- 262وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
عالمِ حق کیلئے سنتِ رسول:
آپ کسی بھی مذہب کی بات کریں ہرمذہب اوردین میں جو سب سے اہم چیز یہ ہے کہ آپ اپنے نبی کی سنت پرعمل پیرا ہوں۔ یہ سُنت صرف دو یا چار رکعت نمازیں، داڑھی رکھنے، عمامہ پہننے اور حلوہ کھانے کی نہیں ہے بلکہ ہرمعاملے میں جیسا نبی نے کیا ہے ویسا آپ نے کرنا ہے۔ مُبلغ دین کی تشریح اور تبلیغ کرنے والا، اُس کا طریقہٴِ تبلیغ کیسا ہونا چاہیئے، عالم کیسا ہونا چاہیئے، ولی کیسا ہونا چاہیئے تو بالکل ایسا جیسے محمد الرسول اللہ نے کرکے دکھایا۔ اب یہاں پر اَپ لوگوں کی مدد کیلئے قراَن مجید کی یہ اَیت آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں تاکہ اَپ کو معلوم ہو کہ جن کو ہم عالم، مفتی اور مذہبی رہنما سمجھتے رہے ہیں تو کیا اُن میں یہ خوبیاں موجود تھیں جن کو سُنت کے طور پر اُن کو اپنانا تھا! قرآن مجید نبی کریمؐ کی جو مبلغ کی صفت ہے اُس کی تشریح فرما رہا ہے کہ
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ
سورة الجمعة آیت نمبر 2
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ کہ وہ ذات جواُمیوں کے اندرجس نے بعثت فرمائی۔ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کہ ہماری اَیتیں اُن کے اُوپر تلاوت کرتا ہے۔ جب آپ قرآن شریف پڑھتے ہیں تو اَپ کس کے اوپر تلاوت کرتے ہیں اور جب مولوی صاحب قرآن پڑھتے ہیں تو وہ کس کے اوپر قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں! تم نے قرآن کی تلاوت کرنا سیکھی ہے لیکن تم نے یہ نہیں سیکھا کہ انسانوں پر تلاوت کیسے ہوتی ہے! يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کہ اور وہ اپنے امتیوں کے اوپر قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔
عالمِ حق کی پہلی صفت:
قرآن کی تلاوت کسی کے اوپر کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب تم قرآن پڑھو تو تیری زبان تیرے قلب کے ساتھ لگی ہو اور جب تم قرآن پڑھو تو جن کے سامنے پڑھ رہے ہو قرآن کی وہ آیت اور نور اُن کے سینوں میں اُترتا جائے۔ یہ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ ہے۔ قرآن کی آیت اگر پڑھے تو جو سامنے بیٹھا ہے اُس کے سینے میں قرآن کی وہ آیت اور نور اُتر جائے، زندگی بھر دوبارہ جو قرآن کی آیت اور فیض دل میں اُتر گیا اُس کی کمی محسوس نہ ہو اور کبھی دل و دماغ سے نہ نکلے۔ عالمِ حق میں ایک تو یہ ڈھب ہونا چاہیئے کہ جب وہ قرآن کی تلاوت کرے تو سننے والوں کے دلوں میں وہ آیتیں نور کے ساتھ اُتر جائیں۔
یا محمدؐ محمدؐ میں کہتا رہا، نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی
آیتوں سے ملاتا رہا آیتیں، پھر جو دیکھا تو نعتِ نبی بن گئی
