- 990وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
روحانیت دین کا مغز ہے :
ہم لوگ ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں انسان دوسرے معصوم انسانوں کو اپنے مفاد کی خاطر لوٹنے کے لیے تمام ذرائع و وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے کرتے ہیں ہاں تک پہنچ گیا کہ دین کو بھی نہیں چھوڑا۔کسی بھی مذہبی انسان کے لیے اسکا دین ایک نازک اور حساس ترین معاملہ ہوتا ہے، یہ ہی وہ گرفت ہے جس کو پکڑ کر ابلیسی صفت لوگ اپنے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں اور معصوم یا بےوقوف لوگ جن کے پاس دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں اپنی اس کم علمی کی وجہ سے دین کے نام پر آسانی سے بہک جاتے ہیں ان شیطان صفت لوگوں کو زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا دین کے نام پر کوئی نہ کوئی ایسی چیز لے کر آتے ہیں کہ لوگ ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔اگر دنیا میں کوئی دین نہ آیا ہوتا توشاید یہ دنیا اتنی بُری جگہہ نہ ہوتی جیسی آج نظر آ رہی ہے، شاید انسان بھی ایسا نہ ہوتا جیسا آج کا انسان ہوگیا ہے۔ انسان نما جانور جس میں انسانیت ناپید اورحیوانیت نمایاں ہے ۔دین کی تازگی کے معیار کو سیدنا گوھر شاہی کی اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔
سیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں کہ “کھانا اگر فرج میں رکھا ہوا ہو توتین دن گزر جانے کے بعد بھی خراب نہیں ہوتا ،لیکن پھر بھی سب لوگ تازہ کھانا تناول کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں “، بالکل اسی طرح جب یہ ادیان آئے اُس وقت بہت اچھے تھے وقت کے ساتھ اسکی صورت بھیانک ہوگئی۔ جس طرح کھانے کو تازہ اور محفوظ رکھنے کے لیے فرج میں رکھا جاتا ہے اسی طرح دین کو تازہ رکھنے کے لیے روحانیت فرج کا کام کرتی ہے۔ جو بھی دین روحانیت سے خالی ہوئے وہ ایک بھیانک صورت اختیار کر جاتے ہیں ۔ تشدد پسندی اسلام سے شروع نہیں ہوئی بلکہ بہت پرانی ہے ، کسی بھی دین سے جب روحانیت رخصت ہوئی تو اس دین کے ماننے والوں میں دین کے نام پر شدت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہونے لگا۔ آج دین اسلام بھی اسی شدت پسندی کا شکار ہوچکا ہے ، شریعت اور اسلام کے نام پر لوگوں کو ذبح کرنا یا لوگوں کو زندہ آگ میں ڈال دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ روحانیت اُس دین سے بھی ختم ہوچکی ہے۔
تعلیمات ِگوھر شاہی کا حسن:
دنیا میں مبعوث ہونے والے مرسلین دوطرح کاعلم لے کرآئے ایک ظاہری کہلایا اور دوسراباطنی علم کہلاتا ہے ۔ظاہری علم کا تعلق انسان کی ظاہری صفائی ستھرائی اورارکان دین سے ہے، حقوق العباد یعنی ایک انسان کا دوسرے انسان پر کیا حق ہے ، والدین کے اولاد پر اور اولاد کے والدین پر کیا حقوق ہیں ۔میاں بیوی کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ۔ان تمام معاملات کا انسان کے ظاہر سے تعلق ہے،کسی بھی دین کی ظاہری تعلیمات اس دین کا نچوڑ ہرگزنہیں کہلاتیں ۔ پھردین کا نچوڑ کیا ہے؟ دین کا نچوڑ اُس دین کی باطنی تعلیم ہے یہ دوسرا علم کہلاتا ہے جس کے زریعے قلب کو منورکیا جاتا ہے نفس کو پاک کیا جاتا ہے ۔
”سیدنا گوھر شاہی امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا دین کوئی بھی ہو “باطنی علم کے بغیر علم ظاہرعظیم فتنہ ہے”
سیدنا ریاض احمد گوھرشاہی ایک عظیم روحانی سائنسدان ہیں ، تعلیمات روحانی صرف کہنے تک بیان نہیں فرماتے بلکہ اس علم کے ہر ہر پہلو کو اس طرح اجاگر فرماتے ہیں کہ سننے والا اسکے فائدے اور نقصان سب سے آگاہ ہو جاتا ہے ۔ سیدنا گوھر شاہی کی گراں قدر تعلیمات نے سمجھایا وہ کون سا علم ہے جو ”علم نافع “کہلاتا ہے اور کس طرح اِس علم کو اپنا کر انسان اِسی زندگی میں اپنی ارواح کو منور و بیدار کرکے جنت میں اپنا وہ مقام پا سکتا ہے جو اس کو مرنے کے بعد ملے گا۔سیدنا گوھر شاہی دنیا میں موجود ادیان کی عارضی اور ظاہری رسومات میں الجھائے بغیر علم روحانیت سکھاتے ہیں بلکہ سیکھنے والے کو اپنی روحانی نگرانی میں بھی رکھتے ہیں ۔سیدنا گوھرشاہی نےنہ صرف ہمیں بتایا کہ اصل صوفی کون ہوتا ہے بلکہ یہ کسوٹی بھی دی کہ کسی صوفی کوکیسے پہچانا جاسکتا ہے۔آپ نے اپنی تقاریر میں اس مثال کا اکثر ذکر فرمایا کہ ” چور ، چورکو پہچانتا ہے” پھر مزید تشریح فرماتے ایک چور پنڈی کا ایک شہر کراچی کا ایک کمرے میں بیٹھا دو،جیسے ہی دونوں کی آنکھیں ٹکرائیں گی پہچان لیں گے یہ میرا پیٹی بھائی ہے۔ بالکل اُسی طریقہ سے ایک ولی دوسرے ولی کو پہچانتا ہے فارسی میں اسےکہتے ہیں ولی را ولی شناخت ۔ یعنی ولی ولی کو پہچانتا ہے، لیکن ایک عام انسان کے پاس ولی کو پہچاننے کی کوئی کسوٹی نہیں ہے زیادہ سے زیادہ اسکی داڑھی کی لمبائی دیکھے گا، بہت تیر مار لیا تو ماتھے پر نماز کا سیاہ نشان تلاش کرلے گا اسکے علاوہ اور کیا کرے گا۔
”تعلیمات گوھر شاہی کا حسن دیکھئے کہ چاہے ولی کسی بھی دین کا ہو اگر وہ منجانب اللہ ولی ہے تو وہ آسانی سے دوسرے ولی کو پہچان لے گا۔ کیونکہ اللہ کا دوست اور ولی جب زمین پر چلتا ہے تو اس پر اللہ کی تجلیات کا نزول ہوتا ہے ان تجلیات کو وہی دیکھ سکتے ہیں جو خود بھی ان تجلیات کی زد میں ہوتے ہیں “
واقعہ: ایریزونا میں ایک خاتون سیدنا گوھر شاہی سے ملنے آئی اُس نے کہا جب میں آپ سے ملنے آ رہی تھی تو میں نے آپ کے اوپر لائٹ دیکھی تھی آپ نے اُس کی تصدیق بھی کی کہ ہاں تم نے ٹھیک دیکھا ہے اللہ کے دوستوں پر تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کسی روحانی مرشد کے ہاتھ پربیعت ہونے سے پہلے اُس کو پرکھ لیں ۔اب مسئلہ یہ ہے ولی کو تو صرف ولی ہی پہچان سکتا ہے اور دوسری طرف کہا جا رہا پے بیعت سے پہلے مرشد کی پرکھ بھی اہم ہے تو اب اس صورتحال میں ایک عام انسان کسی ولی کوکیسے پرکھ سکتا ہے ؟ اس الجھن کو بھی سیدنا گوھر شاہی کی تعلیم سلجھا رہی ہے کہ مرشد منجانب اللہ ہے یا جعلی پیر اس بات کا پتا چلانے کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے عرض کریں روحانیت میں داخلہ کے لیے میرا قلب اسم اللہ سے جاری کر دیں ۔دل کا کام مسلسل دھڑکنا ہے اور ان دھڑکنوں کا کام خون میں اکسیجن پہنچانا ہے،دل کی دھڑکنوں میں جب اسم اللہ داخل ہو جاتا ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب دل کی ٹک ٹک اللہ ھو میں تبدیل ہوجاتی ہے پھر یہ تجربہ بھی ہوتا ہے کہ زبان تو خاموش ہوتی ہے لیکن دل سے اللہ اللہ کی آواز آتی ہے جیسے کوئی چھوٹا بچہ اللہ ھو یا پھر را رام پکار رہا ہے۔
اگر لوگوں کو یہ علم ہوتا کہ سچا پیر و مرشد کون ہے تو آج ہزاروں لاکھوں لوگوں کی عزت ، وقت ، مال اور جذبات ان جعلی ڈبا پیروں کے ہاتھوں برباد ہونے سے محفوظ رہتے۔ اس وقت صوفیوں کے بھیس میں جو لوگ نظر آرہے ہیں وہ صوفی ہرگز نہیں ہیں بلکہ صوفیوں کے روپ میں لٹیرے ہیں ، نہ انہوں نے تزکیہ نفس وتصفیہ قلب کے روحانی مراحل طے کئے نہ ہی ان کےسینہ منور ہوئے ان دھوکہ بازوں کی انانیت ابلیس کی طرح ہے ، کسی جہنمی کے قلب کی غلاظت کی طرح انکے قلب بھی غلاظت میں اٹے ہوئے ہیں ۔پاکستان انڈیا ، بنگلہ دیش میں لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو پڑھی لکھی نہیں ہے دین کی سمجھ بوجھ رکھتے نہیں البتہ صوفیوں سے ان کو خاندانی عقیدت ضرور ہے ۔صوفیوں کے پاس پابندی سے جاتے ہیں اور جھوٹے ڈبا پیر اپنے مریدین سے یہ دھوکہ کرتے ہیں کہ جھوٹا مزار بنا کر اپنے مریدوں کو اس کا عقیدت مند بنادیتےہیں اور کہتے ہیں اس سے اپنی حاجات مانگو ، ان بزرگوں نے ہمیں تمہاری رہنمائی کے لیے اس گدی پربٹھایا ہے اس طرح وہ جھوٹے پیر نہ صرف جعلی مرشد ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ ساری زندگی ان مریدوں سے چندے نذرانے بٹور بٹور کرعیاشی میں لگے رہتے ہیں ۔ بیش قیمت کاریں چلاتےہیں، محل نما گھروں میں رہتے ہیں ۔
سیدنا گوھر شاہی کے خلاف دشمنی کا محاز:
سیدنا گوھر شاہی جب اس دنیا میں منجانب اللہ ڈیوٹی پر مامور ہوئے اور علاقائی طور پر خلقت آہستہ آہستہ آپ کی شخصیت کی گرویدہ ہونے لگ گئی لوگ آپ کو آپ کی تعلیمات اور کردار سے پہچاننے لگ گئے لہذا اب یہ ممکن نہیں تھا کہ جھوٹے پیروں ، مرشدوں کے چہرے پر نقاب سلامت رہتا ، سیدنا گوھرشاہی نے جہاں بھی اپنے قدم رنجا فرمائے سب سے پہلے سادہ لوح لوگوں کو ان جعلی ڈبا پیروں کی اصلیت بتائی کہ اصل صوفی پیر اور مرشد وہ ہوتا ہے جو منجانب اللہ مامور ہو اسکی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ آپ کا دل ذکر اللہ سے جاری کر دے ۔نناوے فیصد جعلی پیروں کے پاس جب لوگ یہ سوال لے کر گئے کہ ہمارا دل اسم اللہ سے جاری کر دیں تو جعلی پیر حیران ہوگئے کہ ذکر قلب کون سی تعلیم ہے ۔ سیدنا گوھر شاہی کی ان ہی باتوں کی وجہ صوفیت کا جعلی لبادہ اوڑھ نے والے ننگے ہوگئے ، ڈبا پیروں اور جعلی صوفیوں نے اپنی دکانیں بند ہوتی دیکھیں تو منظم ہو کر سیدنا گوھر شاہی کے خلاف دشمنی کا محاذ گرم کر لیا۔اس کے علاوہ پاکستان میں نام نہاد دینی عالموں نے دین کے نام پر اپنا راج بڑے دھڑلے سے قائم کیا ہوا تھا ، ڈبا پیروں کے بعد سیدنا گوھر شاہی نے ان علماء سو کی قلعی کو بھی کھول کر رکھ دیا۔
باوجودیہ کہ اللہ کی طرف سے دین اسلام میں فرقہ بنانے کا کوئی حکم نہیں تھا جیسا کہ عیسائیت میں ہم فرقے دیکھتے ہیں کسے خبر کہ عیسائیت میں جو فرقہ بن گئے وہ قانون الہی کے تحت بنے ہیں یا لوگوں نے خود بنا لئے، اس کے علاوہ آج کتاب مقدس بائیبل کے ہزاروں الگ الگ نسخے موجود ہیں ۔اللہ کی طرف سے دین کو درست کرنے کا ایک نظام تھا کہ جس میں مجدد دین میں ہونے ولی تبدیلی کو اس طرح درست کرتے کے وہ تبدیلی دین کا ہی حصہ کہلاتی ۔جب سیدنا گوھر شاہی منجانب اللہ لال باغ سے دنیا میں ڈیوٹی پر مامور ہوئے تو ایک دن حیدرآباد کی ہائی وے پر جا کر چوبیس گھنٹے گزارےاور اس دوران وہاں سے گزرنے والے ہزاروں انسانوں کا بغور جائزہ لیا آپ نے دیکھا کے لوگوں میں تو ہزاروں جنات بسے ہوئے ہیں ۔ اب یہ وہ دور ہے جس میں لوگوں کو روحانیت میں لگانا ایسا ہی تھا جیسا کہ نالی کے بدبو دار گندے اورغلیظ پانی کو صاف کرکےپینے کے قابل بنانا۔
یقین جانیئے اس وقت انسانیت اتنی غلیظ ہوچکی ہے کہ اگر اس وقت غوث پاک بھی اس ڈیوٹی پر مامور کئے جاتے تو ایک ہی ہفتہ میں غوثیت اللہ کے حوالے کرکے اس دیوٹی سے کنارہ کش ہوجاتے۔
”یہ سیدنا گوھرشاہی کا ہی جگر ہے کہ انہوں نے یہ نہیں دیکھا آنے والا اپنے ساتھ کتنی غلاظت لایا ہے ایک مرتبہ اگر آپ نے کسی کو اپنے قدموں میں بٹھا لیا تو پھر وہ کیسا بھی ہے اسکو واپس نہیں کیا۔ یہ ہے کردار گوھر شاہی“
مذہبی رہنماؤں اورعلماء کا کام لوگوں میں دین کا شعور بیدار کرنا ہوتا ہے لیکن ہواا س کے برعکس نام نہاد مذہبی رہنماؤں اور علماء سو نے دین کے اتنے ٹکڑے کر دیئےکہ ایک ہی دین کے لوگ بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔کوئی سلفی ہیں کوئی بریلوی، کوئی سنی ، کوئی شیعہ۔پھر سیدنا گوھرشاہی نے نماز کی امامت کرنے ملاؤں کو بھی ان کی منہ پر کہہ دیا کہ ”امام از زبان صلی علی “ہوتا ہے ، اگر تم وہ نہیں تو نماز کی امامت کا بھی تمہیں کوئی حق نہیں ، اس طرح مسجدوں کے خطیب اور امام بھی سیدنا گوھر شاہی کے مخالف ہو گئے۔آپ نے اپنے پاس آنے والے لوگوں پر یہ زور نہیں دیا کہ حضور پاک پر درود شریف کے نذرانے بھیجو بلکہ جو بھی آپ کے پاس آیا اسے محمد رسول اللہ کے دیدار کی تعلیم عطا کی ۔
فرض ہے تیرا پیارے محمد کو تو اک بار دیکھ
علم سے دیکھ ، عمل سے دیکھ سوتے یا بیدار دیکھ
سمجھ میں نہ آئے گر یہ بات ،کوئی کامل شب بیدار دیکھ
پڑھ علم دیدار اُس سے پھر دیدار ہی دیدار دیکھ
(منظوم کتاب ،تریاق قلب)
