کیٹیگری: مضامین

مرشد وہی ہوتا ہے جو دور رہ کر بھی خبر گیری کرےاور ایسا کرنا سنت ہیں ۔جیسے حضوؐرہمارے پاس تو بیٹھے ہوئے نہیں ہیں لیکن اپنے اُمتیوں پر نظرِ کرم فرماتے ہیں ۔اب اللہ تعالی کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن اللہ جس سے دوستی کر لیتا ہے اس کا خیال بھی رکھتا ہے ، تجلیاں بھی ڈالتا رہتا ہے اور دیدار بھی دیتا رہتا ہے ۔یہی کام مرشد بھی کرتا ہے لیکن سیدنا گوھر شاہی نے اُس کیلئے ایک معیار بیان فرمایا ہے اورراہ سلوک میں کامیابی کا یہی راز ہے ۔ فرمان گوھر شاہی ہے کہ

کامیاب ہوا وہ شخص جسکو دو چیزیں ملیں ایک ایسا قلب جو ہمہ وقت ذکر اللہ کرےاور ایک ایسا مرشد جو دور رہ کر بھی خبر گیری کرے

شریعت ناقصہ اور شریعت حقّا:

آپ اس لفظ مرشدِ کامل کے اوپر ٹِک نہ جائیں کیونکہ لفظ جو مرشدِ کامل ہے یہ ہر مرشد پر زیب نہیں دیتا ہے۔پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر کامل کہیں گے تو اس کا مطلب کیا ہوگا۔
۱- اگر شریعت کی ڈیوٹی والا ہے ،باطنی شریعت یعنی تزکیہ نفس تو اُس کو کہیں گے مرشدِ کامل۔مرشدِ کامل دراصل کامل شریعت ہوتا ہے۔ مرشدِ کامل کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ باطنی شریعت کے تحت طالب کے نفس کو پاک کرے۔
۲- جو طریقت والا ہوتا ہے وہ مرشدِ اکمل کہلاتا ہے۔
مرشدِ کامل یعنی کامل شریعت جو ہوتا ہے بندے کو باطنی شریعت سکھانے کیلئے ظاہری شریعت کو قربان کر دیتا ہے ۔اب جیسے بہت سارے ولی جو ہیں کامل مرشد ۔ایک حدیث شریف میں آیاکہ

حدثني عبد الله، ‏‏‏‏‏‏ان النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سباب المسلم فسوق، ‏‏‏‏‏‏وقتاله كفر
صحیح بخاری باب کتاب الایمان حدیث نمبر 48
ترجمہ : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔

اب مزید تشریح کرتے ہیں کہ اگر مومن نہ ہو تو گالی دینا فسق نہیں ہے۔ تو یہ جو مرشد کامل شریعت ہوئے یہ مریدوں کو گالیاں بڑی دیتے جیسے وہ کوہاٹ میں ہوتا تھا گھمگول شریف والا وہ گالیاں دیتا ۔ اب گالیاں تو شریعت میں جائز ہی نہیں ہیں ۔گالیاں تو شریعت میں ممنوع ہیں اور کامل شریعت گالی دے رہا ہے ۔کیا کامل شریعت والا مرشد شریعت کی خلاف ورزی کر سکتا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ شریعت کے خلاف ورزی ہورہی ہے یا نہیں ہو رہی۔ شریعت کے دو رُخ ہیں
۱-ظاہری شریعت جو کہ شریعت ناقصّہ ہے۔
۲-باطنی شریعت یعنی شریعت حقّا جو کہ اصل شریعت ہے۔
شریعت حقّا کو اصل شریعت اس لیے کہا گیاکہ گناہ تو تیرا نفس کرائے گا ۔یہ تیرے ہاتھ پاؤں زبان کان یہ تو استعمال ہو رہے ہیں کٹھ پتلی کی طرح تو ان کو قابو کرے گا بھی تو کیا فائدہ ہے۔ وہ جو نفس ہے وہ سارے گناہ کرائے گا تجھ سے ، اُس کو قابو کرنا اصل شریعت ہے۔ ظاہری شریعت کو شریعت ناقص اس لیے کہا گیا کیونکہ یہ جو ہاتھ پاؤں تیرا جسم ہے ان کو تم قابو میں کر بھی لو گے تو پھر بھی گناہ ہو جائے گا اسی لیے یہ ناقص شریعت ہے۔ اس لیے مرشد کامل مریدوں کو گالیاں دے دے کر اُن کے نفس کو پاک کرتا ہے کیونکہ گالی سن کے ملامت ہوتی ہے۔ تو جب کسی کامل شریعت کے پاس جاؤ گے تو وہ ایسی شریعت کے عمل کرے گا تمہیں لگے گا اس سے بڑا کوئی زندیق نہیں ہے۔کامل شریعت اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ پوری باطنی شریعت کی تعلیم رکھتا ہے اور اس باطنی شریعت سے وہ تمہارا بارہ سال میں نفس پاک کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ مرشدِ کامل کہلائے گا۔

کامل مرشدوں کی اقسام اور طریقہ فیض:

۱۔ شریعت والے مرشد:

شریعت دو طرح کی ہوتی ہے ایک ظاہری شریعت اور دوسرے باطنی شریعت، ظاہری شریعت کا تعلق ظاہری جسم سے ہوتا ہے اور یہ جسم کو پاک کرنے کیلئے ہے ۔ باطنی شریعت کا تعلق نفس سے ہوتا ہے اورباطنی شریعت نفس کو پاک کرنے کیلئےہے۔اب کچھ کامل شریعت ایسے گزرے ہیں جنھوں نے تمہیں دونوں شریعتوں میں لگایا۔ سخت عبادتوں میں اور سخت مجاہدوں میں وہ کامل شریعت کہلائے گا۔

۲۔ طریقت والے مرشد:

طریقت کے جو ولی ہوتے ہیں ان کو مرشدِ اکمل کہتے ہیں ۔ مرشدِ اکمل اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تم کو درجہ کمالیت تک لے جا تا ہے۔

۳-حقیقت والے مرشد :

اس کے اندر جو مرشد ہوتا ہے اس کو مرشدِ مکمل کہتے ہیں یعنی تکمیل کراتا ہے۔ اب اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ جو مرشدِ کامل ہوگا یہ آپ کے نفس کو پاک کرے گا۔جو مرشدِ اکمل ہو گا یہ قلب کو پاک کرے گا بیدار کرے گا اور لطیفہ انا تک لے جائے گا۔جب لطیفہ انا تک لے جائے گا اُس کے بعد جب رب کو دیکھنا باقی رہ گیا تو پھر مرشدِ مکمل وہ نظروں سے آگے کا فاصلے طے کرائے گا۔اب دور رہ کرخبر گیری وہ مرشد کرتا ہے جس میں یہ تینوں وصف ہوں یعنی شریعت ،طریقت اور حقیقت۔اگر وہ نفس کے اوپر نظر نہیں کر سکتا تو اس کودور سے نفس کیسے نظر آئے گا۔اگر دل کو اوپر اس کی دسترس نہیں ہو گی تو تیرے دل کی حفاظت کیسے کرے گا ۔اور وہ دور ہے تو پھر بغیر نظروں کے علم کے تجھے نظروں میں کیسے رکھے گا۔اس لئے دور کی خبر گیری کیلئے وہ مرشد ضروری ہے جس میں یہ تینوں وصف ہوں۔

کامل مرشد دور رہ کر مرید کی خبر گیری کیسے کرتا ہے؟

خبرگیری دو طرح کی ہوتی ہے۔

۱۔ عام خبرگیری:

اس کیلئے ضروری ہے کہ مرید کا نفس ملہمہ ہو۔یہ عام خبرگیری ہے۔اب جو نفسِ لوامہ یہ کرتا ہےکہ آپ نے اگر کوئی گناہ کیا تو دل ہی دل میں تمہیں ملامت کرے گا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا یہ تم نے کیا کیا، لوگ کیا کہیں گے سرکار کیا سمجھیں گے ۔تو ملامت کرے گا نفس اور کچھ نہیں کرے گا۔ صرف آپ کو بتائے گا کہ یہ غلط کیا وہ غلط کیا تو نفسِ لوامہ ملامت کرے گا۔آگے جب مزید نور آجائے گا تو یہ نفسِ ملہمہ ہو جائے گا۔ اب جب تک نفسِ لوامہ تھا تو تم گناہ کرتے تھےاور گناہ کے بعد پچتاتےتھے۔ مرشد کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی کیونکہ تم ابھی مرشد کے ساتھ آن لائن نہیں تھے ۔ اگر آپ نے کسی کے ساتھ آن لائن بات کرنی ہے تو وہ بندہ سرگرم ہو گا تو پھر آپ بات کریں گے ۔اگر وہ اپنی آئی ڈی بند کر کے بیٹھا ہے اپنا انٹرنیٹ بند کرکے بیٹھا ہے تو اسے اطلاع نہیں ہوگی۔ اگر وہ کسی کو فون کرنا چاہتا ہے اور اس کا فون بند ہو تو بات نہیں ہو سکتی۔اسی طرح باطن میں اگر مرشد سے خبر گیری لینی ہو تو نفسِ ملہِمہ تک پہنچنا پڑتا ہے۔نفسِ ملہِمہ کا مطلب کہ اب تم باطنی طور پر آن لائن ہو گیا ہے۔اب تیرے اعمال مرشد کی نظروں میں آنا شروع ہو جائیں گے۔ملہِمہ لفظ الہام سے نکلا ہے۔جب تیرا نفس ملہِمہ ہو گیا تو اب جب بھی تم نے گناہ کرنے کی کوشش کی تو مرشد کی طرف سے الہام ہوجائے گا کہ مت کرو اور تم رُک جاؤ گے۔ یہ خبر گیری صرف گناہوں سے بچانے کیلئے ہے۔ اب جیسے سرکار گوھر شاہی کا واقعہ غیبت ہو گیا تو جن کے اندر نُور تھا وہ وہاں سے بھاگے کہ نہیں یہ ہمارے گوھر شاہی نہیں ہوسکتے، نور نے پہچان لیا۔سرکار گوھر شاہی کا فرمانِ مبارک ہے کہ

جن کے دلوں میں نور ہو گا وہ امام مہدی کو پہچان لیں گے

یہ تو نہیں کہا تھا کہ امام مہدی کو پہچان لیں گے کہ ہے ۔اُس کا یہ بھی تو مطلب ہوا کہ اگر کوئی امام مہدی نہیں ہوا تو بھی پہچان لیں گے کہ نہیں ہے۔تو وہ نفسِ ملہمہ کا کمال تھا کہ تم کو وہاں سے دور بھگا دیا کہ نہیں ،یہ نہیں ہے اور تم کو گناہ سے روک لیا۔ تو اگر تم نے جنازے کی نماز پڑھ لی ہوتی تو تمہارا اپنا ایمان کا جنازہ چلا جاتا۔جن کو وہ روکنا چاہتے ہیں ان کو وہ روک لیتےہیں۔

۲-خاص خبرگیری:

جو خاص خبرگیری ہوتی ہے وہ اتنی ہی حساس ہوتی ہے جتنی وحیِ الٰہی ۔اب موسٰی ؑ کے پاس جبرائیل کیوں آتا تھا کیونکہ اُن کا کوئی اپنا ذاتی جبرائیل نہیں تھا۔ہم نے اوپر پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ جو عام لوگوں کیلئے علم آیا اُس کے اندر تو جبرائیل ساتھ آیااور جو بہت خاص علم تھا وہ بغیر جبرائیلؑ کے آگیا یہ کیا بات ہوئی تو بہت مسکرائےاور کہنے لگے مجھے پتہ ہے تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ اب اللہ نے جبرائیل کا جو معاملہ رکھا وہ اس لیے رکھا کہ سارے انبیائے اکرام ایسے نہیں تھے کہ جن کے اندر لطیفے پرواز کر سکیں رب سے جڑ سکیں ۔سارے انبیائے اکرام ایسے نہیں تھے کہ جن کے اندر وہ الہام کا نظام بیدار ہو، جیسے موسٰیؑ کا نہیں تھا۔وہ جو اُن کی دعا ہے کہ میرے جو عقّدہ ہے وہ آسان کردے میری زبان کھول دے وہ یہی تھا کہ جبرائیل آکر کے وہ کلامِ الٰہی ان تک پہنچائے لیکن وہ نظام ہی نہیں تھا لہٰذا وہ ظاہر میں کلام آتا۔ اُن کے اوپر وحی نہیں اُترتی تھی۔
اب یہ جو خاص خبرگیری ہوتی ہے اُس کا طریقہ سمجھتے ہیں۔اب اس کو سمجھنے کیلئے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک غزوہ ہوا اور غزوہ ختم ہو گیا جنگ ختم ہوگئی تو حضورﷺ نے مالِ غنیمت پر دو صحابیوں کو چوکیدار بنا کے بٹھا دیا۔ اب رات کا پہر گزرا تو سنسان علاقہ تھا ، رات کے پہر وہ چوکیداری کر رہے ہیں مالِ غنیمت پر بیٹھ کے تو شیر آگیا۔تو اُس صحابی نے کہا کہ اے شیر! میں محمد الر سول اللہ کا غلام ہوں واپس چلا جا تو شیر واپس چلا گیا۔پھر کچھ دیر کے بعد اچانک ایک پرندے کی پھڑپھڑانے کی آواز آئی اور وہ جو صحابی تھا وہ ڈر گیا۔وہ بہت پریشان ہوا اور صبح جب حضورﷺ کی بارگاہ میں پہنچا تو اس نے یہ سارا ماجرا حضوؐر کی بارگاہ میں بیان کر دیا۔اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ !شیر جب آیا تو میں بالکل نہیں ڈرا ،میں نے اس کو کہہ دیا کہ میں رسول اللہ کا غلام ہوں چلے جاؤ اور وہ چلا گیا۔ لیکن ایک پرندہ اُڑ کے جب آیا تو اُس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے میں خوفزدہ ہو گیا یہ کیا ہوا شیر سے تو ڈرا نہیں میں اور پرندے سے ڈر گیا ۔تو حضور نے فرمایا کہ جب شیر آیا تھا اُس وقت تیرا قلب اللہ کا ذکر کر رہا تھا اس لیے تجھے ڈر نہیں لگا۔اور جب پرندہ پھڑپھڑایا تھا اُس وقت تیرا دل ذکرِ اللہ سے غافل تھا اس لیے تُو ڈر گیا۔ اب سرکار گوھر شاہی نے بھی یہی بات فرمائی کہ کامیاب ہوگا اس راہِ سلوک میں اس روحانیت کے سفر میں اس تصوف اور تزیک کے سفر میں کہ جس کو دوچیزیں میسر آگئیں ۔

کامیاب ہوا وہ شخص جسکو دو چیزیں ملیں ایک ایسا قلب جو ہمہ وقت ذکر اللہ کرےاور ایک ایسا مرشد جو دور رہ کر بھی خبر گیری کرے

