کیٹیگری: مضامین

مندرجہ زیل متن نمائندہ مہدی سیدی یونس الگوہر کے لائیو خطاب میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوز:
عمران متی ، لاہور پاکستان : اللہ کس زبان میں فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے؟ عالم غیب میں اللہ برادری والے کون سی زبان میں مخاطب ہوتے ہیں اور اس کا رسم الخط کیا ہے؟

اللہ کس زبان میں فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے؟

اللہ کی جو زبان ہے وہ کہلاتی ہے ’’سریانی ‘‘۔ اور جتنے بھی انبیاکے کلمات ہیں، جیسے نبوت شروع ہوئی آدم صفی اللہ سے لا الہ الا اللہ آدم صفی اللہ ۔ ہر مرسل اور نبی اور کلمہ اسی زبان میں ہے۔ لوگوں کا خیال ہےکہ یہ عربی ہے لیکن یہ عربی نہیں ہے۔اب میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ یہ کلمے آدم صفی اللہ نے دیکھے تھے تو اسوقت تو عربی تھی نہیں ۔ عرش ِ اعظم پریہ کلمے لکھے ہوئے تھے ۔ تو یہ عربی زبان کے کلمات نہیں ہیں بلکہ سریانی زبان کے کلمات ہیں۔ عربی زبان میں جو رسم الخط آیا ہے وہ سریانی زبان سے آیا ہے ۔ دنیا میںسب سے بڑا جو مسئلہ ہو گیا ہے وہ یہی ہے قرآن شریف میں بہت سے الفاظ سریانی کے ہیں اور لوگ ان کا عربی میں ترجمہ کرتے ہیں ۔

کلمہ، نبوت کا اظہار نہیں !

جیسے لفظ’’ نصیحت ‘‘ہے ۔سریانی زبان میں نصیحت کا مطلب ہے کہ ’’ میں آپ کو صحت دیتا ہوں ‘‘۔ اور آپ لوگوں نے اسکا مطلب (Advise) رکھا ہے ۔اسی طرح بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا نصوحہ ۔ تازہ تازہ کوئی عورت دفن کی جاتی تو وہ اس کے ساتھ بد فعلی کیا کرتا تھا ۔تو اس کو جب فرشتوں کے زریعے ڈرایا گیا تو وہ بڑا پشیمان ہوا اور اس نے توبہ کی ۔ اس توبہ کا نام توبتہ النصوح رکھا ۔ایسی توبہ جسسے ایمان کی صحت بحال ہو جائے۔اسی طرح ایک لفظ ہے ’’شکر ‘‘ ۔ شکر کا جو لفظ ہے وہ دوست کے لئے استعمال ہوتا ہے ،جسطرح قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ۔
سورۃ البقرہ 152ترجمہ : تم میرا ذکر کرو ، میں تمھارا ذکر کروںگا۔اور میرا شکر کرو اور کفر نہ کرو۔

مندرجہ بالا ترجمہ مولوی آج تک کر رہے ہیں ۔کچھ اس میں بات سمجھ آرہی ہے بات ۔ ابھی شکر کی بات ہو رہی تھی اور پھر سیدھا کفر پر آ گئے ۔یہ ترجمہ ہی غلط ہے ۔ اس آیت میں جو’’ وَاشْكُرُواْ لِي ‘‘ ہے اسکا مطلب ہے ’’ دوستی کرو میرے لئے ‘‘ اور پھرِوَلاَ تَكْفُرُونِاس دوستی کو جھٹلائو مت ۔ اب یہ جو لفظ مشکور ہے ہم نے اس کا مطلب لکھا ہوا ہے شکر کرنے والا ۔ لیکن مشکور کا مطلب یہ نہیں ہے جو ہم نے عربی یا اردو زبان میں سمجھ رکھا ہے ۔ سریانی زبان میں مشکور کا مطلب دوستی ہے ۔اب اسی طریقے سے یہ جو کلمات ہیں اسکے ترجمے بھی لوگ عربی میں کرتے ہیں ۔ یہاں تک کے بہت سے عربیوں نے تو یہ بات بھی مشہور کر دی ہے کہ لغتہ العربیعہ ،لغتہ الجنہ۔
لا الہ الا اللہ آدم صفی اللہ
لا الہ الا اللہ ابراھیم خلیل اللہ
اب یہ جو الفاظ ہیں جیسے خلیل اللہ ہے ، جیسے صفی اللہ ہے ۔ آ پ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ کلمات نبوت کی نشاندہی کرتے ہیں ۔لیکن خلیل اللہ میں تو نبوت کا ذکر ہی نہیں ہے۔ صفی اللہ اس میں بھی نبوت کا ذکر نہیں ہے۔ہاں محمد الرسول اللہ میں رسالت کا ذکر ہےلا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ ، اس میں بھی نبوت کا ذکر ہی نہیں ہے۔
آج جو مولوی ہمیں تنگ کر رہے ہیں کل وہ وقت آنے والا ہے کہ یہ بغل چھپا کر بھاگیں گے۔اس علم کو ہم اتنا کھول دیں گے کہ ہر انسان عالم دین بن جائے گا۔غوث پاک کے دور میں جعلی پیر فقیر نہیں تھے ۔ کیونکہ دس لوگوں میں سے پانچ ذاکر ِ قلبی تھے تو لوگوں کی دال نہیں گلتی تھی ۔آج آپ لوگ بےوقوف یوں بنے ہوئے ہیں کیونکہ حقیقت کا علم ہی نہیں ہےآپ کے پاس۔
تو کوئی عالم ایسا ہے جو یہ بتا دے کہ کلمہ نبوت کا اظہار ہے ۔ مولوی کہتے ہیں کلمے سے نبوت کا اظہار ہوتا ہے کلمہ تبدیل کر دیا ہے انہوں نے ۔ لا الہ الا اللہ ابراھیم خلیل اللہ میں نبوت کا اظہار کہاں ہو رہا ہے؟لا الہ الا اللہ موسی کلیم اللہ میں نبوت کا اظہار کہاں ہے ؟لا الہ الا اللہ عیسیٰ روح اللہ میں نبوت کا اظہارکہاں ہے؟ صرف حضورؐ کے کلمے کے ساتھ نام رسول لگا ہے ۔ دائود ؑ کا کلمہلا الہ الا اللہ دائود خلیفتہ اللہ تھا۔ اسماعیل ؑ کا کلمہ لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ ، نوح ؑ کا کلمہ لا الہ الا اللہ نوح نجی اللہ تھا۔نجی نجات دلانے والے کو کہتے ہیں ۔ اور صفی اللہ جس کو اللہ نے بزرگی عطا کی ہے ۔ اور زبیح اللہ جو اللہ کےلئے زبح ہوا ۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیںکہ کلمے سے نبوت کا اظہار ہوتا ہے تو اس حساب سے دنیا میں صرف ایک ہی رسول آیا ۔ پھر محمد رسول کو پہلا اور آخری نبی بھی کہہ دیں تو بے جا نہیں ہو گا ۔

’’ جب رب کسی سے راضی ہوتا ہے اور اللہ کو کسی پر پیار آتا ہے تو اس لمحے میں اللہ اُسے جس نام سے پکارتا ہے وہ نام انسانوں کےلئے بخشش کے سامان بن جاتا ہے ‘‘

تو جب پیار سے پکارا اسماعیل زبیح اللہ تو انسانیت کےلئے اس میں فیض ہو گیا۔اب آپ مطلب کے اوپر جائیں گے تو ترجمہ تو نہیں کرسکیں گے یہ سارے کلمے سریانی زبان کے ہیں جس زبان میں اللہ فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے۔
لا الہ الا اللہ، اس کا ترجمہ اب تک لوگ یہی کرتے آئے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔لیکن سریانی زبان کی جو گرامر ہے وہ مختلف ہے ۔جو پہلے ذکر ہوا ہے اس سے دوسرے جملے کا پتہ چلتا ہے ۔ایک ہوتا ہے ’’ اِلہ‘‘ اور ایک ہوتا ہے ’’ اَلہ ‘‘۔ اب سنیں اس میں فرق کیا ہے ۔جو امر کن کی طاقت دئیے جانے کے بعد مخلوق بنا کے معبود بنا ہے اُس کو کہتے ہیں ــ ’’ اِلہ ‘‘ اور جس نے امر کن دیا ہے وہ ہے ’’ اَلہ ‘‘ صرف زیر اور زبر کا فرق ہے ۔زیر نیچے ہوتی ہے اس لئے یہ ’’ اِلہ ‘‘ ہے ۔ اور زبر اوپر ہوتی ہے اسے لئے وہ ’’ اَلہ ‘‘ ہے۔تو پھر ہم نے کلمے میں کہاں تبدیلی کی ہے ۔ وہ لا اَلہ الا ریاضہے ۔ اور یہلا اِلہ الااللہیہ جو ’’ای ‘‘ہے یہ بتا رہی ہے نیچے جا رہا ہے ۔ اب جا کر پڑھو قرآن اور دیکھو جا کر وہاں کیا لکھا ہے’’ اَلہ العالمین، اِلہ العالمین کیوں نہیں ہے۔

