کیٹیگری: مضامین

قیامت میں اُمتیوں کی پہچان نور سے ہو گی:

ایک حدیث شریف میں ہے کہ قیامت میں اُمتیوں کی پہچان اللہ کے نور سے ہو گی ۔ روز محشر ایک جیسی شکلوں اور نام والے کتنے لوگ ہوں گےاس لئے اُنکی شناخت نور سے ہوگی ۔اُمتی بننے کے لئے اللہ تعالی کا ایک نظام ہے ، ایک تو ہر مرسل کو اللہ نے تعلیم دی ہے اُس تعلیم کی روشنی میں مرسل نے شریعت کو مرتب کیا اور دوسرا اللہ نے ہر مرسل کو اپنا ایک اسم عطا فرمایا ہے ۔جیسے قرآن مجید میں اللہ کے 99 نام موجود ہیں ، اُن ناموں میں سے اللہ کا ایک نام ذاتی نور والا ہے اور باقی سارے صفاتی نور والے ہیں ۔جو اللہ کا ذاتی نام ہے اس کے ذریعے انسان کا اللہ کی ذات سے تعلق جڑ سکتا ہے اور جو صفاتی اسما٫ ہیں ان کی رسائی محدود ہے، جس صفاتی نام کا ذکر کریں گے اللہ کی صرف اُس صفت تک رسائی حاصل ہو گی ۔اگر اللہ کے اسم “کریم” کا ذکر کریں گے تو اللہ کے کرم تک پہنچ جائیں گے ، اگر “یا رزاق” کا ذکر کریں گے تو اس کے رزق تک پہنچ جائیں گے لیکن اگر ہم نے اللہ کے ذاتی نام کا ذکر کیا ہے تو اللہ کی ذات تک رسائی ہو جائے گی جہاں سب کچھ ہے۔اللہ کا ذاتی نام تمام اسمائے الہی پر بھاری ہے ۔ اسی طرح جتنے بھی نبی آئے اللہ نے اُن کو کوئی نہ کوئی صفاتی اسم عطا کیا لیکن نبی کریمؐ کو اللہ نے اپنا ذاتی اسم عطا فرمایا ہے ۔موسیؐ کو اللہ نے یا رحمان کا ذکر عطا فرمایا ۔ اللہ نے جس جس مرسل کو جو جو اسم عطا کیا وہ اسم اُس مرسل نے اپنی اُمت کے دلوں میں داخل کرنے کا طریقہ سکھایا کہ وہ اپنی دل کی دھڑکنوں میں اللہ کے اُس نام کو بسائیں تاکہ اُس کا نور پیدا ہو، وہ نور اُمت کی پہچان ہو گا۔وہ جو اسم کا نور ہے وہ امت کے لئے آئی ڈی کارڈ کی مانند ہے ۔اگر روز محشر فرشتوں کو یہ جاننا ہو گا کہ موسی کے اُمتی کون ہیں تو وہ صرف یہ دیکھیں گے کہ جس کے دلوں میں یا رحمان کا نور چمک رہا ہو گاوہ موسی کے اُمتی ہیں ۔اسی طرح عیسیٰ کو اللہ نے یا قدوس کا ذکر عطا فرمایا ہے ، یوم محشر میں جن کے دلوں میں یاقدوس کا نور چمک رہا ہو گا، خود بخود یہ نور اُن کی پہچان بن جائے گا کہ عیسیٰ کے اُمتی ہیں اور جن کے دلوں میں اللہ کا ذاتی اسم اللہ ھو چمکے گا اُن کی پہچان ہو گی یہ حضورپاکؐ کے اُمتی ہیں ۔اسم ذات اللہ محمد ؐکی اُمت کا نشان ہے ۔

موسیؑ اولولعزم پیغمبر ہو کر دیدار ِالہی نہ کر سکے:

موسیٰ نے کوہ طور پر جا کر اللہ سے درخواست کی کہ مجھے اپنا دیدار عطا فرما ، اللہ تعالی نے فرمایا لن ترانی یا موسی۔۔۔ اے موسی تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ موسیؑ نے کہا اے اللہ جلوہ دے دیکھی جائے گی ۔جب جلوہ پڑا تو موسیٰ بے ہوش ہو گئے۔موسیٰ کے اُمتی بڑے حجتی تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کو جب مانیں گے جب اللہ ہمیں نظر آئے گااور باربار یہ تقاضہ کرتے تھے ۔ موسیٰ یہ بات اللہ کو کوہ طور پر جا کر کہتے تھے جب کئی بار ایسا ہو گیا تو اللہ تعالی نے فرمایا ہر اُمتی کو بلانا صحیح نہیں ہے اس لئے ہر قبیلے کے ایک سردار کو چن کو اور فلاں دن کوہ طور پر لے آنا۔لہذا موسیؑ کی اُمت میں ستر قبیلے تھے تو اُن ستر قبیلے کے سردار موسیؑ کے ہمراہ کوہ طور پر آگئےجب اللہ تعالی نے صفاتی تجلی ڈالی تو وہ پہلے کوہ طور کے پہاڑ پر پڑی اور وہاں سے بھی منعکس ہو کر ان پر آئی تو ستر سردار ہلاک ہو گئے اور موسیؑ بے ہوش ہو گئے ۔ لیکن محمد الرسول اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ اے اللہ دیدار دے بلکہ اللہ تعالی نے خود اُن کو عرش الہی پر بلا لیا جو کہ شب معراج کے واقعے میں درج ہےاور آپؐ بلکل اللہ کے سامنے پہنچ کر دیدار کر رہے ہیں اور مسکرا رہے ہیں۔ نبی کریمؐ کے طفیل وہ اسم ذات اللہ آپکی اُمت کو ملا ۔ اب اگر یہ اُمت اُس اسم ذات اللہ سے محروم ہے تو ہمارے پاس اُمتی ہونے کی شناخت ہی نہیں ہے ، ہماری فضیلت اُس اسم ذات اللہ کے نور میں ہے ۔اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے تمام عالمین پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ تو پھر ہم اپنے آپ کو افضل کیوں سمجھ رہے ہیں ؟ ہم خود کو اس لئے افضل سمجھیں گے کہ بنی اسرائیل کے اولولعزم پیغمبر موسی ؑ اللہ کے دیدار کے لئے ترستے رہے لیکن اُن کو اسم ذات اللہ عطا نہیں ہوا اور محمد الرسول اللہ کے طفیل وہ اسم ذات اللہ ان کی اُمت کو عطا ہو گیا ۔وہاں موسیؑ دیدار کے لئے ترستے رہے اور یہاں امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ کو 99 مرتبہ دیکھا ہے ۔اُمتی ہونے کے لئے اللہ ھو کا جو نور تمھارے سینوں میں جاں گزیں ہونا چاہیے ، قرآن مجید نے بھی کہا ہے کہ

أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ
سورة المجادلہ آیت نمبر 22

کہ مومنوں کی شان یہ ہے کہ ہم نے اُ ن کے دلوں پر ایمان لکھ دیا ہے ۔جب ایمان لکھا جائے گا تو وہ خو ش خط اسم اللہ کی صورت میں ہو گا جو انسان کے دل پر چمک رہا ہوتا ہے ۔بہاؤ الدین نقشبندی اپنی نظروں سے لوگوں کے دلوں پر اسم اللہ نقش کر دیتے تھے اسی وجہ سے اُن کو نقشبندی کہا گیا ۔ لہذا اُمتی بننے کے لئے ہمیں “اللہ ھو” کا نور اپنے قلب میں لانا ہو گا، اپنے سینوں کو نورِ توحید سے دوبارہ بسانا ہو گا، جس کے دل میں اسم اللہ کا نور چمک رہا ہو گا وہ محمدؐکا اُمتی بن جائے گااور جب اسم اللہ قلب میں آ جائے گا تو پھر کبھی بھی نہیں کہو گے کہ میں شیعہ ہوں ، میں سنی ہو ، میں وہابی ہو بلکہ یہ کہو گے کہ اُمتی ہوں تمھارا یا رسول اللہ ۔ اُسی قلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہے جس میں اسم ذات اللہ کا چراغ روشن ہو علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 20 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس