ہاتھ لگایا اپنے نفس کی خواہش سے نہیں لگا یااور جس کے پاس سے تو آ رہی ہے اس نے بھی بارہ سال سے صرف زندہ رہنے کی خاطر کہ اللہ کی عبادت کر سکوں کھانا کھایا ہے اپنے نفس کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا تو یہ اصل طہارت ہے۔ روزہ موٴمنین کیلئے مزہ ہے کہ جب تیس دن کا روزہ رکھیں گے اور طہارت ملے گی تو پھر اور زیادہ طہارت کی تلاش کریں گے۔ پھر وہ نفس کی طہارت کا دورانیہ بارہ سال ہوتا ہے ۔ جو لوگ بارہ سال میں اپنے نفس کو پاک کر لیتے ہیں وہ پھر پاک ہی رہتے ہیں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 25 اپریل 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس