- 884وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
امام مہدی ؑ کے لئے لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اُن کی پیدائش پندرہ شعبان کو ہو گی ۔جہاں تک پندرہ شعبان کی بات ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش پندرہ شعبان کو ہوگی یا امام مہدی کا ظہور پندرہ شعبان کو ہوگا، نہ تو یہ بات اہلِ بیت عظام نے کہی ہے اور نہ ہی یہ بات کسی حدیث میں موجود ہے اور نہ یہ قرآن میں موجود ہے تو پھر آپ سوچیں گے پندرہ شعبان کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا ہے؟ یہ پندرہ شعبان امام عسکری کے بیٹے کی پیدائش کا دن ہے اس لئےاہل تشیع کہتے ہیں یہ امام مہدی کی پیدائش کا دن ہے کیونکہ وہ امام عسکری کو امام مہدی سمجھتے ہیں لیکن احادیث میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اہلِ بیت عظام کے جتنے بھی آئمہ اکرام گزرے ہیں یعنی امامِ علی سے لے کر امامِ حسین اور امام حسن، امام زین العابدین اور امام موسی کاظم اور امام جعفر صادق اور امام عسکری کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ امام مہدی کا ظہور یا پیدائش پندرہ شعبان کو ہوگی۔
مرتبہ مہدی کا اعلان پندرہ رمضان کو ہوا :
پندرہ رمضان کا تعلق امام مہدی علیہ الصلوۃ و السلام کے مرتبے سے ہے ہم نے پیدائش کا نہیں کہا ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے امام مہدی پندرہ رمضان کو پیدا ہوئے ہیں یا امام مہدی کا ظہور پندرہ رمضان کو ہوا ہے، نہیں امام مہدی کا جو مرتبہ ہے اللہ کی طرف سے اس مرتبے کا اعلان پندرہ رمضان کو ہوا ہے۔ دین الہی میں بھی سیدنا گوھر شاہی نے تحریر فرمایا ہے کہ ہر مرتبے اور معراج کا تعلق پندرہ رمضان سے ہے۔اسی نسبت سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے۔حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:“ دنیا میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوگا جو تخلیقِ کائنات سے لے کر کبھی بھی نہیں ہوا ہے اور امام مہدی اُس واقعہ کے ہونے کے فوراً بعد آئیں گے”۔وہ واقعہ کیا ہے؟ وہ واقعہ یہ ہے،
“ رمضان کی پہلی تاریخ کو سورج گرہن اور رمضان کی پندرہ تاریخ کو چاند گرہن بھی ہوگا اور یہ دونوں واقعات اکھٹے ایک ہی رمضان کے مہینے میں پہلےکبھی نہیں ہوئے اور جب سیدنا گوھرشاہی اِس دنیا میں تشریف لائے تو ہوگیا تو پندرہ رمضان کو چاند گرہن ہوگا یہ بھی ایک اشارہ ہے پندرہ رمضان یومِ مہدی ہے اور چاند گرہن ہوگا تاکہ لوگ چاند کی طرف دیکھیں اور اُن کو صورتِ امام مہدی نظر آئے ”
امام جعفر صادق اور امام ابو حنیفہ ایک ہی دور میں تھے:
پندرہ شعبان کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے یہ ان کے اپنے خیالات ہیں۔دوسری بات یہ ہے یہ جو اُن کے گیارہ امام ہیں یہ تسلسل کے ساتھ نہیں آئے کبھی امامت اہلِ بیت میں تھی اور کبھی اُمت میں آگئی، کبھی اُمت میں امام آگیا کبھی اہلِ بیت میں امام آگیا اورکبھی امامت اُمت سے دوبارہ اہلِ بیت میں چلی گئی پھر ایسا ہوا اُس کے بعد اُمت میں دوبارہ آگئی لیکن اہل تشیع نے سارے خاندان کو امام بنایا ہوا ہے۔ اور جب بارہویں امام ،امام ابو حنیفہ تشریف لائے تو یہ وہی وقت ہے جب امام جعفرِ صادق بھی موجود تھے یہ دونوں ہم عصر ہیں امام جعفر صادق بھی موجود تھے اور امام ابو حنیفہ بھی موجود تھے، امام جعفرِ صادق شریعت کی تعلیم دیتے تھے اور امام ابو حنیفہ شریعت اور طریقت دونوں کی تعلیم دیتے تھے، دونوں اماموں کا ایک ہی وقت میں ہونا قانون کے خلاف ہے لیکن یہ دو امام ایک ہی وقت میں ہوئے اور یہ رب کی طرف سے تھا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قانون کے خلاف ہے تو دو امام ایک ہی وقت میں کیسے ہوئے؟
سیدنا گوہر شاہی کی جانب سے جواب آیا:امام جعفر صادق شریعت کے امام تھے اور امام ابو حنیفہ طریقت کے امام تھے اس لئے دونوں کو ایک وقت میں ہونا قرار پایا۔ یعنی طریقت امت والے امام ، امام ابو حنیفہ سے نکلی اور امام جعفر صادق شریعت کی امامت ہی کرتے رہے یعنی اہلِ بیتِ عظام کو جو امامت ملی اس میں سے زیادہ تر جو آئمہ اکرام گزرے ہیں انہوں نے شریعت کا فیض دیا تو امام ابو حنیفہ بارہویں امام تھے ، امام عسکری آخری امام ہیں ان کے بعد امامت مستقل طور پر اہلِ بیت سے نکل گئی ان کے بعد کوئی امام اہلِ بیت میں نہیں ہوا اور یہ قانون ہے ۔سیدنا گوہرشاہی امام مہدی کا فرمان ذیشان ہے:
“سادات کی سات پشتوں تک نور چلا جب تک خون میں نور تھا تو وہ پشت نور کی چلتی رہی آٹھویں پشت میں نور نہیں تھا صرف خون تھا تو سادات صرف سات پشتوں تک چلے ہیں”
ایک غلط رجحان:
آپ نے ایک بات سنی ہوگی جوکہ غلط سمجھی جاتی ہے لیکن کہی جاتی ہے میں اس کا حوالہ اس لئے دے رہا ہوں، میں نے کئی دفعہ ملک پاکستان میں سنا ہے جو حافظِ قرآن ہوجاتا ہے اُس کی سات پشتوں کی معافی ہوجاتی ہے تو ہم نے اِس کی باطن میں تحقیق کی تو معلوم یہ ہوا،حافظِ قرآن نہیں، جس کے سینے پر قرآنِ مکنون آجائے تو پھر سات پشتوں تک اس کا نور جاری رہتا ہے، سات پشتوں تک بخشش نہیں ہوتی بلکہ نور جاری رہتا ہے۔
یہ قانون ہے سادات کے خون میں نور تھا اور وہ نور سات پشتوں تک چلا، اب یہ نور تو خون میں تھا جو آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا اور سات پشتوں پہ دم توڑ گیا لیکن امامت کا تعلق خون سے نہیں ہے امامت مرتبہ ہے اور اس کا تعلق اللہ سے ہے اور اللہ نے گیارہ امام اہلِ بیتِ عظام میں بھیجے۔ سادات سات پشتوں تک رہے اور اہلِ بیتِ عظام میں امام گیارہ آئے سات پشتوں کے بعد سادات ختم ہوگئے گیارہ امام کے بعد امامت ہمیشہ کے لئے اُمت میں چلی گئی۔