کیٹیگری: مضامین

فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِندَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
سورة الاٴنعام آیت نمبر 125 تا 127
ترجمہ: جب اللہ تعالی کسی کوہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے توپھراُس کی اسلام کیلئے شرحِ صدر کردیتا ہے اورجب اللہ تعالی کسی کوگمراہ کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تواُس کے سینے کوتنگی کا شکار فرمادیتا ہے کہ اب آسمان کی طرف اُس کوچڑھنے میں تنگی ہوگی۔ ایسا تب ہوتا ہے جب وہ لوگ جن کواُس نے موٴمن نہیں بنانا اُن کے سینوں میں غلاظت ڈال دیتا ہے اور اگریہ شرح صدرحاصل ہوجائے تو یہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے۔ ہم نے اپنی اِس نشانی کو تفصیل یعنی فصاحت وبلاغت سے حقیقت کو بیان کردیا ہے اُن لوگوں کیلئے جن کی سمجھ میں یہ بات آنی ہے۔ جن کومسلمان بنانے کیلئے جن کی شرح صدرکی ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کواللہ دارالسلام میں بھیجے گا۔ یہ رب کی طرف سے عطا ہے، اُن لوگوں کا اِس میں اپنا کمال نہیں ہے اور یہ وہی ہیں جن کواللہ نے اپنا دوست بنا لیا ہے، اُس وجہ سے جو وہ عمل کرتے تھے۔

جب اللہ تعالی کسی کوہدایت دینا چاہتا ہے تواُس کی کیا تیاریاں ہیں؟

جب اللہ کسی کیلئے ارادہ فرماتا ہے کہ اِس بندے کوہدایت دینی ہے توکیا جب اللہ تعالی کسی کوہدایت دینا چاہتا ہے تواُسے مسجد میں بھیج دیتا ہے، کسی مولانا سے ملادیتا ہے، کسی جماعت میں بھیج دیتا ہے کہ آپ جماعتِ اسلامی یا دعوتِ اسلامی میں چلے جاوٴ توپھراللہ کیا کرتا ہے؟ کیونکہ ہم تویہی سمجھتے ہیں جیسا کہ پاکستان کاایک ٹی وی آرٹسٹ ہے جوکسی مولانا کے پیچھے لگ گیا ہے تواب وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے اُسے ہدایت دے دی ہے لیکن کیا اللہ تعالی کسی مولانا کا محتاج ہے کہ مولانا ملے گا تو تبھی ہدایت دے گا؟ کوئی جماعتِ اسلامی میں چلا گیا اورکوئی دعوتِ اسلامی میں چلا گیا توکہتا ہے کہ اللہ تعالی نے اُسے ہدایت دے دی ہے کہ وہ اُس جماعت میں آگیا۔ اب ہمیں جاننا یہ ہے کہ ہرآدمی کسی نہ کسی جماعت سے اورکسی نہ کسی مولانا سے منسلک ہوگیا ہے اورکہہ رہا ہے کہ اللہ کا بہت کرم ہوگیا ہے کہ اللہ نے اُسے ہدایت دے دی ہے لیکن ہمیں جاننا یہ ہے کہ کیا واقعی میں اُن کوہدایت مل گئی ہے۔ جب اللہ کسی کوہدایت دینا چاہتا ہے تو کیا کسی مولانا سے ملادیتا ہے یا کسی مذہبی جماعت کا ممبربنا دیتا ہے؟ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ عقیدہ کہ قرآن ہدایت دیتا ہے اِس پرجمہورعلماء اوراولیاء بھی اِس بات پرمتفق ہیں۔ اگرقرآنِ مجید کا بیان بھی آپ کو مطمئن نہ کرے تو پھرآپ کوکوئی نہیں سمجھا سکتا۔ اگرقرآنِ مجید بھی آپ کومطمئن نہیں کررہی ہے اور قرآنِ مجید اللہ کا کلام سُن کربھی آپ ٹس سے مس نہیں ہو رہےاورآپ نہیں مانتے توپھرآپ کا ٹھکانا جہنم ہے۔ فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ کہ جب اللہ کسی کو ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے توابھی ہدایت دی نہیں ہے کیونکہ ہدایت دینے کیلئے کچھ تیاریاں ہیں جیسے آپ روزہ افطارکرتے ہیں تواُس کی تیاری یہ ہوتی ہے کہ کھانا، پکوڑے، شربت اور یہ تمام چیزیں آپ میزپرسجا کررکھ دیتے ہیں اور پھراذان کے انتظارمیں بیٹھ جاتے ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی کوہدایت دینا چاہتا ہے تواُس کی تیاریاں یہ ہیں کہ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ توپھراُس کی اسلام کیلئے شرح صدرکردیتا ہے۔

ہدایت اللہ دیتا ہے اور جب وہ کسی کوہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اسلام کا فیض اُسے میسرآجائے، اِس لئے شرح صدرکرتا ہے تو اسلام شرح صدر کے بغیرنہیں ہے۔

کون لوگ خود کی وجہ سے گمراہی پرہیں؟

قرآن مجید میں ایک آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورة الزمرآیت نمبر22

جن کے دل سخت ہوگئے اور اُن میں ذکراللہ داخل نہیں ہوتا تووہ کُھلی گمراہی میں ہیں۔ یہ بات انسانوں کی اپنی کرتُوتوں کی وجہ سے اُس کا دل سخت ہوا جیسا کہ کسی ولی یا نبی کی گستاخی کردی، کسی غلط عقیدے میں پڑگیا، حضورؐ کی بارگاہ میں گستاخی کا مرتکب ہوگیا، پنجتن پاک کی گستاخی کردی، مولیٰ علی کی شان میں گستاخی کردی یا ولیوں فقیروں کوجھٹلا دیا تواِن چیزوں سے اُس کا دل سخت ہوگیا۔ اب ذکراللہ اندرنہیں جائے گا۔ کسی کا دل سخت ہے اورذکراللہ جارہا ہے لیکن داخل نہیں ہورہا تو اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ کسی مرشدِ کامل کے پاس گیا ہے اورمرشد نے ذکراللہ جاری کرنے کی کوشش بھی کی ہے، ذکراللہ کوسینے میں بھیجا بھی ہے لیکن دل کی سختی آڑے آگئی۔ یہ وہ لوگ تھے جواپنی کرتُوتوں کی وجہ سے اپنے دل سخت بنا بیٹھے۔

وہ کون لوگ ہیں جن کواللہ تعالی ہدایت دینا نہیں چاہتا ہے؟

سورة الانعام کی مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالی اُن لوگوں کا معاملہ بیان فرمارہا ہے کہ جن کووہ چاہتا ہی نہیں ہے کہ ہدایت دے تواُن کیلئے فرماتا ہے کہ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ اور جب اللہ تعالی کسی کو گمراہ کرنے کا ارادہ فرماتا ہے۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا کہ اُس کے سینے کوتنگی کا شکارفرمادیتا ہے۔ ضَيِّقًا کا مطلب ہے کہ تنگ ہوجانا اور حَرَجًا کا مطلب ہے کہ اور زیادہ تنگی آجانا۔ ایک صحابی رسول تھے توجس قبیلے کی عربی زبان سب سے اچھی تھی تواُس قبیلے کا ایک آدمی اُس صحابی کے پاس آیا توصحابی نے اُس سے پوچھا کہ یہ بتاوٴ حَرَجًا کا کیا مطلب ہے تو اُس نے کہا کہ ہماری اپنی مقامی زبان میں حَرَج کا مطلب جنگل ہے جہاں بہت سارے درخت ہیں اوراُن درختوں کے جُھرمٹ میں کہیں دُور بیچ میں جاکرجہاں کسی کی رسائی نہ ہو ایک لمبا سا درخت ہے۔ جس تک رسائی نہیں ہوسکتی کیونکہ چاروں طرف سے درختوں سے گھیرا ہورہا ہے لیکن نظرآرہا ہے مگر آپ اُس تک پہنچ نہیں سکتے۔ اُس درخت کوہم حَرَج کہتے ہیں۔
اسی طریقے سے یہ روحانی تعلیم اور یہ صوفی تعلیم کتابوں میں لکھی ہوئی ہے یعنی لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سِری، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ، لطیفہ انا اور لطیفہ نفس توانہی کوبیان کرتے رہو لیکن نہ کبھی اِن میں نورآتا ہے حتیٰ کہ صوفی اسکالربھی بن جاتے ہیں لیکن سینے میں تنگی ہے، وہاں نورداخل نہیں ہوتا۔ تعلیم بھی مل جاتی ہے، بیان بھی کرتے ہیں لیکن سینہ بہ سینہ نوررہتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس کووہ گمراہ کرنا چاہتا ہے تواُس کے سینے کوتنگی کا شکارفرمادیتا ہے۔ اُس کے بعد فرمایا کہ كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ کہ اب آسمان کی طرف اُس کوچڑھنے میں تنگی ہوگی۔ اب آپ غورکیجئیے کہ جولوگ کہتے ہیں قرآنِ مجید کی باطنی تفسیرکوئی اہمیت نہیں رکھتی توظاہری تفسیرمیں آپ ہمیں بتائیں کہ جس کے سینے میں تنگی آجائے تووہ آسمان پرچڑھنے کی کوشش کیوں کرے گا؟ اب اگراِس کے باطنی مطلب کی طرف آئیں توپھراِس کا مطلب یہ ہوگا کہ جن لطائف کواللہ نے ہدایت دینے کیلئے نورعطارفرمانا تھا، شرح صدرکرنی تھی اورسینے کوکشادہ کرنا تھا۔