سریانی زبان کا رسم الخط:

عالم غیب میں سریانی زبان بولی جاتی ہے۔سریانی زبان کا جو رسم الخط ہے وہ بالکل اُردو زبان کے رسم الخط جیسا ہے ۔ اور سندھی کا رسم الخط عربی کے جیسا ہے ۔عربی زبان میں تو رسم الخط ہی نہیں ہے ٹیڑھے میڑھے لکھتے ہیں ۔اصل جو رسم الخط ہے وہ تو سریانی زبان کا ہے ۔اور یہ عربی میں ہے ال، پل ، شل ، تل، یہ سریانی میں نہیں ہے۔جیسے لغتہ العربیہ، قالت العراب۔سریانی زبان میں سیدھا سیدھا لفظ ہے اور لفظ جوڑے سےمطلب نہیں نکلتا ۔ہر لفظ کا الگ الگ مطلب ہے ۔ جسطرح ہمارے یہاں Preposition ہوتی ہیں ۔ اُردو میں بھی انگریزی میں بھی تقریبا ہر زبان میں Prepositionہیں ۔ جیسے یہ ایک گلاس ہے ۔اس میں Preposition اور ورب بھی ہے۔ لیکن اب جیسے I am going to school اب اس جملے میں ٹو سمت کی طرف اشارہ ہے ۔لیکن سریانی میں یہ نہیں ہوتا۔ اب وہاں پر جو لکھا ہے ’’لا اِلہ‘‘ سریانی زبان میں Preposition کی ضرورت نہیں ہے۔سریانی زبان میں اگر اس کو سمجھیں تو اس میں Preposition کی ضرورت ہی نہیں ہے۔’’لا اِلہ ‘‘ کا مطلب زمین پر کوئیاِلہ نہیں تھا۔اب زمین کا ذکر کہاں آیا اس میں ؟ زیر میں زمین کا ذکر ہے۔ لا جو ہے یعنی نہیں ۔ اسکا مطلب صرف نہیں ، نہیں ہے۔ اسکا مطلب ہے غیر حقیقی بات ہو رہی ہےاور غیر حقیقی بات جو ہو رہی ہے وہ ماضی ہے۔مستقبل تو ہے نہیں ۔ بھئی اگر غیر حقیقی ہے تو نا اس کا کوئی حال ہے یا مستقبل ۔ لا اِلہ زمین پر کوئیالہ نہیں تھا ، الا اللہ تو یہ بن گیا ۔ زمین پر کوئی معبود نہیں تھا تو یہ بن گیا۔یہ سریانی زبان ہے یہ عربی نہیں ہے ۔ لوگوںنے یہ سمجھا کہ یہ سارے کلمے عربی میں ہوں گے ۔ اگر کلمے عربی زبان میں ہیں تو یہ سارے انبیا عربی کیوں نہیں بولتے؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ موسیٰ سے اللہ کس زبان میں مخاطب ہوتا تھا؟
لیکن جتنی بھی زبانیں ہیں ان سب میں سریانی زبان کا اثر ہو گا ۔ جیسے موسی ؑ کی قوم اس وقت جو زبان بولتے تھے ، کیونکہ موسی ؑ اللہ سے ہمکلام ہوتے تھے تو اس میں بہت سارے الفاظ سریانی کے شامل ہو گئے ۔ اب جیسےلفظ عیسیٰ ہے ۔ یہ لفظ عیسیٰ انہوں نے ’ع‘ سے لکھا ہے ۔ اب کیوں لکھا ہے انہوںنے ’ع‘ سے کیونکہ لکھنے والے جاہل تھے۔جن کو لکھوایا گیا ہے وہ کاتب جاہل تھے ۔یہ تو آپ کی محبت ہے اسلام کےلئے اور حضورؐ کے لئے جو آپ ہر چیز کو صحیح سمجھتے ہیں ۔کیا اُن سے لکھنے میں غلطی نہیں ہو سکتی ہے ۔کیا جبرائیل ؑ نے اِملا Dictate کروایا تھا ؟ اللہ نے تو قرآن لکھوایا ہی نہیں ۔ اللہ نے تو ارشاد فرمایا تھا کہ یا رسول اللہ آپ فکر نہ کریں ہم نے اس قرآن کو آپ کے سینے پر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔تو جسطرح آپ نے آیت کے الفاظ لکھے ہیں وہ اپنی مرضی سے ، اپنے اٹکل پچھو سے لکھے ہیں ۔عربی قائدے کے مطابق لکھے ہیں ۔ اس قرآن میں تو آپ کی عربی فطرت گھسی ہوئی ہے ۔یہ اصل قرآن کہاں ہے ۔اصل قرآن وہ ہے جو حضور ؐ کے سینے میں ہے ۔آپ نے تو عربی مزاج کے مطابق یہ قرآن لکھا ہے ، اسی طرح عیسیٰ کو ’ع‘ سے لکھ دیا ۔
جو عالم غیب میں اللہ کی برادری سے ہےسب کے نام الف سے شروع ہوتے ہیں ، ’ع‘ سے نہیں ہوتے شروع۔آپ دیکھ لیں جیسے الیاس ، ادریس (اخنوہ) ، اور پھر عیسی ۔ اب یہ عیسیٰ ع سے کیوں ہے ؟اور عیسیٰ میں چھوٹی ی بھی نہیں ہے آخر میں ۔’’اس ا‘‘ یہ ہے عیسیٰ۔ عالم غیب میں وہ جو رب ہے اسے کے جو بہت زیادہ قریبی چاہنے والے ہیں۔ ان کو آسا اور عیسیٰ کہتے ہیں۔ جیسے حضور ؐ کے بہت زیادہ قریبی چاہنے والےبلال حبشی ، ابو ذر غفاری اور سلمان فارسی تھے ۔جن کو کسی کی پراوہ نہیں تھی بس حضورؐ کی خدمت میں رہنا ہے ۔

قرآن کی کتابی صورت میں تشکیل اللہ کی مرضی نہیں تھی:

اب جو قرآن شریف نازل ہوا ۔سب سے پہلے تو اس بات پر بحث کریں کہ یہ جو قرآن کھالوں پر ، پتھروں پر اور ٹھیکریوں پر لکھا تھا وہ بغیر کسی مدد کے لکھا گیا ۔بنا کسی روحانی مدد کے لکھا گیا ۔اب اس قرآن میں جبرائیل نے تو کوئی املا کیا ہی نہیںکہ یہ آیت تم نے کیسے لکھی ہے ، یہ زیر زبر یا پیش کہاں گئی ! ایسا تو کچھ کیا نہیں جبرائیل نے ۔ کیونکہ اللہ چاہتا ہی نہیں تھا کہ یہ قرآن لکھا جائے ۔کیوں نہیں چاہتے تھے کہ اگر یہ لکھ دیا تو سمجھ میں کس کے آئے گا۔اس میں تو سریانی زبان کے الفاظ چھپے ہوئے ہیں ۔ تمھارا تو بیڑا غرق ہو جائے گا۔تم وہابی بن جائو گے ، دیوبندی بن جائو گے ، شیعہ بن جائو گے ، بریلوی بن جائو گے۔کوئی کچھ مطلب سمجھے گا اِس کا اور کوئی کچھ مطلب سمجھے گا اس کا ۔اسی لئے لکھوایا ہی نہیں ۔حضور پاکؐ سے زیادہ ہوشیار نکلے عمر بن خطاب ۔ کہ بھئی یہ تو قرآن ضائع ہو جائے گا اس کو لکھوائویہ اتنا بڑا مسئلہ ہو گیا ہے۔ اگر یہ اتنی اہم بات ہوتی تو حضورؐ کیا اس کو ایسے ہی چھوڑ دیتے ! اب آپ نے جو اپنی مرضی سے لکھ کر ہم کو دے دیا ہے پتہ نہیں جو لفظ اُوپر سے آیا ہے اُس کو کسطرح وہاں لکھا جاتا ہے ۔ لوح محفوظ سے ملایا ہے آپ نے ؟ قرآن کو سینے سے لگائے بیٹھے ہو ، کبھی غور کیا ہے کتنی خامیاں ہے اس میں ، کتنی غلطیاں ہیں اس میں ۔ اب اللہ کی طرف سے الفاظ کی صورت میں تو نہیں اُترا ۔ حضور ؐ پڑھتے گئے اور آپ لکھتے گئے ۔اب کون سے لفظ کو کیسے لکھنا ہے پتہ ہی نہیں اور جبرائیل نے کو ئی درستگی بھی نہیں کی ۔تو پھر پتہ نہیں کیا غلط سلط لکھ دیا تم نے ۔
قرآن مجید کی جو آیتیں ہیں اس میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں۔جیسے آیت تو شروع ہو گئی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے   یہ ابتدائیہ کلمات نہیں ہیں بلکہ کوئی بات ادھوری رہ گئی تھی اس سے منسلک کوئی بات ہے۔عربی کے حساب سے ایسا ہی لگتا ہے لیکن وہ عربی ہے ہی نہیں وہ تو سریانی زبان ہے۔آپ اردو میں الفاظوں کو جوڑنےکےلئے ’’ اور‘‘ استعمال کرتے ہیں لیکن سریانی میں اسکا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں  ۔

آئماکرام سے سوال:

کیا آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ اللہ تعالی نے چاہا تھا کہ اس قرآن کو کتابی صورت دے دی جائے؟ اور اگر اللہ ایسا چاہتا تھا تو حضورؐ سے یہ کام کیوں نہیں کروایا ؟ اور یاد کریں جب عمر بن خطاب یہ مشورہ لے کر ابو بکر صدیق کے پاس آیا تو ان کے الفاظ کیا تھے۔’’تم ایسے کام کا مجھے بولتے ہو جو خود حضورؐؐ نے نہیں کیا تو میں کیوں کروں‘‘ اب ابو بکر صدیق کا باطن میں تو کوئی مقام نہیں تھا ، ان کا شریعت کے اندر مقام تھا ۔ان کاسینہ اسطرح کوئی باطنی تعلیم سے منور نہیں تھا جیسا حضرت علی کا تھا ۔اب انہوں نے اسرار کیا تو وہ کام کر دیا۔ اگر اندر سے باطنی تعلق قائم ہوتا تو وہ کام کھبی بھی نہ کرتے ۔اور پھر مولا علی نے جو قرآن کی آیتوں کو جمع کیا اس کو صحابہ کرام نے مل کر آگ لگا دی۔ قرآن مجید آج پہلی دفعہ تھوڑی جل رہا ہے یہ جو ہمارے خلفائے راشدین گزرے ہیں انہوں نے بھی جلایا ہے ۔

سریانی زبان اللہ کی زبان ہے لیکن اس کو اللہ نے ایجاد نہیں فرمایا ۔ مثال کے طور پر ہم اور آپ اردو کیوں بولتے ہیں کیونکہ ہمارے ماں باپ اردو بولتے تھے۔اگر کوئی سندھی بولتا ہے تو اس کا مطلب ہے اس کے ماں باپ سندھی بولتے تھے۔اسی طرح اللہ میاں بھی سریانی اسی لئے بولتے ہیں کہ عالم غیب میں سریانی بولی جاتی ہے۔

جس طرح ہم یہ پڑھتے ہیںقل ھو اللہ ھو احد ، اب اس آیت میںھوپہلے لگ گیا تو اللہ کے بعدھو کیوں لگا رہے ہو۔یہ غلط ہے۔ھو کا مطلب ہوتا ہے’’ وہ‘‘ یعنی یہ ایک اشارہ ہے ۔

قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ
سورۃ الاخلاص

ان مولویوں نے اپنی طرف سے اس میں اعراب لگا دئیے اور اس کی تشکیل کر دی۔حضور کے دور میں یہ نہیں تھی۔

قرآن میں پیدا کئے گئے اشکال:

1998میں ترکی جانا ہوا ۔ترکی استنبول میں ایک میوزیم ہے اسکا نام ہے ٹوپ کاپی میوزیم ۔ اس میوزیم میں ہم نے دیکھا کہ ایک شیشے کا مرتبان ہے اس کے اندر ایک قرآن شریف رکھا ہے اور اس پر خون کے دھبے ہیں ۔ اور اس کے نیچے لکھا ہوا ہے کہ یہ وہ قرآن ہے جب عثمان غنی اس کی تلاوت فرما رہے تھے ان کے اوپر اسوقت حملہ کیا ، اِس پر وہ انکا خون ہے۔اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ خون کے دھبے 1430 سال گزر گئے ہیں ابھی تک کیسے ہیں ؟ یہ ذہن میں خیال آیا اور جیسے ہی یہ خیال آیا میری حالت غیر ہو گئی ۔ روئیں روئیں سے اللہ ھو کی آوازیں آنے لگیں ۔ اور وہ سارا منظر میرے سامنے آ گیا کہ کسطرح سے امام حسن اور امام حسین ان کے حجرے کی چھت کے اوپر کھڑے ہوئے تھے، پہرہ دے رہے تھے۔ اور کسطرح وہ دیوار کود کر آئے اور انہوں نے حملہ کیا اور حضورؐ کی جو بیٹی تھیں رقیہ اور کلثوم ، اُن میں سے کسی ایک کی انگلیاں بھی کٹ گئیں بچانے میں۔اور وہ قرآن نیچے رہ گیا ۔ اور اس کے اوپر خون ٹپک رہا تھا اور پھر وہی خون کی خوشبو آنے لگی ۔ جس سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ وہی قرآن ہے۔

اب جب وہ قرآن مجید دیکھا تو اس میں کوئی زیر اور زبر نہیں تھی۔اگر آپ قرآن کے پرانے نسخے دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا اس کے اندر زیر زبر نہیں ہے۔پھر مولوی یہ کہتے ہیں کہ یہ اس لئے زیر زبر لگائے ہیں تاکہ لوگ اس کو اُسی طریقے سے پڑھیں یعنی قریشی لب و لہجے میں پڑھیں ۔ اب اس میں کتنا بڑا اشکال پیدا ہو گیا ۔ یہ زیر زبر آپ نے لگایا ہے صرف اس کی ادائیگی کے لئے۔اس سے نقصان یہ ہوا کہ معنی تبدیل ہو گئےاور آپ گمراہ ہو گئے۔اور قرآن سے فیض ختم ہو گیا۔صرف قرآن کو جمع کرنا ضروری نہیں تھا ۔ اب یہ جو کہتے ہیں کہ یہ لفظ ٹوٹ گیا اس میں وقف لازم ہے ۔ اس کی وجہ سے بڑی گمراہیاں پیدا ہوئی ہے ۔کیوں وقف لازم پر رک رہے ہیں ، کیا حضورؐ نے کہا تھا کہ یہ لگائو۔تم نے اپنی مرضی سے لگا دیا ہے ۔ اب سورتوں کے نام بھی صحابہ کرام نے رکھے ہیں ۔ سورۃ النور میں عورتوں کا ذکر ہے ، اور سورۃ انسا میں ایما ن والوں کا ذکر ہے ۔سب آگے پیچھے کر دیا ہے انہوں نے ۔
سورۃ البقرہ میں موسی ٰ کا ذکر ہے کیونکہ ان کی قوم پہلے گائے کی پوجا کرتی تھی تو انہوں نےسورت کا نام ہی گائے رکھ دیا۔تو اسطرح سے قرآن میں اشکال پیدا ہو گیا ہے ۔ اسطرح سے قرآن نہیں پڑھا جاتا جسطرح سے انہوں نے اعراب اور تشکیل لگا دی ہے ۔ اس سے مطلب ہی تبدیل ہو گیا ہے اور امت گمراہی میں چلی گئی۔
یہ عالم غیب کے حقائق ہیں اور عالم غیب کے جو حقائق ہیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ۔

الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ۔
سورة البقرة 1ترجمہ: ان پاکوں کو ہدایت دیتا ہے قرآن کہ جو غیب پر ایمان لا چکے ہیں

یہ مسلمان ابھی بھی کہتے ہیں کہ ہم غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔ اب جب غیب کے کلمات اور ذات آ رہی ہے تو اس کو جھٹلا رہے ہیں۔تو معلوم ہوا کہ تم قرآن سے اور اسلام سے بھی گئے۔اگر اسلام اور قرآن پر قائم رہنا ہے تو مالک الملک گوہر شاہی پر ایمان لانا ضروری ہے۔

متعلقہ پوسٹس