کیٹیگری: مضامین

مسلم حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ آخری وقتوں میں اسلام کا غلبہ ہو گااور اسکو خاص طور پر امام مہدی علیہ السلام کی بعثت سے جوڑتے ہیں اورکہتے ہیں کہ امام مہدی پوری دنیا میں اسلام کو نافذ کر دینگے ۔ ایسا کہا جاتا ہےلیکن اگر امام مہدی نے پوری دنیا میں اسلام کو نافذ کرنا ہے اور اُن کے آنے کا مقصد اسلام کو نافذ کرنا ہے تویہودیوں کے ہاں جو مسائح کا تصور ہے ، وہ تصور بھی تو آسمانی کتابوں سے آیا ہےکہ انہوں نے آکر یہودیت کو پوری دنیا میں نافذ کرنا ہے ۔حضرت عیسی ؑ کے حوالے سے عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ عیسائیت کو نافذ کر دینگے۔ان تمام مذاہب میں دور آخر کے متعلق یہ جو تصورات ہیں اسکی وجہ سے بڑی الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں ۔
مذاہب میں دور آخر کے متعلق نظریات بڑے پیچیدہ اور پریشان کن ہوگئےہیں ۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اسلام کی بات حق ہے اور باقی سب باطل ہے تو آپ صحیح مسلمان ہی نہیں ہیں کیونکہ اسلام میں بھی چاروں آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ،تمام انبیاء کرام پر ایمان لانا آپ کیلئے ضروری ہے ۔عیسائیوں کے پاس بھی آسمانی کتاب ہے، یہودیوں کے پاس بھی آسمانی کتاب ہے، اور وہ اپنی اپنی کتب کی روشنی میں ہی یہ بات کہتے ہیں ۔ اگر آسمانی کتب کی روشنی میں یہ نظریہ قائم ہوا ہے کہ دور آخر میں ایک ایسی ہستی آئے گی جو پوری دنیا پر کسی مذہب کو نافذ کر دے گی ،تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالی کی طرف سے دنیا میں مزید جھگڑے اور قتل و غارت کا پروگرام ہے کیونکہ اگر وہ آخری ہستی کو یہودیوں میں بھیجے گا تو اسکے پاس بھی اللہ کی پاور ہو گی اور اللہ کی طرف سے ہی آئے گا ۔یہودی اس بات کو مانتے ہیں اور اسی طرح مسلمان بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ امام مہدی اللہ کی طرف سے ہونگے۔اگر یہ دونوں اللہ کی طرف سے ہونگے تو ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اللہ مسائح کو کہے کہ تم جاکر یہودیت کو پوری دنیا میں پھیلا دو اورامام مہدی کو کہے کہ جاؤ تم ساری دنیا میں اسلام کو پھیلا دو ۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ تو اب یہ تصور کہ غلبہ اسلام ہو گا تو کیسے ہو گا؟ اسلام کے بارے میں توحضور پاک کی پیشین گوئی یہ تھی کہ

وَيُذْكَرُ عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ
(الحدیث)

کہ قرآن میں کچھ باقی نہیں بچے گا سوائے رسم تلاوت کے اور اسلام میں کچھ باقی نہیں بچے گا سوائے اسکے نام کے ، تو پھر اسلام کا غلبہ کہاں سے آگیا؟ یاد رہے کہ یہ الفاظ اس ذات پاک کے ہیں جو اس دین کا بانی ہے اور خود ہی اپنی اُمت کو پیش گوئی کر رہا ہے کہ دور آخر میں اسلام کا صرف نام رہ جائیگا لہذا کسی اور کا کہنا کہ دور آخر میں اسلام کا غلبہ ہوجائیگا کسی بھی طور صحیح نہیں ہے ۔

اسلام کی نشاط ثانیہ:

اسلامی تاریخ پڑھنے والے اس لفظ “اسلام کی نشاط ثانیہ” سے بخوبی واقف ہونگے ۔ ثانیہ کا مطلب ہے دوسرا،جسطرح ثانی ہوتا ہے ثانی کامطلب دوسرا ۔ یعنی اسکو اسلام کا دوسرا سنہری دورکہا جاسکتا ہے ۔اسلام کے غلبے کا پہلا سنہری دور تو حضور کے دور کو سمجھا جاتا ہے جب پندرہ بیس ہزار صحابہ کرام کے لشکر کو لیکر فتح مکہ ہوئی تھی جو کہ سب کے سب سپاہی تھے ۔ اس وقت سوا لاکھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور اسلام جغرافیائی طور پر ایک ملک قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جسکو اسلامی سلطنت کہا گیا ۔ اس طرح سیاسی طور پر اسلام کا پھیلاؤ ہو گیا ۔ حضور پاک کے بعد پھر قافلے بھیجے جاتے رہے وہ لڑائی جھگڑا کر کے مختلف ملکوں تک پہنچتے گئے۔لیکن ہم اس حق میں نہیں ہوں کہ آپ اپنے دین کو پھیلانے کیلئے دوسرے ملک پر حملہ کریں اور زبردستی اُنکو کہیں کہ اسلام قبول کرو یا پھر لڑنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔یہ غلط ہے اور جو قرآن نے کہا ہے اسکے بلکل برعکس ہے۔یاد رہے کہ حضور پاک کے وصال کے بعد بالخصوص عمر خطاب کے دور میں اسلامی لشکروں کو مختلف ممالک میں اس پیغام کیساتھ بھیجا گیا کہ دین اسلام اختیار کرو ورنہ جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ اور اس طرح بہت سے ممالک پر لشکر کُشی کر کے انہیں زبردستی اسلامی سلطنت میں شامل کیا گیا ۔ یہ عمل اسلامی تعلیمات کے بالکل برخلاف تھا کیونکہ اسی طرح آج کوئی غیر مسلم ملک اپنی طاقت کے بل بوتے پر کسی اسلامی ملک پر بلاوجہ حملہ کر کے کہے کہ ہمارا دین اختیار کرو ورنہ ہم تمہارے ملک پر قبضہ کرلیں گے تو ہم کو کتنا بُرا لگے گا ۔ یعنی طاقت کی بنیاد پر کسی کمزور پر زبردستی کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ۔ قرآن مجید نے تو یہ کہا تھا ؛

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 256

کہ دین میں ایسا کوئی عمل نہیں کرنا جسکو کرتے ہوئے آپکو کراہیت محسوس ہو ، مولوی لاَ إِكْرَاهَ کا جو ترجمہ کرتے ہیں وہ زبردستی ہے جو کہ صحیح نہیں ہےلاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ یعنی دین میں کوئی عمل ایسا نہیں ہے کہ جسکے کرنے سے آپکو کراہیت ہو۔ کتنی خوبصورت بات ہے یہ ۔ اور آپ دو مہینے کے چھے مہینے کے بچے کو قتل کر رہے ہیں صرف اس وجہ سے کہ اسکے والدین اسلام نہیں لا رہے ، کیا آپکو اس کام سے کراہیت نہیں آتی ؟یہ کراہیت کا عمل ہے ۔

امام مہدی وہ عمل کیسے کرینگے جس پر فرشتوں تک کو اعتراض تھا ؟

جب آپ سے حضورؐ کے دور کے متعلق پوچھا جائے تو آپ کہیں گے کہ بہترین دور تھا ، ایسا دور کسی اور کا نہیں ہو سکتا ۔ یہی کہیں گےآپ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضورؐ کے دور میں پوری دنیا پر تو اسلام کا غلبہ نہیں تھا ۔ یعنی پوری دنیا پر قبضہ ہوئے بغیر وہ اسلام کا سنہری دور تھا تو پھر یہ بات کہاں سے آ گئی کہ امام مہدی پوری دنیا پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دینگے ؟ دوسری بات جو بہت زیادہ اہم ہے خاص طور پر آپ لوگوں کو سمجھنے کیلئے وہ یہ کہ جب فرشتوں نے آدم صفی اللہ کی پیدائش پر اعتراض کیا تھا اور انکا خدشہ تھا کہ یہ پھر زمین پر جائے گا ، خون خرابہ کریگا ، دنگا فساد کریگا ، اللہ تعالی کو اگر صرف یہی مقصود ہے کہ کوئی اسکی عبادت کرے،اُسکی حمدوثنا کرے تو کیا ہم اسکی حمدو ثنا کے لئے کافی نہیں ہیں ، ہم کر لیں گے ، اس آدم کو بنانے سے بلاوجہ مزید ایک فتنہ پیدا ہو گا ، شر ہو گا ۔ اسکے جواب میں اللہ تعالی نے جو دلیل پیش کی وہ یہ تھی کہ اس دفعہ ہم آدم کو خاص علم دیں گے اور یہ عظمت میں سب سے بڑھ جائے گا ۔ جو فرقےیہ کہتے ہیں کہ اما م مہدی تلوار اٹھائیں گے ،قتل و غارت کرینگے میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ قتل و غارت کرنا تو انسان کا شیوہ رہا ہے لیکن اللہ نے جب آدم صفی اللہ کو بنانا چاہا اور فرشتوں کی طرف سے یہی اعتراض دوبارہ اٹھا تو اسکے جواب میں اللہ نے کہا کہ اس دفعہ میں اِسکو عظمت کی تعلیم دے رہا ہوں اور اب یہ خون خرابہ نہیں کرے گا ۔ وہ کیسے مسلمان ہیں جو امام مہدی کی عظمت کے بھی قائل ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ امام مہدی قتل و غارت کرینگے ۔اس نقطے پر ذرا غور فرمائیں کہ

