- 871وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
انسانوں کا بیٹا اور اللہ کا بیٹا ہونے سے کیا مراد ہے؟
مسلمان ہم سے سوال کرتے ہیں کیا اسلام میں کرسمس منانا جائز ہے؟ مسلمان قوم کا المیہ ہے کہ ان کو اپنے ہی دین کی ضروری معلومات بھی نہیں ہیں لیکن ان کی اکڑ کا یہ عالم ہے کہ جس چیز کی انہیں معلومات نہیں اس چیز کو یہ حرام سمجھتے ہیں ۔بحیثیت مسلمان ہر مسلم کو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی ومرسلین پر نہ صرف ایمان لانا ہے بلکہ جو تعلیم وحی کی صورت ان پر نازل ہوئی ہے اس تعلیم پر بھی ایمان لانا ضروری ہے ورنہ آپ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتے ۔
عیسیٰٰ علیہ صلوة السلام کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں بہت سے مسلمان کہتے ہیں کہ عیسیٰٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں ، مسلمان خدا کے بیٹے سے مراد وہی لے لیتے ہیں جس طرح انسانوں کے بیٹے ہوتے ہیں ، لیکن اگر یہ کہیں کہ جس طرح انسان کو دیکھنے کی طاقت حاصل ہے کیا اللہ کو بھی وہی طاقت حاصل ہے؟ تو سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی دیکھنے کی طاقت مختلف ہے اور انسان کے دیکھنے کی طاقت مختلف ہے بالکل اسی طرح اللہ کا بیٹا ہونا اور انسان کا بیٹا ہونا بھی مختلف بات ہے جس کا سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ خاص طور پر سلفی، وہابی ، دیوبندی اپنے آپ کو فرزندانِ توحید کہتے ہیں ۔ فرزندانِ توحید کا مطلب ہے توحید کے بیٹے، اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ لوگ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کیوں کہہ رہے ہیں ؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہمارا وہ مطلب نہیں ہے ، تو کیا ان لوگوں نے عیسائیوں سے پوچھا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو کن معنوں میں خدا کا بیٹا کہتے ہیں ؟مسلمان اپنے ذہن سے ایسی باتیں گھڑ لیتے ہیں کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو پھر ان کی کوئی بیوی بھی ہو گی ،انسان کو اولاد کے لیے بیوی کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت اس لیے ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کے لیے ایک مختلف طریقہ بنا کر دیا ہے، شوہر اور بیوی کا ملاپ ہونا یہ طریقہ انسان کا ایجاد کیا ہوا طریقہ نہیں ہے یہ طریقہ اللہ کی ایجاد ہے اس کو عمل تولید کہتے ہیں انسانوں میں نسل اس طرح چلتی ہے، بہت سے جانوروں کے لیے بھی یہی طریقہ ہے لیکن کچھ جانوروں میں عمل تولید کا یہ طریقہ نہیں ہے جس طرح مور اور مورنی میں افزائش نسل کے لیے مورنی مور کی آنکھ کے آنسو پینے سے حاملہ ہو جاتی ہے۔اسی طرح اگر کہا جائے اللہ کا بیٹا تو اس کا طریقہ مختلف ہو گا، پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کا جسم انسان کی طرح نہیں ہے، دوسری بات یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بی بی مریم کے یہاں پیدا ہوئے تو ان کا جو جسم ہے وہ بی بی مریم کا بیٹا ہو گیا تو پھر خدا کا بیٹا کس چیز کو کہہ رہے ہیں ؟ یہ بات نہ عیسائیوں کو معلوم ہے نہ مسلمانوں کو معلوم ہے۔
روحِ قدس کیا ہے ؟
عیسائیوں میں ہولی ٹرینٹی (Holy Trinity)کا تصور موجود ہے اس سےیہ مراد لیا جاتا ہے کہ اس میں فادر، سن، اور روح مقدس ہے۔ ہولی ٹرینٹی کو اردو میں ثلاثہ مقدس بھی کہا جاتا ہے ۔اس ثلاثہ مقدس میں فادرسے مراد خداوند،سن سے مرادبیٹا یعنی فرزند یسوع مسیح ہے تو یہ روح مقدس کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے ، کیا یہ عیسٰی علیہ السلام کی ہی روح ہے؟اگر یہ عیسیٰٰ علیہ السلام کی ہی روح ہے تو اس کو عیسیٰٰ کیوں نہیں کہتے روح مقدس کیوں کہتے ہیں ؟ یہ روحِ قدس ہے اور اس کا اسم “یا قدوس” ہی عیسائیوں کو عطا ہوا ۔ جب عیسائی “یا قدوس “کو ذکر کرتے ہیں اور وہ روح عیسیٰ علیہ السلام میں آئی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ خدا کی طرف سے ہی آنے والی چیز ہے اور اگر کوئی چیز خدا ہی کی طرف سے آئی ہے اور اس کا ذکر خدا کہہ کر کر رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ وہ روحِ قدس خدا ہی کی روح ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عیسیٰٰ کے کلمہ میں بھی لا الہ الا اللہ عیسیٰ روح اللہ ہے۔ عیسیٰٰ روح اللہ کا اشارہ روحِ قدس کی طرف ہے۔ وہ روحِ قدس کیا ہے؟
“روحِ قدس رب کے جسم سے نکلا ہوا ایک جرثومہ ہے جو روح کی شکل اختیار کر گیا اس کا نام روحِ قدس ہے اور اس روحِ قدس کو ہی خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے اور یہ بس کہنے کی حد تک ہی ہے جبکہ وہ روح خدا ہی ہے”
اسی طرح کے جرثومے کرشن بھگوان کے جسم میں تھے اس لیے ان کو دیوتا کہا گیا اسی طرح کے جرثومے عزیر علیہ السلام کی بیٹیوں میں تھے لہذا ان کے یہاں خدا کی اولاد کا تصور آیا عزیر علیہ السلام کی بیٹیاں نبی نہیں تھیں نبی کی بیٹیاں تھیں اگر وہ نبی ہوتیں تو یہ یہودی ان کی امت کہلاتے لیکن عورتیں نبی نہیں ہوتیں لیکن انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم خدا کی بیٹیوں کی اُمت ہیں تو اللہ نے اس کو رد کیا۔ اگر تم خدا کی بیٹیوں کی امت ہو تو خدا تم پر عذاب کیوں بھیجتا ہے یعنی وہ چیزیں بنی اسرائیل کی امت میں آئیں کہ جنہیں خدا کی بیٹیاں کہا جاتا ہے لیکن یہ ان کی بیٹیوں کے امتی نہیں تھے کیونکہ وہ نبی نہیں نبی کی بیٹی بن کر آئیں تھیں ۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّـهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم
سورة المائدة آیت نمبر 18
ترجمہ : اور یہود اور نصارٰی نے کہا ہم اﷲ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ آپؐ فرما دیجئےکہ اللہ پھرتمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟
آج کے مسلمان کا کُلی تکیہ قرآن پر ہے ، قرآن مجید آخری کتاب ضرور ہے لیکن حرف آخر نہیں ہے، اگر قرآن حرف آخر ہے تو پھر بتائیں کہ قرآن پاک ہی میں اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کو علم لدنی عطا کرتا ہےاگر سب کچھ قرآن میں ہی ہے تو اللہ علم لدنی کیوں دیتا ہے؟
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا
سورة الکہف آیت نمبر 65
اگر سارا کا سارا علم قرآن میں موجود ہے تو مختلف معاملات پر یہ مولوی اجتہاد کیوں کرتے ہیں ؟یہ کہتے ہیں کہ جو چیز قرآن یا حدیثوں میں نہ ہو تو اس پر علماء کی رائے لے کر اجتہاد کرتے ہیں ۔ان مولویوں کی روش شروع ہی سےاتنی منافقانہ رہی ہے کہ ایک طرف کہتے ہیں کہ سب کچھ قرآن میں موجود ہے دوسری طرف اجتہاد اس لیے کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ قرآن میں نہیں ہے۔
عیسیٰ امام مہدیؑ کے ہاتھ پر بیعت فرمائیں گے:
عیسیٰ علیہ السلام کی ہستی کے دو رخ ہیں ایک رخ بطور رسول ہے جو کہ ابن مریم یعنی بی بی مریم علیہ السلام کا بیٹا ہے اور ان کی ذات کا ایک رخ یا تعارف اسلام کی نظر میں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عیسیٰٰ علیہ السلام کو چوتھے درجے کی نبوت دے کر رسول بنا کر بھیجا ہے اور نبوت کے تین سال ہونے سے پہلے انہیں جسم سمیت اوپر اٹھا لیا اور دوہزار سالوں سے وہ عالم بالا میں موجود تھے اور امام مہدی علیہ السلام کا انتظار کر رہے تھے، اب عیسیٰ علیہ السلام نے امام مہدی علیہ السلام کے دور میں دوبارہ آنا ہے ،امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت ہونگے ،اللہ کا دیدار کریں گے اور ان کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہو گی کہ جب امام مہدی علیہ السلام کا دجال سے مقابلہ ہو گا تو امام مہدی علیہ الصلوة السلام فی نفسہی اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام اس لشکر مہدی کے سپہ سالار ہوں گے۔ اُس دور کے لیے بائیبل میں آیا کہ عیسائی سمجھتے ہیں کہ میں پیار و محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں ایسا نہیں ہے میں تو ہاتھ میں تلوار پکڑ کر آیا ہوں ، بائیبل کی یہ بات عیسیٰٰ علیہ السلام کے دوسرے دور کے لیے ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں تو تلوار اٹھائی ہی نہیں ان باتوں کو آپ نے سمجھنا ہے۔ایسا اولعزم پیغمبر جس کو اللہ نے جسم سمیت عالم بالا کی طرف اٹھا لیا جو دو ہزار سال تک وہاں مقیم رہا ، جن کے جسم میں روحِ قدس بھی موجود ہے اور ان کی اس دنیا میں پیدائش بھی کرشماتی طور پر ہوئی ہے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں عیسیٰ علیہ السلام وہ واحد نبی ہیں کہ جن کے لیے اللہ تعالی نے قانون میں تبدیلی فرما دی۔ ہر نبی نے اس دنیا میں آ کر چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کیا لیکن جب پیدائش کے بعدعیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بی بی مریم سے لوگوں نے پوچھا یہ کہاں سے آیا تم کو تو کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا تو عیسیٰ علیہ السلام نے شیر خوارگی میں ہی اپنی زبان سے ان کے سوالات کے جواب میں کہا کہ میں اللہ کا نبی اور رسول ہوں ۔
آپ ذرا غور تو کریں کہ عیسیٰ علیہ السلام اتنی بڑی ذات ہیں اور وہ آ کر امام مہدی علیہ السلام کے مرید ہو جائیں گے تو امام مہدی پھر کیا ہوں گے جب عیسیٰ علیہ السلام جیسے نبی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے جن کے لیے اللہ نے قرآن میں مقربین کا لفظ استعمال کیا، امام مہدی علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام کے مرشد ہوں گے تو وہ کونسا فیض ہوگا جو عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی سے حاصل کریں گے؟ اب پھر امام مہدی کی عظمت و شان کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے تو کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امام مہدی نبیوں کے بھی پیر ہونگے اور اگر یہ شرف آپ کو بھی حاصل ہو جائے کہ آپ بھی امام مہدی کے غلاموں میں ہوں تو پھر عیسیٰٰ علیہ السلام آپ کے پیر بھائی ہو جائیں گے جہاں سے عیسیٰ علیہ السلام کو فیض ہو رہا ہے وہیں سے آپ کو بھی فیض ہو رہا ہے
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اسلام میں کرسمس منانا جائز ہے یا ناجائز ؟
یحیی علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے کہ مبارک ہے وہ دن کہ جب اس کی ولادت ہوئی اور مبارک ہوگا وہ دن جب اس کا انتقال ہوگا اور مبارک ہوگا وہ دن جب اس کی بعثت ہوگی۔ پیدائش کے دن ، پیدائش کے لمحے کو ایک سعادت کہا ہے، سعادت کا عربی زبان میں معنی ہے خوشی۔ جب ہم لفظ باعث سعادت استعمال کرتے ہیں تو ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ کوئی روحانی عطا والی بات ہے، سعد کا معنی خوشی ہے۔ جب ان کی پیدائش کے لمحے کو اللہ نے سعد لمحہ قرار دیا ہے تو لوگ خوشی منائیں گے یا تو کوئی یہ بتا دے کہ یحیی علیہ السلام کی یوم پیدائش تو باعث سعادت ہے لیکن عیسیٰ کا لمحہ ولادت خوشی کا باعث نہیں ہے یا حضور پاکؐ کا لمحہ پیدائش خوشی والا نہیں ہے، یہ تو سمجھ کی بات ہے۔
ہم عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لا رہے ہیں ان کی تعلیم پر بھی ایمان لا رہے ہیں تو جب وہ لمحہ جب وہ پیدا ہوئے ہیں تو کیا وہ لمحہ آپ کے لیے باعث خوشی نہیں ہے؟ اگر آپ ان کی پیدائش کے دن کسی کو(Merry Chritsmas) بول دیتے ہیں ، (Merry) کا مطلب خوشی لیتے ہیں جبکہ (Merry) کا مطلب ہےخوشی میں ایسے سرشار ہونا کہ ایک نشے کی کیفیت ہو یعنی مسحور کن اور مسرور کن اور(Christmas) کا لفظ نکلا ہے) (Christ سے اور (Christ) نکلا ہے (Anointed) سے یعنی مبعوث کیا ، مامور کیا۔ میری کرسمس کا یہ مطلب ہے کہ جس کو اللہ نے مبعوث کیا ہے اس کی خوشی منائو۔ اب اللہ نے جس کو مامور کیا ہے اس کی خوشی منائو والی بات اسلام میں جائز ہے یا ناجائز ہے اس کا اندازہ اب آپ خود لگا لیں ۔
اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کی خوشی منانے کا اللہ کہہ رہا ہے وہ بات اسلام میں ناجائز ہو؟ اسلام کا خدا کوئی اور نہیں ہے اسلام کا خدا بھی وہی ہے جو موسی علیہ السلام کا خدا ہے ،جو شمعون علیہ السلام کا خدا ہے ، جو ابراہیم، اسحاق ،یعقوب کا خدا ہے وہی ایک ہی تو خدا ہے ، خدا دو تو نہیں ہیں اگر اللہ کو عیسیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کی خوشی ہے تو آپ کو کیوں نہیں ہے؟نبیوں سے بغض کیوں ہے انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج مسلمان قوم لعنت کی زد میں ہے در بد کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ان کا سب کچھ فروخت شدہ ہے اس قوم کا ضمیر مر چکا ہے ان کے اندر شعور نامی کوئی چیز باقی نہیں بچی ،کیونکہ ان کے سینوں میں شیطان بیٹھا ہے وہ جو نور توحید تھا ، وہ جو شمع رسالت کا نور تھا وہ ان کے سینوں سے خارج ہو گیا اب ان کے سینے بت خانےبن گئے ہیں ، امت محمؐد کا تصور اب خال خال ہی نظر آئیگا، یہ امتی ہونے کے قائل ہی نہیں ہوئے، حضور پاکؐ سے آج کے مسلمان کا کوئی جذباتی تعلق باقی نہیں بچا ۔ حضور پاک کی ذات سے آج کے مسلمان کا ایک رسمی سا تعلق نظر آتا ہے، جیسے کاغذی کاروائی ہوتی ہے کہ ہم نے کہہ دیا کہ وہ ہمارے نبی ہیں اور یہ کافی ہے یہی وجہ ہے کہ یہ برباد ہو گئے کیونکہ
محمدکی محبت ہی دین حق کی شرط اول ہے۔۔۔۔اسی میں ہواگرخامی توسب کچھ نامکمل ہے
بمصطفی برساں خیشت راکہ دیں ہمہ اوست۔۔۔۔اگر بعو نہ رسیدی تمام بولہبی ایست
مندرجہ بالا پیغام نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر نے26 دسمبر 2017 کوکرسمس کے موقع پر تمام مسیح برادری اور اہل اسلام کو دیا ہے۔