کیا اس وقت کوئی ایسا ہے جو سچا مسلمان ہو اس وقت تو جو مسلمان نظر آ رہے ہیں وہ حرامی مسلمان ہیں جن کا تصوف ،اسلام اور روحانیت سے دور دور کوئی لینا دینا نہیں جن کا اسلام داڑھی سے نکلتا ہے اور سور میں گھس جاتا ہے،جو صرف اپنی بکواس سے اللہ کے دوستوں پر کیچڑ اچھالنا جانتے ہیں ۔بنے بیٹھے ہیں شیطان کے خلیفہ اور کہلاتے اللہ کی خلیفہ ہیں ۔سیدنا گوھرشاہی نے ان دینی عالموں کو للکار کر فرمایا کے جس دین پر تم عمل پیرا ہو وہ دین نہیں فتنہ ہے اس کی وجہ بھی بیان فرمائی کہ اگردین کی صرف ظاہری تعلیم پرعمل ہو اورباطنی تعلیم پرعمل نہ کیا جائے تو ایسی ظاہری تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ۔جس تعلیم میں قلب کی فقہہ شامل نہیں وہی تعلیم فتنہ بنتی ہے جس کے نتیجے میں دین اسلام میں کئی کئی فرقہ وجود میں آگئے اورشدت پسندی کو فروغ ملنے لگا اور جاہل عالم اپنے کام میں لگے ہیں اورفرقوں کے مابین شدت پسندی کی اس آگ کو مزید بھڑکائے جارہے ہیں ۔
سیدنا گوھرشاہی کی تعلیمات کی ہر فرقہ کی طرف سے بڑھ چڑھ کر مخالفت تو بہت ہوئی لیکن اس اختلاف کی خوبصورتی پر بھی ذرا سا غور کیجئیے کہ اسلام کا ہر فرقہ گوھر شاہی کےخلاف کیوں ہے ، عام طور پر سنیوں کی مخالفت شیعہ حضرات نہیں کرتے، اسی طرح سنیوں کی مخالفت صوفی بھی نہیں کرتے ، ایک احمدیوں کا فرقہ ہے جنہیں کوئی فرقہ والا اپنا دوست نہیں کہتا ۔ پوری دنیا میں سیدنا گوھر شاہی کے پیروکاروں کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس سے سب ایک جیسی نفرت کرتے ہیں بھلے وہ احمدی ہوں یا احمدیوں سے نفرت کرنے والا کوئی فرقہ ہو؟مسلمان تو اب یہ بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ احمدی تو اُنہیں گوارا ہیں لیکن محبّ گوھرشاہی گوارا نہیں ہے ۔مسلمانوں نے احمدیوں کو محبان گوھر شاہی سے اس لیے بہتر سمجھا کیونکہ احمدی بھی تو ان ہی کی طرح ہیں ۔نام سب کے الگ الگ ہیں ، کوئی ، دیوبندی ہے کوئی وہابی یا بریلوی ، کوئی شیعہ ہے تو کوئی سنی یا احمدی ، ان کے اندر تو ایک ہی تصویر آویزاں ہے اور وہ تصویر شیطان ابلیس کی ہے۔مسلمان امام مہدی کا انتظار کررہے ہیں لیکن اس کی انہیں فکر ہی نہیں کہ امام مہدی کی پہچان کیسے ہوگی۔ اگر ہم “امام مہدی” کا خطاب امام مہدی علیہ السلام سے چپکا کر رکھیں گے تو دیگر ادیان والوں کے لیے انہیں امام مہدی کے طور پر تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ دنیا تو پہلے ہی ادیان سے بیزار ہے اور دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کوئی دین ہی نہیں ۔یہی وجہ ہے ہم سیدنا گوھرشاہی کو صرف امام مہدی کے طور پر متعارف کرانے کے خلاف ہیں ۔
”سیدنا گوھر شاہی کی ہستی مبارک کی صورت میں انسانیت کو ایک عالمگیر رہنما میسر آیا ہے اگر ان سے مل کر آپ کو رب مل گیا تو آپ کا کام ہو گیا ۔سیدنا گوھر شاہی نے لوگوں کو مذہبی بننے کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ آپ لوگوں کوروحانی بننے کی تعلیم دے رہے ہیں “
واقعہ: ہمارے ایک ساتھی کے گھر ایک شخص ایک سفید فام امریکی خاتون کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی غرض سے لایا اس ساتھی نے انہیں کہا چند دن بعد آنا ہمارے مرشد امریکہ تشریف لا رہے ہیں وہ اس خاتون کو مشرف بہ اسلام فرمائیں گے1986 میں جب سیدنا گوھر شاہی امریکہ کے دورے پر گئے تو وہ خاتون پھر آئیں آپ نے اُس سے پوچھا تمہیں دین چاہیے یا رب ، اس نے کہا مجھے رب چاہیے ،آپ نے اُس عورت کو کہا پھر تمہیں دین کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سیدنا گوھر شاہی نے لوگوں کو مسلمان نہیں بنایا بلکہ دین میں الجھا ئے رکھنے کے بجائے براہ راست اللہ کو پانے کی تعلیم دی۔یہ ہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے مذہبی اسکالر ہوں یا ڈپلومہ والے اسکالرز سب ہی نے سیدنا گوھر شاہی کے خلاف بولنا شروع کر دیا کیونکہ آپ کی موجودگی اُن کی دکانیں بند کرا رہی تھی، اِس سے پہلے کے وہ مکمل تباہ ہو جاتے تمام فرقہ بھلے وہ سنی ، وہابی، سلفی ، دیو بندی، بریلوی ، گرین پگڑی والے ، سفید پگڑیوں والے جو بھی ہوں سب نے سیدنا گوھر شاہی کے خلاف اتحاد کر لیا ۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ پولیس ، آرمی، حکومت، سیاست دان ، سیکریٹ سروسسز ، کسٹم والے سب ادارے سیدنا گوھر شاہی کے مخالف ہو گئے۔کیونکہ آپ نے ببانگ دہل اُن عناصرکی نشاندہی فرمائی جو معاشرے کے بگاڑ کا موجب تھے ۔ آپ نے فرمایا “فرد معاشرے کی اکائی ہے ،جس معاشرے میں بُرے لوگ تعداد میں بڑھ جائیں تو وہ معاشرہ بگڑ جاتا ہے اگر معاشرہ کو ازسر نو دُرست کرنا ہے تو سب سے پہلے انسان کے دل کو پاک کروجب دل ٹھیک ہو جائے گا تو معاشرہ ازخود درست ہوجائے گا، ابھی لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے۔لیکن لوگوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
عالم انسانیت کو نصیحت:
مندرجہ بالا جتنے بھی فرقوں اور اداروں کی نشاندہی کی گئی ہے سب نے ملک کے صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح صحافی بھی آپ کے خلاف ہو گئے اور سیدنا گوھر شاہی کے خلاف جھوٹی افواہوں کی ملک گیر مہم چلائی تاکہ لوگوں تک اصل بات نہ پہنچ سکے ،آپ کے الفاظ توڑ موڑ دئیے گئے ،عوام کو یہ بھی کہا گیا کہ گوھر شاہی نماز سے بھی روکتے ہیں ، داڑھی رکھنے سے بھی منع کرتے ہیں ، بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر تم ذکر کرتے ہو تو باقی سب خیر ہے اب شراب بھی پی لو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔جب لوگوں نے سیدنا گوھر شاہی سے یہ سوال کیا کہ آپ نماز کے لیے کیوں نہیں کہتے تو آپ نے فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ جو بات قرآن نے ہر مسلمان پر فرض کی اور ہر مسلمان کویہ خود معلوم ہے کیا اس کو پڑھنے کے لیے ہماری اجازت کی ضرورت ہے؟ دوسری بات کے اُس نماز کے پڑھنے کا کیا فائدہ جسے اللہ منہ پر دے مارے گا اور بجائے فائدے کے نقصان ہو اور تمہارا اللہ پر ایمان کھٹائی میں پڑجائے ۔ کیونکہ دل کی حاضری کے بغیر نماز ریا کاری ہے ۔سیدنا گوھر شاہی کا فرمان ہے “ذکر و نماز دین اسلام کے دو پر ہیں ایک پر سے پرندہ اڑ نہیں سکتا”۔کوئی بھی سمجھ دارانسان سنی سنائی بات پر کسی سے مخالفت نہیں کرتا۔ سیدنا گوھرشاہی سےاختلاف کرنے سے پہلےدیکھ لیں کہ اس میں آپکا ذاتی مشاہدہ کتنا ہے۔ اگرسیدنا گوھر شاہی کے بارے میں جاننا ہےتواس کے لیے سیدنا گوھر شاہی کی تعلیم کوآزمائیں ۔