ہمہ وقت ذکر کرنا کیا ہے؟

ہمہ وقت کا مطلب ہے ایک لمحہ بھی ذکر سے غافل نہ ہویعنی ہر وقت چوبیس گھنٹے قلب ذکر کرے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس کا ذکر سوا لاکھ ہوتا ہے اُس کا ذکر بھی ہمہ وقت نہیں ہوتا۔اب جو دل ہے یہ ایک گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ چھ ہزار دفعہ دھڑکتا ہے۔لیکن یہ زیادہ سے زیادہ اگر دل چھ ہزار دفعہ دھڑکے آپکا تو آپ دل کو پکڑ کے بیٹھ جاؤ۔اور چو بیس گھنٹے میں ہر گھنٹے چھ ہزار مرتبہ دھڑکے اور ذکر کرے تو پھر آپ کا چلنا بھی دشوار ہے۔آپ تو بالٹیاں بھربھر کے پانی پئیں گےآپ سے تو بولا نہیں جائے گا ۔چلنا بیٹھنا پاؤں رکھنا دشوار ہو جائے گا۔ایسی ارتعاش پیدا ہو گی جسم میں کہ آپ کانپتے رہیں گے۔تو زیادہ سے زیادہ دل کی جو گنجائش ہے وہ ہے ایک لاکھ چوالیس ہزاراور سوا لاکھ کیلئے جو تعداد ہے وہ ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار اس لئے کیونکہ نبیوں کی تعداد کے مطابق دل کی دھڑکنیں گنی ہیں عشق کیلئے۔ جو نبیوں کی پوری تعداد ہے اُتنی ہی دھڑکنوں میں ذکر ہونا چاہیے تو تم عاشق ہو۔ یہ نبیوں کی عبادت ساری ایک طرف اور تیری ایک طرف۔یہ عبادت کی حد ہے۔اگر نبیوں کی تعداد دہ لاکھ ہوتی تو تیری عبادت کی تعداد بھی دو لاکھ ہوتی۔سوا لاکھ انبیائے اکرام آئے انہوں نے عبودیت کی تو سوا لاکھ کا جو نمبر ہے وہ عبودیت کی حد ہو گیا۔اگر انبیاء دو لاکھ آئے ہوئے ہوتے تو تیری عبودیت کی حد دو لاکھ ہوتی۔اگر دس لاکھ آئے ہوتے تو دس لاکھ ہوتی۔اب جو مسلمان سوالاکھ دفعہ آیتِ کریمہ کا وِرد کراتے ہیں کیونکہ یہ عبادت کی حد ہے اس کے بعد عبادت ہی نہیں ہے۔اگر وہ پوری ہو جائےتو جو مشکل ہے وہ ٹل جائے گی۔اسی طرح یہ جو سوا لاکھ کا ذکر ہے یہ جب سوا لاکھ پورا ہو جاتا ہے تودل نے آرام بھی کرنا ہے اور بند ہو جاتا ہے۔تو ہمہ وقت ذکر ہو ہی نہیں سکتا۔تو پھر جب ہمہ وقت ذکر ہو ہی نہیں سکتا تو شرط ایسی کیوں رکھ دی؟ وہ ایسی شرط اس لیے رکھی کہ وہ ہمہ وقت اُسی کا ہو گا جسے مرشد چاہے گا۔

خبرگیری کیلئے ذکر کیوں ضروری ہے؟

ذکر اس لیے ضروری ہے کہ مرشد کی طرف سے کوئی الہام آیا کوئی القا آیا دل پر اور دل اُس وقت ذکر میں نہیں تھا یعنی غافل تھا تو اس موقع سے شیطان فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔اب یہ لمحہ ذکر سے خالی تھا اس لمحے میں شیطان نے کوئی وسوسہ ڈالا تو تم سمجھو گے کہ مرشد کی طرف سے کوئی الہام ہے ۔اور اگر دل ذکر کر رہا ہےتو اس وقت شیطان کا وسوسہ آگیا تو یہ اللہ کا ذکر اور نور اس کو جلا دے گا۔اور ذکرِ اللہ سے دل غافل ہو گا تو اس وقت کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آگیا تو وہ اندر چلا جائے گا اور کوئی حفاظت نہیں ہوگی۔اب اچھی بات ہے کہ جب ذکر سے قلب غافل تھا تو شیطان کی طرف سے نہیں آیا اور مرشد کی طرف سے آگیا۔لیکن کسوٹی پھر یہ نہیں ہوگی کیونکہ جب تیرا دل خالی تھا اُس وقت نور آئے تو تمہیں محسوس نہیں ہوگا۔ جب مرشد کی طرف سے خبر گیری آئے الہام آئے اور قلب میں ذکر اللہ ہو رہا ہے اور نور بن رہا ہے تو نور سے نور ٹکرائے گا تو یہ کسوٹی بنے گا۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ایسا قلب ہو جو ہر وقت ذکر کرے ۔ جو ڈیوٹی والے ہوتے ہیں وہ مرشد کی نظر سے اُن کا ذکر ہمہ وقت ہوتا ہے۔

خاص خبرگیری بھی دو طرح کی ہے:

-قلب کے تین جثے ہوتے ہیں قلبِ سلیم،قلبِ منیب اور قلبِ شہید۔مرشد ان کو نکال کر اپنے پاس رکھ لیتا ہے اس کو ملکوتی فنا کہتے ہیں۔
۲-اور ان جثوں کی جگہ مرشد نے اپنے جثے لگادئیے۔ اب یہ کہلاتا ہے پہرہ۔

فنا فی الشیخ:

اب لطیفہ قلب کے ارد گرد تینوں طرف جثہِ گوھر شاہی آگیا۔ پھر جو یہ بندہ ہوتا ہے اس کے دل کی دھڑکنیں بند ہو جاتی ہیں پھر دھڑکنوں میں جثہ ِگوھر شاہی گردش کرتا ہے اور ایک پنکھے کی طرح ہو جاتا ہے۔اب قلب کے ایک رُخ پر بندے کا جثہ ہے اور باقی تینوں رُخ پر جثہِ گوھر شاہی ہے ۔قلب کے برابر میں ہی لطیفہ سرّی ہے اور اُس کے برابر میں لطیفہ اخفٰی ہے۔اخفٰی زبان کو بلواتی ہے ۔اب یہ بندے کا جثہ اور تین جثہ گوھر شاہی قلب کے ارد گرد گھوم رہے ہیں جسے کہتے ہیں عشق کا چرخا۔بلھے شاہ نے کہاکہ کرکتن ول دھیان کڑے۔ یہ جو تم کات رہی ہو اس کی طرف دھیان کرو۔یہ اندر کی بات ہو رہی ہے یعنی چکی جو تمہارے قلب کے اردگرد گھوم رہی ہے۔اب یہ پنکھا گھوم رہا ہے اور تم خاموش ہو تو ٹھیک ہے گھوم رہا ہے لیکن جب تُو بولا تو اب کلام اخفٰی سے آئے گا زبان پر ۔اگر اُس وقت جب تُو بول رہا ہے اور جثہ ِگوھر شاہی جو قلب میں ہے یہ اگر اخفٰی کی قطار میں ہوا تو پھر اس وقت جو آواز ہو گی وہ جثہِ گوھر شاہی کی ہو گی۔اس کو کہتے ہیں فنافی الشیخ۔اگر اللہ ہو تو فنا فی اللہ۔حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں گفتہ او گفتہ اللہ بود اگر چہ از حلقوم عبداللہ بود۔جس قلب کے چاروں طرف گوھر شاہی ہے تو اب خبرگیری کو باہر سے آنے کی کیا ضرورت ہے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار ۔۔۔۔بس ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

جب سینے میں قیامِ جثہِ گوھر شاہی ہو جائے تو کیا ہو گا؟

مثال کے طور پر یہ جو آئی فون ہے ان کے اندر ایک دو سال پہلے ایک نظام لگایا گیا۔ فرض کیا تمھارے پاس ایک آئی فون ہے ایک آئی پیڈ ہے ایک لیپ ٹاپ ہے ۔اب آئی فون پر کسی نے کال کی تو وہ آئی پیڈ بھی بجے گا اور لیپ ٹاپ بھی بجے گا۔اگر دو فون ہیں دو آئی پیڈ ہیں دو لیپ ٹاپ ہیں تو چھ کے چھ بجیں گے۔اسی طرح پھر یہ عشق میں بھی ہوتا ہے جیسا کہ اگر سرکارگوھر شاہی کی اللہ سے بات چیت ہو رہی ہےتو وہ گفتگو جاری ہے ۔تمہارے اندر اگر دائمی جثہ گوھر شاہی ہے تو تم بھی اس گفتگو میں موجود ہو۔یہ زمین اور مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔یہ خاص خبرگیری ہےجس میں اندر کی نظام ہی لوگوں کی خبر گیر ی کرتا رہتا ہے ۔دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو جثہ گوھر شاہی کے اختیار سے باہر ہو ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 2 جنوری 2019 کو یوٹیوب پر موجود الرٰ ٹی وی کے لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذہے ۔

متعلقہ پوسٹس