اللہ کے نزدیک شرح صدرکا کیا مطلب ہے؟

اللہ کے نزدیک شرح صدرکیا ہے یہ ہم آپ کوبتا رہے ہیں اوریہ کہہ کربتارہے ہیں کہ یہ معنی ہمیں حضرتِ کبریاء سیدنا امام مہدی گوھرشاہی نے بتائے ہیں۔ لطیفہ قلب میں سارے کے سارے لطائف بند ہوتے ہیں۔ اگر اللہ تعالی قلب پرتالا لگادے تو پورا جو آپ کی انسانیت کا صندوق ہے یعنی آپ کے اندر جتنے لطائف ارواح ہیں وہ سارا کا سارا چِھن گیا توآپ کی کسی تک رسائی نہیں ہوگی اور یہ سُکڑتا جائے گا۔ یہ ضَيِّقًا حَرَجًا ہے۔ جوقلب کا صندوق ہے جس میں تمام لطائف ہیں وہ صندوق سُکڑتا جائے گا۔ اب یہ سارے لطائف قلب میں بند ہیں اوریہی وہ لطائف ہیں جن کی وجہ سے تم جنتی، موٴمن، ولی، موقن اور محسن بھی بن سکتے ہو اوردیدارِالہی میں بھی جاسکتے ہو۔ اگریہ سب لطائف قلب میں بند ہیں اورقلب پراللہ نے تالا لگادیا ہے توپھراللہ تعالی نے فرمایا کہ

خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
سورة البقرة آیت نمبر7

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اِن کوختم کردیا ہے اور لَا موٴمِنُون اب یہ موٴمن بن ہی نہیں سکتے کیونکہ جن لطائف کے نورانی ہونے سے موٴمن بنتا ہے اُن کواللہ نے ختم کردیا۔

لطیفہ قلب کے اندرسب لطائف بیٹھے ہوئے ہیں اوربند ہیں توجب اللہ کسی کوہدایت دینا چاہے گا تو اِس قلب کوکھولے گا۔ جب قلب نور سے کُھلے گا توایک ایک کرکے سارے لطائف باہرآجائیں گے۔ جب یہ باہرآکرسینے میں اپنے اپنے مقام پرچلے جائیں گے تو یہ شرح صدر ہے۔

جب تک اسمِ ذات اندر نہیں جائے گا اورقلب کا منہ نہیں کُھلے گا توسب لطائف اندرہی رہیں گے اور باہر نہیں آئیں گے۔ جب نور داخل ہوگا تو دروازہ کُھل گیا تو سب لطائف قلب سے باہر آگئے اور آزاد ہوگئے تواسلام کیلئے اِن کوکھول دیا۔

اسلام کیلئے اِن لطائف کوکھول دیا سے مُراد یہ ہے کہ اِن سب کواُس نے کمرے میں بند کیا ہوا ہے اوراب افطار کا وقت آگیا ہے تووہ اِن سب کوکھولتا ہے تاکہ یہ افطارکریں۔ یہاں شرح صدر کی اسلام کیلئے مطلب یہ ہے کہ جب لطائف باہرآگئے تواب اسلام کے جو مختلف منازل اور مقامات ہیں اِن مختلف روحوں کے ذریعے آپ حاصل کرلیں۔ اب آپ عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، عالمِ ہاہویت، عالمِ لاہوت، عالمِ عنکبوت، عالمِ وحدت اورعالمِ احدیت تک چلے جائیں، یہ اسلام کیلئے شرح صدرکرنا ہے۔

وہ لوگ جن کے اندرنورداخل نہیں ہوسکتا:

جو ضَيِّقًا حَرَجًا ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب لطائف قلب میں بند ہیں اور وہ اِن کوسُکیڑتا جارہا ہے۔ كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ کہ اب اُس کو مشکل ہوگی کہ وہ آسمان کی طرف چڑھے۔

اگرکسی کا سینہ سُکیڑدیا تو وہ آسمان پر کیسے چڑھے گا اوراللہ سے ہدایت لینے کیلئے وہ آسمان پر کیوں چڑھے گا، یہ ظاہری مطلب نہیں ہے۔ وہ کتنا بیوقوف ہے جوسیڑھی کے بغیر دوسری منزل پرجانا چاہے کیونکہ اگرتمہارے پاس نہ لِفٹ ہے، نہ سیڑھیاں ہو توآپ دوسری منزل پرکیسے جائیں گے توآپ کوبہت مشکل ہوگی۔ اب جوعالمین ہیں عالمِ ملکوت، عالمِ ہاہویت، عالمِ لاہوت، یہ مختلف آسمان ہیں تو یہاں لطائف کے ذریعے جاتے ہیں اوراِن کوتنگ کردیا تواب تم اِن آسمان پرکیسے چڑھوگے! كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ کہ اب آسمان پرچڑھنا تمہارے لئے مشکل ہوگیا۔ علامہ اقبال نے اِسے زمرے میں کہا تھا کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

اُن ستاروں سے آگے جہانوں میں چڑھنا اب تمہارے لئے مشکل ہوگیا کیونکہ اِن لطائف کے ذریعے تم نے وہاں جانا تھا۔ اب یہ لطائف مرگئے تواب تم چڑھ نہیں سکتے۔ اِس کے اندراللہ رب العزت نے بڑی ہی تفصیل سے اِن باطنی چیزوں کوکھول کھول کربیان فرمایا ہے۔ اب اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب تم آسمانوں پرچڑھ نہ سکے، جب عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، عالمِ لاہوت اور عالمِ عنکبوت تک تمہاری رسائی نہ ہوسکے تو كَذَٰلِكَ ایسا تب ہوتا ہے يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ کہ ایسا تب ہوتا ہے جب وہ لوگ جن کواُس نے موٴمن نہیں بنانا اُن کے سینوں میں غلاظت ڈال دیتا ہے۔ وہ غلاظت یہ ہوتی ہے کہ حسد، بغض، تکبر، غِیبت اور بہتان تو یہی رِّجْس ہے توتمہیں اللہ اِن کاموں میں لگادےگا۔
اِس کے بعد جوپہلی شرح صدر والی آیت ہے اُس کیلئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا کہ یہ وہ راستہ ہے جوتیرے رب کی طرف سیدھا جاتا ہے۔ وہ راستہ شرح صدرہے اور شرح صدر یہ ہے کہ سارے لطیفے قلب میں بند ہیں توقلب میں اسمِ ذات اللہ گیا، دل کا منہ کُھلا اورسارے لطائف باہرآگئے، پھیل گئے اورکشادہ ہوگئے۔ جب لطائف قلب میں بند ہیں تویہ قلبِ صنوبرہے۔ صنوبر کا سریانی مطلب ہے کہ اُس میں کوئی سُدھ بُدھ نہ ہو۔ جب یہ قلبِ صنوبرہے اوراللہ تعالی نے ارادہ کرلیا کہ ہدایت دوتوہدایت دینے کیلئے اللہ تعالی کسی مرشدِ کامل سے ملادیتا ہے۔ پھرمرشدِ کامل نے اسمِ ذات اللہ قلب میں داخل کیا توقلب کا دروازہ کُھل گیا۔ جب قلب کا دروازہ کُھل گیا تواِس میں نورآنا شروع ہوگیا۔ جب سب لطائف کے آگے نورآگیا تووہ کُھلنے لگے اورقلب کے دروازے سے باہرنکل گئے اور سینے میں پھیل گئے، تویہ شرح صدرہوگئی۔ اب قلب خالی ہوگیا تواب وہاں اللہ کا ذکرہورہا ہے۔ اب نفس کی طرف سے قلب میں بُرائیاں جارہی ہیں، تکبرآرہا ہے، حسد آرہا ہے، بُخل آرہا ہے اور حملہ کررہا ہے لیکن جوقلب میں اللہ اللہ ہورہی ہے وہ اِن برائیوں کوباہردھکیل رہا ہے تو اب تمہارا قلب محفوظ ہوگیا۔ اِس لئے اب اس کوکہا کہ یہ قلبِ سلیم ہے۔ جب یہ قلبِ سلیم ہوگیا توتم آرام سے مرجاوٴ۔ نظرِگوھرشاہی نے تمہارا بیڑا پارلگا دیا ہے۔ زندگی بھر کچھ بھی نہ کرے آرام سے سوجاوٴ کیونکہ جب تم قیامت میں حاضرہوگا تووہاں ہدا ہوگی کہ قلبِ سلیم والوں سے کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا۔ اسی کیلئے اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورة الشعراء 88 تا 89
ترجمہ: اُس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے کام آئیں گے۔ کامیاب وہ ہوگا جوقلبِ سلیم لایا۔

یہ سیدنا گوھرشاہی کی کتنی بڑی عطا ہے کہ آپ نے صرف واٹس اپ پرایک کال کی، ذکرلیا اور قلب اللہ اللہ کرنے لگ گیا، قلبِ سلیم ہوگیا، دوسرے دن آپ مرگئے اورجنت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ عطائے گوھرشاہی ہے کیونکہ صرف سیکنڈوں اورمنٹوں میں سرکارگوھرشاہی نے تمہیں زمین سے اُٹھا کرآسمان پربٹھا دیا۔ یہ کام تمہارے بس میں نہیں ہے کہ تم اپنے قلب کوکھول سکواورتم اپنے قلب کوایسا بنا سکوکہ شیطان کی کوئی بھی چیزتیرے قلب پرحملہ کرنے کے باوجود اندرداخل نہ ہوسکے اور واپس لوٹ جائے کہ اب یہاں کا مکیں اسمِ اللہ اورنورِاللہ ہے تواب تم اِس میں داخل نہیں ہوسکتے کہ اے بخل چلے جاوٴ، اے حسد چلے جاوٴ، اے تکبرراستہ موڑلے کیونکہ اب یہ اللہ کے نام، نوراور محبت کا مسکن بن گیا ہے۔ یہ کتنی بڑی عطا ہے۔ اِس کواللہ نے فرمایا ہے کہ وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا کہ اگریہ شرح صدرحاصل ہوجائے تویہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے۔ سیدھا راستہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ راستہ رب کی طرف سے آئے اوررب کی طرف لے جائے لیکن جوتم نے اپنی طرف سے راستہ اختیارکیا ہے وہ رب کی طرف سے کہاں آیا تھا۔ توجوراستہ رب کی طرف سے آیا تھا تووہی رب کی طرف جائے گا۔ جو رب کی طرف سے سیدھا راستہ آئے گا وہ رب کی طرف لے جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ جومرشدِ کامل ہوتے ہیں جن کے دلوں سے حبل اللہ جڑی ہوئی ہوتی ہے اورسیدھے رب کی طرف سے آتی ہے اوراِس کے ذریعے تمہارا قلب آباد ہوگا توتم اُس کے ذریعے سے اوپرجاوٴگے۔
اگراللہ تعالی کسی کوہدایت نہیں دینا چاہتا تووہ لطیفہ قلب کوتنگ کردے گا تاکہ اندرلطیفوں کا دِم گُھٹ جائے تواللہ تعالی نے فرمایا رِّجْسَ کہ اب اُس کے اوپروہ غلاظت ڈال دیتا ہے۔ جب غلاظت یعنی تکبر، حسد، بُخل، بہتان، گُستاخی اور کسی کا ولی کا دِل دُکھایا تواُس کی نظرِقہرآگئی تواب کوئی بھی نبی یا ولی کوشش کرلے اُس کی نظریں اندرنہیں گُھس سکتی اورباہرسے یہ بندہ نمازیں پڑھ رہا ہے، نمازیں پڑھا رہا ہے، کہیں کوئی ناموری سکالراورکوئی صوفی سکالربنا ہوا ہے اوراندرکی خبرہی نہیں ہے کہ اندراللہ نے کیا کردیا ہے۔ جب تم نے دیکھا کہ سیدنا گوھرشاہی کی شہرت زیادہ ہورہی ہے توتم نے سیدنا گوھرشاہی کے خلاف بول دیا اوراللہ نے تمہارا سارا نظام درہم برہم کردیا، تیرے سینے میں تنگی پیدا کردی اورتمہارے اندرکا نظام ختم ہوگیا لیکن تم صوفی سکالربنے ہوئے ہوتوکبھی تم انسائیکلوپیڈیا لکھ رہے ہو، کبھی قرآن کا عرفان بیان کررہے ہو اورتمہارے اپنے اندراندھیرا ہے تو جو خود ڈھوبا ہوا ہے وہ کسی کوڈھوبنے سے کیا بچائے گا، جوخود اندھا ہے وہ کسی کوروشنی کیا دے گا اورجوخود مردود ہے وہ کسی کومقبول کیسے کرسکتا ہے الغرض یہ کہ اسلام کا سچا رستہ اختیارکرنا ہے، صراطِ مستقیم اختیارکرنی ہے اوروہ صراطِ مستقیم جس کورب نے صراطِ مستقیم کہا ہے اوراُس کا اول وآخرطریقہ شرحِ صدرہے۔

