- 1,308وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
فقر باکرم اور فقر باکمالیت :
تصوف کی ساری کہانی ذکر قلب سے شروع ہوتی ہےدرویشی ، ولائت اورتصوف سب اندر کا کام ہے، باہر کی چیزوں کا کوئی اعتبار نہیں نہ باہر کی پارسائی کا اعتبار ہے نہ باہر کےزہد و تقوی کا کوئی اعتبار ہے، نہ باہر کی نیکی کا کوئی اعتبار ہے۔ولی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ فقر بھی دو قسم کا ہے، فقر باکرم اور فقر باکمالیت، فقر با کمالیت کا ذکر سلطان صاحب نے بھی کیا ہے۔ فقر باکرم کا تعلق حضور سے ہےاور فقر باکمالیت کا تعلق اللہ سے ہے۔فقر باکمالیت میں آدمی دیدار الہی تک جاتا ہے اور فقر با کرم میں دیدار مصطفی تک جاتا ہے۔فقر باکرم میں مذہب کی بڑی خطرناک حد تک پابندی ہے اور فقر باکمالیت میں مذہب کی سختیاں اور پابندی نہیں ہے اس کے لیے بلھے شاہ نے فرمایا
نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبحا کھڑکایا
بلھے نوں ملیا ایسا مرشد جس ایویں جا بخشایا
مذہب کی سختیاں تو نہیں ہیں لیکن اس فقر میں مرشد پاور فل ہوتا ہے ایسا کہ اللہ مل جائے تو بھی ٹھیک ہے اور نہ ملے تو بھی ٹھیک ہے کیونکہ سامنے جو مرشد بیٹھا ہے وہ تقریبا اللہ ہی ہے، شکل و صورت کو ہٹا دیں تو وہ اللہ ہی ہے۔ایک حدیث میں ہے۔۔۔فا اذا تم الفقر فھو اللہ۔۔۔جو فقر میں کامل ہو گیا پھر وہ اللہ ہی ہے۔جو کند ذہن لوگ ہیں جنہوں نے سائنس نہیں پڑھی وہ کہتے ہیں اللہ تو اوپر ہے یہ تو ہمارے جیسا ہے ہمارے ساتھ کھیلتا تھا، پھر وہ سورہ اخلاص لے آتے ہیں کہ ۔۔۔۔قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ اللَّـهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کی باریکیوں کا ادراک نہیں ہے، شعور کی منازل سے واقفیت نہیں رکھتے۔فقر کا تعلق براہ راست آپ کے قلب و قالب کو غیر اللہ سے صاف کرنا ہے۔زبان سے کلمہ پڑھنا اچھی بات ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، ایک کلمہ زبان حال سے بھی پڑھا جاتا ہے، جس طرح سلطان صاحب نے بھی فرمایا
الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے مرشد من وچ لائی ھو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ھو
نفی سے مراد لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔اثبات سے مراد الا اللہ۔ زبان حال سےکلمہ پڑھنا یہ ہوا کہ پہلے غیر اللہ کی نفی ہو جائے قلب و قالب سے غیر اللہ نکل جائے ، پھر اللہ کا وجود یہاں ظاہر ہو جائے ۔ غیر اللہ دعائوں سے نہیں نکلتا اس کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں ۔سب سے پہلے تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے امتحان کے طور پر آپ کے اندر کیا کیا مزاحمتیں رکھی ہیں ، ایک دوڑ سیدھا بھاگنا ہے ایک دوڑ ایسی ہے جس میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں ، تو اللہ نے اپنے اور بندے کے بیچ میں کیا رکاوٹیں رکھی ہیں پہلے یہ جاننا ضروری ہے۔ اللہ تک جانا ایسا نہیں ہے کہ آپ نے یہاں سے ٹکٹ لیا اور نیو یارک پہنچ گئے ۔اس راستے میں وہ رکاوٹیں کیا ہیں؟یہ باتیں کتابوں میں نہیں لکھی ہوئی، جو لوگ اس راستے سے واقف ہیں جو ان راستوں سے گزرے ہیں ان کو پتا ہوتا ہے، لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو بزرگان دین نے اپنے روحانی تجربات سے گزرنے کے بعد کتابوں میں لکھ دی ہیں ۔ان کتب میں انسان کے سینے کے پانچ لطائف اور لطیفہ انا اور لطیفہ نفس کا احوال ہے، اللہ تعالی نے سینے کے پانچ لطائف کے ساتھ پانچ پرندے بھی سینہ انسانی میں رکھے ہیں ، پرندوں سے مراد باہر اڑنے والے پرندے نہیں ہیں بلکہ یہ ان پرندوں کی جو روح ہے وہ آپ کے اندر ہے۔قلب کے اوپر مرغ کی روح کو بٹھایا ہوا ہے یہ انسان کے دل میں شہوت ڈالتا رہتا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے، یہ تو سوچ لیتے ہیں کہ ہفتہ دس دن سے بیمار ہوں ، دوا لے رہے ہیں لیکن آرام کیوں نہیں آیا ، لیکن دین کے بارے میں نہیں سوچتے،مثال کے طور پر قرآن مجید میں آیا کہ
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ
سورة العنکبوت آیت نمبر 45
ترجمہ : کہ نماز برائیوں اور بے حیائوں سے روکتی ہے۔
موجودہ زمانہ تصوف سے خالی ہو گیا ہے :
اب ہم پندرہ بیس سالوں سے نمازیں پڑھ رہے ہیں نعتیں پڑھ رہے ہیں ، دیگر اعمال بھی کر رہے ہیں لیکن سوچتے نہیں کہ میں ابھی تک مجھے نماز نے برائی سے کیوں نہیں رکا؟ غلاظت ابھی تک میرے من میں کیوں موجود ہے؟ ایک طرف گیارہویں بھی منا رہے ہیں ، بابا فرید کا عرس بھی منا رہے ہیں ، دوسری طرف اللہ ھو ، اللہ ھو کی ضربیں بھی لگا رہے ہیں ، اور گناہ بھی کر رہے ہیں کیوں؟جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے فلاں عبادت آپ پر فرض کر دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اب آپ پر اعتماد اوریقین آ گیا ہے کہ آپ یہ عبادت کر سکتے ہیں تب فرض کی اور نماز کا یہ خطاب قرآن میں مومنوں سے ہے۔پوری دنیا میں کتنے مسلمان ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ نماز تو مومنوں پر فرض کی ہے کیا میں مومن بن گیا ہوں ؟اب یہ سوچیں بھی کیسے کیونکہ ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ پوچھیں کس سے کہ مومن کیسے بنتا ہے۔ وہابی سے پوچھیں یا بریلوی سےجن کے پاس ان باتوں کا جواب نہیں ہوتا وہ لوگ برا بھلا کہتے ہیں ۔لیکن علمی گفتگو نہیں کرتے ۔ مسلم قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جب سے تصوف سے ہٹے ہیں تو ہم فرقوں میں بٹ گئے، اور اب زمانہ اور خراب آگیا کہ اب زمانہ تصوف سے بھی خالی ہو گیا ۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
کچھ دن پہلے گولڑہ شریف کے اس وقت کے گدی نشین جو کہ نصیر الدین کے بیٹےہیں ، انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ، کوئی ولی کچھ نہیں دے سکتا ، ایسا اس لیے کہا کہ وہ کچھ دے نہیں سکتا، مریدین جب آکر کچھ عطا مانگتے ہیں تو وہ عطا کر نہیں سکتے کیونکہ پیر مہر علی شاہ کا پوتا ہونا یا غوث اعظم کا بیٹا یا پوتا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا یہاں تک کہ کسی نبی کی اولاد ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ کیونکہ یہ چیز اللہ کی طرف سے انفرادی طور پر عطا ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ خاندان میں کسی ایک کو اللہ نے ولی بنا دیا اب پورا خاندان ولی بن گیا۔ ولائت وراثت نہیں ہوتی ، جائیداد وراثت ہوتی ہے، اگر کسی کا باپ ولی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ از خود اس کا بیٹا بھی ولی ہی ہوگا۔نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر تھا اور ابراہیم علیہ السلام کا باپ کافر تھا، ایسا نہیں ہے کہ کوئی نوبل خون ہے اور خون کے ذریعے نبوت و ولائت منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے، اگر ایسا ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آذر تو ایک بت تراش اورکافر تھے، حضور نبی کریم کے چچا ابو طالب نے آخر وقت تک اسلام قبول نہیں کیا جب کہ ان کی تربیت بھی کی، تو یہ چیز وراثت نہیں ہے کہ اگر آپ کا باپ ولی ہے تو آپ ازخود ولی ہیں ، اگر اللہ نے بیٹے کو ولائت دی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا باپ بھی ولی ہی تھا ، ایسا ہو سکتا ہے کہ باپ، دادا اور پوتا ولی ہو لیکن یہ اس صورت میں کہ جب اللہ چاہے از خود ایسا نہیں ہوگا۔پاکستان میں بہت سے لوگ اس کو مراعات مان کر پیر بن کر بیٹھ گئے کہ ہم غوث پاک کے خانوادے سے ہیں ، غوث پاک کے خاندان سے ہوئے تو کیا ، اندر کی ارواح کو تو سب ہی نے بیدار کرنا ہے، ولائت تو ان ارواح کو بیدار کرنے سے حاصل ہو گی، لیکن یہ علم ہے ہی نہیں کہ ہماری ارواح کیسے بیدار ہوں گے، ہم مومن کیسے بنیں گے؟پاکستان کیا پورے عالم اسلام میں یہ ہی تصور ہے کہ جس نے سچے دل سے زبانی کلمہ پڑھ لیا وہ جنت میں ہی جائے گا۔گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جہنم کی جیل سے اللہ تعالی اس کو جنت میں ہی بھیجے گا۔جبکہ قرآن کچھ اور کہہ رہا ہے
أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
سورة آل عمران آیت نمبر 136
مرد قلندر کی عدم موجودگی کی وجہ سے علم تصوف میں بگاڑ:
جو جنت میں چلا گیا وہ ہمیشہ وہاں رہے گا اور جو جہنم میں چلا گیا وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہے گا۔چار پانچ سو سال گزر گئے کوئی کامل ، کوئی مرد قلندر دنیا نے دیکھا نہیں۔علامہ اقبال کا وصال 1938 میں ہوا اس بات کو بھی اسی سال ہو گئے ، اسی سال پہلے علامہ اقبال نے فرمایا
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانہ بند
اب مناسب ہے تیرا فیض ہو عام اے ساقی
تو اب جب کوئی کامل ، کوئی اللہ والا آیا نہیں تو تصوف کیا ہے ، تصوف کی تشریح کیا ہے کہاں سے ملتا ہے اس میں لوگوں نے گڑ بڑ کردی۔علم تصوف پر کتابیں تو بہت مل جاتی ہیں لیکن کتابیں پڑھ کر اگر کوئی مومن بن جاتا تو پھر ان کتابوں کی کیا ضرورت تھی قرآن ہی کافی تھا!سلطان صاحب کی کتاب ہو یاکسی اور بزرگ کی کتاب ہو، بلکہ سلطان صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ اگر تیرا کوئی مرشد نہیں تو تو میری کتاب کو ہی مرشد بنا لے، میں اللہ تک پہنچا دوں گا۔ اس قسم کا دعویٰ اگر ہوسکتا ہے تو یہ صرف قرآن کے لیے ہونا چاہئے تھا ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ولیوں کی کچھ باتیں اس عالم میں ہوتی ہیں جب وہ نشے میں ہوتے ہیں ،ایک نشہ تو سگریٹ کا ہے ، ایک نشہ شراب کا ہے ، ایک نشہ اور ہے وہ اللہ کی محبت کا نشہ ہے اس کو “حالت سکر” کہتے ہیں ۔ اس عالم میں بندے کو کوئی ہوش نہیں ہوتا ، کیونکہ اس عالم میں اللہ کی تجلیات اور اللہ کے انوار لطائف پر ایسے چھا جاتے ہیں جس سے حواس خمسہ کے مابین ربط متاثر ہو جاتا ہے، اللہ کی واردات محبت سے وہ وقتی طور پر حالت جذب سے حالت سکر میں آ جاتے ہیں ۔
ولیوں کا کلام رمز سے بھرا ہوتا ہے ، اس کلام کو سمجھانے والا کوئی ہونا چاہئے، جس طرح بایزید بسطامی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دن آپ مسجد میں خطبہ سن رہے تھے خطیب نے جب یہ کہا کہ یوم محشر میں سب سے بڑا جھنڈا محمد رسول اللہ کا ہو گا تو بایزید کھڑے ہو گئے اور کہا نہیں! میرا جھنڈا ان سے بھی بلند ہو گا، اب دیکھا جائے تو یہ کتنی بڑی گستاخی ہے، بعد میں جب لوگوں نے پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا ، تو انہوں نے اپنے خاص مریدوں کو بتایا وہ میں نہیں تھا ، یہ اسی نے کہا جس کا جھنڈا محمد رسول اللہ سے بھی اونچا ہے۔ تو یہ رمز ہی تھی۔خاص اولیاء کرام اور فقراء پر ایسا عالم بھی وارد ہوتا ہے کہ جب بولنے والا تبدیل ہو جاتا ہے ، اسی طرح غوث اعظم جیلانی کا بھی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ خاص کیفیت میں تھے جب طفل نوری کا سلطان الفقراء والا وجود ان کے حواس پر قابض تھا اس وقت ایک چور ان کے سامنے آگیا اس وقت ان کے ماتحت نے غوث پاک سے کہا فلاں علاقے کا قطب فوت ہو گیا ہے آپ جس کو منتخب کریں تو اس کی ڈیوٹی وہاں لگوا دیں ، تو وہ اس کیفیت میں تھے تو کہا چور کو لائو اس پر نظر ڈالی اور قطب بنا دیا، تو یہ وہ خاص لمحے ہوتے ہیں ۔اب اگر ہر کوئی اپنے پیر کو کہے تو وہ تو ایسا نہیں کر سکتا یہ تو خاص کیفیات ہیں اس خاص کیفیات میں کیے گئے کلام کو اس ولی سے منسوب نہیں کرنا چاہئیے، وہ کلام اللہ سے منسوب کرنا چاہئیے۔تو اوپر جو لکھا کہ سلطان صاحب نے اپنی تحریر کو کہا کہ یہ مرشد کا کام کرے گی، یہ الہام کی کیفیت جس پر بھی جائے گی اس کو مرشد کی کیا ضرورت ہے۔وہ الہام جو سلطان حق باھو پر آیا اگر کوئی اس قابل ہو جائے کہ وہی الہام اس پر بھی آئے یعنی اگر بحسن صحت روحانی کوئی اس کا متحمل ہو جائے تو اسے مرشد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔لیکن اگر کتاب کو مرشد کا متبادل سمجھ لیں تو ایک تویہ بات عملی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ قرآن سے بڑی تو کوئی کتاب ہی نہیں ہے۔اور قرآن مجید میں مرشد کے حوالے سے لکھا ہے
وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورة الکہف آیت نمبر 17
ترجمہ :اور جس کو میں گمراہ کرنا چاہوں اس کو کسی ولی اور مرشد سے نہیں ملاتا۔
فقر کے راستے میں خاموشی سے چلنا پڑتا ہے:
اولیاء کرام کی کتابوں میں لکھی رمز کو سمجھنا انہی کے بس کی بات ہے جو خود اسی مقام کا ہو، جن کو پتا ہو یہ کہانی کہاں سے آرہی ہے ، عام آدمی تو ان کو پڑھ کر پریشان ہی ہو گا جیسا کہ بلھے شاہ کا کلام ہے ، اب وہ کلام اگر پڑھیں تو آپ نہ تو انہیں کافر کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دین اسلام کی مطابقت میں باتیں کرتے ہیں ، ہیں وہ اللہ کے ولی بھی لیکن ان کی باتوں سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے کہ وہ دین اسلام کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ایک چیز انہوں نے یہ کہی
کھا کباب تے پی شراب پر بال ہڈا ں دی اگ
چوری کر تے بھن گھر رب دا اس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
دین تو پیچھے رہ گیا انہوں نے تو اللہ کو بھی نہیں چھوڑا اللہ کو بھی ٹھگ بنا دیا ، اب یہ رمزیں ہیں ۔۔۔۔کھا کباب ۔۔۔ یہ زہد کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اپنے جسم کو پیاسا رکھ اور عبادت کی شدت ایسی کر کہ اندر کا ماس جلنے لگ جائے، اس کو کباب کہا۔پی شراب۔۔۔۔ اس سے مراد نشہ آور مائع پینا نہیں ہے، شراب عربی زبان کا لفظ ہےاس کے معنی ہیں” پینا” یعنی اپنا خون جگر پی۔بال ہڈاں دے اگ۔۔۔۔۔ اپنی ہڈیوں میں اگ لگا، یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ ہڈیوں میں روح جمادی ہوتی ہے ، اپنی ہڈیوں میں یارحمان کا ذکر بسا، یا رحمان کا ذکر ہڈیوں میں بسے گا اور جب ہڈیاں آپس میں ٹکرائیں گی تو چنگاری نکلے گی ۔چوری کر تے بھن گھر رب دا اس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ۔۔۔رب کا گھر اس دل کو کہا، حدیث میں ہے قلب مومن بیت الرب ،یعنی یہ جو دل ہے اس کو پھاڑ۔چوری کر یعنی یہ کام چپکے چپکے کر کسی مولوی کو نہیں بتانا ، خاموشی سے یہ راستہ تلاش کر۔سلطان صاحب نے کہا
شرع شریعت دے محل اچیرےنیویں فقر دی موری ھو
عالم فاضل لنگن نئیں دیندےجو لنگیا سو چوری ھو
اگر تم نےمولویوں کو بتا دیا کہ میں اللہ کی تلاش میں ہوں تو وہ تم کو اسی میں الجھاتے رہیں گے، وضو کے مسائل، نکاح کے مسائل ، داڑھی کے مسائل۔نیویں فقر دی موری سے مراد ، یہ کوئی زیر زمین سرنگ ہے جو لوگوں کو تو نظر نہیں آتی لیکن پہنچتی اللہ تک ہے تو کسی کو نہ بتا کہ تو اس پر چل رہا ہے،خاموشی سے فقر اپنا لے۔۔۔شرع شریعت دے محل اچیرے، یعنی وہاں تو سب نظر آرہا ہے، یہ مسجد جا رہا ہے بڑا نمازی ہے، یہ زکوة دے رہا ہے بڑا زبردست نیک آدمی ہے، اس نے داڑھی رکھی ہے بڑا شریف ہے، یعنی شریعت میں جو بھی عمل کر رہا ہے وہ سب کو نظر آ رہا ہے اور اس کی خوب داد بھی وصول کر رہا ہے جس سے نفس میں تکبر بھی آرہا ہے، نفس تعریف سن سن کر موٹا اور خبیث ہو رہا ہے اور فقر کی تعلیم تو اندر ہی اندر نیچے نیچے کی ہے ، جو تعلیمات فقر پر عمل کرتا ہے لوگوں کو اس کا پتا نہیں چلتا کہ یہ اندر سے کتنا پاک ہو گیا ہے۔ لوگ اس کے حلیہ کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ نہ تو اس کی داڑھی ہے اس کی بول چال اور شکل و صورت سے تو یہ کوئی بے دین ہی لگتا ہے، اور فقیر یہ ہی چاہتے ہیں کہ۔۔۔لوکی تینوں کافر آکھن تو آہو آہو آکھ۔۔۔تو یہ جو فقر کا راستہ ہے یہ چپکے چپکے جانے والا ہے اگر لوگوں کو اس کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو گیا تو فورا تیری تعریفوں میں جت جائیں گے اور فورا شیطان آ جائے گا۔راہ طریقت میں آدمی بڑی خاموشی سے چلتا رہتا ہے، سامنے والے کو پتا نہیں چلتا کون ہے، لیکن اگر سب کچھ سامنے سامنے کرتے رہیں گے، داڑھی بھی رکھ لی اور ماتھے پر سجدوں کا کالا نشان بھی پڑ گیا تو یہ پھر ایسا ہی ہے جیسا کہ تھانے میں تصویر لگ گئی ہے۔
اصل قرآن نبی کریمﷺ کے سینہ مبارک میں ہے:
یہ راستہ اندر کا ہے، اندر پاک ہونا شروع ہو جائے۔یہ راستہ بتانے والے چار پانچ سو سال سے دنیا میں آئے ہی نہیں اور ان چار پانچ سو سالوں میں اسلام کا وہ حال ہو گیا جس کا آپ تصور ہی نہیں کر سکتے۔اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں ، اقرار بالسان وتصدیق بالقلب۔ آج کا مسلمان صرف اقرار بالسان جانتا ہے، تصدیق بالقلب کیا ہے اس کا ادراک ہی نہیں ہے۔حضور کے دور کا واقعہ ہے کہ دور دراز سے آنے والے بدو اسلام قبول کرتے ہی اپنے آپ کو مومن کہنے لگ گئے تو اللہ نے آئت نازل کی کہ
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
سورة الحجرات آیت نمبر 17
ترجمہ: اعرابی کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ، یا رسول اللہ کہہ دیں تم مومن نہیں ہو بلکہ یہ کہو ہم نے اسلام قبول کیا ہے، مومن تب بنو گے جب ایمان تمہارے قلب میں داخل ہوگا۔
آج مسلمانوں کی صورت حال بھی کچھی ایسی ہی ہے ، زبان سے ہی کلمہ پڑھ لیا، زبان سے ہی نماز ہو رہی ہے ، دل کو پتا ہی نہیں ہے کہ اللہ کا نام کیا ہے اللہ کے رسول کی محبت کیا ہے۔ نورکیا ہے اس سے دل بے خبر ہے، زبان سے لگے ہوئے ہیں اور بہتر تہتر فرقے بنے ہوئے ہیں ۔آج اگر کوئی مولی علی یا امام حسین سے محبت کی بات کرلے گا تو وہ اپنے آپ کو مومن کہنے لگتا ہے، حالنکہ مومن وہ ہے جس کے قلب میں ایمان اترجائے۔آپ کسی سے بھی محبت کر لیں مومن اسی وقت بنیں گے جب کلمہ دل میں اترے گا۔ دلوں میں کلمہ اتارنے والا علم اگر قرآن مجید میں ہوتا تو بہتر تہتر فرقے کبھی نہ بنتے۔یہ علم قرآن میں کیوں نہیں ہے؟جو عکسی قرآن آپ کے ہاتھوں میں ہے جسے آپ روزانہ پڑھ رہے ہیں اس قرآن کو کتابی صورت دینے میں اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا اور حکم شامل نہیں ہے۔ اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے ذہن میں خاکہ یہ ہوگا کہ چونکہ یہ قرآن حضور کے قلب پر نازل کیا گیا ہے اسی لیے یہ قرآن پاک حضور کی ذات مبارک کا حصہ ہے وہاں ہی محفوظ ہے اب جو ولائت نکلے گی تو قران کا یہ علم سینہ بسینہ نکلتا جاتا رہے گا اور مستحقین کو ملتا رہے گا الگ سے قرآن ہو گا تو کوئی سمجھائے گا کیسے؟
مثال کے طور پر جب کمپیوٹر لیتے ہیں تو اس کے ساتھ اس کی کتاب بھی آتی ہے جس پر تمام ہدایات لکھی ہوتی ہیں ،اگر آپ صرف کتاب رکھ لیں اور کمپیوٹر نہ ہو تو بیکار ہی ہے۔قران کو کتابی صورت دینے سے ایک یہ غلط تصور شروع ہوا جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ قرآن الگ ہے اور حضور پاک کی ذات الگ ہے،اگر قرآن کتابی صورت میں نہ ہوتا تو یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوتی۔ اصل قرآن تو نوری حروف میں حضور کے قلب میں ہے۔
وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ
سورة الشعراء آیت نمبر 192-194
کہ جبرائیل امین نے قرآن کو حضور کے قلب پر نازل کیااگر آپ اس دور تک چلے جائیں جہاں ابھی حضور کا وصال نہیں ہوا ہے تو قرآن کہاں ہے؟ اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو قرآن آپ کے قلب پر نازل ہوا وہ سارے کا سارا آپ نے بیان بھی فرما دیا؟ کبھی قرآن سفر میں، کبھی حجر میں ،کبھی کوئی ہے کبھی کوئی ساتھ نہیں ہے، دوسرا یہ کہ اللہ تعالی نے جس وقت یہ بات فرمائی کہ ہم نے یہ قرآن نازل کیا ہے ہم ہی اس کی حفاظت کریں گےسوال یہ ہے کہ جس وقت یہ آئت نازل ہوئی اس وقت قرآن کتابی صورت میں تھا؟ تو آج اس حفاظت کو اس کتاب کی حفاظت کیوں سمجھ رہے ہیں ؟ یہ حفاظت اس کی ہے جو حضور کے قلب میں موجود ہے۔
“اگر قرآن حضور پاک کے سینہ مبارک میں موجود ہے تو پھر حفاظت کی کیا ضرورت ہے؟شیطان وہاں ڈاکہ کیسے ڈال سکتا ہے، حفاظت قرآن کی حضور کے قلب میں ہوتے ہوئے کی بات نہیں ہے وہ حفاظت یہ ہے کہ یہ قرآن حضور کے قلب سے آگے کیسے بڑھے گا، یعنی صحیح صحت کے ساتھ ایک سینے سے نکل کردوسرے سینے میں چلا جائے اس کی ہم حفاظت کرتے ہیں ۔حفاظت کی ضرورت تب پڑے گی جب اس قرآن کی ترسیل ہو گی، آپ صرف ترتیل پر نظر نہ رکھیں ، بلکہ ترسیل کو موضوع بحث بنائیں کہ یہ قرآن حضور کے سینہ اطہر سے نکل کر جب فیض کے طور پر دوسرے سینے میں جائے گا تو اس وقت کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے”
اس کے لیے بھی کہا کہ
اسم اللہ شئی الطاہر لا یستقر الا بمکان الطاہر۔۔۔۔اسم اللہ پاکیزہ شے ہے جہاں اس اسم نے جانا ہے جب تک وہ جگہ پاک نہیں ہو گی یہ اسم وہاں ٹہرے گا نہیں۔اس کے لئے باطن میں قانون ہو گیا ۔۔۔ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىکہ جب تک تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب نہیں ہو گااس سینہ میں قرآن جائے گا ہی نہیں۔قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا
لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
سورة الواقع آیت نمبر 79
لوگوں نے اس کا ترجمہ یہ کیا کہ ناپاکی کی حالت میں قرآن کو مت چھوئو۔اس ترجمہ و مفہوم سے کتنا بڑا بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ جب یہ قرآن آیا تھا اس وقت تو کتابی صورت میں تھا ہی نہیں۔ اس آئت مبارکہ کا براہ راست علم تصوف سے تعلق ہے، کہ سوائے پاک لوگوں کے کسی کے اندر اس کا رگڑا نہیں لگے گا ان ہی کے اندر جا کر استقرار پکڑے گا جو پاک ہیں ۔قلب والے علم کے بغیر انسان مومن نہیں بن سکتا، اگر مومن نہیں تو امت میں داخل بھی نہیں ہے۔
اُمت مصطفی میں کیسے داخل ہوتے ہیں ؟
لوگ زبان سے کلمہ پڑھ کر سمجھتے ہیں ہم حضور کی امت میں داخل ہیں ، ایسا نہیں ہے، زبان سے کلمہ پڑھا تو ابھی تم مسلمان ہو امتی نہیں ۔غوث اعظم کے مریدین کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک کہلاتے ہیں آپ کے اصل مرید اور ایک کہلاتے ہیں آپ کے داخلی مرید۔ اصل مرید وہ ہیں جنہوں نے براہ راست غوث اعظم سے ذکر قلب کی دولت اور نعمت کا فیض حاصل کیا اب غوث اعظم پیران پیر اور ولیوں کے سردار ہیں جتنے بھی روحانی سلسلے ہیں ان کی سرپرستی بھی غوث اعظم کے ذمہ تھی ، بھلے وہ چشتیہ،سہروردیہ، نقشبندیہ ہو تمام سلاسل باطن حضور سیدنا غوث اعظم کی سرپرستی میں چلے اور ان سلاسل میں چل کر جب نفس پاک کر لیتا تو ان سلاسل کے مرشدین غوث اعظم سے اس کا رابطہ کرا دیتے اور غوث اعظم سے اس کو ذکر قلب کی اجازت مل جاتی ۔کچھ توکامل ولی ایسے تھے جنہیں غوث اعظم نے مقرر فرمایا تھا کہ تم ذکر قلب دے سکتے ہو ، کامل ولی ہم کس کو کہتے ہیں ؟ کامل ولی وہ ہے جو دیدار الہی والا ہے اگر چشتیہ یا کسی اور خاندان میں کوئی دیدار الہی تک پہنچ جاتا تھا تو وہ اپنی نظروں سےقلب جاری کر دیتا تھا ،چونکہ اس ولی کو اجازت غوث اعظم سے ملی ہوتی تھی لہذا جس کا قلب جاری کیا جاتا اس کا شمارغوث اعظم کے مریدوں میں ہوتا تھا ۔ غوث اعظم کے پاس اسم ذات کی کنجی تھی آگر غوث اعظم کے علاوہ کسی سے بھی ذکر ملا تو اس کو کہا یہ غوث پاک کا داخلی مرید ہے۔
“اسی طرح براہ راست حضور پاک کی نظروں سے جن کے سینے اور قلب آباد ہوئے،جن کی زبانوں نے پہلے اللہ اللہ کیا اور پھر صحبت رسول میں بیٹھنے سے جن کے نفس پاک ہوئے وہ حضور کے اصل امتی ہیں ،پھر اس کے بعد اہل بیت ، مولی علی، امام حسین ، یا آئمہ کرام یا صوفیوں کے ذریعے قلب جاری ہوا تو وہ حضور کا داخلی امتی ہوا”
اگر اسم ذات اللہ صرف زبان تک ہے دل میں داخل نہیں ہوا تو امتی نہیں ہے ، امت میں صرف وہ شامل ہو گا کہ جس کو اسلام کا درس و توحید مل گیا۔سیدنا گوھر شاہی نے سورۂ اخلاص کی خصوصی تشریح بیان فرمائی ۔۔۔۔قل ھو اللہ احد۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی نے حضور پاک کو کہا کہہ دیجئے اللہ ایک ہے، آپ نے آمین کہا پھر آپ نے لوگوں کو کہا کہہ دو اللہ ایک ہے جنہوں نے مان لیا وہ مومن ہوئے جنہوں نے حیل وحجت کی وہ منافق ہو گئے جنہوں نے انکار کیا وہ کافر ہو گئے، پھر فرمایا اب تو روزآنہ نماز میں کس کو کہتا ہے کہہ دے اللہ ایک ہے؟ تو اپنے دل کو کہتا ہے کہہ دے اللہ ایک ہے آگے سے دل کہتا ہے بیوی بیمار ہے، گھر میں آٹا ہی نہیں ہے، دل تو تیرا دنیا داری میں لگا ہوا ہے ،تیرا دل تو کلمہ کے صدق کا مظہر نہیں بن رہا ہے تو پھر ایمان کیسے داخل ہو گا؟اس دل کو کلمہ پڑھانے اور باطنی تعلیمات کو بڑھانے میں مدد کے لیے مولی علی کو وصی بنایا کہ یہ جو باطنی تعلیمات تصوف ہوں گی اس کا اظہار علی کے ذریعے ہو گاحدیث مبارکہ ہے ۔۔۔۔ انا مدینہ العلم وعلی البابہا۔۔۔۔میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہر میں داخل ہونے کے لیے دروازہ ہیں۔آج کا مسلمان علم کا سرچشمہ قرآن کو سمجھ رہا ہے لیکن اللہ کے رسول کے فرمان کے مطابق حضورعلم کا سرچشمہ ہیں تو اب مسلمان دو مخالف سمتوں میں جا رہے ہیں ۔قرآن تو اللہ کی صفات کا ایک جزو ہے اور ذاتِ محمد مجموعہ انوار تجلیات ہے۔
سادات کا نور سات پشتوں تک ہی قائم رہا :
ذات محمد میں مختلف النوع اللہ کی صفات اور ذات جلوہ گر ہیں ،قرآن اللہ کی صفت کلیم ہے ، کلام کرنے کی صفت۔حضور کا مندرجہ بالا فرمان حضور کے بعد آنے والے دور کے لیے تھا اگر حضور خود موجود ہیں تو دروازے کی ضرورت نہیں تھی۔ دروازے سے مراد یہ تھی کہ علم باطن کا فیض مولی علی کے ذریعے آگے پھیلے گا، مولی علی سے یہ علم نکلا اور جو بھی مستحق ہوا وہاں تک ولائت جاتی رہے، ضروری نہیں ہے کہ ساری ولائت اللہ اہل بیت کو ہی دے، اللہ نے جس کو چاہا بھلے وہ اہل بیت میں تھا یا نہیں تھا، اہل بیت کو تو اللہ نے نوازا ہی ہے لیکن اہل بیت کے علاوہ باقی بھی اللہ کی مخلوق ہے، لہذا اللہ نے باقیوں کو بھی نوازا۔ایک اور خوبصورت نکتہ جسے سمجھنا بڑا ضروری ہے۔ایک حدیث جس کے راوی سلطان حق باہو ہیں کہ
علماء من صدری سادات من صلبی فقراء من نور اللہ تعالی
ترجمہ : عالم وہ ہونگے جن کا تعلق میرے سینے سے ہو گا، سادات وہ ہوں گے جو میری صلب سے نکلیں گےاور فقیر وہ ہوں گے جو میرے نور سے نکلیں گے۔
اب حضور کی صلب سے جو سادات نکلے، اس کا نور سات پشتوں تک قائم رہا۔یہ نور سات پشتوں تک ہی کیوں قائم رہا؟حضور کی آل میں نور تھا جب انہوں نے آگے شادی کی تو وہاں تو نور نہیں تھا شادیوں سے جو اولاد پیدا ہوئی تو آدھی مٹی آدھا نور تو نور کی شدت ہر نسل کے بعد کم ہوتی گئی ،اگر سامنے والی نسل میں بھی نور ہوتا تو یہ نسل ہمیشہ نوری ہی رہتی ، تو جب نوری اور خاکی کے ملاپ سے نور کی شدت کم ہوتی گئی یہ نور سات پشتوں تک ہی چلا جب آٹھویں پشت آئی تو وہ نور سے بالکل خالی تھی اسی لیے سات پشتوں کے بعد سیدوں میں وہ بات نہیں رہی۔ اب یہ سب کہنے کی باتیں ہی ہیں کے سید کے ہاتھ پر کوئلہ رکھ دو نہیں جلائے گا ۔اللہ نے جن کی طہارت کا ذمہ لیا تھا وہ اہل بیت ہیں سب کی طہارت کا ذمہ تو اللہ نے نہیں لیا تھا اور اس کے لیے آئت تطہیر بھی آگئی کہ
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
سورہ الاحزاب آیت نمبر 33
اور ہم نے آپ کی اہل کو ہر قسم کی غلاظت سے پاک کرنے کا ارادہ کر لیا ہےوہ ہر قسم کی غلاظت کیا تھی؟وہ یہی غلاظت تھی کہ یہ جو انسان کے اندر خون ہے اس خون میں شیطان اپنی نار دوڑا کر رکھتا ہے، دل کے دو انچ کے نیچے شیطان کی اولاد میں سے ایک جن ہے جس کا نام خناس ہے جس کی شکل ہاتھی کی طرح ہے خناس اپنی سونڈ انسان کے دل میں ڈال کر بیٹھا ہے اور مسلسل اس سونڈ کے ذریعے وسوسےکا رسوب تیل کی صورت دل میں ڈالتا رہتا ہے اس کا ثبوت بھی قرآن میں مل رہا ہے
مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ
سورة الناس آیت نمبر 4-5
شیطان انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے،اہل بیت اس سے پاک تھے کیونکہ حضور کی صحبت سے ان کے نفس پاک ہو گئے تھے اور عام آدمی کو تو اپنا نفس پاک کرنا پڑتا ہے تو سات پشتوں تک یہ سادات چلے ہیں آٹھویں پشت جب آئی تو اس میں نور کا گراف زیرو ہو گیا۔ اسی طرح امامت کا ہے اہل بیت سے گیارہ امام آئے ہیں جب بارہواں امام آیا تو وہ امت سے آیا تھا ۔ امام جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اور امام ابو حنیفہ کا زمانہ ایک ہی ہے یہ دونوں امام ہم عصر تھے۔امام جعفر صادق کو اللہ نے علم نجوم عطا کیا اور علم باطن کو امت یعنی امام ابو حنیفہ کی جانب دھکیل دیا ،امام جعفر کی نسبت سے ہی علم نجوم یا ستاروں کے علم کو علم جعفر بھی کہا جاتا ہے۔ تو گیارہ امام اہل بیت سے اور بارہویں امام نعمان بن ثابت امت سے تھے، ان کا نام نعمان بن ثابت اور تخلص امام ابو حنیفہ ہے۔ ان کے بعد دیگر تین آئمہ کرام، امام احمد بن حنبل ،امام انس بن مالک، امام شافعی یہ تینوں امام ، امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے، اور بڑے نفیس لوگ تھے۔جیسا کہ امام انس بن مالک کی بات دیکھیں کہ شریعت وغیرہ وضع کر نے کے بعد آپ حج کے لیے گئے اور ادائیگی حج سے فراغت پانے کے بعد مدینہ چلے گئے اور پھر حضور کی جالیوں سے دور نہیں ہوئے کئی سال وہیں گزار دئیے کے اب یہاں سے نہیں جائوں گا ان کا انتقال بھی حضور کی جالیوں کے سامنے ہی ہوا ، یہ ان کی حضور سے محبت کا عالم تھا ۔
اللہ کے نور کے تابع ہونے سے کیا مراد ہے؟
سات پشتوں والے سادات اور عام آدمی میں فرق صرف سات پشتوں میں نور تھا اور عام آدمی میں نور نہیں ہے لیکن اگر تم تصوف کا یہ علم سیکھ لو، دل کی دھڑکنوں میں اللہ ھو کے نور کے رگڑے سے جو نور بنتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ وہ نور خون میں شامل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔دل ایک پمپنگ اسٹیشن ہے انسان کے دل میں دو قسم کی رگیں ہیں ایک کہلاتی ایک کا نام شریان اور ایک ورید کہلاتی ہیں ، شریانوں کا کام ہے جسم سے گندہ خون لے کر دل کو پہنچانا تاکہ دل میں خون کی صفائی ہو سکے، خوراک کا کام خون بنانا اور جسم کو طاقت پہنچانا ہے لیکن اسی خوراک سےگندا خون بھی بنتا ہے کیونکہ ہم نہ جانے کیا کیا کھاتے ہیں تو اس خوراک میں جو وٹامن اور پروٹین منرل شامل ہوتے ہیں وہ خام حالت میں ہوتے ہیں ان اچھی چیزوں کے ساتھ ساتھ۔ بہت سے فاسد مادے بھی خوراک میں ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بہت سا گند بھی ہمارے خون میں شامل ہو جاتا ہے تو ہمارے خون میں کولیسٹرول تو ہر صورت جائے گا ہی اور دل کا کام ہی یہ ہے کے وہ گندا خون صاف کرکے جسم کو پہنچاتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کے ایسی خوراک یا ایسے پھل فروٹ ایجاد کر لیے جائیں کہ جس کے کھانے سے صاف خون بنے۔ پٹرول بھی جب نکلتا ہے تو وہ خام حالت میں ہوتا ہے اس کی صفائی کے لیے ریفائنری لگانی پڑتی ہے اسی طریقے سے کوئی خوراک ایسی نہیں ہے جس سے صاف خون بنتا ہو۔جب شریانیں دل میں گندا خون لے کر پہنچتی ہیں تو دل کا کام ہے خون میں آکسیجن داخل کرنا ، ہمارے خون میں دو طرح کے جرثومے ہوتے ہیں ایک سرخ خلیے اور ایک سفید خلیے کہلاتے ہیں ، خون کےسفید خلیے (Oxigination)کے کام آتے ہیں ، جب ان خلیوں میں آکسیجن شامل ہو جاتی ہے تو پھر یہ صاف خون وریدوں کے ذریعے جسم میں جاتا ہے، خون کو دھکلینے کے لیے جو دھڑکن لگی ہوئی ہے وہاں پر ایک والو لگا ہوتا ہے جس کو پلمونری والو کہتے ہیں ، اس کا کام خون کے قطروں کو آگے دھکیلنا ہے اس دھکیلنے کی آواز ہم کو دھک دھک کی طرح آتی ہے، اس دھک دھک کے ساتھ اگر اللہ ھو اللہ ھو مل جائے تو وہاں خون میں آکسیجن بھی لگے گی اور ساتھ ہی ساتھ اللہ اللہ سے بننے والا نور بھی شامل ہو جائے گا، دھک دھک اس بات کا ثبوت ہے کے وہاں خون میں آکسیجن شامل ہو رہی ہے اگر وہ دھک دھک رک گئی تو اس کا مطلب ہے خون وہاں رک گیا ،اس طرح جب اس خون میں اللہ کے اسم کا نور بھی شامل ہوکر نس نس میں پہنچنے لگے گا اس کے لیے سلطان صاحب نے کہا اگر تیرے دل نے ایک مرتبہ اللہ کہا تو بہتر ہزار قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا کیونکہ تیرے جسم میں جو مسام ہیں جن سے پسینہ آتا ہے ان مساموں کی تعداد بہتر ہزار ہے اگر دل نے ایک مرتبہ اللہ کہا تو بہتر ہزار آوازیں وہاں سے بھی گونجیں گی، لیکن ایسا تب ہو گا جب تیرے نس نس میں نور چلا جائے گا ، ایسا پہلے دن نہیں ہوگا ، بہتر ہزار کا ثواب تب ہی ملے گا جب نس نس میں نور خون سے پہنچے گا تو تمام اعضاء میں بھی نور آ جائے گا، یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے آپ اب اللہ کے نور کے تابع ہو گئے۔اس موقع کے لیے حضورﷺ نے فرمایا
اتقو فراست المومن وانہ ینظر بنور اللہ
ترجمہ : مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
کشف ناسوتی، کشف ملکوتی، کشف جبروتی یہ تمام کشف اس نور کی وجہ سے ہی ہیں ، جہاں جہاں یہ نور جاتا رہے گا جو جو منازل فقر طے ہوتی رہیں گی یہ دروازے کھلتے رہیں گے ،پردے پھٹتے رہیں گے ، پھرکشف القبور ، کشف الحضور بھی حاصل ہو جائے گا پھر ایک ہے جبروتی کشف یہ کشف جب ہوتا ہے تو آدمی اللہ کا دیدار کر لیتا ہے۔جبروتی کشف یہ کہ جب تو ادھر آنکھیں بند کرے اور دیکھ لے کے مقام محمود پر کیا ہو رہا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اندر کی مخلوق لطیفہ انا اور لطیفہ روح کو ایک ساتھ مراقبہ لگے روحانی زبان میں اس کو مراقبہ الموت کہتے ہیں ، حضور نے جو یہ فرمایا کہ موتو قبل انت موتو وہ اسی مراقبہ کی طرف اشارہ تھا۔جب غوث پاک کو جنگل میں مراقبہ الموت لگتا تھا تو آپ سترہ سترہ دن تک یونہی پڑے رہتے جب لوگوں کے قافلے وہاں سے گزرتے تو سمجھتے کہ کوئی مر گیا ہے اور جب وہ لوگ انہیں دفنانے کا انتظام کرتے اورجیسے ہی قبر میں لٹانے لگتے تو ان کو ہوش آ جاتا ، مراقبہ الموت غوث پاک کا پسندیدہ مراقبہ تھا ، یہ مراقبہ شب معراج میں جانے سے قبل حضور کو بھی لگتا تھا لیکن ایک دن اللہ کو خیال آیا کہ یہ میرا محبوب ہے اس کا طریقہ مختلف ہونا چاہئیے۔حضور پاک نے مراقبہ الموت لگانے کے لیے تین تین دن کے روزے رکھے تاکہ جسم کمزور ہو جس سے جسم کی طنابیں کمزور ہونگی تو ہی روح جسم سے روح نکل پائے گی، جسم میں جتنی زیادہ کثافت ہو گی تو وہ کثافت روح کی لطافت پر بھاری ہو گی ، لہذا روح کی لطافت کو اُبھارنے کے لیے جسم کی کثافت کو کم کرنا پڑتا تھا ، اسی لیے آپ نبی کریم نے تین تین دن کے روزے رکھے ، جس کو لوگوں نے کہا آپ فقر و فاقہ میں رہے معاذ اللہ ایسا نہیں تھا کہ آپ کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ حضور نبی کریم تو ساری دنیا کے شہنشاہ ہیں کیا نہیں تھا ان کے پاس!مراقبہ الموت کے لیے جسم کی کثافت کو گھٹانا ہے تاکہ روح کی لطافت ابھر سکے لیکن لوگوں نے اس کو کہا کہ معاذ اللہ آپ فقرو فاقہ سے رہے ،لہذا معراج کے بعد اللہ تعالی نے حضور نبی کریم کا طریقہ تبدیل فرمایا اور اس ایک جسمانی معراج کے بعد حضور نبی کریم کو تینتیس معراج روحانی طور پر ہوئیں ۔پہلی معراج پر تو مومنوں کے لیے نماز تحفے کے طور پر ملی تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دوسری معراج ہوئی ہو گی تو کیا کوئی تحفہ نہیں ملا ہو گا؟ تیسری معراج سے آنے پر کون سا تحفہ تھا؟ ہر معراج ہر تحفے تحائف لاتے رہے ہونگے ناں، یہ سارے مراتب روحانی یہ تصوف کے مراتب ، فنا فی الشیخ کی منزل ، فنا فی الرسول کی منزل ، فنا فی اللہ کی منزل، بقا باللہ کی منزل اور واصلین کی منزل کہ یہ مقام وصل کے اس مقام پر ہے، یہ تمام تحائف ان چونتیس معراج میں حضور کو اللہ نے اپنے حبیب کو عطا کیے۔
تصوف کی ابتداء ذکر قلب سے ہوتی ہے :
اب دیکھا یہ جائے گا کہ تیرا مرشد کون تھا، بہت سے لوگ غوث پاک سے عقیدت رکھتے ہیں وہ ذکر قلب کےحصول کے لیے دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں غوث پاک کو ذکر قلب کی مدد کے لیے پکاریں آجائیں تو ٹھیک ہے وہ نہ آئیں توسلطان صاحب یا داتا صاحب کو پکار لیں ، وہ بھی نہ آئیں تو خواجہ صاحب کو پکار لیں ، اگر کوئی مدد کر دے تو بہت اچھا ہے پھر سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اگر کوئی بھی تیری مدد کو نہ پہنچے تو پھر مجھے آزما کر دیکھ لیں اور دن میں کسی بھی مرحلے پر بیس مرتبہ ، دو سو مرتبہ یا دو ہزار مرتبہ مرشد کی ضرورت پڑے تو گوھر شاہی کو پکار لےبلکہ پکارنے کے بجائے فرمایا آزما کر دیکھ لے۔ سیدنا گوھر شاہی نے یہ بھی فرمایا نہ کوئی بیعت نہ کوئی چندہ نذرانہ لیتے ہیں پھر مزید ارشاد فرمایا
“ہمیں اس بات سے عشق ہے کہ لوگوں کے سینے اللہ کے عشق سے منور ہوجائیں، لوگ اللہ تک پہنچ جائیں “
دورہ نیپال میں سرکار گوھر شاہی ائیرپورٹ جانے کے لیے ایک ٹیکسی میں تشریف فرما تھے ،جسکے ڈیش بورڈ پرایک اسٹیکر لگا ہوا تھا جس پر دل بنا ہوا تھا ، بڑی دیر تک سرکار اس اسٹیکر پر بنے دل کو دیکھتے رہے اور پھر قلم لے کر اس دل پر اسم اللہ لکھ دیا اور فرمایا ” ہمیں خالی دل اچھے نہیں لگتے” یہ بات بتاتی ہے کہ ترسیل عشق الہی پھیلانے کے حوالے سے سرکارگوھر شاہی کا جنون کس قدر ہے کہ ایک اسٹیکر پر بنا خالی دل ان کو اچھا نہیں لگا گو پھر اگرکوئی انسان خالی دل لے کر گوھر شاہی کے در پہنچے کہ اے گوھر شاہی مجھے اللہ تک پہنچا دیں، یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی مدد نہ ہو، اب مرشد کے لیے تلاش ختم ہو جانی چاہئیے ،سرکار گوھر شاہی کافی ہیں ۔سیدنا گوھر شاہی کسی مذہب کے لیے نہیں آئے کیونکہ مذہب سے بڑی چیز اللہ کی ذات ہے، عام لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور خاص لوگ اس پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں کہ بات تو صحیح ہے اللہ بڑا ہے۔
ولائت سے بڑا مقام عشق کا ہے:
ولی بننا اتنی بڑی بات نہیں ہے جب کسی کا ایک لطیفے کے بعد دوسرا لطیفہ جاری ہو جاتا ہے تو ولائت یہی ہے،اگر صرف قلب جاری ہوا ہے تو ابھی مومن ہے۔دین نے صرف اتنی پابندی لگائی ہے کہ،تمہارا قلب مومن بن جائے بس! دین یہاں تک ہے،قلب سلیم تک،اگر آپ اس سے آگے بھی جانا چاہتے ہیں تو اس قلب کے جثے بھی نکلتے ہیں ، اب یہ دین میں نہیں ہے یہ عشق میں ہے۔سلطان باھو نے کہا
جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان نوں خبر نہ کائی
کہ جس منزل پر عشق لے جاتا ایمان کو نہیں پتا ، ایمان کیا ہے؟ ایمان یہ ہے کہ دل میں اللہ اللہ ہو، نفس پاک ہو نماز روزے ہوں حضور پاک سے محبت ہو اور اس سے آگے پھر تباہی ہے، وہ تباہی کیسے ہے؟ آپ نے دل کو اللہ اللہ میں لگایا اب آاپ عشق کے لیے اس سے اور آگے جانا چاہتے ہیں تو جب لطیفہ قلب تیار ہو کر حضور کی بارگاہ میں پہنچا تو حضور نے اس کو وہیں بٹھالیا ۔
1998 میں ہمارا ترکی جانا ہوا سب سے پہلے ہم نے مولانا شمس تبریز کے مزار پر گئے وہاں ایک شخص ہمارے پیچھے پڑگیا اس شخص سے ہمارا مکالمہ ہوا،اس کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ساتوں لطیفے جاری تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتا تھا اس کا کہنا یہ تھا کہ مرشد نے اس کو منع کیا ہے،جب ان کے مرشد سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا اس نے عشق کا کہا تھا تو جتنے بھی لطیفے اس کے منور ہوتے گئے اور ان کے جثے نکلتے گئے تو کوئی جثہ جب حضور کی خدمت میں گیا تو انہوں نے اسے وہیں بٹھا لیا کوئی غوث اعظم کی خدمت میں گیا تو انہوں نے وہیں بٹھا لیا ، کوئی جثہ جب بیت المعمور گیا تو وہیں بٹھا لیا تو اب اس کا جسم خالی ہے اندر کی چیزیں اوپر چلی گئی ہیں اب حضور قلب کے بغیر نماز کیسے پڑھے گا؟
اعلی حضرت نے بھی کہا جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا ، اندر کی ساری چیزیں تو نکل گئیں اب تیرے جسم کا ادھر جھکانا تباہی کا باعث بنے گا۔جب اندر کی چیزیں نکل جاتی ہیں تو آدمی پھر سے نکما ، ابھی آپ کے اندر کوئی روح ذکر فکر نہیں کر رہی تو کوئی مزا بھی نہیں ہے پھر جب یہ چیزیں اللہ اللہ میں لگ جائیں گی تو پھر آپ کوایمان کی حلاوت اور مزا آئے گا ،کبھی اللہ کی یاد میں روئیں گے کبھی حضور کی یاد میں روئیں گے، کبھی ان لطائف کے ذریعے اللہ کے انوار و تجلیات نظر آئیں گی کبھی ان کے ذریعے حضور کا دیدار ہو گا ، کبھی ان کے ذریعے باطن میں طیر و سیر ہو گی کبھی ان کے ذریعےمقا محمودپر جائیں گے۔ یعنی باطنی چیزوں کے ذریعے آپ نظارے دیکھیں گے اور اگر اندر کی ساری چیزیں نکال کرحضور اپنے قدموں میں رکھ لیں تو تیرا جسم تو خالی ہو گیا ۔اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیں مومن تک ہی ٹھیک ہے لیکن جب اس سے آگےعشق میں جاتے ہیں تو جسم خالی رہ جاتا ہے، اندر کی چیزیں ان کے پاس چلی گئیں تب ہی تو وہ مقربین کہلائے۔مقربین کا حال دیکھا تو نہ نماز نہ روزہ نہ حج نہ زکوةسب چٹ پھر بھی یہ مقربین ایسے ہیں کہ ان کی چیزیں نکل کر ان کے قرب میں بیٹھی ہیں اب ان کے اندر کچھ نہیں ہے۔ ان لوگوں کے لیے اللہ نے کہا ۔۔۔۔فتمنو الموت ان کنتم صادقین ، پھر انہوں نے دعا کی اے اللہ مجھے اٹھا لے، کیونکہ اندر کی چیزیں چلی گئیں مزا نہیں رہا ، کچھ بزرگوں نے یہ بھی کہا کہ موت محبوب کو اللہ سے ملانے کے لیے پل کا کام کرتی ہے یہ ان ہی کے لیے ہے جن کی چیزیں نکل کر ادھر چلی گئیں۔رب جستجو اسی کو دیتا ہے جس کو لگن ہو، ایسا نہیں ہے کہ بندے کو تو رب کی جستجو ہو اور رب کو خبر ہی نہ ہو، اور رب جستجو بھی تب ہی دیتا ہے جب وہ اسے کچھ عطا کرنا چاہتا ہو۔تین سال تک وحی کا سلسلہ منقطہ ہونے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی۔جب حضور کے اندر کی چیزیں نکل کر اللہ کے پاس رہیں تو وحی کس پر آتی؟ ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ تین سال تک وحی کا سلسلہ منقطہ رہتا، ان دنوں حضورﷺ کی کیفیت ایسی تھی کہ خودکشی کا خیال بھی آیا،خود کشی کی بات تو بڑی خطرناک ہے ،تعلق پیدا کرو ، جب تین سال بعد وحی آئی تو اللہ نے کہا ہم نے آپ کو نہیں چھوڑا، پھر بڑی خوبصورت بات کہی کہ تیرا رب تیری عطائوں کا سلسلہ جاری رکھے گا، جب تک تیری مرضی ہو گی۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 24 فروری 2018 کو الرٰٹی وی اسٹوڈیو میں پاکستان سے آئے ایک مہمان مرزا بیگ سے ہوئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