کیٹیگری: مضامین

حصّہ اول:

امیر معاویہ کی امام حسن سے کئے معاہدے کی خلاف ورزی:

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا دن ہے ۔لوگ واقعہ کربلا کے حوالے سے سچ اور حق بات سننا چاہتے ہیں لیکن اگر سچ جاننے کے باوجود اگر دل میں ہل چل نہ ہو اور حق و باطل کی پہچان نہ ہوتو پھر عذاب ہو گا۔ہمیں ان علماء پر افسوس ہوتا ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے اُن لوگوں پر نظر التفات ڈالتے ہیں جنھوں نے نبی کے نواسے کوایک بوند پانی کا قطرہ نہیں دیااوربھوک و پیاس تمام ظلم اور استبداد کے بعداُن کو بیدردی سے شہید بھی کر دیا گیا ۔عثمان غنی ؓ کو شہید کرنے کے بعد مسلمانوں میں جو فتنہ پھیلا اُس میں جنگ سفین ، جنگ جمل ہوئیں ، آپس میں جنگیں لڑیں ۔ امیر معاویہ کی ایک بہن عثمان غنیؓ کےعقد میں تھی جس کی وجہ سے جب عثمان غنی خلیفہ بنےتو بہت سے مراعات امیر معاویہ کو حاصل ہوتی تھیں۔مجبوری کی حالت میں انہیں ماننا پڑتا تھاجسکی وجہ سے عثمان غنی کے اوپر الزامات بھی لگائے گئے کہ اقربا پروری سے کام لیتے ہیں، اپنے رشتے داروں کا گھر بھرتے ہیں ۔ جب عثمان غنی کو شہید کر دیا گیا اورقاتل کا پتہ نہیں چلا تو امیر معاویہ نے اس بات کو بنیاد بنا کربی بی عائشہ کو اپنے ساتھ ملا لیااور کہا کہ مولی علی انصاف نہیں کر رہے ہیں اور مولی علی کے خلاف جنگ کی۔
اسلامی سلطنت اب دو حصوں میں منقسم ہو گئی ایک حصّے پر امیر معاویہ خلیفہ تھا اور دوسرے حصّےپر مولی علی خلیفہ تھے ۔ پھر امیر معاویہ نے اُن خوارجین میں سے عبدالرحمن ابن ملجم کواپنے ساتھ ملایا اوراسطرح مولی علی دورانِ نماز مسجد میں شہیدکر دیاگیا ۔ مولی علی کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کو خلیفہ بنایا گیا کچھ عرصہ یہ خلیفہ رہے اور اسکے بعد امام حسن علیہ السلام نے اُمت میں مزیدخونریزی کو روکنے، فتنہ اور فساد کو روکنےاور امت میں اتحاد کی خاطر امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے امیر معاویہ کے ساتھ ایک معائدہ کیا ۔ اورمعائدے کی چند خاص خاص باتیں یہ تھیں کہ میں امام حسن خلافت سے دستبردار ہو جاؤں گا اگر مندرجہ زیل باتوں پر تم (امیر معاویہ) وعدہ کرو۔ اُن باتوں میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ

” تم خلافت کو وراثت نہیں بناؤ گے اور جب تمھارا وقت قریب آئے تو پھر تم مسلمانوں کی اجماع پر چھوڑ دینا کہ وہ اپنا خلیفہ منتخب کریں “

امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نےامیر معاویہ سے معائدہ کر لیااورکہا کہ میں کسی کو جانشین مقرر نہیں کروں گا، مسلمانوں کی شوریٰ بیٹھے گی پھر جس کو اکثریت چاہے گی اُس کو اپنا خلیفہ چُن لے گی ۔معائدے کے بعد امام حسن علیہ السلام خلافت سے دستبردار ہو گئے جس کےکچھ عرصے بعد امیر معاویہ نے امام حسن کو زہر دلوا دیا ۔ سن پچاس ہجری میں امام حسن علیہ السلام کا انتقال ہو گیا اس کے بعد امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کو جانشین مقر ر کر دیا ۔ جب جانشین مقرر ہوا تو اُس وقت مسلمان دو دھڑوں میں تھے ایک حصّے پر مولی علی کی خلافت تھی اور دوسرے حصّے پرامیر معاویہ کی خلافت تھی پھر مولیٰ علی کی شہادت پر جب امام حسن علیہ السلام خلیفہ بنے تو انہوں نے اُمت کے اتحاد کے لئے خلافت سے دستبردار ہونا بہتر سمجھااور اِن شرائط کے ساتھ دستبردار ہوئے کہ تم خلافت کو وراثت نہیں بناؤ گے، تمھیں خلیفہ چننے کا کوئی حق نہیں ہو گامسلمانوں کی اکثریت جس کو منتخب کرے گی وہ خلیفہ ہو گا ۔جو اُن کی خلافت میں لوگ رہتے تھے وہ سب جانتے تھے کہ معائدہ کیا ہوا ہے لہذا جب امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کو جانشین مقرر کیا تو مسلمانوں میں خلفشار کی صورت پھیل گئی۔زبانی کلامی لوگ بِدکنا شروع ہو گئے،عمر بن خطاب کا بیٹا، ابو بکر صدیق ؓ کا بیٹا بڑھ چڑھ کر آگے نکلتے اور امیر معاویہ اور یزید کی مخالفت کرتے، یہ امام حسین کے دائیں بازو تھے۔اب جب امیر معاویہ نےامام حسن علیہ السلام سے طے شدہ معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بیٹےیزید کو جانشین مقرر کر دیا تو مسلمانوں میں پھوٹ پڑ گئی۔اہل کوفہ نے خطوط لکھنا شروع کر دئیےکہ انہوں نے معائدے کی خلاف ورزی کی ہے ۔ امیر معاویہ نے جلیل القدر صحابہ کو بھی خرید لیا لیکن بہت سے ایسے بھی صحابہ تھے کہ جنہوں نے کہا کہ امیر معاویہ نے معائدے کو پامال کیا ہے ، وعدہ خلافی کی ہے ۔ معائدے کے مطابق تو آنے والے خلیفہ کا انتخاب تمام مسلمانوں نے مل کر کرنا تھایہ جو امیر معاویہ نے اپنا جانشین مقرر کیا ہے یہ فیصلہ غلط ہے ۔اس کے خلاف لوگوں نے آوازیں اُٹھائیں اور یہ معاملہ چند سالوں تک چلا ہے ۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امیر معاویہ نے اس خوف کے تحت کے یزید کو کوئی مار نہ دےمدینے سے مکے بھیجوا دیا کیونکہ اہل بیت مدینہ شریف میں تھے۔زبانی کلامی مخالفت ہوتی اور امیر معاویہ کوشش میں رہتے کہ جو بھی اِن کے خلاف زبان کھولےاس کو مار دیا جائےپھر امیر معاویہ کا انتقال ہو گیا اور جو جانشین مقرر ہوا تھا وہ خلیفہ بن گیا ۔

اہلِ کوفہ کے امام حسینؓ کو خطوط:

اب یہ صرف امام حسین ؓ کی بات نہیں تھی وہ سارے کے سارے مسلمان جو مولیٰ علی کی خلافت میں تھے وہ سب یزید کی جانشینی کے خلاف تھے۔ اب مدینے اور مکے میں تحریک چل رہی تھی کہ ہم امیر معاویہ کے اس فیصلے کونہیں مانتے ہیں اور نہ ہی یزید کی خلافت کو مانتے ہیں کیونکہ امیر معاویہ نے وعدہ خلافی کی ہے ۔ اب جو سنّی علماء امیر معاویہ کیلئے بڑے بڑے القابات استعمال کرتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ امیر معاویہ نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ساتھ معائدہ کیا اور پھر اُس کی خلاف ورزی کی ، تو کیا خلافت ورزی کرنا مومن کا شیوہ ہے اور وہ بھی اہل بیت کے گھرانے میں ! اب ماحول ایسا ہے کہ جو لوگ پہلے سے امیر معاویہ کی خلافت میں تھے وہ تو اُن کے حق میں تھے لیکن جس خطے کی خلافت سے امام حسینؓ دستبرار ہوئے تھے وہ سب مسلمان اِس فیصلے کے خلاف تھے ۔
اب امام حسین کو اہل کوفہ کی طرف سے خطوط آنے لگے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا یہ نعرہ تھا کہ اب خلیفہ امام حسین ہوں گے ۔ اگر وہاں مسلمانوں کا مشورہ لیا جاتا تو مسلمان امام حسین کو اپنا خلیفہ چُن لیتے کیونکہ امام حسین کو سب چاہتے تھے ۔اوریہی ڈرو خوف یزید کے دل میں تھا اگر ان کو نہ روکا گیا توخلافت چلی جائے گی۔پھر یزید نے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا ۔پھر کوفے سے لوگ امام حسین کو بُلا رہے تھے کہ ہم کبھی بھی یزید کو خلیفہ نہیں مانیں گے کیونکہ انہوں نے معائدے کو پامال کیا ہے اور ہم اپنا لیڈر آپ کو چنتے ہیں اور اُن خطوط میں اہل کوفہ نے ایسی ایسی باتیں لکھی کہ اگر آپ داد رسی نہیں کریں گے ہماری تو ہم یوم محشر میں اللہ کو کہیں گے،لہذاامام حسین مجبور ہو گئے ۔

اہل کوفہ کا امام حسین ؓسےدھوکہ :

ہر طرف یزید کی مخالفت ہو رہی ہے اور صحابہ کرام کی اولاد میں کئی بچے اس کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے ۔ جیسے عمر کا بیٹا عبداللہ ابن عمر ، ابو بکر کا بیٹااوریہ سب مل کر ایک تحریک چلا رہے تھے ۔ اب چونکہ یزید نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا، دین کی دھجیاں بکھیر دیں، اسلام کا مذاق بنایا جا رہا تھا لہذا امام حسین اپنے اہل خانہ کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے لیکن اپنے جانے سے پہلے امام حسین نے مسلم بن عقیل کو بھیج دیا تھا کہ تم جاؤ اور میرے ہاتھ پر بیعت لے لو۔مسلم بن عقیل جب وہاں گئے تو چالیس ہزار آدمی جمع ہو گئے اور انہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ ہم آپ کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں ۔یزید کو جب پتہ چلا کہ چالیس ہزار آدمی مسلم بن عقیل کے ساتھ ہو گئے ہیں تو انہوں نے اُن پر ظلم کیا اور قتل و غارت شروع کر دی ، لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا اور اُس ڈرانے اور دھمکانے کا خوف اتنا لوگوں پر طاری ہو گیا کہ جب مسلم بن عقیل نے شہر کے چوراہے پر نماز شروع کی تو چالیس ہزار آدمی تھی اور جب سلام پھیرا تو ایک بھی آدمی نہیں تھا ۔اب یہ صورت حال دیکھ کر مسلم بن عقیل پریشان ہوئے گئے تھے کہ اب تو امام حسین کو اطلاع دے چکے ہیں کہ یہاں تو بہت وفادار موجود ہیں اور سارے وفادار تو بھاگ گئے۔اُس پیادہ زمانے میں سفر چونکہ اُونٹ پر ہوتا تھااس لئے یزید کو پتہ چل گیا کہ امام حسین آ رہے تو یزید نے اپنا لشکر بھی بھیج دیا جس میں چار سے پانچ ہزار آدمی تھےاور امام حسین کے اہل عیال میں صرف 72 لوگ شامل تھے ۔

حُر بن ریاحی کا امام حسین ؓ کے قافلےمیں شامل ہونا:

یزید کی فوج کا جو سپہ سالار تھا اُس کا نام حُر بن ریاحی تھا۔جب میدانِ کربلا میں یزید اور اہل بیت عظام کا آمنا سامنہ ہوا ہے تو حُر بن ریاحی نے امام حسین کے قدم چومے اور کہا کہ آپ نواسہ رسول ہیں میں ہر گز آپ پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا ہوں تو میں کوئی بہانہ کر دوں گا آپ رات کے اندھیرے میں اپنا قافلہ لے کر واپس مدینے چلے جائیں، یزید کا آپ کے لئے یہ حکم ہے کہ آپ کو ہر حال میں روکا جائے اور نہ رکیں تو مار دیا جائےاور میں ایسا کر نہیں سکتا میں آپ کی عزت کرتا ہوں ۔رات کو امام حسین نے فیصلہ کیا کہ واپس چلے جاتے ہیں اور پھر واپس چلنا شروع ہو جاتے ہیں جب صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ وہیں دائرے میں کھڑے ہیں ۔حُر بن ریاحی جب بیدار ہوا اور اپنے خیمے سے باہر جھانکا تو دیکھا کہ امام حسین تو ابھی بھی یہیں ہیں ۔پھر وہ امام حسین کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ میں نے تو آپ کو جانے کیلئے کہا تھا لیکن آپ تو ابھی بھی یہیں موجود ہیں ۔امام حسین نے بتایا کہ ہم واپس چلے گئے تھے پوری رات چلے ہیں لیکن جب صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ یہیں موجود ہیں ۔پھر حُر بن ریاحی نے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کل چلے جائیے گا لیکن تین دن تک یہی ہوتا رہا ۔بالاخر حُر بن ریاحی پر بھی نبی پاکﷺ کا کرم ہو گیا جب اُس نے دیکھا کہ اب یہ نہیں جا پا رہے ہیں کوئی مسئلہ ہے تو پھر اُس نے کھلے عام اعلان کر دیا کہ میں امام حسین کا ساتھی ہوں اور آپ کے ساتھ شامل ہو گیا ۔

امام حسینؓ کی شہادت اوردین اسلام فتنے کا شکار ہوا :

زید کے لشکر نے وہی کچھ کیا جو کافرین کے لشکر کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے کی جاتی تھیں ۔یزید کے لشکر کے 80 یا 82 لوگ مارے گئے جبکہ امام حسین کے ساتھ 72 نفو س تھے، چند لوگ اور شامل ہو گئے تھے جس کی وجہ سے مجموعی تعداد 138 ہو گئی تھی۔یزید کے لشکر نے امام حسین کی شہادت کے بعد خیموں کو آگ لگا دی اور اہل بیت عظام کی جو خواتین اور ہماری مائیں تھیں اُن کی چادریں چھین لیں ۔ امام حسین کی جو ہمشیرہ زینب ہیں اُن کی چادر چھین لی اور بہت برا سلوک ہوا جو کہ تاریخ اسلام کا ایک سیاہ باب ہے۔ اسطرح یہ واقعہ کربلا رونما ہوا اور یہاں پر خلافت کا اختتام ہوچکا تھا اُس کے بعد اسلام میں فتنہ پیدا ہو گیا ۔ امام حسن مجتبیٰ نے جب دستبرداری کا اعلان کیا اُس کے بعد کوئی صحیح خلیفہ نہیں آیا ۔یہ اسلام کی تباہی تھی اِس کے بعد اسلام کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا ۔پھر بعد میں یزید بھی مارا گیا لیکن جو بھی خلیفہ بنا اُس نے قتل عام ہی کیا اور وہ قتل عام آج تک جاری ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 12 ستمبر 2018 کو محرم الحرام کے مہینے میں کئی گئی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس