کیٹیگری: مضامین

کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان یہ سننے کے باوجود بھی کہ کسی شخص نے بھلے ہی وہ صحابہ اکرام کے پاس بیٹھنے اُٹھنے والا ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ادب کو ملحوضِ خاطر نہیں رکھا ا ور پھر نبی پاک ﷺ کی صاحبزادی ہیں اُن کے بارے میں حضورﷺنے فرمایا کہ یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ نا بھی کہیں لیکن ہر عام انسان کو اپنی اولاد جگر کا ٹکڑا معلوم ہوتی ہے لیکن اب حضور نے جتَا بھی دیا اور پھر یہ بھی کہا کہ جو اِن سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھے گا ۔۔ انا من الفاطمہ والفاطمہ منی یعنی میں فاطمہ سے ہوں اور فاطمہ مجھ سے ہے ۔ یہ باتیں منظرِ عام پر لائی جائیں ,بتایا جائے اُس کے باوجود بھی کوئی مسلمان عمر بِن خطاب کی رَٹ لگاتا رہے تو بجائے غصہ کے یہ بات تشویش ناک ہے کیونکہ جذبہ محبت میں انسان کے ساتھ جو واردات ، محرکات اور رد عمل ہوتا ہے وہ فطری طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے ۔
مثال: جیسے آپ کی ماں ، بہن یا بیٹی کے بارے میں کوئی نا زیبا اور غلیظ الفاظ استعمال کرے تو آپ کو غصہ آجائے گا اور اگر سامنے والا چپ نہ ہوتو ہو سکتا ہے آپ مشتعل بھی ہو جا ئیں۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے ہمیں واقعتاً محبت ہوتی ہے اور اس محبت کی وجہ سے بہت جلدی کسی بھی نازیبا گفتگو کے خلاف روادار ہوجاتے ہیں کیونکہ جہاں ہمارا رشتہ ،محبت پر استوار ہے اس ذات کیلئے ہمارا دل اور جذبات کوئی نازیبا لفظ سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ ایمان کی بات تو بعد میں آئے گی سب سے پہلے تو محبت کا جذبہ ہے۔ اگر محبت نہ ہو تو پھر آدمی پوری طرح نارمل رہتا ہے ۔ اکثر پڑھے لکھے لوگ وہ تھوڑے سےسمجھدار بھی ہوتے ہیں پاکستان میں بھی اس طرح کے لوگ موجود ہیں جوکم از کم اِن باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگر سمجھنا چاہیں تو یہ ایک نارمل رویہ ہے انسان کا اُس میں وہ ہر طرح کی سمجھداری کو مدِ نظر رکھتا ہے کہ کون سا کام عاقل ہے، کون سا کام جو ہے عاقل بھی ہے لیکن اس کے اوپر آپ کا جو رد عمل ہوگا وہ بھی عاقل ہوگا ۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کو ئی کام نارمل ہے تو اس کام کو دیکھ کے ردِ عمل شدید کیسے ہوسکتا ہے ؟ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں ادب سے کم درجے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو یہ عمل بذاتِ خود فی نفسہی نارمل سے ہٹ کر ہے تو اس کا رد عمل نارمل کیسے ہو سکتا ہے !!!

کسی بات پرشدید رد عمل کی وجوہات:

ایک تو انسان کی نارمل رویہ ہوتا ہے کہ کسی نارمل بات پر اس کا رد عمل بھی نارمل ہی ہوتا ہے لیکن کسی بات پر شدید رد عمل ہونے کی وجوہات یہ ہوتی ہیں کہ وہ بات نارمل ہی نہیں ہے ۔ جیسے اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ یہاں ہے اٹھ کے وہاں بیٹھ جائیں تو آپ آرام سے اٹھ کے بیٹھ جائیں گے کہ یہ تو نارمل سی بات ہے اور اس بات پر آپ غصہ ہو جائیں تو لوگ کہیں گے کہ کتنا کم عاقل ہے جو اتنی سے بات پر چراغ پا ہو رہا ہے ۔ جب کسی مسلمان کو قرآن اور حدیث کے حوالے دے کر بتایا جائے کہ جو محمد رسول اللہ کا فیصلہ ہے اُس کو نہ ماننے والا قرآن کے مطابق منافق ہے ۔ جس نے محمد رسول اللہ کی صاحبزادی کی شان میں گستاخیاں کی، بےحرمتی کی اذیت پہنچا ئی، جسمانی تکلیف پہنچائی اُس شخص کے بارے میں تم اتنا نرم گوشہ اپنے دل میں کیوں رکھتے ہو اور وہ یہ ساری باتیں سننے کے بعد وہ یا عمر ، یا عمر کے نعرے لگائے یہ عمل فی نفسہی بہت غیر معقول ہے نہ صرف غیر معقول ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اشتعال انگیز ہے کہ جان بوجھ کر کسی کےجذبات کو جھنجھور دینا کیونکہ اگر آپ واقعتا مسلمان ہیں تو محمد رسول اللہ کی ذات اور قرآنِ مجید یہ دو آ پ کے سامنے عدل کا درجہ رکھتے ہیں ،حرفِ آخر ہے۔ جو اللہ کے رسول نے کہہ دیا جو اللہ نے فرما دیا وہ حرفِ آخر ہے پتھر پہ لکیر ہے اور حضور کی ذات کو اذیت پہنچ رہی ہے ، حضور کے فرمان کو رد کیا جائے حضور کے فیصلے کو رد کیا جائے قرآنِ مجید کو فراموش کر دیا جائے اور پھر بھی یا عمر کا نعرہ لگایا جائے یہ نہ صرف فی نفسہی غیر معقول حرکت ہے بلکہ ہم سمجھداری کے اُصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انتہائی اشتعال انگیز ہے۔ آپ کیا بکواس کررہے ہو یا تو کہہ دو کہ مسلمان نہیں ہو پھر جو مرضی آئے بکواس کرو ۔مسلمان ہو تو قرآن کے اور قرآن کے حامل ذات کو جس کے سینے میں وہ قرآن نوری حروف میں محفوظ ہے اُس ذات کا ادب کرو ایسا بھی کیا اسلام ہے کہ عمر بن خطاب کے وفادار بن جاؤ اور قیمت چکانی پڑے محمد رسول ﷺ کی گستاخی کرنے سے بہت دل دکھانے والی بات ہے معلوم یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اسلام کیا ہے اُس کا معلوم ہی نہیں ہے ۔

یہ بات آج اپنے دل کے اوپر سنہرے حروف سے لکھ لیں دینِ اسلام محمد رسول اللہ ﷺکی ذات ہے ایسا اسلام جس میں محمد رسول ﷺ کا ادب نہ ہو ،محبت نہ ہو وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اسلام نہیں ہو سکتا ۔ مختلف شعرا ء نے اسی بات کو اپنے الفاظ میں کچھ اسطرح سے بیان کیا ہے ۔

بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست ۔۔۔۔ اگر بہ اونر سیدی تمام بو لہبی است (علام اقبال)
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔۔۔۔یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں (علامہ اقبال)
محمد ؐ کی محبت دین ِحق کی شرطِ اول ہے۔۔۔۔۔اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے (اسمعیل میرٹھی)
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب۔۔۔۔۔ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است (مولانا روم)

یعنی اگرہزار بار مشک اورعنبر گلاب کے عرق سے زبان دھوتا رہوں اور اُس کے بعد حضورﷺ کا نام ِ گرامی میری زبان سے ادا ہوجائے تو کمال کی بےادبی ہوگی کیونکہ اِس زبان کو اِس حد تک پاک و صاف نہیں کیا جا سکتا کہ کسی مرحلے پر یہ حضور ﷺکا نام لے سکے ۔

اسلام کے خلاف سازش پر ایک نظر:

سب سے بڑی سازش جو اسلام کے خلاف ہوئی ہے وہ یہ کہ حضور ؐکی ذات کو متنازعہ بنا دیا۔ یہ یہودیوں نے نہیں کیا ۔یہ احادیث میں گڑ بڑ یہودیوں نے پیدا نہیں کی ہے اگر وہ حدیثوں میں گڑبڑ کرتے تو آپ کو پتہ چل جاتا اور دوسری بات اگر کسی یہودی سے آپ حدیث سنیں گے تو آپ کا دل پہلے ہی مشکوک ہوگا کہ یہ تو یہودی حدیث بتا رہا ہے یہ صحیح نہیں ہوسکتی ۔ گڑ بڑ وہاں سے ہوئی ہے جہاں سے آپ نے ملاوٹ شدہ حدیثیں ایسے ایسے پگڑ باندھنے والے اور لمبی داڑھی رکھنے والے مولوی ملاؤں سے سنی کہ جن کے بارے میں آپ کا دل مشکوک ہی نہیں ہوا کہ یہ کہیں گے کہ اِس میں کچھ خرابی ہے۔ شیخ الاسلام کہلانے والے لوگ آج تک زیادہ تر جو شیخ الاسلام کہلانے والے لوگ ہوئے ہیں ابنِ تیمہ سے لے کر ڈاکٹر طاہر القادری تک سارے کے سارے ایک نمبر کے راہزن اور انسانی روحوں کے قاتل ہیں ۔ان شیخ الاسلام نے کیا کیا ہے اسلام میں سوائے اس کے کہ اسلام کو بیچ بیچ کر کھایا ہے ۔کیا اسی کواسلام کہتے ہیں کہ جس میں محمد رسول ﷺ کے فیصلے کی کوئی مسلمان پرواہ نہ کرے ۔کوئی مسلمان اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ قرآن کیا کہتا ہے ۔ مسلمان قوم اپنے نبی کی اولاد کا گلہ کاٹ دے اُن سے وہ چیزیں چھین لے جو حضور نے عطا فرمائی ہیں اور اُن کو اپنا حق جاننا شروع کردیں اور پھر بھی مسلمان کہلائے ، یہ کون سا اسلام ہے؟ یہ کوئی اسلام نہیں ہے یہ بکواس ہے جھوٹ کا پلندا ہے۔ ایسے ہر دین کو ہم رَد کرتےہیں کہ جس میں حضور ﷺ کا ادب نہ ہو ،محمد رسول اللہ کی محبت نہ ہو تو پھر لعنت ہے ایسے دین پر۔

دینِ اسلام فقط محمدﷺ کی ذات ہے:

جو دین سیدنا گوھر شاہی نے ہمیں اسلام کی روشنی میں سمجھایا ہے وہ تو سَر سے پاوں تک محمد کی ذات ہے اگر حضورؐ کی محبت دل میں نہیں آئی تو پھر تیری مسلمانیت تجھے کچھ نہیں دے سکتی۔ ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ نے ایک ایسی بات فرما دی کی جس کے بعد اِس موضوع کو تالا لگ جائے گا اُس کے بعد گفتگو کرنا بیکار ہو جائے گی ۔

لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
حدیث صحیح بخاری متفقہ علیہ
ترجمہ :تم میں سے ایک شخص بھی مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ مجھ محمد ﷺ سے اپنے والدین سے زیادہ محبت نہ کرے اور پوری انسانیت میں سب سے زیادہ محمد سے محبت نہ کرے تو وہ مومن ہی نہیں بن سکتا۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا یہ طریقہ سب پہ وارِد ہوتا ہے صحابی ہوں یا تابعین ہو ں ،یا اولیا ءہوں ،یا فقراء ہوں، یا سلطان ہوں، یا عام مومن ہوں ،ولی ہوں ،غوث ہوں ،قطب ہوں ، پاکستان میں بسنے والا مسلمان ہوں یا انڈیا میں بسنے والا ہوں ،مدینے میں پیدا ہونے والا ہوں یا مکہ میں سب کے لئے یہ شرط ہے لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ أجمعين تم میں سے ایک شخص بھی مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ مجھ محمد ﷺ سے اپنے والدین سے زیادہ محبت نہ کرے اور پوری انسانیت میں سب سے زیادہ محمد سے محبت نہ کرے تو وہ مومن ہی نہیں بن سکتااور یہ عمر بن خطاب کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ حضورؐ کچھ اور فرما رہے ہیں اگر میں اِس کی تفصیل اِس طرح بیان نہ کروں تو لوگ یہی سمجھیں گے کی یہاں پر غیر معقول گفتگو ہو رہی ہے ، بلاوجہ جذبات کا اظہار ہو رہا ہے ۔ جذبات کا اظہار نہیں ہو رہا اُس حقیقت کو ثابت کیا جا رہا ہے جو حق محمد الرسول ﷺ نے قائم فرمایا ۔ تم جھٹلانا چاہتے ہو تو جھٹلا دو یومِ محشر میں یہی چیز دیکھی جائے گی قبر میں یہی چیز دیکھی جائے گی حضور ﷺکی شبیہ دکھائی جائے گی ۔ قبر میں پوچھا جائے گا پہچانتے ہو اِس مرد کو کیا کہتے تھے اِس کے بارے میں دنیا میں تم۔ ۔ ۔ پھر تم کو کیاعمر بن خطاب آئے گا بچانے کیلئے؟ عمر بن خطاب کی شفاعت بھی حضور ﷺ کی مرضی پر منحصر ہے اگر محمد رسول ﷺ نے چاہا تو شفاعت ہوگی اور یہ بات کہ مدینے میں آپ کی قبر کے برابر میں وہ دفن ہیں لہذا بہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے ۔ چھوڑ دو اِن باتوں کو حجرِاسود کے ساتھ360 بت اور بھی رکھے ہوئے تھے پھر اُن کو کیوں پھینکا وہ بھی تو حجرِاسود کے ساتھ ہی تھے اور وہ منافقین جن کے لئے سورۃ منافقون حاضر ہوئی وہ بھی تو حضور کی صحبت میں بیٹھنے والےتھے یہ مت کہو کل کسی نے کیا کہا ۔ ۔ ۔ ۔ اُسی میں دفنایا جاتا ہے جس مٹی سے بنا ہو اُسے میں یہ پوچھتا ہوں ۔ ۔ تو پھر وہاں تو حضور ﷺ بھی دفن ہیں اُسی مٹی سے حضور کو بنایا معاذ اللہ اور اُسی مٹی سے عمر بن خطاب کو بھی بنایا یہ کہنا چاہ رہے ہو جب کہ ایک حدیث میں ہے حضورﷺ کے حوالے سے نہیں ہے بالخصوص،باالعموم انبیا ء کے حوالے سے ہے کہ تمام انبیاہ کو جنت میں اللہ نے جنت کی مٹی سے بنایا یہ حدیث شریف ہے اور پھر حضورﷺ کیا فرماتے ہیں ۔ ۔

انا من نور اللہ وا لمومنین من نوری
ترجمہ: یعنی میں تمہارا نور ہوں اور مومنین کو میرے نور سے بنایا گیا ہے۔

یعنی دین کا بیڑا غرق کردیا اِن لوگوں نے کہاں دین بچا ہے اگرحضورﷺ کی تعظیم نہیں ہے دین میں تو پھر ایسا دین بیکار ہے اور ہمیں تو ’’ سیدنا گوھر شاہی‘‘ نے حضور ﷺکی تعظیم سکھائی ہے کوئی بھی سرکار کی ویڈیو نکال کے دیکھ لو جب حضور ﷺکا نام آیا تو آپ نے اپنے ناخن کو بوسہ دیا اور اہلِ محبت کیلئے تقلید اور اتباع ہوتی ہے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ میرے آقا و مولا نے حضورﷺ کا نام سن کے لبوں کو لگایا اب مجھے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کہ کہاں لکھا ہے میں نے وہ کام کرنا ہی کرنا ہے کیونکہ ’’ سیدنا گوھر شاہی‘‘ نے اسمِ محمد ﷺ کو بوسہ دیا مجھے تو کرنا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 16 اگست 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب میں ہے۔

متعلقہ پوسٹس