آج کے دورِفتن میں شرح صدرکیسے ہوگی؟

اسلام شرحِ صدرسے جڑا ہوا ہے اوراللہ جس کوبھی اسلام کی دولت سے سرفرازکرے گا تواُس کوشرحِ صدرعطا کرے گا کیونکہ یہ تیرا جسم اور زبان نہیں ہے جومسلمان بنے گی بلکہ مسلمان کیلئے تمہارے سینے میں اللہ نے اروح و لطائف کورکھا ہے تو اگراللہ نے تمہیں سچا مسلمان بنانا ہوا توپھرتمہارے سینے کوکھول کراُن روحوں کوفرمائے گا کہ اب باہرآجاوٴاوراسلام پرعمل پیرا ہوجاوٴ کیونکہ اُن لطائف کواللہ نے آزاد کردیا ہے۔ اب اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ کہ ہم نے اپنی اِس نشانی کوتفصیل یعنی فصاحت وبلاغت سے حقیقت کوبیان کردیا ہے، لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ اُن لوگوں کیلئے جن کی سمجھ میں یہ بات آنی ہے۔ جن کی سمجھ میں نہیں آنی جیسا کہ اب یہاں تراویح قرآن کی تلاوت ہورہی ہوتی ہے اورمسلمان آکرکہتے ہیں کہ یہ کیا ڈرامہ بازی لگائی ہوئی ہے۔ یہ وہ بدبخت مردود لوگ ہیں جن کے صرف ناموں میں اسلام کے نام ہیں لیکن اندرسے یہ شیطان اورابلیس ہیں۔ اِس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ (دوسرے درجے کی جنت) کہ مسلمان بنانے کیلئے جن کی شرح صدرکی ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کواللہ دارالسلام میں بھیجے گا۔ داراسلام میں بھیجنے سے مُراد یہ ہے کہ یہ آیت اُن کیلئے ہے جن کے لطیفہ قلب اورلطیفہ روح کم سے کم دولطائف آباد ہوجائیں تووہ دارالسلام والا ہی ہوگا۔ عِندَ رَبِّهِمْ کہ یہ رب کی طرف سے عطا ہے، اُن لوگوں کا اِس میں اپنا کمال نہیں ہے جیسا کہ ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تولباس اورچہرہ دیکھوتوکہیں سے نہ صوفیوں کا چہرہ ہے اور نہ صوفیوں کا لباس ہے اورگفتگو دیکھو۔ یہ عِندَ رَبِّهِمْ ہے کیونکہ یہ ہمارا کمال اور وصف نہیں ہے، یہ ہمارے سیدنا گوھرشاہی کا فضل اورکرم ہے۔
اُن کے کرم کے ساتھ سلامت ہے زندگی
اوراُن کا کرم نہ ہو تو قیامت ہے زندگی

یہ سب سرکارگوھرشاہی کی عطا ہے کیونکہ اِس میں ہمارا ذرا سا بھی کمال نہیں ہے کہ ہم نے کچھ محنت سے حاصل کیا ہو۔ ہم نے نہ محنت سے حاصل کیا ہے اورنہ ہی یہ محنت سے ملتا ہے۔ یہ اُن کی نظرسے ملتا ہے۔
جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آگیا
اُس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام

پھراللہ تعالی نے فرمایا وَهُوَ وَلِيُّهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ کہ اور یہ وہی ہیں جن کواللہ نے اپنا دوست بنا لیا ہے کیونکہ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ اُس وجہ سے جووہ عمل کرتے تھے کہ اب دل کوبھی اللہ اللہ میں لگا لیا اورروح کو بھی اللہ اللہ میں لگا لیا تواُنہوں نے جویہ محنت کی ہے اِس محنت کے نتیجے پر پھر اللہ نے اِن کواپنا دوست بنا لیا اپنا ولی بنا لیا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی سیدی یونس الگوھر سے 1 مئی 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآن مکنون کی خصوصی تشریح سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس