کیٹیگری: مضامین

کسی نے سوال میں ایک حدیث کے بارے میں پوچھا ہے، ہم سمجھتے ہیں اس حدیث میں جہاد کے طرف بھی اشارہ ہے جو کہ ایک ایسی بات ہے جسکی تشریح ناگزیر ہے وہ حدیث یہ ہے کہ

وَعَنْ اَنَسٍ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلَاثٌ مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ الْکُفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلِ وَ الْجِھَادُ مَاضٍ مُذْبَعَثَنِیَ اﷲُ اِلٰی اَنْ یُقَاتِلَ اٰخِرُ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ الدَّ جَّالُ لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَ الْاِیْمَانُ بِالْاَقْدَارِ
(روای ابوداؤد)
ترجمہ : اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں (١) جو آدمی لا الہ الااللہ کا اقرار کرے اس سے جنگ و مخاصمت ختم کر دینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگاؤ (٢) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے جہاد ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ اس امت کے آخر میں ایک آدمی آکر دجال سے جنگ کرے گا۔ کسی عادل (بادشاہ) کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ لے کر جہاد ختم نہیں کیا جا سکتا (٣) اور تقدیر پر ایمان لانا۔

اس حدیث کے پہلے حصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو اللہ کی الوہیت پر یقین رکھتا ہو بھلے وہ کوئی ہو کیونکہ یہودی اور عیسائی بھی اللہ پر یقین رکھتے ہیں تو اُن سے جنگ نہیں کر سکتے یہ حضور ﷺکا حکم ہے۔ اس حدیث میں محض کلمہ کا پہلا جز لا الہ الا اللہ ہی لکھا ہوا ہے ، کلمہ کے دوسرے جزو محمد رسول اللہ کی بات نہیں کی اس سے معلوم ہوا کہ مذہب کی قید نہیں ہے، لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے والے کے کسی گناہ کی وجہ سے اسکو کافر مت کہنا ۔
دوسرے حصے میں امام مہدی کی طرف اشارہ ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس حدیث میں بہت گڑبڑ ہے ،حدیث میں لکھا ہے کہ جہاد ہمیشہ جاری رہیگا یہ بہت نازک اور اہم بات ہے اسکو سمجھنا بڑا ضروری ہے،مثال کے طور پرجب تک آپ کھانا کھاتے رہیں گے رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ میں آنا جانا لگا رہے گا بلا ضرورت تو کوئی بھی ٹوائلٹ نہیں جاتا، اسی وقت جائیں گے جب حاجت محسوس ہوگی۔ اس حدیث کے مطابق جہاد ہمیشہ جاری رہیگا سے مراد ہے کہ ایسے واقعات و حالات ہر دورمیں ہوتے آئیں گے کہ جن میں جہاد کرنا پڑے گا، ایسا نہیں ہے کے جہاد کے مخصوص حالات کے بنا ءہی آپ لوگوں کو مارنا شروع کردیں ، جہاد اتنا ہی ناگزیر تھا توعبد الوہاب نجدی جیسے حرامیوں کو مار دیا جاتا تاکہ دین میں فتنہ تو نہ پھیلتا ،آج ہم ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں جہاں نہ امت باقی ہے نہ اسلام باقی ہے تو جہاد کہاں باقی ہوگا؟ مثال کے طور پر کھانا کھاتے رہو گے ٹوائلٹ جاتے رہو گے جس طرح مردہ شخص اٹھ کر ٹوائلٹ نہیں جا سکتا ، اسی طرح یہ اسلام بھی ختم ہوگیا ہے ،قرآن اٹھا لیا گیا، امت کا کوئی وجود باقی نہیں تواب کیا کافر جہاد کریں گے؟
اس حدیث میں جہاد کو جس طرح بیان کیا جا رہا ہے وہ الفاظ حضور پاک ﷺکےنہیں لگ رہے، یہ وہ دور ہے جب اسلام باقی ہی نہیں ہےنہ امت کا وجود ہےتو اب جہاد کون کرے گا اور کس سے کرے گا؟ آج دین کہاں ہے آج تو لوگوں نے دین کو لیکر اپنی اپنی رائےقائم کر رکھیں ہیں ۔حالانکہ فتح مکہ کے بعد جب مسلمان پاور میں آ گئے اب نہ غزوہ تھا نہ جہاد کیونکہ جہاد تو بقائے دین کی خاطر کیا جاتا تھا ،فتح مکہ ہو چکا تھا ہر طرف امن تھا چونکہ مخالفت تھی نہیں لہذا جہاد کی ضرورت بھی نہیں تھی جب ان کی تلواروں کو زنگ لگنے لگ گیا توصحابہ کرام بے چین ہوکرحضور سے پوچھنے لگے یا رسول اللہ جہاد کب ہوگا تو حضورﷺ نے فرمایا

رجَعْنا من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر
(حدیث)
ترجمہ : چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹو۔

ملا علی قاری، ابو قاسم نیشا پوری، جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے جامع صغیر میں یہ فرمایا ہے کہ حضور کی طرف سے یہ واضح اعلان تھا کہ اب جہاد بالسیف (تلوار سے جہاد)ختم کر دیا گیا ہے اب جہاد بالنفس(اپنے نفس سے جہاد)کی طرف جانا ہے۔صحابہ کرام حیران ہو کر پوچھنے لگ گئے یا رسول اللہ بڑا جہاد کیا ہے؟ حضور نے ارشاد فرمایا تلوار سے دشمنوں کی گردن اُتارنا جہاد اصغر یعنی چھوٹا جہاد ہے، اس کو اصغر اس لیے کہا کیونکہ تمہارا دشمن تمہارے سامنے ہے، جہاد اکبر یعنی بڑا جہاد اس دشمن کے خلاف ہے جو نظر نہیں آتا ، نہ صرف نظر نہیں آتا بلکہ وہ تمہارے ہی اندر بیٹھا ہوا ہے وہ جہاد بالنفس ہے، بہت سے بزرگان دین نے بھی اس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنا موقف یہ رکھا کہ جہاد بالسیف ختم ہو گیا ہے۔

جہاد کی اقسام اور تشریح:

جہاد اپنے بچاؤ کے لیے کرتے ہیں ، پوری دنیا میں خواہ وہ مشرک ہو یا کافر ،اپنے بچاؤ کا نہ صرف قائل ہے بلکہ ایمان رکھتا ہے۔ یعنی اگر سامنے والا آپ کو جان سے مارنے پر تلا ہوا ہو اور آپ کو یہ لگے کہ میں نے وار نہیں کیا تو مجھے مار دے گا اوراس دوران اگر وہ بندہ مر جائے تو یہ اپنا بچاؤ کہلائے گا۔اسلام کے اوائلی دور میں جب جب اسلام کو خطرہ ہوا تو دین کی بقا کی خاطراللہ کی طرف سے جہاد کا حکم تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس دور میں جہاد جب بھی ہوا تو وہ اپنے اور دین اسلام کے بچاؤکی خاطر ہوا اور اس جہاد میں کبھی بھی حملہ کرنے میں پہل نہیں کی جاتی تھی۔ جو لوگ جہاد سے مراد ہلا بول دینا، حملہ کرنا سمجھتے ہیں وہ حضور پاک کے اس قول کی توہین کر رہے ہیں ۔ حملہ کرنے کا مطلب ہے آپکی نیت خراب ہےاور یہ غلط ہے۔
اسلام کو بیرونی طاقتوں سے خطرہ نہیں ہے کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کو یہودیوں سے خطرہ ہے، یہودی ہوں یا عیسائی انہوں نےاسلام میں کونسا بگاڑ پیدا کیا ہے؟ اسلام میں بگاڑ تو خود مسلمانوں کا پیدا کیا ہوا ہے ،انسانوں کی فطرت ہے کہ جب بھی کوئی الٹا سیدھا کام ہو جائے تو انکی حتی الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسکا الزام کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے مسلمان بھی انہی میں شامل ہیں ۔

علماء کرام دین اسلام میں فرقوں کا انکار کرتے ہیں :

جب لوگ مولویوں سے سوال کرنے لگےکے براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کونسا فرقہ درست ہے کونسا نہیں تو ان مولویوں نے یہ کہہ کر راہ فرار لی کہ انکو فرقے نہ کہو کیونکہ یہ فرقے نہیں بلکہ مختلف مکاتب فکر ہیں ، مثال کے طور پر وہابی دیو بندی مسلک یہ ایک الگ مکتبہ فکر ہے، اور مختلف مکاتب فکر سے فروعی اختلافات ہیں ، لفظ فروعی کا اصل لفظ فرع ہے جو کہ عربی زبان کا لفظ ہے فرع کا معنی ”شاخ “ہے۔فروعی اختلاف سے انکی مراد اسلام کے بنیادی اصولوں پر تو تمام فرقے متفق ہیں سب کا اجماع ہے لیکن اس سے آگے دین اسلام کے جو مختلف مسائل ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد سے براہ راست متصادم نہیں ہوتے ان میں انکے مابین اختلافات ہیں ۔مثال کے طور پر دوران نماز ہاتھ چھوڑنا یا نہ چھوڑنا ، مونچھوں کو بالکل صاف کروا دینا یا ترشوانا جیسی چیزوں کو انہوں نے فروعی اختلاف کا نام دے دیا ،اسے وہ فرقہ واریت نہیں کہتے اور اسی بات پر مصر ہیں کہ اسلام میں تو کوئی فرقہ ہی نہیں ہے یہ تو مختلف مکاتب فکر ہیں ۔
ایک مکتبہ فکر شافعی کہلاتا ہے جو امام شافع کی تقلید میں ہے دوسرا مکتبہ فکر مالکی ہے جو امام مالک کا ماننے والا ہے اسی طرح حنبلی مسلک ہے جو امام احمد بن حنبل کی پیروی میں ہے ، یہ مکاتب فکر نہیں ہیں بلکہ یہ فرقے ہی تو ہیں ۔ سب مکاتب فکرکا اس پر اتفاق ہے کہ فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے لیکن خود کو فرقہ نہیں سمجھتے مکاتب فکر کہتے ہیں۔
ایک فرقہ کہتا ہے معاذ اللہ حضور توعام انسان کی طرح ہیں دوسرا مکتبہ فکر حضور کو اللہ کے برابر میں بٹھا دیتا ہے یہ فکر (سوچ) کہاں سے آئی؟ کیا اللہ یا اسکے رسول کی طرف سے آئی ؟ اب اسلام کا تو کوئی وجود باقی نہیں بچا ۔ ایک بات پکڑی ہوئی ہے کہ جہاد جاری رہے گا ، منع کس نے کیا ہے جب ضرورت پڑے تو کرو جہاد ، لیکن ضرورت ہے کہاں ؟ اگر وہابی یہ سمجھتا ہے کہ بریلوی ، سنی اور صوفیوں نے دین میں شرک پھیلا دیا ہے لہذا اب یہ سچے مسلمان نہیں ہیں انکو مار دو تو یہ بات اسلام کے نکتے کے خلاف ہے ، اللہ تعالی نے سب کا حساب کتاب لینے کا ایک دن مقرر کیا ہوا ہے جس کو یوم محشر کہتے ہیں ۔ اگر کوئی کسی کے خلاف کچھ کرتا ہے تو یہ عمل حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے جبکہ کچھ گناہ اللہ کے خلاف ہوتے ہیں جنکا حساب کتاب صرف اللہ ہی لے سکتا ہے ، آپ تو دلوں کا بھید نہیں جانتے ، دلوں کا بھید ایک ایسی بات ہے جو نبی بھی نہیں جان پائے،موسی علیہ السلام کے دور کا واقعہ ہے کہ آپ کا کہیں سے گزر ہوا تو دیکھا ایک شخص آسمان کی طرف منہ کر کے کہہ رہا ہے اےا للہ اگر تو زمین پر آجاتا تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کرتا، تیری آنکھوں میں سرمہ لگاتا ، تجھے اپنی بکریوں کا تازہ تازہ دودھ پلاتا ، موسی علیہ السلام نے یہ باتیں سنی تو انکوغصہ آ گیا کہ کیسی بے ہودہ باتیں کر رہے ہوان باتوں سے تو تم اللہ کو مزید ناراض کر دو گے تو وہ ڈر گیا رونے اور توبہ کرنے لگا کہ اللہ مجھے معاف کر دے۔ اسکے بعد جب موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر جانا ہوا تو اللہ تعالی نے کہا ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا اے موسی میں نے تمہیں دل جوڑنے کے لیے بھیجا تھا اور تم نے دل توڑ دیا میں اس بندے کے الفاظ تھوڑی دیکھ رہا تھا میں تو اسکے جذبات دیکھ رہا تھا جن میں میرے لیے محبت تھی لیکن تم نے تو اسکا دل توڑ دیا ۔
ایک اولعزم رسول ایک عام آادمی کے دل میں کیا ہے نہیں جان پایا اور آپ کو لوگوں کے کفر اور شرک کا پتا چل گیا اور اس کو بہانہ بناکر لوگوں کو مار رہے ہیں تو اگر یوم محشر میں معلوم ہوا کہ وہ تو کافر یا مشرک نہیں تو آپ کا یوم محشر میں کیا ہو گا؟ آج جہاد کے نام پر جو ہو رہا ہے وہ جہاد نہیں نفسانیت اور شہوانیت ہے ، یہ جہادی نہیں شہوانی ہیں جہنم کے کتے ہیں ۔ نہ ہی یہ اسلام میں ہے اسلام کو manipulate کیا گیا ہے۔ اسلام تو جاہل بدو اور جنگجو قوم کے لیے اتارا گیا تھا جن کے دل پتھروں کی طرح سخت تھے، بات تک کرنے کی تمیز نہیں تھی صرف تلوار چلانا آتی تھی ، جس کا دل پتھر کی مانند سخت ہو وہ کسی سے ہمدردی نہیں رکھتا لہذا اللہ نے انکے مزاج کے مطابق سخت ترین شریعت اتاری کہ چوری کی تو ہاتھ کاٹ دو ، آنکھ پھوڑی تو بدلے میں اسکی بھی آنکھ پھوڑ دو، گناہ کیا تو کوڑوں کی سزا ہے، یقین کریں یہ قوم اور اس قوم سے جڑی جتنی بھی فروعی قومیں ہیں اگر انکی گالی کے جواب میں انکے پورے خاندان کو گالی نہیں دینگے تو وہ راشن لیکر آپ پر چڑھ جائے گا۔
اول تو دین کی ہی سمجھ لوگوں کو نہیں آئی کیونکہ دین کو سمجھنا بہت ہی نازک کام ہے ، پھر اللہ کی اتاری ہوئی کتاب قرآن مجید کو وہ ہی سمجھ سکتا ہے جو اللہ کا ہم مزاج بھی ہو اس مقام پر تو لوگ ہیں نہیں اپنے حساب سے ترجمے کررکھے ہیں۔
قرآن مجید میں ایک جانب تو یہ لکھا ہوا ہے کہ جسکا ان تین چیزوں (اللہ پر ایمان ، آخرت پر ایمان اور عمل صالح) پر ایمان ہوا اب بھلے وہ یہودی ہو یا عیسائی ،مجوسی ہو یا صائبی اللہ تعالی کے یہاں اسکا بڑا مقام ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ نے لکھا دیا اللہ کے نزدیک تو بس دین اسلام ہے جو اگر کسی اور دین پر ہوا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا ۔اگر ان سے سوال پوچھا جائے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعے جو تین سو تیرہ دین قائم کیے گئے تھے انکے ماننے والوں کا یوم محشر میں کیا ہوگا کیونکہ اس وقت تو دین اسلام آیا ہی نہیں تھا ؟ اسکا کوئی جواب نہیں نہ ہی مسلمان یہ بات سننے کو تیار ہیں ،شاید مسلمانوں کو اسلام اس وجہ سے زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں بیک وقت چارعورتوں سے شادی کی اجازت ہے۔ آج لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ یہودی آپ کا اسلام خراب کر رہا ہے ، نہ عیسائی آپکا دین خراب کر رہا ہے ، آپ نے اپنے دین کو خود خراب کر لیا ہے اور اسکا الزام دوسروں پر ڈال رکھا ہے۔ کیا مسجدوں میں دہشت گردی کی تعلیم یہودی آکر دے جاتے ہیں ؟

متعلقہ پوسٹس