اس سے مراد یہ ہے کہ جسطرح اللہ ھُو دل میں اُترتا ہے اور دھڑکنوں میں جاتا ہے تو اللہ ھُو کا رگڑا لگتا ہے، اِسی طرح نور بنانے کیلئے قرآن کی آیتوں کا بھی رگڑا لگنا چاہیئے۔ ابھی تمہیں قرآن سننے کا مزہ نہیں آتا۔ قرآن نور بنانے کا خام مال ہے جیسے آپ نے کوئی کھانا بنانا ہے بریانی بنانی ہے تو اُسکا اجزائے عناصر جیسے چاول، سبزی کا تیل، مسالحے، گوشت یا سبزی، اِسی طریقے سے جو قرآنِ مجید ہے وہ نور اور ایمان بنانے کا مواد ہے۔ جب حضور پاکؐ اُمتیوں کے اوپر قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے تو آپؐ کے ساتوں لطائف اُس تلاوت میں حصہ لیتے اور اندر سے ہی رگڑا لگ کر نور باہر آرہا ہے۔ قرآن کی آیتوں کا سینہٴِ مصطفٰیؐ سے ہی رگڑا لگا ہوا ہے۔ پھر زبان کا رگڑا لگا اور سیدھا تیرے دل کے اندر اُترگئی۔ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ ایک تو ہے صرف تلاوت کرنا لیکن یہ وہ نہیں ہے۔ یہ قرآن کہتا ہے يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کہ اُن پر تلاوت کرنا۔ جسکا صرف قلب جاری تھا تو اَقا علیہ الصلوة والسلام نے جو تلاوت کی تو اُسکے قلب میں گئی۔ جس کی روح بھی منور ہوچکی تھی تو آقا علیہ الصلوة والسلام کی تلاوت کردہ آیت اُس کے قلب اور روح دونوں میں اُترگئی۔ جسکے جتنے لطائف آباد، زندہ اور منور تھے تو جب حضورؐ نے قرآن کی تلاوت فرمائی ہے تو ساتوں لطیفوں میں وہ آیت گُھس گئی۔ ایسی تلاوت کرو کہ اِس دل اور زبان سے نکل کر سامنے والے کے سینے میں دل میں نور اور وہ آیت اُتر جائے اور کبھی وہاں سے نہ نکلے۔ عالمِ حق کی یہ پہلی صفت ہے۔ عالم ہو تو ایسا ہو کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے کرکے دکھایا ہے تو یہ سنت ہے۔ تم مولویوں کو صرف حلوہ کھانے کی سُنت یاد ہے لیکن یہ سُنت کدھر جائے گی! حضورپاکؐ نے بھی تو تبلیغ کے ذریعے اسلام پھیلایا ہے تو تم کِس طرح اسلام پھیلا رہے ہو اور تم تبلیغ میں حضورؐ کی سُنت پر عمل کیوں نہیں کرتے! اُس طرح تبلیغ کرو جِسطرح حضور نبی پاکؐ نے تبلیغ کرکے دکھائی ہے۔ اُسطرح تلاوت کروجسطرح آقا علیہ الصلاة والسلام نے تلاوت کی ہے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ میرا محبوب میری آیتیں تمہارے اوپر تلاوت کرتا ہے۔ جوحضورؐ کے قلب پرآیا ہے يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ اب حضورؐ کا منصب یہ ہے کہ حضورؐ کے قلب میں قرآن آیا ہے وہ اُمتیوں کے دلوں میں اُتار دے لہٰذا يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کہ وہ تمہارے اوپر میری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے۔
عالمِ حق کی دوسری صفت:
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
سورة الجمعة آیت نمبر 2
وَيُزَكِّيهِمْ کہ اور میرا محبوب تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔ ہمارے جتنے بھی قابلِ احترام علمائے دین اور مفتیانِ عظام ہیں تو بڑے ہی دست بستہ ہوکر عجز و اِنکساری اور نیک نیتی کے ساتھ ہم اُن کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں کہ کیا حضرت آپ میں یہ صفت موجود ہے! اگر نہیں ہے تو منبرِ رسول سے ہٹ جاوٴ، اپنے آپ کو عالم نہ کہو اور عالم تب کہنا جب سُنتِ رسول پر آجاوٴ اور مبلغ کی سنتِ رسول یہ ہے کہ وہ تمہارے اوپر آیتیں پڑھ کے تمہارے سینوں کو روشن کرتا ہے۔ وَيُزَكِّيهِمْ کہ اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔
عالمِ حق کی تیسری صفت:
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اور یہ جوکتاب قرآنِ مجید ہے اِس کا علم تمہیں عطا کرتا ہے۔ وَالْحِكْمَةَ اور اِس کتاب کے جورازہیں جوعام سمجھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گے، محمد الرسول اللہ اِس کتاب کی حکمتیں بھی تمہیں عطا کرتے ہیں۔
یہاں تین صفات ہوگئیں، يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کہ وہ آیتیں پڑھ کرتمہارے سینوں میں اُس قرآن کو منتقل کررہا ہے جو اُس کے سینے میں ہے، وَيُزَكِّيهِمْ اور تمہیں پاک کررہا ہے یعنی تمہارا تزکیہ کررہا ہے، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کہ اور تمہیں اِس کتاب کے علم کے ساتھ اِس کتاب کی حکمت بھی دے رہا ہے۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد الرسول اللہ نے یہ تین چیزیں جس کے اوپرکیں توکیا وہ عالم نہیں ہے، جس کے ساتھ یہ تین معاملات نبی پاکؐ نے فرما دیئے، جس کو محمد الرسول اللہ نے قرآن سکھایا اور حکمت سکھائی تو کیا اُس کوعالم نہیں کہیں گے! اگرکسی کوقرآن محمد الرسول اللہ نے سکھایا ہے تواُس کی نشانی کیا ہوگی! کوئی بھی دعویٰ کرے گا۔ ہم (یونس الگوھر) بھی کہتے ہیں کہ ہمیں حضورؐ نے قرآن سکھایا، کل بھی دعویٰ کیا تھا، آج بھی کررہے ہیں اور آنے والے کل میں بھی کریں گے کیونکہ یہ حقیقت ہے۔ اب تمہیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمیں قرآن نبی پاکؐ نے ہی سکھایا ہے یا ہم جھوٹے دعوے دار ہیں؟ اگرحضورؐ نے سکھایا ہوگا تویہ تین چیزیں موجود ہونگی، يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ تو یہ آیت ہم آپ پرپڑھ رہے ہیں تواگرآیتوں کا نورتمہارے سینوں میں نہ جائے تو ہم جھوٹے ہیں۔ وَيُزَكِّيهِمْ اورپھرنظروں سے تمہارے نفس کا تزکیہ نہ ہوتوہم جھوٹے ہیں۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اوراگراِس کتاب کا علم اوراِس کی حکمت یعنی تاویل (باطنی تفسیر) تمہارے سینے میں نہ اُترے توہم جھوٹے ہیں۔ محمد الرسول اللہ نے جس کوقرآن سکھایا ہے اُس میں یہ تین چیزیں ہونگی۔
تم اُس کی صحبت میں بیٹھو گے اور وہ قرآن کی آیتیں تمہارے اوپر پڑھے گا اور اُس کا نورتمہارے سینوں میں جائے گا۔ تم اُس کی صحبت میں بیٹھو گے اوروہ اپنی نظروں سے تمہارے نفس کا تزکیہ کرے گا، خود بخود زندگی تبدیل ہوتی نظرآئے گی، خود بخود گناہوں سے دُوری اور نفرت ہو جائے گی۔ کچھ بھی نہ کرو بس اُس کی صحبت میں بیٹھ جاوٴ۔ لوگوں کو اپنی صحبت میں بٹھا کراُن کا تزکیہ کرنا سُنتِ رسول ہے۔
جو اب ہم اپنے علماء کے پاس جاتے ہیں تو وہ جو قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ جب وہ اِس منصب پرہوتے ہیں توہم توسوجاتے ہیں۔ جب ہم 30 سال پہلے کراچی (پاکستان) میں رہتے تھے تو لوگ جمعہ کی نماز میں اُس وقت مسجد میں جاتے تھے جب خطبہ ختم ہوجاتا تھا۔ تم اتنے بڑے بڑے عالم بن گئے ہو، کوئی شیخ الاسلام اور کوئی صوفی اسکالر ہے، کوئی کچھ اور کوئی کوئی کچھ ہے لیکن يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کا مصداق کون ہے! اگرتم ہوتوعوام تمہارا خطبہ سننے کوکیوں نہیں آرہی بلکہ یہ عوام توصرف جمعہ کے دو فرض پڑھنے کیلئے آرہی ہے۔ يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کا مصداق تمہارے اندرکہاں ہے! اگرتمہاری تلاوت کردہ آیتِ قرآنی اُن کے سینوں اور دلوں میں داخل ہوتی توپھرپوری مسجدیں بھری ہوتیں اورخطبہ ہرانسان سنتا۔ وَيُزَكِّيهِمْ اور تم اُن آنے والے نمازیوں کے نفوس کا تزکیہ کرتے، مسجد میں لوگ جاکرپاک ہونا شروع ہوجاتے اور اِن مسجدوں میں فرقہ واریت کی تبلیغ نہ ہوتی۔ سنی، شیعہ، وہابی، بریلوی اور دیوبندی نہ بنتے۔ اگرتم وہی عالمِ حق ہوجن کومحمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن سکھایا ہے توپھرتمہاری تلاوت کردہ آیتیں اُن کے سینوں میں اُترتیں۔ تم اپنی باطنی توجہ اور اپنی زبان کے علم سے اُن کے نفس کا تزکیہ کرتے۔ پھر قرآنِ مجید سے تم آیتیں نکال نکال کے اور اُن کوتوڑمروڑکرفرقہ نہ بناتے۔ اگرہمارے علماء قرآنِ مجید کا علم اور حکمت لوگوں کو دیتے توآج ہرمسلمان عالم جیسا ہوجاتا۔ علماء کی تیس تیس سال مسجدوں میں گفتگو سننے کے بعد کیا علمِ قرآن اور حکمت ہمارے اندرآیا اور علماء کی صحبت میں بیٹھنے سے ہمارے نفوس کا کونسا تزکیہ ہوا! اگرہرعالم کے اندر یہ تین چیزیں موجود ہوتیں، يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ، وَيُزَكِّيهِمْ وہ تزکیہ بھی کرتا اور وہ علم اور حکمت کا علم و عرفان بھی عطا کرتا تو تم وہابی، بریلوی، شیعہ، اہلِحدیث، قادیانی نہیں بنتے۔ جب تمہارے دلوں میں نورنہیں تھا اور صرف زبان سے محمد الرسول اللہ کے نعرے لگاتے تھے، اسی لئے ایک گمراہ شیطان مرزا غلام احمد قادیانی آیا اور اُس نے تم کو کہانیاں سنائیں اورتم اُس کونبی بنا کربیٹھ گئے کیونکہ تمہارے سینوں میں حضورؐ کا نور کہاں تھا۔ اگر اسمِ محمدؐ تمہارے سینے پرنقش ہوتا، تیری ساری روحوں کواسمِ محمدؐ کا رسِ نورمل رہا ہوتا توپھرکیا مجال تھی کہ کوئی نبوت کا دعویٰ کربیٹھتا اور کیا مجال تھی کہ پھرتم اُس کومان لیتے بلکہ تم توسو جوتے مارکراُس کونکال دیتے۔ کیا ہمارے علماء اِن تین چیزوں پرپورا اُتررہے ہیں! تبلیغ کرنے والوں کیلئے یہ سنتِ رسول ہے۔ اُس وقت منبرِرسول پربیٹھنا جب يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کے مصداق بن جاوٴ، وَيُزَكِّيهِمْ جب نظروں سے لوگوں کے نفس کوپاک کرنا شروع کردو اور وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کتاب اور حکمت کا علم دینا شروع کردو۔ اب آپ جائیں اوردنیا میں کسی انسان کسی عالم سے بات کریں اور اُس کوکہیں کہ قرآن کے مطابق علماء کیلئے سنتِ رسول یہ ہے کہ اُن میں تین چیزیں ہوں کیونکہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوتبلیغ کا طریقہ اختیارفرمایا اُس طریقہ کارمیں یہ تین چیزیں ہیں يَتْلُوعَلَيْهِمْ آيَاتِهِ، وَيُزَكِّيهِمْ اور وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ۔ عالمِ حق کی یہ تین نشانیوں یاد رکھ لیں کہ وہ تمہارے اوپرتلاوت کرے اور تلاوت کی آیتیں اور نور تمہارے سینوں میں اُتاردے، تمہارا تزکیہ نفس کرے اور تمہیں کتاب کا علم اور حکمت دے۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کردے
قرآن مجید میں آیا ہے کہ
وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورة الجمعة آیت نمبر 2
ترجمہ: اور تم اِس سے پہلے گمراہی میں تھے۔
حسن بصری کا جو زمانہ ہے وہ بالکل حضورؐ کے زمانے سے ملحقہ ہے، تابعین کا زمانہ ہے بلکہ نبی کریمؐ کی صحبت میں بھی حسن بصری نے بچپن میں کچھ وقت گزارا اور کچھ روایتوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ حسن بصری نے حضورؐ کے وضو کا جوباقی مندہ پانی تھا وہ پی لیا۔ حسن بصری سلطان الفقراء گزرے۔ اُن کے دورمیں ایک ولی حبیب عجمی تھے اور اُن کی جب شہرت سُنی کہ بہت بڑے مردِ قلندرہیں تواُن کی زیارت کیلئے گئے تووہ نماز پڑھا رہے تھے اور حسن بصری بھی نماز میں کھڑے ہوگئے۔ حبیب عجمی نے جوقرآنِ مجید کی تلاوت کررہے تھے اُن کا تلفظ غلط ہوگیا اور حسن بصری نے نمازتوڑکرالگ کھڑے ہوکرکے پڑھ لی۔ رات کوخواب میں حسن بصری کواللہ کا دیدار ہوا اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے حسن! ہمیں تیرا یہ عمل پسند نہیں آیا اور فرمایا کہ کیا ہوا اُس کے قرآن کا تلفظ ٹھیک نہیں تھا، ہم الفاظوں کوکہاں دیکھتے ہیں بلکہ ہم توقرآن کے اُس نورکو دیکھتے ہیں جواُس کے دل میں موجود تھا اورتم تواہلِ نظرتھے۔ اللہ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔
یہ واقعہ سنانے کا مطلب یہ ہے کہ خوبصورت خوبصورت تلفظ اور تلاوتوں میں کھونہ جانا کیونکہ اصل چیزاُس کا تلفظ نہیں ہے بلکہ اُس کا نورہے۔ عالمِ حق اور ولی دونوں کوسنتِ رسول پر عمل کرنا ہے تودونوں کیلئے یہی راستہ ہے۔ فرق صرف شدت کا آجائے گا عالمِ حق کے پاس تیرا تزکیہ کرنے کی طاقت کم ہوگی اورولی کے پاس بہت زیادہ طاقت ہوگی۔ عالم کے پاس کتاب اور حکمت کا علم تھوڑا ہوگا تو ولی کے پاس بہت زیادہ ہوگا لیکن راستہ دونوں کیلئے ایک ہی ہے۔ ولی ہو یا عالم ہو، دونوں کیلئے یہ تین چیزیں ہونی چاہئیں۔ علماء کرام سے سوال کریں کہ آپ کا سنتوں کے بارے میں کیا خیال ہے اور وہ کہیں گے کہ سُنت کے بغیرتودین ہی نہیں ہے۔ پھرآپ پوچھیں کہ تبلیغ کرنے والے عالموں کیلئے جوحضورؐ کی سنت ہے تویہ تین چیزیں ہونی چاہئیں تویہ آپ میں موجود ہیں؟ اگرنہیں ہیں توآپ گھربیٹھ جائیں۔ یہ انقلاب آئے گا جب لوگوں کے دل اورسینے منورہوجائیں گے تویہاں سے گفتگوسُن سُن کرلوگ مسجدوں میں جائیں گے اورمنبروں پربیٹھے ہوئے لوگوں کوکہیں گے کہ یہ تین چیزیں بتادوتم میں ہیں تومیں تمہارے ہاتھ چومتا ہوں اور تم کورسول اللہ کا خلیفہ جانتا ہوں اوراگریہ تین چیزیں نہیں ہیں توبہتری اِسی میں ہے کہ خاموشی سے عمامہ شریف پکڑکے منبرِ رسول سے ہٹ جاوٴ۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِیار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
کتاب اور حکمت میں کیا فرق ہے؟
کتاب وہ علم ہے جو لکھا ہوا ہے اور حکمت وہ ہے جولکھا نہیں ہے بلکہ صرف نور کی صورت میں ہے۔ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ تو کتاب کے آگے “و” ہے جوکتاب اورحکمت کوالگ کررہا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ كِتَابَ الگ ہے اور حِكْمَةَ الگ ہے۔ کتاب وہ ہے جوالفاظ کی صورت میں آگیا، جوعلم تحریر میں آگیا وہ كِتَابَ ہے اور جوصرف نورکی صورت میں ہے وہ حِكْمَةَ ہے۔ جونورکی صورت میں علم ہے وہ علمِ باطن ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 12 جون 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآنِ مکنون کی خصوصی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے۔