- 1,116وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
کیا آج کا مسلمان قرآن کا وہی مطلب سمجھا جو اللہ نے بتایا ہے؟
لوگوں کو قائل کرنا ایک فن ہے جو کہ بہت مشکل کام ہے اور یہ ہر کسی کو نہیں آتا ہے ۔جو کچھ آپ کے ذہن میں ہے وہ اُسی طرح آپ دوسرے ذہن میں منتقل کر دیں اور یہ فن ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا ہے ۔جسطرح قرآن شریف کی مثال لے لیں ایک آدمی قرآن پڑھ کر شیعہ بن رہا ہے تو دوسرا وہی قرآن پڑھ کر وہابی بن رہا ہے ، تیسرے نے پڑھا تو وہ بریلوی بن گیا اور چوتھے نے پڑھا تو وہ گاندھی بن گیا ۔ گاندھی جی ہندو تھے لیکن سیاست میں اُن کے جو بھی اقدامات تھے وہ قرآن کے عین مطابقت میں تھے ۔بہت سارے ایسے عظیم لیڈر گزرے ہیں جو قرآن کا مطالعہ کرتے تھے اور اُس سے استفادہ حاصل کیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو اللہ کے ذہن میں بات ہے اور جو اُس نے قرآن میں اُتاری ہے کیا آپ وہی سمجھے ہیں جو اللہ آپ کو سمجھانا چاہتا ہے !!!! اس بات کی فکر مسلمان قوم نہیں کرتی ہے ۔ہر آدمی اگر قرآن میں اپنا نکتہ نظر ٹھونس دے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے تو اس طرح تو بگاڑ پیدا ہو جائے گاجیسے پاکستان کے ایک مشہورمذہبی اسکالر گزرے ہیں جن کا نام ڈاکٹر اسرار احمد ہے ۔ انہوں نے کچھ باتیں ایسی کی ہیں جو معاشرے کو خراب کر گئی ہیں ۔ انہوں نے شکاگو میں ایک قرآنک اسٹیڈ گروپ بنایا اور وہاں پر الخلافہ والا فتنہ پھیلا دیا ۔ پھر وہ انگلینڈ آئے اور یہاں بھی الخلافہ ایک تنظیم بنا دی اور اسلام میں خلافت کا تصور پیش کیاکہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو گا اور پوری دنیا ایک اسلامی سلطنت ہو گی ۔ قرآن میں ایسا کوئی نظریہ تو موجود نہیں ہے ، محمد الرسول اللہ نے اپنے پڑوس میں جو عیسائی ملک تھےاُن کے اوپر حملہ کر کے قبضہ تو نہیں کیا تھا لیکن ڈاکٹر اسرار احمد نے ایسا بیج بو دیا جو فتنے اور انتشار کا سبب بنا ۔ انہوں نے قرآن کی تشریح کے حوالے سے اپنی جو تحریک شروع کی اس کا نام تفہیم القرآن رکھایعنی قرآن کا فہم اور تنظیم کا نام تنظیم اسلامی رکھااور بہت سے نکات ایسے بیان کیے انہوں نے کہ جن کو پڑھ اور سن کر ذہن الجھن کا شکار ہو جاتا ہے ۔جیسے کہ ایک لفظ وسیلہ ہے انہوں نے اسکا جو مفہوم بیان کیا وہ “قرب ِالہی” ہے ۔ایک اور مفسر نے کہا کہ وسیلے کا مطلب عبادت ہے ۔جیسے قرآن مجید میں آیت ہے ;
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
سورة المائدة آیت نمبر 35
ترجمہ : اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف جانے کا وسیلہ تلاش کرو،تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اللہ کو پانے کے اللہ کا قرب اختیار کر و۔اللہ کو پانا اور اس کا قرب حاصل کرنا دو الگ چیزیں تو نہیں ہیں ، جب اللہ کے قرب میں چلے گئے تو پھر اللہ کو کہاں ڈھونڈیں گے !! پھر کچھ لوگوں نے “وسیلے ” کا مطلب عبادت بتایا ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر وسیلے کا مطلب عبادت ہے تو پھر کتنے لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں پھر اُن کو اللہ ابھی تک کیوں نہیں ملا! اللہ تو خالق ومالک ہے اگر اُس نے کہہ دیا ہے کہ عبادت کے زریعے مجھ تک پہنچ جاؤ گے تو پھر ہر عبادت کرنے والا واصل باللہ ہونا چاہیے تھالیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے ۔
یہ آیت جب قرآن میں اتری تو اس کا شانِ نزول ہے ۔حضورؐ کے دور میں مسلمانوں کا ایک گروہ تھا انہوں نے حضورؐ سے دور ہٹ کر ایک مسجد قائم کر لی جسکو بعد میں مسجد ضرار کہا گیا ہے اور قرآن میں اس مسجد کو ڈھا دینے کا حکم آ گیا ۔ وہ گروہ نمازیں بھی پڑھتے تھے اور جتنا قرآن پہنچا تھا وہ بھی پڑھتے تھے ، اس گروہ کے لئے اللہ نے اتارا کہ یہ نمازیں ، یہ تلاوت ، یہ عبادات ان سے رب نہیں ملے گا ۔ اللہ سے ڈرو اور ایسی چیز نہ اختیار کرو ۔ اللہ کو پانے کے لئے وسیلہ تلاش کرو کیونکہ محمد الرسول اللہ کو چھوڑ کر تمھیں اللہ نہیں ملے گا۔محمد الرسول اللہ کی ذات تمھارے لئے اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہے ۔آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو ایک خواب و خیال کی دنیا کا دیو مالائی کردار بنایا ہوا ہے کہ وہ بس نور ہی نور ہے ۔آج کا مسلمان اللہ کے وجود کا منکر ہے کہ اللہ تو بس نور ہے اور ہر جگہ موجود ہے لیکن یہ بات تو غلط ہے ۔ غلط اس لئے ہے کہ محمد الرسول اللہ نے فرمایا
خلق اللہ آدم علی صورتہ
ترجمہ : اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا ہے ۔
دین اسلام ابتدا سے ہی بدقسمتی کا شکار رہا :
دینِ اسلام تاریخِ انسانیت میں جب آیا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک سب سے بہترین اور افضل دین ہے ، اِس سے بڑھ کراللہ نے کوئی دین کسی نبی سے بنوایا نہیں ہے لیکن بد قسمتی اس حوالے سے ہے کہ جب اللہ کے رسول نے اس دین کو بنایا تو لوگ اُس وقت اس دین کی صحیح تشریح نہیں بیان کر سکےاور حضرت علی کو دین کی تعلیم سونپی تو اُن کو اس تعلیم کی تشریح بیان کرنے کا موقع نہیں ملا ۔یہ دین بد قسمت اس لئے ہے کہ حضورؐ نے شب معراج میں اللہ سے مصافحہ کیا ، بغل گیر ہوئے اوراللہ کا دیدار کیا ، حضور کے شانوں پر اللہ نے ہاتھ رکھا اور اللہ کے ہاتھ کی گرمائش اور ٹھنڈک حضورؐ نے اپنے سینے میں محسوس کی اور فرمایا کہ چودہ صدیوں کےاحوال میرے سامنے ظاہر ہو گئے ۔حضورؐ نے زمین پر آ کر بیان کیا کہ اللہ کی ناک ایسی ہے ، اللہ کے ہاتھ ایسے ہیں اور اللہ کے پاؤں ایسے ہیں ، تو سب سے پہلے آپ کی زوجہ عائشہ نے فتوی لگا دیا کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمدؐ نے اللہ نے دیکھا ہے وہ محمد الرسول اللہ پر بہتان باندھتا ہے ۔ ہمارے وہ مفسرین جنہوں نے آیتوں کے مفہوم میں گڑبڑ کر کے آج اس اُمت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، کوئی وہابی اور کوئی قادیانی بن گیا ہے ، کوئی دیوبندی اور کوئی سلفی بن گیا ہے پھر احمد رضا خان صاحب بریلوی آ گئے انہوں نے دین ایک اور فرقہ بنا دیا کہ کھڑے ہو کر سلام پڑھو۔ اب آپ دیکھیں یہ پہچان بن گئی ہے بریلی فرقے کی کہ وہ جب بھی سلام پڑھیں گے تو کھڑے ہو کر پڑھیں گےلیکن قرآن میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے کہ
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
سورة الاحزاب آیت نمبر 56
ترجمہ : بیشک اللہ اور ا س کے ملائکہ نبیِ کریم ؐ پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اُن پردل و جان سے دروداور سلام بھیجا کرو ۔
یہاں کہیں یہ حکم نہیں ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھیں یا بیٹھ کر پڑھیں جس حالت میں بھی ہیں اسی میں پڑھ لیں ۔اور پھر احادیث میں آیا ہے کہ سب سے افضل درود ، درودِ ابراھیمی ہے لیکن بریلوی کے لئے محمد الرسول اللہ کی بات اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے جتنی اہمیت کی بات اعلی حضرت کی ہے ۔لہذا جتنے بھی بریلوی ہے وہ درودِ ابراھیمی کے بجائے “یا نبی سلام علیک” پڑھتے ہیں ۔سلام ہی اگر پڑھنا ہے تو وہ پڑھ لو جو افضل ہے ، کیا تمھارا عالم محمد الرسول اللہ سے زیادہ جانتا ہے ۔کیا کوئی ولی ، کوئی مجتہد ، کوئی مفتی ، کوئی عالم اسلام کو اللہ کے رسول سے زیادہ جانتا ہے ؟ دین کا اسطرح بیڑا غرق کر دیا اور شیرازہ بکھیر دیا ،چھوٹے چھوٹے فروعی تاویلات میں پڑ گئے ۔درودِ ابراھیمی اس لئے افضل ہے کہ اس میں محمؐد سمیت آل محمد، آل ابراھیم اور جد امجد پر بھی درود ہے ۔
حضوؐر کی ہستی مکرم تمام انبیا میں ممتاز ہے:
قرآن مجید نے بتایا ہے کہ محمد الرسول اللہ کی ذات ابراھیم ؑ نے اللہ سے دعا کر کر کے بلائی ہے ۔ابراھیم ؑ جو کہ ابولاانبیا ہیں ۔جب ہم بنی اسرائیل کہتے ہیں تو یعقوبؑ کا لقب اسرائیل تھااور یعقوب اسحاقؑ کی اولاد میں سے ہیں اور اسحاق ، ابراھیمؑ کی اولاد میں سے ہیں ۔ صرف حضورنبی کریمؐ کی بعثت کے لئےیہ ایک اللہ کا بہت پہلے کا منصوبہ ہے جس میں ایک محدود عرصے کے لئے ابراھیمؑ کی زوجہ سائرہ کو بانجھ کر دیا ، ابراھیؑم دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے اولاددے ۔ تو اللہ تعالی نے جبرائیل کو بھیجا اور کہا کہ تمھاری عورت تو بانجھ ہے لہذا اگر اولاد چاہیے تو ایسا کرو کہ کوئی کنیز رکھ لو ۔اب جب ابراھیؑم کی زوجہ سائرہ کو جب یہ پیغام ملا کہ اللہ کا حکم آیا ہے کہ کنیز رکھ لو تو وہ اس کو ٹال نہیں سکتی تھیں ۔ لہذا انہوں نے کہا کہ کنیز میں خود ڈھونڈوں گی ، انہوں نے اپنی دانست میں ڈھونڈا کوئی کالی کلوٹی نظر آ جائے اور ایسا ہی ہوا ، مصر کی ایک خاتون ہاجرہ کو انہوں نے بطور کنیز منتخب کیا کہ یہ اتنی حسین بھی نہیں ہے اور جو اولاد کا مقصد ہے وہ بھی پورا ہو جائے گااور میرا شوہر میرے ہاتھوں میں ہی رہے گا۔ہاجرہ مصر سے تعلق رکھتی تھیں اور اُن سے جو بیٹا پیدا ہوا وہ اسماعیؑل تھے۔ابراھیؑم بہت خوش تھے کہ اللہ کا حکم آ گیا کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ چھوڑ کر آ جاؤ۔لہذا اللہ کے حکم پر عراق سے مکے کے لئے روانہ ہو گئے اور راستے میں شیطان میں کئی بار یہ بات دل میں ڈالی کہ اتنی چھوٹا سا بچہ اتنی مرادوں کے بعد ہوا اور اب حکم ہے کہ اس کو مکے چھوڑ کر آ جاؤ۔بہرحال ابراھیؑم، ہاجرہ اور اسماعیؑل کو مکے چھوڑ کر آ گئے، مکے میں کیوں چھوڑ کر آئے ؟ جہاں وہ خود ہیں یہ قوم دوسری ہے اور یہ جو عربستان کاعلاقہ ہے یہ قوم دوسری ہے ۔مکے کی سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ دنیا کا مرکزی نقطہ ہے اور پوری دنیا کی کشش ثقل کو خانہ کعبہ نے کنڑول کیا ہوا ہے ۔جب اللہ تعالی نے آدم صفی اللہ کو زمین پر بھیجا تھا تو اُن کو کشف کی حالت میں بیت المامور دکھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ اسی طرح کی عبادت گاہ زمین پر بنانا ۔تو جو عالم ارواح میں بیت المامور کا مقام ہے جہاں اصل خانہ کعبہ ہے اُس کی نقل پر یہاں خانہ کعبہ بنایا۔جب سے خانہ کعبہ بنا ہے تب سے اللہ کی تجلی اُس پر پڑ رہی ہے ۔لہذا آدم صفی اللہ نے خانہ کعبہ بنا لیا اور اس کا طواف بھی شروع کر دیا ۔دوسری طرف بنی اسرائیل کے جو انبیا آئے اُن میں سے سلیمانؑ نے مسجد اقصی بنائی ۔جب یہ خانہ کعبہ کی عمارت بوسیدہ ہو گئی تو پھر ابراھیؑم کو حکم دیا کہ جاؤ اس کی مرمت کرو، تو ابراھیؑم وقتاً فوقتاً مکے تشریف لاتے رہے ہیں ۔جب ابراھیؑم ، ہاجرہ اور اسماعیل کو مکے چھوڑ کر جارہے تھے تو اللہ نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا اور جب دوبارہ کعبہ کی مرمت کے لئے تشریف لائے تو اسماعیلؑ جوان ہو چکے تھے اور پھر دوبارہ باپ اور بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا ۔لہذا خانہ کعبہ کے بالکل سامنے مقام ابراھیم ہے ۔لہذا شروع سے ہی ابراھیؑم کے ذہن میں اللہ کی طرف سے جو پلاننگ ملی ہے کہ اس خطے کے لئے ایک الگ نبی ہو گاجس کا کسی اور نبی سے تعلق نہیں ہو گا، اس کو ممتاز کیا ۔ سارے پیغمبر ایک طرف اور حضوؐر کی ذات کو الگ کر دیا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ نبی ان کے برابر ہے ۔یہ جو سرزمین جحاز کا خطہ ہے یہاں حضوؐرکے علاوہ کوئی اور نبی نہیں آیا۔موسی مصر میں تشریف لائے،عیسی بھی یروشلم میں آئے۔مصر کے اُس خطےمیں بہت سے انبیا تشریف لائےلیکن اس کے باوجود اُس قوم کی حالت دیکھ لیں ،کوئی یہودی ایسا لے آئیں جس کے شخصیت میں اس کے دین کی تعلیم جھلکتی ہو ۔ عملی طور پر دیکھیں تو آج یہودی کا دین پیسہ بن گیا ہے ۔عیسائیوں میں اُن کا دین نظر نہیں آتا ہے ۔ کچھ ادیان ایسے ہو گئے ہیں جن میں اُن کے مذہبی تہوار اُن کے دین کی بنیاد پر نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ کمرشلزم کا شکار ہو گئے ہیں جیسے کرسمس کا تہوا ر ہے ۔سمجھانا یہ چاہ رہا ہوں کہ یہ جتنے بھی ادیان ہوئے ہیں یہ سب اپنی روح سے عاری ہو چکے ہیں ، بنی اسرائیل میں جتنے بھی پیغمبر آئے ایک ایک دین کی اشاعت کے لئے اللہ نے وہاں پر بیس یا تیس پیغمبر بھیجے اور نبوت اللہ نے ریوڑیوں کی طرح بانٹی۔تو ان ادیان کو مضبوط رکھنے کے لئے کتنے نبی آئے اورنبی کا کام دین بنانا نہیں ہوتا ہے بلکہ مرسل دین بناتا ہے ۔
مرسل اور نبی میں فرق اور دین میں اُن کا کردار:
نبی اورر سول میں فرق ہوتا ہے ۔رسول ، رسالہ یعنی پیغام الہی لے کر آتا ہے بائبل ،انجیل،توریت، زبوراور قرآن کی صورت میں ۔دین رسول بناتا ہے جو اللہ کی طرف سے منتخب ہو ۔ نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو دین رسول نے بنایا ہے اور لوگوں نے اُس دین میں اپنی طرف سے کچھ لگا کر بگاڑ پیدا کر دیا جس کی وجہ سے لوگوں کی عبادتیں درجہ قبولیت پر نہ پہنچ پائیں ، دعائیں قبول ہونا بند ہو گئیں ، تو اللہ تعالی ایک نبی کو مبعوث فرماتا اور اس کو چھوٹے پیمانے پر جہاں دین میں رّدو بدل ہوا ہے اس کو درست کرنے کے لئے وحی بھیجتا اور اُس دین کوپھر دوبارہ سےزندہ کر دیتاہے۔بنیادی طور پر ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی بھی ہو اور رسول بھی ہوکیونکہ رسول دین لے کر آیا اور اس میں بگاڑ پیدا ہونے میں کچھ وقت لگے گا اس لئے نبی پھر اس بگاڑ کو درست کرنے کے لئے آئے گا۔دوسرے اہم بات یہ ہے کہ نبی کا کلمہ نہیں ہوتا، صرف رسول کا کلمہ ہوتا ہے ۔جیسےموسیٰ رسول تھے اُس دور میں جتنےبھی پیغمبر آئے وہ موسیٰ کے دین کو صحیح کرنے کے لئے آئےاور وہ سارے نبی موسی کا کلمہ پڑھتے تھے ۔ نبی اس کی شریعت اپناتاہے جس مرسل کی اُمت میں آیا ہے ۔جتنے بھی بنی اسرائیل میں پیغمبر آئے وہ موسیٰ کی شریعت پر عمل کرتے تھے ۔لیکن حضوؐرنبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں ۔جب اللہ تعالی نے حضوؐرکو رسول بنا کر بھیجا اور قرآن مجید اُترا تو بہت سی آیتیں ایسی تھیں جن کو اللہ نے منسوخ کر دیا اور یہ قرآن میں آج بھی موجود ہے کہ اللہ کی مرضی ہے کہ جو آیتیں ہیں ان کو منسوخ کر کے کوئی نئی آیت بھیج دے ۔
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا
سورة البقرة آیت نمبر 106
تو جو آیتیں رسالت کے وقت آئیں اور منسوخ ہو گئیں اُن کے لئے جو صحیفے آئے وہ نبیوں کا کام تھا لیکن حضوؐرآخری رسول قرار پائے ہیں اور آپ کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا۔لہذا رسالت ختم ہوئی اور رسالت ختم ہونے کے بعد نبی کریمؐ کو ہی صحیفے دئیےگئےکہ جو آیتیں منسوخ ہوئیں ہیں اُن کی آپ ہی درستگی فرما دیں کیونکہ آگے کسی اور نبی کو آنا نہیں ہے ۔جو آیتیں منسوخ ہوتی گئیں اُن کے لئے متبادل آتا گیا اور جو متبادل آیا وہ نبی کے لئے تھا ، ایسا نہیں ہوتا کہ رسول کے لئے کوئی چیز آئے اور وہ منسوخ ہو جائے اور پھر دوبارہ آئےکیونکہ ڈپارٹمنٹ الگ الگ ہیں ۔ جسطرح ہم یہاں بلیک بورڑ پر لکھتے ہیں اسی طرح اللہ نے بھی ایک لوح بنائی ہے جس کو “لوح محفوظ” کہتے ہیں ۔سارا کا سارا کلام جو رسالت کے لئے آنا ہے وہ اللہ نے لوح محفوظ میں رکھ دیا ہے ، جبرائیل امین لوح محفوظ سے لے کر آتے اور بطور وحی لاتے رہتے ۔ لوح محفوظ میں رسولوں کےلئے جو کلام ہے اُس میں جب گڑبڑ ہو جائے گاتب اس کو درست کرنے کے لئے نبی کے لئے صحیفے آئیں گے اور وہ صحیفے لوح محفوظ پر نہیں ہیں بلکہ اللہ جبرائیل امین کےسینے میں رکھا ہے اسی لئے انہیں امین کا خطاب ملا کیونکہ وہ امانت رکھنے والے ہیں ۔اب اگر اللہ نے کوئی آیت منسوخ کر دی ہے ، یا تو اللہ وہ آیت خود منسوخ کر دے یا پھر زود اثر نہیں رہے جیسے زمین پر اُس دین کو قائم ہوئے 500 یا 1000 سال گزر گئے اور اُس آیت کا معنی ، مفہوم ، مطلب سارا کا سارا بگڑ گیا اور کسی کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کا مطلب کیا ہے تو پھر اس کی درستگی کےلئے صحیفہ آئے گا۔ اب حضوؐر پر رسالت کے وقت بھیجی گئیں چند آیتیں منسوخ کر دیں تو اس کے متبادل کے طور پر بطور نبی صحیفے بھی بھیجے کیونکہ آپ کو نبوت کا درجہ بھی دیا گیا ۔
حضوؐرکے درجہ رسالت اوردرجہ نبوت میں فرق:
اب حضوؐرکے دو رُخ ہو گئے کہ یہ آیتیں اور قرآن مجید جو وحی کی صورت میں آیا وہ محمد الرسول اللہ نےرسالت کے طورپر بیان کر دیں لیکن ایک دوسرا درجہ حضوؐرکا نبوت کا ہے اُس کے تحت حضوؐرنے یہ کرنا ہے کہ جو رسالت میں وحی آئی تھی اور اللہ نے جب اُس کو منسوخ کر دیا تو اُس کے متبادل کے طور پر جو آئے گی اب وہ آپ بیان کریں گے ۔جن لوگوں تک رسالت کی وحی پہنچ گئی اور حضوؐرسے تعلق میں نہیں رہے تو جو آیتیں منسو خ ہوئیں تھیں وہ حضوؐرکے پاس ہی آئیں گی اور آپ اُن سے تعلق میں نہیں رہے ۔تو پھر یہی کہیں گے کہ جہاں بھی کافر نظر آئے اسے قتل کر دہ ، جہاں یہودی نظر آئے قتل کر دو ، جہاں عیسائی نظر آئے اسے قتل کر دو، یہ باتیں درجہ رسالت میں اُس وقت کی ضرورت کے تحت تھیں لیکن جب اللہ نے بطور نبی صحیفہ بھیجا تو آپ کو کہہ دیا کہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ عیسائی بھی درست ہے ، وہ یہودی بھی درست ہے ۔ اب وہ جو حضوؐرکا درجہ نبوت تھا جس نے منسوخ شدہ آیتوں کی تشریح بیان کرنی تھی ، جو قرآن میں آیا اور منسوخ ہو گیا اس کو ہٹا کر نیا کلام اس کی درستگی کے لئے اللہ کی طرف سے آیا تھا وہ احادیث کے زریعے پہنچے گا۔اُ س کو قرآن نہیں کہہ سکتے اُس کو حدیث قدسی کہتے ہیں کیونکہ وہ بطور نبی آیا ۔ اب لوگوں نے یہ کیا کہ جو قرآن میں لکھا ہے اس کو پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ جو اللہ کے رسول پر وحی آئی ہے اور اس میں بگاڑ کے بعد حضوؐرپر جو صحیفہ حدیث قدسی کی صورت میں آیا لوگوں نے اس کو رّد کردیا یہاں سے دین اسلام میں فتنہ پیدا ہو گیا ۔آج ایسا فرقہ بھی اسلام میں موجود ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہم حدیث کو نہیں مانتے ۔ حضوؐر کی ذات پر بطور نبی جو صحیفہ آیا وہ قرآن تو نہیں کہلائے گا بلکہ مصحف کہلائے گااور حضوؐرکی اُس بات کو آئماکرام نے حدیث قدسی کا نام دیا لیکن بذات خود حضوؐرنے اسے اللہ کا کلام کہا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جو اتنے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام تھے اُن کو بھی یہ بات پتہ نہیں تھی ، یہ بات صرف مولا علی کو پتہ تھی جبھی حضوؐرنے مولا علی کے لئے فرمایا کہ أنَا مَدینَةُ العِلمِ وعَلِیٌّ بابُها کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے، یہ تمام حقیقتیں تو حضوؐرنے باطنی طور پر مولا علی کو بیان کی تھیں کسی اور کو نہیں بیان کی تھیں ۔ لہذا جب قرآن کو جمع کیا گیا تو وہ ساری آیتیں بھی اُس میں آ گئیں جو منسوخ ہو گئیں تھیں اور اُن کے متبادل کے طور پر حضوؐرپر جو صحیفہ بطور نبی آیا وہ حدیث قدسی کہلائی اور قرآن کا حصہ نہیں بن سکی ۔
عالم اسلام میں قرآن اور احادیث کی اہمیت میں فرق:
میرے ذہن میں اکثر یہ سوال ہوتا تھا کہ حضوؐرکی ذات کتنی بڑی ذات ہے آپ کا کلام کتنا زبردست کلام ہے لیکن جو بات بائبل میں آئی ہے وہ قرآن میں نہیں ہے لیکن حدیث قدسی میں موجود ہے ۔جسطرح بائبل میں ہے کہ “اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا ہے “۔یہ بات قرآن میں موجود نہیں ہے لیکن حدیث قدسی میں موجود ہے إنّ الله خلق آدم علی صورته ۔ یہ بات قرآن میں کیوں نہیں ہے ؟ مسلمانوں کا ذہن بہت کند ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ جو بات حدیث میں آئی ہے اس کی اہمیت کم ہے اورجوبات قرآن میں آئی ہے اس کی اہمیت زیادہ ہے ۔لیکن جب سیدنا گوھر شاہی کے طفیل جب حقیقت عیاں ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ تو ہم حدیث قدسی کہتے ہیں یہ تو قرآن ہی تھا جو بطور نبی حضوؐرپر نازل ہوا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے مصنفین جیسے کیرن آرم اسٹرونگ (برطانوی مصنف) عالم اور فاضل عورت ہے اور دین اسلام پرانہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن یہ نکتہ اُس کے بھی سمجھ میں نہیں آیا جبھی اس نے کہا کہ جو بائبل میں آیا اور قرآن میں نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے عیسائیت کو زیادہ اہمیت دی ہے اگر اسلام کو بھی زیادہ اہمیت دی ہوتی قرآن میں بھی اس بات کو کرتا کیونکہ اُن کا بھی یہی خیال ہے کہ جو قرآن میں آیا ہے اس کی اہمیت ہے اور جو بطور حدیث آیا ہے اس کی اہمیت کم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام نے بہت سی احادیث کو ضعیف کہہ کر بھلا دیا ہے ۔علمائے کرام نے احادیث کی سند کا اتنا سخت معیار رکھا ہے کہ جو اس کا راوی ہےوہ مکے میں ایمان لایا ہو جن کو اصحاب کبار کہتے ہیں اور جو مدینے میں ایمان لائے ان کو اصحاب صغار کہتے ہیں،تو حدیث کی سندکے لے ضروری رکھا کہ سات صحابی ہوں اور وہ سارے کے سارے اصحاب کبار میں سے ہوں اورانہوں نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ، کوئی گناہ نہ کیا ہو تو حدیث مستند ہو گی ۔لیکن قرآن کی سند کے لئے کوئی معیار موجود نہیں ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ حدیث میں اللہ نے حضوؐرکو جو علم دیا ہے وہ آگے بڑھے۔اسلام قبول کرنے سے پہلے لوگ عورتوں کا ڈانس بھی کرواتے تھے ،سود بھی لیتے تھے،شراب بھی پیتے تھے۔
وہابی ،خوارجین اور اُمتی کا فرق:
وہابی اور سلفی جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی امام کو نہیں مانتے ، امام ابو حنیفہ ، امام بن مالک ، امام شافعی ، امام حنبل کسی کو نہیں مانتے ، ہم حضوؐرکے دور والےخالص اسلام کو مانتے ہیں ۔ اس سے آپ کو یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ وہابی اور سلفی کس کو خالص اسلام کہہ رہے ہیں جس میں حضوؐرنے بطور رسالت آیتیں پیش کی اور جو آیتیں منسوخ کر دی گئیں ان کے متبادل کے طور پر بطور نبی صحائف آئے جو حدیث قدسی کا شکار ہوئے، اُن کو وہابی اور سلفی نہیں مانتے جس کی وجہ سے وہ اسلام اصلاح پذیر نہیں ہے کیونکہ وحی میں سے جو چیزیں منسوخ ہوئیں اس کو حضوؐرنے صحیفوں کی صورت میں درست کیا اور آپ اس کو مان نہیں رہے ہیں تو یہ خالص اسلام کی صورت نہیں ہے ۔اس کے بعد ایک حدیث آئی
وإنه سيكون في أمتي كذابون كلهم يزعم أنه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي
حدیث راوی ابو داؤد 4252
کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میری اُمت کے علما بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہوں گے ۔ جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے گاتو وہاں بنی اسرائیل کے نبیوں نے اس دین کو درست کیا اور یہاں میری اُمت کے علما اس دین کو درست کریں گے ۔آج کے اس دور میں ہر عالم یہی سمجھتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے نبی کی طرح ہے ۔اگر کوئی عالم واقعی یہ سمجھتا ہے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہے تو وہ پھر یہ بتائیں کہ بنی اسرائیل کے نبیوں نے دین میں پیدا ہو گئے بگاڑ کو صحیفوں کی مدد سے درست کیا ، تم بتاؤ تمھارے پر کونسا صحیفہ نازل ہوا ہے ۔حضوؐرنے یہ بات اس لئے کہی تھی کہ بطور نبی جو صحیفے آپ پر نازل ہوئےوہ علما کو حضوؐرسینہ بہ سینہ عطا کریں گے اور حضوؐرکی اُسی صحیفوں والی تعلیم کی روشنی میں وہ دین کی اصلاح کرتے رہیں گے ۔وہ علما کون ہیں جو بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں ؟ وہ علما داتا علی ہجویری ، معین الدین چشتی رحمتہ اللہ ،مجدد الف ثانی ،شیخ عبدالقادر جیلانی یہ وہ علمائے حق ہیں جن کی زبان بھی عالم تھی اور دل بھی عالم تھا ، جن کی زبان پر بھی اللہ کی محبت تھی اور دل میں محبت کا نور تھا ۔ان لوگوں نے جب تبلیغ کی تو انڈیا میں مندر میں بیٹھ کر نوے لاکھ مسلمان کیئے۔اور اگر ہم مندر میں جاتے ہیں تو لوگ فتوی لگا دیتے ہیں ۔تو آج کے اس موضوع میں دو نقطے واضح ہو گئے کہ سلفی اور وہابی جو خالص اسلام کی بات کرتے ہیں اس میں وہ صرف قرآن کو مانتے ہیں لیکن آیتوں کی منسوخی کے بعد متبادل کے طور پر جو صحیفہ آیا اور بطورحدیث قدسی آگے بڑھا اس کو ہٹا دیتےہیں وہ بگاڑ آج تک دین میں چلا آ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تشدد پسندی دین کا حصہ بنتی چلی گئی ۔یہاں ویسٹرن معاشرے میں جو دانشور ہیں وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تم تو ہندو، سکھ ا ور عیسائیوں کے لئے بڑا نرم گوشہ رکھتے ہو لیکن قرآن مجید میں یہ آیا ہے کہ یہود اور نصاراان کو دوست نہ بناؤ تو کس بنیاد پر تم یہ نرم گوشہ رکھتے ہو ؟ تو ہم اُن کو بتاتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ بھی ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو ، روز جزا پر ایمان رکھتا ہو ، عمل صالح کرتا ہو تو وہ یہودی ہو ، نصارا ہو یا صائبین میں سے ہو اللہ کے یہاں مومن ہے۔وہ آیت جس میں یہود اور نصارا کو دوست نہ بنانے کا حکم ہے وہ آیت ایک مخصوص وقت کے لئے تھی وہ اُن یہودیوں کے لئے تھی جنھوں نے حضوؐرکو دھوکا دیا تھااور آپ کی جان کے درپے تھے ۔ تو اللہ نے صحابہ کو کہا تھاکہ ان کو دوست نہ بناؤ ، اگر کسی کو کبھی دوست نہ بنانے کا حکم ہوتا تو پھر اسلام کی تبلیغ کیسے کی جاتی، پھر اہل کتاب سے شادی کی اجازت کیوں دی جاتی ! اورایسا شخص جو حضوؐرسے دشمنی کرےوہ کسی بھی مذہب میں ہو وہ جہنمی ہے ۔لیکن اگر کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین میں ہو اور اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارے اس سے دشمنی کا کوئی جواز نہیں ہے ۔اگر یہودی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزار رہا ہے تو وہ ٹھیک ہے۔اس طرح کی آیتیں ایک مخصوص وقت کے لئے تھیں اس دور میں اب ان کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ جیسے ایک اور آیت ہے کہ کافر جہاں ملے اُسے مار دو ۔یہ آیت میدان جنگ کے لئے اُتری تھی کیونکہ وہ پہاڑی کے پیچھے چھپے ہوئے تھے اگر یہ آیت ابھی بھی اطلاق پذیر ہے تو اس جنگ کے بعد کتنے یہودی اور نصارا آپ کے پاس آئے لیکن آ پ نے اُن کو مارا نہیں کیونکہ اس آیت کا اطلاق صرف میدان جنگ کے لئے تھا۔اگر یہ آیت ابھی بھی اپلائی ہوتی ہے تو پھر دیگر مذاہب میں تبلیغ کیوں کرتے ہو اللہ کا حکم ہے مار دو انہیں !!!! یہ غلط تصور ہے قرآن کی یہ آیت ایک مخصوص وقت کے لئے تھی جب آپ کی جان کوکافر گزند پہنچانا چاہتے تھے اس وقت یہ حکم آیا تھا کہ کافر جہاں ملے اسے مار دو۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی 9 نومبر 2017 کی یو ٹیوب پر لائیو گفتگو سے ماخوذ کیا گیاہے۔