کیٹیگری: مضامین

مرشد پر کامل یقین اور اسکے بارے میں گمان :

راہ سلوک وہ راستہ ہے جو اللہ کی طرف لے جاتا ہے اگر مذہب نے اس کا تعین کیا ہو تب بھی اُس راستے کے سارے کے سارے آداب مرشد کے ادب میں ضم ہو جاتے ہیں ، روحانیت کی ساری کہانی مرشد پر چلتی ہے اور مرشد پر ہی اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔جو اس راستے سے نہیں گزرے وہ نہیں جانتے کہ یہ کیا راستہ ہے اور کیا چیزیں ان میں بہت ضروری ہیں اس راستے میں سب سے اہم چیز آپ کا مرشد سے تعلق ہے، مرشد سے آپ کا گمان ہے، اس راستے میں جہاں آپ کو محنت و مشقت بھی کرنی ہے اور بہت ساری جسمانی اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا ہے ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ سب سے اہم ترین چیز جو اس راستے کی ہے وہ مرشد پر کامل یقین کی دولت ہے، جو مرشد نے کہہ دیا وہ حق ہے ، جس طریقے سے ایک میان میں دو تلواریں نہیں ہو سکتیں اسی طرح ایک دل پر دو کی حکمرانی نہیں ہو سکتی۔جب تک آپ کا مرشد نہیں ہے آپ مرشد والے نہیں ہیں آپ قرآن مجید پڑھتے رہیں ،جو مرضی کرتے رہیں لیکن جب کسی کامل کے ہاتھ میں آپ نے اپنا ہاتھ دے دیا تو کامیابی کے لیے اس ہی کی پیروی کرنی ہے۔قرآن مجید اللہ کی صفات میں سے ہے جو حقیقت نہیں جانتے تعلیم نہیں جانتے وہ عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں ، ان کے نزدیک قرآن کا مرتبہ مرشد سے بڑا ہوتا ہے اور جو حقیقت جان لیتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ مرشد کے اندر اللہ کی ذات رہتی ہے اور قرآن اللہ کی ایک صفت کلیمی ہے ۔

“ایسا نہیں ہوا کبھی کہ کسی مرشد نے کسی مرید کو گمراہ کیا ہو، لیکن قرآن کہتا ہے کہ بہت سوں کو گمراہ کرتا ہوں بہت سوں کو ہدایت دیتا ہوں “

اس راستے کی سب سے اہم چیز مرشد کا ادب ہے، ایک ادب تو یہ ہے کہ ظاہری طور پر کوئی حرکت ایسی نہ ہو کہ جس سے مرشد کی بے ادبی ہو رہی ہو اور دوسرا ادب یہ ہے کہ جب مرشد کے سامنے ہوں تو نفس کے کتے کو خاموش کر کے بیٹھیں کیونکہ مرشد اندر اور باہر دونوں آوازوں کو سنتا ہے۔ کبھی کبھی ہماری خواہشات آواز بن کر مرشد کے کانوں کو ٹکراتی ہیں ، خواہشات کا ایک ہجوم اس کی سماعت کو جا کر ٹکراتا ہے، بہت سے بزرگوں نے کہا ہے کہ ہم مرشد کے سامنے سراپا کان بن جائیں صرف اس کی سنیں۔خاموشی کو عبادت کیوں کہا گیا؟ خاموشی عبادت ہے اس کے لیے ایک لمحہ تو وہ ہوتا ہے جب آپ کا بولنا شر ہو، جب آپ کے بولنے سے کسی کی دل آزاری ہو ، خلق کا نقصان ہو، فتنہ فساد پھیلے تب آپ خاموش رہیں تو اللہ تعالی اُسی کو عبادت کر دے گا کیونکہ اگر بولا تو شر پھیلے گا ،ایسے لوگوں کا خاموش رہنا عبادت ہے۔

“راہ سلوک میں سب سے زیادہ خطرناک اورسب سے زیادہ حساس جو چیز ہے وہ ہے مرشد کی ذات پر انسان کا گمان کیسا ہے”

راہ سلوک میں شیطان کا وار کیا ہے؟

شیطان کبھی بھی آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ نماز نہ پڑھو ، ذکر نہ کرو، کوئی نیک کام نہ کرو، کیونکہ پھر تو آپ پہچان لیں گے کہ یہ شیطان ہے، اس راستے میں شیطان کا پہلا اور آخری حملہ یہ ہو گا کہ وہ آپ کا مرشد کے بارے میں گمان خراب کر دے گا۔جیسا کہ جب دو ممالک کے بیچ جنگ ہوتی ہے تو دشمن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس ملک کی فوج کی رسد کو کاٹ دے، یہ جو پل وغیرہ بنے ہوئے ہوتے ہیں جس کے ذریعے مدد یا رسد آ رہی ہو تی وہ ان پلوں کو کاٹ دے تو وہ بم لگا کر پلوں کو اڑا دیتے ہیں کہ اب ان کی مدد رک جائے گی اور یہ پسپا ہو جائیں گے۔ اسی طرح مرید کے نور کا ننا نوے فیصد نور مرشد کے دل سے جڑی تار سے آ رہا ہوتا ہے اس تار کو ہی ” نیت ” کہتے ہیں ۔شیطان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے مرید کا گمان مرشد کے بارے میں خراب کر دے اس کے لیے وہ مرید کے اندر مختلف وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ مرید کے ایمان کی گاڑی نور سے نہیں مرشد کی نظروں سے چلتی ہے، یہ خاص اور اصل باتیں ہیں ۔ انسان کسی مرحلے پر کسی قابل نہیں ہوتا ۔ آپ کو اگر لوکل یا جنرل اینیستھیزیا دے دیا تو کچھ پتا چلے گا کہ کیا ہوا ہے؟
آدم صفی اللہ کو اللہ نے اتنا بڑا مرتبہ دے دیا، عظمت کی تعلیم دی اور ابھی آپ کی مدت شروع نہیں ہوئی تھی، ابھی آپ جنت میں ہی تھے اور شیطان نے آپ سے گناہ کروا دیا تو اب کیا رہ گیا؟ معلوم یہ ہوا کہ عظمت والی تعلیم بھی آجائے اس کے باوجود بھی کس وقت دماغ کی گھنٹی گھوم جائے کچھ پتا نہیں۔اس لیے کبھی دعوی نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ انسان کے پلے ہے کیا ، کچھ نہیں ہے انسان کے ہاتھ میں ،بچاتا ہے تو اللہ انسان کو بچاتا ہے ، مرواتا ہے تو اللہ مرواتا ہے۔انسان کوبچانے والا بھی اللہ ہے ٹھکانے لگانے والا بھی اللہ ہے۔قراآن مجید میں اللہ نے فرمایا

مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورة الکہف آیت نمبر 17
ترجمہ : جسے اللہ ہدایت فرما دے وہی ہدایت پر ہے اور جسے گمراہ کرتا ہے تو اسے مرشد کامل میسر نہیں ہوتا۔

جب کسی کو بچانے لگتا ہے تو مرشد کامل سے ملا دیتا ہے اور جب کسی کو ٹھکانے لگانا چاہتا ہے تو شیطان کے ذریعے اس کو ٹھکانے لگا دیتا ہے ، اللہ تعالی نے ہدایت کے ذمہ مرشدوں کو دے دیا ہےاور گمراہی کے ذمہ شیطان کو دے دیا لیکن یہ دونوں ہیں اسی کی طرف سے انسان تو ایک کٹھ پتلی کی طرح ہے لاکھ ہاتھ پائوں مار لے اس کے اختیار میں کچھ نہیں ہے جو اللہ چاہے گا ہوگا وہی۔اگرچاہتے ہیں کہ مرشد کا مل کے بارے میں آپ کا یقین غیر متزلزل ہو جائے اور مرشد پر یقین قائم ہو جائے تو دماغ کو استعمال کرنا چھوڑ دیں ، ایک بار یہ آزما لیں کہ مرشد اللہ والا ہے اس کے بعد چھوڑ دیں ۔

مرشد کامل کی پہچان کیا ہو گی ؟

مرشد کی نظروں سے دل میں اللہ کے نام کا آنا دل کا ذاکر قلبی بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ مرشد اللہ والا ہے اب اس کے بعد آنکھیں بند کر دیں دماغ استعمال کرنا چھوڑ دیں اب وہ جو بھی کہہ رہا ہے وہ کرتے جائیں ۔ ہم نے تو اس راستے کا یہی ادب سمجھا ہے۔بابا بلھے شاہ نے بھی کہا
سوچ کہ یار بنائیں بندیا ۔۔۔۔۔یار بنا کے فیر نا سوچیں سولی تے چڑھ جائیں
سوچ سمجھ کے یار بنانا یعنی پہلے آزما لینا کہ وہ واقعی اللہ والا ہے اگر وہ دل میں اللہ اللہ بسا دے تو پھر سوچ سمجھ کر اسکی پیروی شروع کر دو ، وہ جو بھی کہہ رہا ہے وہ کرو ، کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے بیٹھا ہے، اس راستے کا سب سے بڑا ادب مرشد کا ادب ہے ، تصوف کی کتابوں میں جو بھی لکھا ہے وہ کتابی باتیں ہیں ، جب انسان عملی لائن میں آتا ہے حقیقت تو تب ہی کھلتی ہے۔
راتوں رات لکھ پتی بنا دینے والی کتابیں بھی مارکیٹ میں مل جائیں گی اگر یہ ساری باتیں سچی ہیں تو جو یہ کتابیں لکھتے ہیں تو پہلے وہ خود لکھ پتی کیوں نہیں بنتے، کتابیں لکھ لکھ کر پیسے کیوں کما رہے ہیں ؟پاکستان میں فٹ پاتھوں پر طوطے کی فال کے ذریعے قسمت کا حال بتانے والے بیٹھے ہیں وہ اس طوطے کی فال سے اپنی قسمت کا حال کیوں نہیں دیکھتے ؟ خود تو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہیں اور دوسروں کی قسمت کا حال بتاتے ہیں ۔اس گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ جو مرشد کامل کی محبت حاصل کر گیا مرشد کی اتباع میں آ گیا ، مرشد کا مل کا ظاہری اور باطنی موئدب ہو گیا وہ کامیاب ہے۔
ذکر کے آداب کے بارے میں لوگ سوال کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھ لیں کہ ذکر کا اتنا سا کام ہے کہ آپ نے کچھ دیر اللہ اللہ کرنا ہے جب ذکر چل پڑا تو اب سارا ذکر آپ کی روحوں نے کرنا ہے جب ذکر آپ نے کرنا ہی نہیں ہے تو اس کے آداب کیا ہوں گے ،جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں بنتا ہے اس کے لیے ماں نے جتنی ظاہری احتیاط کرنی ہے وہ کرنی ہے اب نو ماہ تک اندر کیا ہو رہا ہے ماں بے چاری نہیں جانتی ، اسی طرح جب روحیں ذکر میں لگیں گی تو اب ان کو ہی ذکر کرنا ہے آپ روحوں کو کیا آداب سکھائیں گے؟ جو لوگ ظاہری ذکر کرتے ہیں وہ آداب کا بھی خیال رکھتے ہیں لیکن ظاہری ذکر میں جتنے بھی آداب کا خیال رکھیں اگر ذکر اندر نہیں جائے گا تو سب بے کار ہے۔مثال کے طور پر نہاری ، گاجر کا حلوہ، قورمہ سب سامنے رکھے ہوں لیکن آپ کا منہ بند ہے تو پھر یہ پکوان بیکار ہیں ۔ایک ہوتی ہے تکنیکی روحانیت جس میں داتا صاحب خواجہ صاحب اور بزرگوں کے فرامین ہیں اور ایک ہے عملی روحانیت جس میں سے گزرا جاتا ہے جو بیتا جاتا ہے یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس راستے پر چل رہے ہیں اور جنہوں نے صرف باتیں کرنی ہیں وہ مندروں مسجدوں میں بیٹھ کر جتنے چاہے آداب بیان کرتے رہیں ۔عملی روحانیت میں سب سے اہم چیز مرشد کا ادب ہے۔
اللہ اللہ کیے جانے سے اللہ نہ ملے۔۔۔۔ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
انسان خود بخود اللہ سے واصل نہیں ہوتا اس کے لیے مرشد کامل چاہئیے اور آج کے دور میں سب کچھ ہے بڑی بڑی عالیشان مساجد ہیں بڑے بڑے مولوی ہیں جن کی بڑی بڑی باتیں ہیں لیکن کہیں سے حق کی خوشبو نہیں آتی بس باتیں ہیں لیکن مرشد کامل نہیں ہے۔ہماری گفتگو سن کر لوگ دشنام طرازی کرتے ہیں یہ اس لیے ہے کہ ادب چلا گیا ہے ، لوگ بزرگوں کی ادب اس لیے کرتے ہیں کہ کوئی ان کا چچا ماموں یا باپ ہے لیکن اگر کوئی رشتہ نہ ہو تو کیا ادب نہیں ہونا چاہئیے ادب تو انسانیت کے رشتے سے ہونا چاہئیے ، آج کے دور میں ان کے پاس کوئی حقیقت ہی نہیں ہے تو حوالہ کیا ہو گا، آج کے دور میں لوگوں کے مابین فرقوں پر مناظرے ہوتے اور دونوں فریقین کتابوں سے حوالے پر حوالے دیے جاتے ہیں ،جو بدتمیزی سے حوالہ مانگے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت کی تلاش میں نہیں ہے اس کا کام شر پھیلانا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس