کیٹیگری: مضامین

امام مہدی ؑ کی آمد سے قبل جن نشانیوں کا ظہور ہونا تھا کم و بیش نوے فیصد وہ نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔اور جن حالات و واقعات کا پیش آنا تھا وہ حالات بھی ہمارے سامنے ہیں،اُن میں سب سے بڑی ایک جو بات ہے جو کہ بہتProminent ہے،وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔جسطرح ہم کوئی جوتا خریدتے ہیں یا کوئی مشینری خریدتے ہیں اور اُسکو استعمال کرتے رہتے ہیں،خرابی ہو جاتی ہے تو اُسکو repairکرا لیتے ہیں،لیکن پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُس میں اتنی خرابیاں پیدا ہو جاتیں ہیں کہ پھر اُسکو repair کرانا جو ہے وہ کبھی کبھار تو نا ممکن ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار جو ہے وہ ایسا ہوتا ہے کہ repair کرانا مہنگا اور نئی چیز لینا سَستا ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح جو یہ ادیان اور مذاہب جو آئے ہیں،اُنکا بھی یہی حال ہے۔امام مہدی سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہ میں التجا ہے کہ آپ اس قوم کو شعور عطا فرمائیں،اور یہ حقائق جو میں بیان کر رہا ہوں جنکا براہِ راست قرآنِ مجید میں تذکرہ موجود ہے ان حقائق پر تحقیق کی اور پھر اُنکو سمجھنے کے بعد اپنی مذہبی اور اخلاقی حالت کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔قرآنِ مجید میں بھی آیا ہے کہ ہر اُمت کی، ہر دین کی ایک حد ہوتی ہے،ایک معیاد ہوتی ہے۔جسطرح bridges وغیرہ ہوتے ہیں جس طرح کوٹری پاکستان میں ایک bridge اس پر لکھا ہوا ہے کہ اتنے سال تک یہ کارگر ہے اُسکے بعد جو ہے یہ اِستعمال نہ کیا جائے ،کسی بھی وقت کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔
اِسی طرح ہر دین کی ہر مذہب کی ایک معیاد ہے ہر اُمت کی ایک حد مقرر ہے۔جب بھی کوئی مرسِل دین لے کر آتا ہے،اور وہ دین چلتا ہے،مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ظاہر ہے کہ ولی ہر دور میں نہیں ہوتے۔عالمِ حق ہر دور میں نہیں ہوتا،عالمِ ربانی ہر دور میں نہیں ہوتے،اکثریت تو کتابوں کو پڑھ کر عالم بن جاتی ہے اور کتابوں کو پڑھ کر عالم اور صوفی بننے والے کا رب سے تعلق نہیں ہوتا۔وہ Practitioner ہیں لیکن عارف نہیں ہے،اُنکے پاس علم ہے،عرفان نہیں ہے تو جو دور میں گیپ آجاتا ہے عالمِ ربانی کا،ولیوں کا ، فقراء کاتو اُس گیپ کے پیریڈ میں باطنی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے ظاہری تعلیم کا فتنہ زور پکڑ جاتا ہے،اب احوال میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے،فتنہ پھیلنے لگتا ہے۔اُسکو سدھارنے کے لئے حضورﷺ کی آمد سے پہلے تو نبوت جاری تھی تو اُسکو سدھارنے کے لئے نبی بھیجے جاتے تھے،مرسل جو ہے دین قائم کرتا ہے اور جو نبی ہیں ،یہ صرف مددگار ہوتے ہیں ۔
آپ کو سب سے پہلے تو یہ فرق سمجھنا ہے مرسل جو ہے،وہ دین بناتا ہے۔دین کو establishکرتا ہے۔مرسل ،اور جو انبیاء ہوتے ہیں ،وہ اُسی دین کو جو بگاڑ اُس میں پیدا ہو گیا ہوتا ہے اُسکو صحیح کرتے ہیں اور اِس بگاڑ کو صحیح کرنے کے لئے اُس نبی کے اوپر صحیفے اُترتے ہیں ۔ ابتدائی دور میں تو قرآنِ مجید کو بھی مصحف کہا جاتا تھا۔جسطرح کتاب ایک جامع ہوتی ہے۔اور اگر کوئی چھوٹی کتاب ہو تواُسکو کتابچہ کہتے ہیں اِسی طرح مصحف ایک جامع کتاب ہوتی ہے ۔صحیفہ چھوٹا ہوتا ہے۔ویسے تو اللہ نے حضور کے چہرے کو بھی مصحف کہا ہے۔وہ کون سا قرآن سے کم ہے۔نبی صحیفے لے کے آتا ہے،اور صحیفے کے ذریعے وہ جو بگاڑ پیدا ہو گیا ہے،اُسکو درست کرتا ہے۔ بگاڑ پیدا ہو جانے کے بعد کچھ عرصے پھر چلتا ہے وہ بھی،پھر اگر بگاڑ پیدا ہو جائے تو پھر نبی آجاتا ہے صحیفہ لے کے،پھر اُسکے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُس دین کی میعاد ختم ہو جاتی ہے،تو پھر اللہ نیا دین بھیج دیتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دین کی میعاد ختم ہو جائے تو کیا ہوتا ہے۔یہ باتیں پریکٹیکل ہیں ۔ ہماری قوم کو لفاظی،لیکچر اور مولویوں کی چرب زبانی پسند ہے لیکن یہ باتیں جو ہیں آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں نہ تو مجھے علم اور کلام حاصل ہے ،اور نہ مجھے چرب زبانی آتی ہے۔
سرکا ر اِمام مہدی گوھر شاہی نے مجھے اپنی نظروں سے تیار فرما کر یہاں بٹھایا ہے تاکہ میں حقیقت کا بیان کر سکوں ،اور دنیا میں اِس حق کو اُجاگر کر سکوں کہ سیدنا اِمام مہدی گوھر شاہی تشریف لاچکے ہیں اُنکا فیض پاکستان کی سر زمین سے نکلتا ہوا مختلف ممالک میں پہنچ چکاہے۔اور اب دنیا کو دین ،مذہب،روحانیت اور جس قدر Philosophical and religous philosophies ہیں اُسکا نچوڑ دے رہا ہے۔شاید عام لوگوں کو اِس بات کا کما حقہ ہو اِدراک نہیں ہے کہ جب دین کی میعاد ختم ہو جائے تو کیا ہوتا ہے۔

دین کا وجود کیا ہے؟

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ دین کا وجود کہاں ہے۔کیا آپ نے کبھی کسی دین کا وجود دیکھا ہے،اخلاقیات اُسکا وجود دیکھا۔دین کا وجود کیا ہے۔دین کا وجود ہے ظاہری اور باطنی تعلیمات کاملاپ،اور جس شخصیت میں جس ہستی میں یہ دونوں چیزیں بطورِ حال ،بطورِقال اور بطورِ حقیقت ودیت کر دی گئی ہو رب تعالیٰ کی طرف سے اُس ہستی کو دین کا وجود کہتے ہیں جس طرح علامہ ڈاکٹر محمد اِقبالؒ نے اِرشاد فرمایا،

بہ مصطفٰی برسان خویش راکہ دین ہمہ اُوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است

بہ مصطفٰی برسان خویش راکہ دین ہمہ اُوست کہ توں حضور کی ذات تک رسائی حاصل کر لے کے وہ سراپا دین ہیں ۔گر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است اگر تو اُن تک رسائی نہ حاصل کر سکا تو تیرا ہر عمل بو لہب کے عمل جیسا ہے۔اور حضرت علی نے ایک دفعہ فرمایا،کہ علم ایک ایسی دولت ہے کہ جس کو جتنا زیادہ تقسیم کیا جائے،اُتنی بڑھتی ہے۔یہ باطنی علم کی طرف ہی اشارہ ہے۔دین طاقتور کب ہوتا ہے جب ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے جن کے دلوں میں نور کاچراغ روشن ہے۔چونکہ محمدالرسول اللہﷺ کا اِرشادِ گرامی ہے کہ
اے بنی آدم تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اُسکی اصلاح ہو جائے توپورے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے،اور اگر وہی فساد میں مبتلا ہے تو پورا جسم فساد میں مبتلا ہے۔
لہٰذا میں اپنی عقل کے مطابق یہ سمجھتا ہوں کہ ظاہر کا درست ہونا بھی باطن کے درست ہونے پرمنحصر ہے ۔جو کچھ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔اُ س سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے،جس قدر اردو ہم نے پڑھی ہے۔اُسکو پڑھنے کے بعد یہ حدیث یہی سمجھاتی ہے کہ جب قلب کی اِصلاح ہو جائے گی،تو پورے جسم کی اِصلاح ہو جائے گی،اور حدیث کی یہ بات نہ صرف دین کے لئے ثابت ہے بلکہ اگر اِسکو ظاہری طور پر بھی پرکھا جائے جانچ پڑتال کی جائے۔ میڈیکل سائنس کے حساب سے بھی لوگوں کے مختلف جسم کے حصوں میں درد ہوتا ہے کبھی جب وہ پیدل چلتے ہیں تو ہاتھ میں درد ہو رہا ہے ،بازوں میں درد ہو رہا ہے، ٹانگ میں درد ہو رہا ہے،ایسا کیوں ہوتا ہے،بیشمار وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک مین وجہ یہ ہے کہ جب آدمی چلتا ہے تو دل کی دھڑکنیں اُبھرتیں ہیںcirculation of blood جو ہے بڑھ جاتا ہے تو جب circulation of blood بڑھ جاتا ہے تو جسم کے جس جس حصے میں جو جو یعنی نس بلاک ہوتی ہے۔جس میں کولیسٹر ول کی وجہ سےblockage آیا ہوا ہوتا ہے وہاں سے خون آسانی سے گزر نہیں پاتا تو وہاں درد ہونے لگ جاتا ہے کچھ لوگوں کے بائیں بازو میں درد ہوتا ہے چلتے وقت،تھوڑا سا چل لیا ،یہ نہیں کہ آپ یہاں سے باتھ روم تک گئے تو آپکو درد ڈھونڈے اپنے بازو میں،اڑے درد نہیں ہے مجھے کچھ بیماری نہیں ہے،ایسا نہیں ہے،یعنی کم سے کم500 yard چلیںblood circulate ہو تو پھر ہوتا ہے۔اگر دل صحیح ہوتا ،کولسٹرول نہیں ہوتا وہاں پر تو پھر خون کی روانی ہوتی، اور آپ کو پریشانی نہیں ہوتی،تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم کو،مسلم قوم کو اِس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اپنے جسمانی اعمال کو بھی درست اگر کرنا ہے تو انہیں اپنے دل کی درستگی پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہے،اگر دل درست نہ ہو تو پھر دین کی تباہی ہے ۔کیونکہ قرآنِ مجید نے کہا ہے کہ

وَمَن یُومِن با اللہِ یَھدِی قَلبَہُ

کہ جب کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اللہ اُسکے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔یعنی جب کوئی اللہ پر ایمان لانا چاہتا ہے،اُس راہ میں چلتا ہے ایمان کی،تو اللہ پھر کیا کرے گا اُسکے قلب کو ہدایت دے گا۔ہدایت کا تعلق انسان کے ناک ،کان،زبان جسم کے کسی حصے سے نہیں ہے،ہدایت کا تعلق انسان کے قلب سے ہے۔اگر آپ ظاہری عبادات کو ایمان کا راستہ سمجھتے ہیں تو قلب کو ہدایت کیوں نہیں ہوئی ابھی تک۔یہ نمازیں پڑھنا،روزے رکھنا،یہ تمام چیزیں خدا کے واسطے سمجھنے کی کوشش کریں یہ آپ پر اُس وقت فرض ہونگی جب آپ درجہِ ایمان پر فائض ہو جائینگے اِس سے پہلے اگر آپ پڑھتے بھی رہیں تو کوئی فائدہ نہیں ہے،ہاں البتہ نقصان ہو سکتا ہے۔جسطرح مجدد الف ثانیؒ نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے کہ جو مبتدی ہیں یعنی جو ابتدائی دور میں ہیں دین کے،اُنکو نصیحت کی ہے کہ وہ قرآنِ مجید نہ پڑھیں،کیونکہ جن کے نفس امارہ ہیں جب وہ قرآن کی تلاوت کرینگے اور قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرینگے تو قرآن نفسِ امارہ پر لعنت بھیجتا ہے ۔قرآن اُن لوگوں کے پڑھنے کے لئے نہیں ہے ۔جسطرح اگر آپ پہلی جماعت میں پڑھتے ہیں اگر آپکوB.S.C کی کتاب دے دی جائے تو کیا سمجھ میں آئے گی۔اسی طریقے سے جو دین کے ابتدائی دور میں ہوتے ہیں ۔دین کے ابتدائی دور سے مراد یہ ہے کہ ابھی آپ کا نفس بھی ناپاک ہے،ابھی آپ کا قلب بھی قفل زدہ ہے ،باطن کا راستہ بھی آپ کے پاس نہیں ہے، نفس کی طہارت کا طریقہ بھی آپ کے پاس نہیں ہے ،صرف ظاہری اعمال پر اکتفا کئے ہوئے ہیںآپ تو یہ دین کی ابتداء ہے۔خواہ آپ بیس سال سے دین کی ابتداء میں ہی ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا،تو جو مبتدی ہوں،جو دین کی ابتدائی حصے میں ہوں ابھی اُن لوگوں کوadvise نہیں کیا مجدد الف ثانی نے کہ وہ قرآن پڑھیں۔اُنکو کہا کہ وہ ذکر کریں اور نفس کو پاک کریں،ذکرِقلب حاصل کریں،مومن بنیں،اور جب قلب اور نفس پاک صاف ہو جائے پھر قرآن پڑھیں،قرآن خود بھی یہی کہتا ہے،هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ،کہ یہ پاک صاف لوگوں کو ہدایت کرتا ہے۔پاک صاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نا پاک ہیں ،نہاکے آجائیں،پھر قرآن ہدایت کرے گا،مُتَقی وہ ہوتا ہے،جسکا قلب صاف ہو جائے، پاک ہو جائے،جسکا نفس پاک صاف ہو جائے۔
پھر یہ جو صفائی ہے،باطنی طہارت ہے،یہ جو تقویٰ ہے اسکے درجے ہیں،کیونکہ انسان کے اندر کوئی ایک طرح کی گردوغبار نہیں ہے،کئی قسم کی گندگیاں انسان کے اندر ہیں۔ایک تو نفس کی گندگی ہے جو کہ انسان ہی نہیں ہے نفس، قومِ جنات سے ہے،اب آپ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں،آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے صرف اپنے آپ کو مسلمان کرنا ہے،لیکن اپنے آپ کو مسلمان کرنے سے پہلے اپنے اُس جن کو مسلمان کرنا ہے جو آپ کے اندر بیٹھا ہے۔جب تک اُس کو مسلمان نہیں کرینگے وہ آپکو مسلمان نہیں ہونے دے گا،یعنی کہ آپ اس دنیا میں تشریف لائیں ہیں اور شیطان جن آپ کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔
اب جناب ہم نے کیا کیا ہے کہ ہم پڑھتے توہیں حدیثوں میں کہ ہاں بھئی ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان جن پیدا ہوتا ہے اور ،آپ ﷺ سے جب صحابہ کرام نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ ،تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی ہوا تھا لیکن وہ میری صحبت سے مسلمان ہو گیا ہے۔یہ مسلمان بنانے کا کام تو آپﷺ نے بھی کیا ہے تو کیا ہمارے اوپرلاگو نہیں ہو گا یہ۔لیکن اگر ہم حالات و واقعات پر غور کریں اور اُس دین کے اوپر غور کریں،اور اپنے احوال کے اوپر غور کریں،اور اپنی عادات اور اپنی طریقہِ بندگی پر اور قرینہِ بندگی پر اگر غور کریں کہ کیا ہم نے اُس شیطان جن کو بھی کبھی مسلمان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی آپ دوسرے درجہ کا کام کر رہے ہیں جو ممکن نہیں ہے ،پہلے درجے میں جائے بغیر،سب سے پہلے ہم نے اُس جن کو شیطان کو مسلمان کرنا ہے اُس کے بعد پھر آپ کی باری آئے گی۔یہ بات ذہن میں آئی ہے پہلے؟ یعنی آپ نے دو آدمیوں کو سدھارنا ہے۔آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے اپنے آپ کو سدھار لیں،نہیں،پہلے آپ نے اُس شیطان کو قابو میں کرنا ہے، اُسکو پہلے مسلمان کرنا ہے،پہلے اُسکو مسلمان کرنا ہے اور جب وہ مسلمان ہو جائے گا پھر آپ ہو جانا مسلمان،جب تک وہ مسلم نہیں ہے آپ کو مسلم نہیں بننے دے گا۔یہ کتنی گہری بات ہے نا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے،کیا یہ بات آپکے دل کو لگتی ہے،جب تک وہ شیطان جن جو آپ کے اندر موجود ہے،جب تک وہ مسلمان نہیں ہو گا ،وہ آپکو مسلمان نہیں ہونے دے گا،اور جن لوگوں نے یہ راز سمجھ لیا،پہلے اُسکو مسلمان کیا تو اُسکے بعد جب اُنکی اپنی باری آئی مسلمان ہونے کی توا چانک اب اسکی مخالفت نہیں تھی لہٰذا فوری طور پر مومن کے درجے پر فائض ہو گئے۔یعنی اگر میں یہ کہوں کہ جو سب سے پہلے اپنے آپکو مسلمان کرتے ہیں وہ ساری زندگی مسلمان رہتے ہیں،اور جو سب سے پہلے اُس شیطان کو مسلمان کر لیں ۔وہ مومن کے درجے پر فائض ہو جاتے ہیں،یہ ایک فکر ہے۔

قومِ مسلم کیلئے ایک فکر

یہ قرآن کی تعلیم کا نچوڑ ہے،احادیث میں موجود ہے،کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان جن پیدا ہوتا ہے،اور آپﷺ نے اپنی بابت فرمایا کہ آپ کی صحبت سے وہ ہو گیا،اور ہمیں کرنا ہے، ہمیں وہ کرنا ہے تو جب تک اُسے مسلمان نہیں کرینگے وہ آپکو کہیں بھی نہیں جانے دے گا،آپکی نمازیں بھی بیکار ہیں،آپکے روزے بھی بیکار ہیں اور آپ دیکھ لیں معاشرے میں جن لوگوں نے اُس شیطان کو مسلمان نہیں کیا پہلے اور خود ہی مسلمانی میں لگ گئے تو نہ اُنکی نمازیں درست ہوئیں نہ انکے روزے درست ہوئے، نہ اُنکے حج درست ہوئے، نہ اُنکا قرآن کی تلاوت کرنا درست ہوا ، بلکہ دین میں فتنہ و فساد ہو گیا اور فرقہ واریت پروان چڑھ گئی۔یہ فکر سیدنا امام مہدی گوھر شاہی دیتے ہیں،جب انسان اُس شیطان کو مسلمان کرنے کی کوشش کرتا ہے نا تب پتہ چلتا ہے دین دار ہونا کتنا مشکل ہے،وہ مردوں کا کام ہے، پہلے اُسکو مسلمان کریں ،اُسکے بعد پھر آپ ہوں، پھر آپکو قدر آئے گی دینِ اسلام کیا ہےِ۔پھر آپکو قدر آجائے گی،جس طرح آپ یوں سمجھ لیں،کہ بھئی ایک ظالم شخص اللہ نے آپ کے ساتھ لگا دیا ہو،کہ بھئی پہلے جو ہے اِسکو کِھلا، بعد میں تو کھانا،اب اگر آپ خود ہی کھانے لگ گئے تو وہ آپ سے کھانا لے گا اور چھین کے پھینک دے گا۔اگر آپ آرام سے کھانا چاہتے ہیں تو پہلے اُسکو کھِلا دیں، اُسکے بعد آرام سے کھا لیں،یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی لوگوں کے ،کھانا وہ چھین چھین کے پھینک رہا ہے،بھئی ایک مخلوق آپ کے اندر جو ہے وہ دشمن کی ہے، بہتر تو یہ ہے کہ یا تو اُس دشمن کو مار دو ،یا پھر اُسکو اپنا ہم خیال بنا لو۔

**********

متعلقہ پوسٹس