”قتل و غارت کے رّد کیلئے تو اللہ نے آدم صفی اللہ کوعظمت والا علم دیا تھا ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان فرقے جانتے ہی نہیں کہ عظمت والا علم کیا ہے اور قرآن مجید کیا کہہ رہا ہے ، اسکی تعلیم کیا ہے ؟یعنی انکو قرآن مجید سے واقفیت نہیں ہے لہذا ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ امام مہدی سب سے بڑی ذات ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سارے غیر مسلم انسانوں کو مار دیں گے ۔ اگر امام مہدی کے پاس وہ عظمت والا علم ہو گا تب تو وہ کسی کو نہیں ماریں گے ، کسی کو قتل نہیں کرینگے کیونکہ اس قتل و غارت کو ختم کرنے کیلئے ہی تو اللہ نے آدم صفی اللہ کو عظمت والا علم دیا تھا ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ برائی اور اچھائی دونوں ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں؟“

اور پھر یہ دیکھیں کہ آدم صفی اللہ کواللہ تعالی نے جو علم دیا وہ انتہائی مختصر سا علم ہےاوروہ ہے علم الاسما،یعنی اللہ کے جو مختلف اسماء ہیں اُن سے نور بنانے کا طریقہ ،جبکہ امام مہدی کے پاس جو علم ہے وہ صرف اللہ کے ناموں سے نور بنانےکا طریقہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے جلوؤں سے نور حاصل کرنے کا بھی طریقہ ہے ۔اللہ تعالی کی نشانیاں ،قرآن مجید نے جنکو آیات الکبری ٰ کہا ہے ،وہ آیات الکبریٰ طفل نوری اور جسّہ توفیق الہی کی طرف اشارہ ہے ۔امام مہدی تو لوگوں کو جسّہ توفیق الہی سے نور حاصل کرنے کا طریقہ بھی سمجھا رہے ہیں ،طفل نوری سے نور حاصل کرنے کا طریقہ بھی سمجھا رہے ہیں اور صرف یہی نہیں کہ ناموں سے ہی نور بناتے رہو بلکہ دیدار کا علم بھی دے رہے ہیں کہ اگر تو دیدار الہی میں آگیا تو پھر نور بنانے کی بھی حاجت نہیں رہی پھر اللہ تعالی کے انوار و تجلیات جو روزانہ تین سو ساٹھ دفعہ انسان کے اوپر پڑتی ہیں وہ جاری ہوجائینگے ۔ تجلیات کی صورت میں اللہ کی طرف سے جو نور آتا ہے اسکا طریقہ بھی سمجھا رہے ہیں ۔اتنی عظمت تو آدم صفی اللہ کو نہیں دی گئی جتنی عظمت امام مہدی کو حاصل ہے ۔

تمام احسن چیزیں امام مہدی کے اندر رکھ دی گئی ہیں :

قرآن مجید میں سورۃیسین نے کہا بھی ہے ؛

وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ
سورۃ یسین آیت نمبر 12

کہ جتنےبھی خواص ہیں ، جتنے بھی درجات ہیں ، جتنی بھی عظمتیں ہیں ، اللہ کے جتنے بھی جلوہ ہائے مبارکہ ہیں ، جتنی بھی قرب کی منازل ہیں ، مراتب کے درجات ہیں ، سارے کے سارے اللہ نے امام مبین میں جمع کر دئیے ہیں ۔ اب اسکا بھی اپنا فلسفہ ہے کہ امام مبین کس کو کہتے ہیں ؟ جسطرح ضلال مبین ہوتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک اکیلی چیز یا نشانی اگر کسی میں مل جائے تو اسکے بعد نہ اسکی عبادت چیک کرو،نہ اسکا بیک گراؤنڈ چیک کرو ، وہ گمراہ ہے ، یعنی وہ ایک نشانی ایسی ہے کہ کسی کو گمراہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے اور اس نشانی کی صورت میں مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں اسکو گمراہ ثابت کرنے کیلئے ۔اسی طرح امام مبین اسے کہتے ہیں کہ جسکو ڈھونڈنا نہ پڑے،جسکی شان ایسی ہو کہ آدمی جھک جائے اور کہے کہ یہی تو امام ہو سکتا ہے ۔ اسکو ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو امام مہدی کے متعلق بتایا جائیگا تو وہ شخص پہلے سے ہی انکو جانتا ہوگا یعنی انکی شہرت پہلے سے ہی ہر شخص تک پہنچی ہوئی ہوگی ۔ پھر بھی اگر کسی کو نظر نہ آیا تو یہ وہ لوگ ہونگے جو آنکھوں سے اور دل سے اندھے ہونگے ۔

قتل و غارت گری اور عظمت والا علم دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں :

میں علمائے اسلام سے یہ پوچھتا ہوں کیا تم کو یہ بات معلوم ہے کہ قران مجید میں آدم کی تخلیق پر فرشتوں کی طرف سے اللہ کے اوپر جو اعتراض ہوا اور انہوں نے کہا کہ یہ خون خرابہ کریگا اور اللہ نے کہا کہ ہم اسکو عظمت والا علم دیں گے پھر تم اسکی شان دیکھنا ،کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل و غارت گری اور عظمت والا علم ایک دوسرے کی ضد (اور رّد ) ہیں۔آپ کیسے تصور کرسکتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں ایک ایسی ذات میں جمع ہوجائیں جنکو اللہ نے بھیجا ہو!! عام انسان کا قتل و غارت سے پیچھا چھوٹ جائے اسلئے تو آدم کو عظمت والا علم دیا اور تم امام مبین کیلئے یہ روا رکھتے ہو کہ وہ قتل عام کریں گے ۔ نہ صرف امام مبین کیلئے یہ روا رکھتے ہو بلکہ ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے کہ جو غیر مسلم ہو گا امام مہدی اسکو کاٹ ڈالیں گے ، مار ڈالیں گے ۔یہ تو قرآن کے فلسفے اور اللہ کی منشاء کے خلاف ہے ، یا تو ثابت کر دیں آ کر ۔قتل و غارت کے عمل سے تو فرشتے ناراض تھے بلکہ اسقدر برہم تھے کہ اللہ پر بھی معترض ہو گئے ۔ چھوٹی موٹی بات ہوتی تو دبا لیتے ، پی جاتے لیکن بات ایسی تھی کہ انکا دل بھی انسان سے بد گمان تھا اور انہوں نے اور کوئی اعتراض نہیں کیا کہ یہ عبادت کریگا یا نہیں کریگا ، چوری چکاری کریگا یا نہیں کریگا ، انہوں نے کہا جی یہ پھر شر پھیلائیگا ، پھر قتل و غارت کریگا تو اللہ تعالی نے اسکے جواب میں عظمت والے علم کی بات کی کہ نہیں یہ ایسا نہیں کریگا ۔ لہذا

”قتل و غارت گری وہ کرتے ہیں جنکے پاس عظمت والا علم نہ ہو ، قتل و غارت گری وہ کرتے ہیں جنکے پاس اللہ کے اسماء سے نو ر بنانے کا طریقہ نہ ہو ، جنکے دلوں میں نور نہ ہو“

اور تم کیسے مسلمان ہو کہ تم نے اس چیز کو کہ جسکی وجہ سے آدم صفی اللہ پر اعتراض ہوا تھا ، امام مہدی کے سہرے پر سجا دیا کہ جی یہ آکر قتل و غارت کرینگے ۔ تم امام مہدی کے گستاخ ہو اگر یہ کہتے ہو کہ امام مہدی تلوار اٹھائیں گے ۔ نافرمان ہو محمد الرسول اللہ کے اور اللہ کے گستاخ ہو کیونکہ یہ قتل و غارت کا عمل تو وہ عمل ہے جسکی وجہ سے فرشتوں کا آدم صفی اللہ پر اعتراض ہو گیا اور اس قتل و غارت والی فطرت کے رّد میں عظمت والا علم اتارا گیا۔

امام مہدی قتال نہیں کریں گےقرآن سے ثابت :

ایک روایت میں آیا ہے کہ دنیا میں ستائیس (27) حروف کا علم آیا ہے اورایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر جو آئے اور انہوں نے جو بھی دین دنیا میں قائم کئے ، جتنا بھی علم دیا وہ صرف دو (02) حروف کا علم تھا باقی پچیس (25) حروف کا علم امام مہدی عطا کریں گے ۔اب وہ دو حروف کا علم تمام نبیوں نے دیا تو پھر آدم صفی اللہ کو اس میں سے کتنا حصہ ملا ہو گا ؟صرف چٹکی بھر ۔

”وہ عظمت والا علم قتل و غارت والی فطرت کی کاٹ میں تھا ۔امام مہدی تو علم لدنی ، علم باطن کے خزانے لٹا رہے ہیں ،اگر کوئی امام مہدی کے علم کی بات سمجھنا چاہے تو پہلے جو علم نمائندہ مہدی عزت ماب سیدی یونس الگوھر بیان کررہے ہیں اسی کا توڑ لے آئے، امام مہدی کے علم کی تو کیا بات ہے۔ ابھی تو انہوں نے آنا ہے ۔ یاد رکھیں جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام مہدی تلوار اٹھائیں گے وہ اپنے دماغ سے اور دل سے جاہل المطلق ہیں ،وہ قرآن سے واقف نہیں ہیں ۔“

شر پسند عناصر ہیں ، فسادی ہیں کیونکہ قرآن مجید یہ ثابت کر رہا ہے کہ انسانوں میں جو قتل و غارت والی فطرت تھی فرشتے اس سے عاجز تھے اور اسقدر عاجز تھے کہ انہوں نے آدم صفی اللہ کی تخلیق پر اللہ کو باقاعدہ اپنا اعتراض ریکارڈ کر ا دیا کہ جی پھر بنا رہے ہیں آپ ۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 30

اور تمہارے رب نے کہا ملائکہ سے کہ میں مبعوث کر رہا ہوں زمین پر ایک خلیفہ ،تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم اسکو مبعوث کرو گے جو وہاں جا کے فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور ہم تیری تسبیح اور تیری حمد کرتے تو ہیں اور تیری پاکی بولتے ہیں ،تو اس نے کہا کہ جی ہم جو جانتے ہیں وہ آپ نہیں جانتے ،چپ کرکے بیٹھ جاؤ ۔ اب یہاں غور کرنے کا جو نقطہ ہے وہ یہ ہے کہ اب دنیا میں اُن انسانوں کی کثرت ہو گئی ہے جن پر فرشتوں کو بھی اعتراض تھا اور وہ اعتراض کیا تھا،فساد کرنا ، خون بہانا ،خون خرابہ کرنا ۔ وہ کونسا ایسا عالم ہے جو یہ کہے کہ یہ عمل جس پر فرشتوں کو اعتراض ہے اللہ کے نزدیک احسن ہو سکتا ہے ۔ کون ہے ایسا عالم جو شرعی اور قانونی طور پر یہ کہہ سکے کہ قتل و غارت کر کے جنت میں جاؤ گے اور اللہ کے آگے تمہارا مقام بلند ہوگا ؟ جس عمل پر فرشتوں نے اعتراض کر دیا تھا وہی عمل دہرا کے تم سمجھتے ہو کہ اللہ کے نزدیک احسن عمل ہوگا !!! ایک اور بات کہ اگر فرشتوں نے اعتراض کیا تھا اور فرشتے اسکو بُرا سمجھتے ہیں تو آپکے خیال میں کیا اللہ تعالی کی عقل فرشتوں سے کم ہے ؟ آپ سوچیں ذرا غور کریں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جس عمل کو فرشتے شدید نا پسند کرتے ہیں اور اتنا نا پسند کرتے ہیں کہ انکو اللہ کے سامنے زبان کھولنے کی جرات ہو گئی ،چھوٹی موٹی بات ہوتی تو خاموش رہتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ، انہوں نے کہا اب تو بولنا پڑیگا اور وہ بولے کہ جی آپ پھر ایسا انسان بنا رہے ہیں ، وہ زمین پر جاکے پھر فساد اور خون خرابہ کریگا تو اللہ تعالی نے کہا کہ جو مجھے پتا ہے وہ تمہیں نہیں پتا ۔ یعنی قتل و غارت گری کا عمل اللہ کے ہاں بھی سخت ناپسندیدہ عمل ہے ۔ معلوم یہ ہوا کہ

”خون خرابہ وہ لوگ کر رہے ہیں جن پر فرشتوں کو اعتراض ہے اور جن لوگوں کو وہ عظمت والا علم مل گیا ہے وہ اس خون خرابہ کیلئے نہیں ہیں ، وہ تو امن قائم کرنے والے ، محبت باٹنے والے ، لوگوں کے دلوں کو جوڑنے والے اور لوگوں کے دلوں کو رب سے ملانے والے ہیں ۔ “

محمد الرسول اللہ (رحمت اللعالمین) کی تلوار سے کافروں سمیت ایک بھی قتل نہیں ہوا :

محمد الرسول اللہ نے یوں تو جنگوں میں حصہ لیا ،لیکن کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حضور کی تلوار سے کوئی کافر مرا ہو؟ جسطرح حضور نے نمازیں پڑھیں ایک ماڈل بننے کیلئے اسی طرح حضور نے تلوار اٹھائی ایک ماڈل بننے کیلئے کہ حق کیلئے آواز اٹھانی ہے ۔حضور پاک اگر تلوار چلاتے تو کیا اُنکے دندان مبارک شہید ہوتے ؟ اللہ تعالی نے تو انکو رحمت للعالمین بنا کے بھیجا ۔ ہتھیار تو سرکار نے بھی اٹھایا ،کیوں اٹھایا ؟ اسلئے کہ لوگوں کو یہ پتا چلے کہ اس گمان میں نہ رہنا کہ ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں ۔ اسی طرح اس دور میں عرب لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ تلوار مرد کا زیور ہے ۔ جسطرح آج کے دور میں لوگ کہتے ہیں کہ مونچھیں مرد کا زیور ہیں ،مونچھوں کے بغیر کیا مرد ہے ؟ پاکستان میں تو یہی کہتے ہیں حالانکہ ہم نے مونچھوں والوں کو بھی دیکھا انکے تو کوئی اولاد نہیں ہوئی تو کہاں کا مرد ہوا ؟ بڑی بڑی مونچھوں والے تھے پھر بھی اولاد نہیں ہوئی ۔ اُس دور میں اُن لوگوں کا خیال تھا کہ مرد وہی ہے جسکے ہاتھ میں تلوار ہو اور وہ سر کاٹنا جانتا ہو ۔ اب اگر حضورؐ تلوار کو ہاتھ نہ لگائیں تو لوگ سمجھیں گے کہ حضور پاک ڈرپوک ہیں ۔ میں آپکو صحیح بات بتا رہا ہوں ،محمد الرسول اللہ نے کسی کو نہیں مارا۔میں نے خود ان سے پوچھا ہے ،انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو ان لوگوں کے سامنے تلوار بس ہاتھ میں پکڑ لی کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ میں کمزور ہوں ، تو بس ہاتھ میں پکڑ لی ،اگر میں چلاتا تو کیا میرے دانت ٹوٹتے ؟حضرت علی کیلئے کہا جاتا ہے کہ ان میں بڑی شجاعت تھی ، وہ شجاع تھے ،لیکن حضور پاک کیلئے تو نہیں کہا جاتا کہ ان میں بڑی شجاعت تھی ۔ ان کیلئے کہا جاتا ہے کہ صادق تھے ، امین تھے ،حلیم تھے ۔وہ نبی کہ جسکی بیوی کہے کہ آپ کے منہ سے شہد کی بدبو آ رہی ہے تو وہ شہد کھانا چھوڑ دیں،وہ تلوار کیا چلائے گا ؟ وہ نبی کہ راستے میں ایک بڑھیا انکے اوپر کچرا پھینک رہی ہے اور وہ آرام سے چلے جا رہے ہیں،وہ نبی کہ جو طائف کے مقام پہ جاتا ہے اور لوگ پاگل کتے انکے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ، پتھراؤ کرتے ہیں ، انکا جوتا خون سے بھر جاتا ہے اور جبرئیل آ کے کہتا ہے کہ دونوں پہاڑوں کو ملا کر ان کو تباہ کر دوں ؟ تو آپ فرماتے ہیں نہیں میں کسی کو تباہ کرنے نہیں آیا ، میں رحمت بن کے آیا ہوں ، وہ کیسے تلوار اٹھا کے لوگوں کو مارے گا ؟میدان جنگ میں جب تلوار اٹھا کے گئے تھے تو سامنے سب کفار ہی تھے اور طائف میں جب اکیلے گئے اور پتھراؤ کیا گیا ، پاگل کتے چھوڑے ، جوتا خون سے بھر گیا ، وہ بھی تو کافر ہی تھے نا ۔ تو پھر یہ ڈبل اسٹینڈرڈ نہ ہو جاتا کہ وہاں تو کہہ رہے ہیں کہ میں تباہ کرنے کیلئے نہیں آیا ، میں اِنکو معاف کرتا ہوں ، یہ مجھے نہیں جانتے اور وہی کافر میدان جنگ میں آجائیں تو اُنکا حلق کاٹ دیتے حضور پاک ؟ سوچیں غور کریں ،ورنہ حضور کی بات کچی ہوجاتی کہ اجی طائف میں تو آپ نے کہا تھا کہ میں تباہ کرنے کیلئے نہیں آیا ہوں ، اِنکو معاف کرتا ہوں اور وہی لوگ جب جنگ میں آپکے سامنے آئے تو آپ نے انکا سر کاٹ دیا ، یہ کیسے رحمت العالمین ہیں آپ ؟ لوگ تو وہی تھے نا ۔ حضور نے نہ طائف کے میدان میں کسی کو سزا دی اور نہ کسی میدان جنگ میں ۔تلوار اٹھائی تاکہ وہ لوگ جو برابر میں بیٹھے ہیں عمر بن خطاب جیسے بد بخت ان لوگوں کو یہ رہے کہ ہاں جی انکو تلوار چلانا آتی ہے ۔
جس طرح یہاں عورتوں میں ہوتا ہے کہ جی بیٹی کو برتن دھونا سکھاؤ اور سوئی دھاگہ اسکے ہاتھ میں دو تاکہ اسکو سینا پرونا آئے اور گھر گھرہستی کی تمام باتیں اسکو سکھاؤ ، کچن میں جائے ، کھانا بنانا آئے ۔ اِسی طرح وہاں مردوں کو بلاوجہ گھڑ سواری سکھائی جاتی تھی ، تلوار کا فن سکھایا جاتا تھا ۔ ایسا نہیں کہ انکو تلوار چلانے کا کام کرنا ہے یا مسافر اٹھانے کیلئے گھوڑا گاڑی چلائینگے ۔ بس ایسے ہی جس طرح لوگ ورزش کرنے کیلئے جاتے ہیں ، پٹھےبنانے کیلئے ۔ اگر پوچھو کیا تم کسی مقابلے میں حصہ لے رہے ہو؟ نہیں جی کسی مقابلے میں تو حصہ نہیں لے رہے بس ایویں ہی چلتے پھرتے لوگوں کو دکھائینگے ۔ تو گھڑسواری کرنا اُس وقت عام تھا ۔ جس طرح یہاں بچوں کو کہتے ہیں کہ ہاں جی تمہاری عمر ہوگئی ہے اب ڈرائیونگ لائسنس لے لو ۔ تو گدھا ، گھوڑا اور اونٹ وہاں پر سواری تھی ، اگر پہاڑوں پہ جانا ہے تو آپ گھوڑے پر جائینگے ، صحرا میں جانا ہے تو اونٹ پہ جائینگے اور اگر کوئی مقامی یا چھوٹی مسافت کے کام ہیں تو گدھا اس کیلئے کافی ہے کہ اتنا مہنگا گھوڑا خریدنے کی کیا ضرورت ہے ، لہذا گدھے کے اوپر چلے جائیں وہ آپکو آہستہ آہستہ لے جائیگا ۔

”تو محمد الرسول اللہ نے کسی پر تلوار نہیں چلائی ، کیسے چلا سکتے تھے ؟ اگر آدم صفی اللہ کو ایسا علم دیا کہ خون خرابہ نہ ہوتو پھر محمد الرسول اللہ کو تو اُس سے بھی اعلیٰ علم دیا ہو گا ۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں خون خرابہ کرنے کی خواہش نہ ہو بلکہ جو اُنکے ساتھ بیٹھیں اُن میں بھی یہ خواہش نہ رہے اور پھر جو بھی حضور پاک کی ظاہری اور باطنی صحبت کا مکین ہوا اس نے سوائے حق کی خاطر کبھی تلوار نہیں اٹھائی ۔“

حق کیلئے اور اپنے دفاع میں تو اٹھانا پڑتی ہے ، اپنے بچاؤ میں کسی پر حملہ کرنا یہ تو ہر مذہب اور ہر قانون میں جائز ہے کیونکہ اگر آپ اپنا دفاع نہیں کریں گے تو مارے جائیں گے ۔لہذا یہ تو بچاؤ کیلئے ہے ۔ جس نقطے کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قتل و غارت وہ عمل ہے کہ جسکی وجہ سے آدم صفی اللہ کی تخلیق پر فرشتوں نے اعتراض کیا تھا اور اگر یہ عمل آپ امام مہدی سے جوڑیں گے تو پھر بات کہاں چلی جائے گی ؟اس عمل کو ختم کرنے کیلئے تو عظمت والا علم متعارف کرایا گیا تھا ۔ خون خرابے کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالی نے آدم صفی اللہ کو عظمت والا علم دیا اور امام مہدی ؑ کے بارے میں تو قرآن کہتا ہے کہ انہیں سارے علوم و حسنات دے دئیے گئے وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ اورآپ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو ماریں گے ،یہودیوں کو ماریں گے ،عیسائیوں کو ماریں گے ۔نہیں یہ مارنا کاٹنا ،یہ جاہلوں اور مردودوں کا شیوہ ہے ۔ یہ انکا شیوہ ہے جنکو فرشتے تک پسند نہیں کرتے تو اللہ انہیں کیسے پسند کریگا ؟قتل و غارت کرنا تو ایسا ہے کہ جیسے کوئی بندہ اللہ کو جھوٹا ثابت کرنا چاہ رہا ہو کہ دیکھو فرشتوں نے جو بات کہی تھی وہ سچ ثابت ہوئی اور یہ بندہ قتل و غارت گری سے باز نہیں آیا ، اس طرح تو اللہ جھوٹا پڑ جائیگا ۔

فتح مکہ کے بعد کافروں کیساتھ حضور پاک کا سلوک :

فتح مکہ کے بعد جب تمام کافر مسلمانوں کی زد پر تھے اور حضور پاک چاہتے تو ان سب کو قتل کروا سکتے تھے کیونکہ ان لوگوں نے حضور پاک اور مسلمانوں کو شدید تکالیف پہنچائیں اور دین اسلام کو مٹانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود آپ نے کوئی قتل و غارت گری نہیں کروائی یعنی حضور پاک نے ہر جگہ موقع دیا اور کوشش کی کہ قتل و غارت نہ ہونے پائے ۔ فتح مکہ کے وقت سب سے بدلہ لیا جاسکتا تھا لیکن نہیں لیا، بلکہ فرمایا کہ میں تمہیں معاف کرتا ہوں اور فرمایا کہ جس نے فلاں ابن فلاں کے گھر پناہ لی وہ محفوظ ہے حتی کہ ابو سفیان کے گھر کو بھی امان دی کہ جو اسکے گھر میں پناہ لے گا اسکو بھی معاف کیا حالانکہ حضور پاک کو پتہ تھا کہ یہ منافق ہے دل سے اسلام قبول نہیں کر رہا اور یہ بھی پتہ تھا کہ آگے چل کر یہ کیا کرینگے ۔ ایک دفعہ وضو کرواتے ہوئے حضور پاک نے امیر معاویہ کو کہا تھا کہ تیرے منہ سے مجھے اہل بیت کے خون کی بو آتی ہے لیکن اسکے باوجود بھی مسلمان انکے پیچھے لگ گئے اور حضرت علی کے مقابل اسکو خلیفہ بنا دیا ۔ ایک طرف حضرت علی بیٹھے ہوئے ہیں خلافت لیکر دوسری طرف مسلمانوں نے امیر معاویہ کو خلیفہ بنایا ہوا ہے ۔ یاد رہے کہ مسلمان اسکو خلفاء راشدین کا دور کہتے ہیں کہ جسکے اندر مسلمانوں کے دو دو خلیفہ ہیں پھر بھی مسلمانوں کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ، پھر بھی حضرت علی کو نہیں مانتے۔

نمائندہ مہدی عزت ماب سیدی یونس الگوھرگزشتہ پندرہ سال سے روزآنہ تعلیمات گوھر شاہی امام مہدی بیان فرما رہے ہیں:

فرمایا کہ ایک طرف دو حروف کا علم اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور یہاں پندرہ سال ہوگئے ہیں روزانہ گفتگو کرتے ہوئے ۔ اگر یہ گفتگو لکھی جائے تو ہزاروں کتابیں بن جائینگی ، ایک دن کی ہی گفتگو کے دس پندرہ صفحے بن جاتے ہیں اس حساب سے ہر ہفتے ایک کتاب بن سکتی ہے ۔ اور یہ بھی نہیں کہ ادھر ادھر کی باتیں کہ ایک بات کو سو حروف میں بیان کر رہے ہیں ۔ شروع شروع میں امینہ بیگم نے کہا تھا کہ وہ ڈائری جس دن ختم ہوگئی ، یہ گفتگو ختم ہوجائیگی ( لیکن وہ خود ختم ہوگئی گفتگو ختم نہیں ہوئی) ۔

متعلقہ پوسٹس