- 1,157وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
آدم صفی اللہ سے روحانی سائنس کا آغازہوا:
پرانے وقتوں میں دور دراز لوگوں سے بات چیت کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے ایک دوسرے کو خطوط لکھے جاتے تھے لیکن آج کے دور میں جو ایجادات ہوئی ہیں اس کی بناء پر یہ ممکن ہو گیا ہے کہ درو دراز بیٹھے لوگوں سے بات چیت ہو سکتی ہے، مزید ایجادات ہوئیں تو براہ راست دیکھنا بھی ممکن ہو گیا۔اب زرا سوچیں انسان نے سائنس کے زریعے ایسی ایجادات کر لیں کہ دور دراز بیٹھے لوگوں سے بات چیت کرنا اور براہ راست دیکھنا بھی ممکن ہو گیا ہے ۔ اللہ ہر جگہ موجود ہے لیکن اللہ کسطرح ہر جگہ موجو د ہے یہ کسی کو نہیں معلوم ۔ لیکن اللہ نے ضرور کوئی ایسا نظام رکھا ہو گا جس کے زریعے لوگ اللہ سے اور اللہ اُن سےہمکلام ہو سکے ۔ اور یہ جو اللہ سے رابطے اور اس کو دیکھنے والی تعلیم ہے یہ آخر میں آئی ہے ۔آج سے ساڑھے چھ ہزار سال پہلے جب آخری آدم صفی اللہ آئے تو اللہ نے انہیں عظمت والی تعلیم دی جہاں سے روحانی سائنس کا آغاز ہوا اور ان نکات اور تعلیم کی بنا پر جو اللہ نے آدم صفی کو عطا کی تھی ، ان کو سیکھ کر اللہ سے انسان رابطہ کرنے کے قابل ہو گیا ۔ اور اتنا ہو گیا کہ اب انسان کی آواز عرش الہی کو ٹکرائے ۔ انسان کے اندر اللہ تعالی نے سات روحوں کو رکھا ۔ کچھ سماوی ارواح اور کچھ ارضی ارواح رکھیں جن کے الگ الگ کام ہے ۔ زندگی اور موت کا تعلق سماوی ارواح سے نہیں ہے بلکہ ارضی ارواح سے ہے ، کچھ ارواح کو استعمال کر کے اللہ نے انسان کے جسم کو تخلیق فرمایا اور کچھ ارواح ایسی رکھیں جن کا تعلق انسان کی ظاہری زندگی سے نہیں ہے بلکہ ان روحوں کا تعلق اللہ سے بات چیت کرنا ، اللہ کا دیدار کرنا ، اللہ سے محبت کرنا اور اللہ سے عشق کرنا قرار پایا ۔
یہ دنیا نہ جانے کتنے کھربوں سالوں سے جی رہی تھی اور نہ جانے کتنے انبیاء اس دنیا میں بھیجے گئے ،کہا جاتا ہے کہ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزرا انبیاء بھیجے گئے ہیں۔ آدم صفی اللہ سے پہلے جو انبیاء کرام آئے ان کواللہ تعالی نے روحانی سائنس عطا نہیں فرمائی تھی جو بھی وہ عبادت کرتے تھے وہ زبانی اور جسمانی عبادت تھی لہذا کسی بھی انسان کا اللہ سے رابطہ قائم نہیں ہو سکااور نہ ہی کسی نے رب کودیکھا۔لیکن ساڑھے چھ ہزار پہلے جبکہ اللہ کئی دفعہ اس دنیا کو تباہ کر چکا تھا ، کئی قوموں کو غرق کر چکا تھا اُن میں مختلف بیماریوں کی وجہ سے ، اُن میں حسد و تکبراور لالچ ،خون خرابہ کی وجہ سے ،کوئی قوم ایسی ہوتی جو کہ صرف گناہ ہی کرتی اللہ اُن کو بھی تباہ کر دیتا ،کوئی قوم ایسی ہوتی جو صرف عبادت ہی کرتی لیکن گناہ نہ کرتی اللہ تعالی اُن سے بھی عاجز ہو گیا ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ صرف عبادت کرتے تھے گناہ نہیں کرتے تھے وہ اچھے لوگ ہوں گے تو پھر اللہ نے اُن کو تباہ کیوں کیا ؟ اُن کو تباہ اس لئے کیا گیا کہ صرف عبادت کرنے کی وجہ سے وہ متکبر ہو گئے تھے ۔جب اللہ تعالی نے ساڑھے چھ ہزار سال پہلے کم وبیش فرشتوں کو حکم دیا کہ جنت میں جنت کی مٹی سے آدم کا پتلا بنایا جائےتو فرشتوں نے اللہ پر اعتراض کیا ۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 30
ترجمہ : اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں، تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
آدم صفی اللہ کی تخلیق سے پہلے فرشتوں نے پچھلے آدموں کا حال دیکھا تھا تبھی تو اللہ پر اعتراض کیا تھا اگر آدم صفی اللہ پہلے آدم ہوتے تو فرشتے اعتراض کیوں کرتے۔فرشتوں کے اعتراض کے بعد بھی اللہ آدم کو تخلیق کرنا چاہتا تھا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کچھ اور ہی متعارف کروانا چاہتا تھا ۔ اللہ نے حدیث قدسی میں فرمایا کہ
کنت کنزا مخفیا فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق لکی اعرف۔
فیض کاشانی 1342، ص 33
ترجمہ : میں ایک چھپے ہوئے خزانے میں پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اس لئے مخلوق کو پیدا کیا ۔
اللہ تعالی نے جس مقصد کے لئے دنیا بنائی وہ یہ ہے انسان اللہ کو پہچان لے اور اللہ کا عرفان اسے حاصل ہو جائےاور کھربوں سالوں سے انسان جو بنتے چلے آ رہے تھے اُن کو یہ تعلیم عطا نہیں ہوئی جو اُن کو اللہ کی ذات کا عرفان عطا کر دے اور وہ اللہ تعالی کی محبت و عشق سے سرفراز ہو جائیں۔اب یہ لمحہ آیا جب اللہ تعالی نے فیصلہ کیا اور فرشتوں کو کہا کہ آدم صفی اللہ کو میں علم الاسماء دے رہا ہوں اگرتمھیں وہ علم حاصل ہے تو بتاؤ، فرشتوں نے کہا کہ اے اللہ وہ علم ہمارے پاس کیسے ہوگا جو تُو نے دیا نہیں۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
سورة البقرة آیت نمبر 31 تا 32
تخلیق انسانی کا مقصد اللہ کی ذات اور عرفان تک پہنچنا ہے:
یہ وہ مقام تھا جب اللہ تعالی نے اپنے عرفان، عشق و محبت کے دروازے کھول دئیےاور آدم صفی اللہ کو لطیفہ قلب کا علم عطا فرمایا کہ وہ لطیفہ قلب کے زریعے انسانوں کے دلوں کو منور کریں اور وہ جو لطیفہ قلب ہے اس کا روحانی کام اور صلاحیت کیا ہے وہ انسانوں کو سکھائیں۔انسان کے وجود میں جو اللہ تعالی نے باطنی جوہر رکھے ہیں ان کو سمجھ کر بیدار کر سکیں جیسے مولی علی نے فرمایاکہ اے انسان تو اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھتا ہے جبکہ تیرے اندر پوری کائنات بند ہے، تیری بیماری بھی تیرے اندر ہے اور اُس بیماری کا علاج بھی تیرے اندر ہے لیکن تجھے اس کی خبر نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے مخفی خزانے سے نکل کر جو کچھ بھی کائنات تخلیق فرمائی ہے ، جتنے بھی عالم ہیں ان تک رسائی اور اسکی تعلیم ، اور کونسی روح کونسے عالم تک جا سکے گی ان سب کا علم انسان کے اندر ڈال دیا ۔ انسانی جسم میں سات لطائف رکھ دئیے ، ساتھ دن رکھ دئیے، سات ہی براعظم ہیں ، سات ہی آسمان ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔
لطیفہ قلب کی تعلیم یہ تھی کہ اللہ کا اسم لطیفہ قلب میں داخل ہو گا اور اُس اسم کا بار بار دل کے اندر رگڑا لگے گا جس سے نور بنے گا اور وہ قلب کی روح بیدار ہو جائے گی ، جب وہ بیدار ہو گی پھر اُس کے فنکشن آپ پر عیاں ہو ں گے ۔ جو قلب کے فنکشن ہیں اُس کو اللہ کے کسی بھی اسم سے بیدار کیا جا سکتا ہے لیکن اللہ کے بہت سے نام صفاتی ہیں صرف ایک نام ذاتی ہے ، جو ذاتی نام ہے وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے اور اس کے زریعے انسان کی رسائی اللہ کی ذات تک ہو سکتی ہے لہذا ہر مرسل کو اللہ تعالی نے ایک صفاتی اسم عطا فرمایا تاکہ وہ صفاتی اسم اُس مرسل کے امتیوں کے دل میں داخل ہو اور اُن ارواح میں جو روحانی صلاحیت اللہ نے رکھی ہے اس اسم کی مطابقت میں وہ روحیں اُن عالمین تک رسائی دلا دیں۔ لطیفہ قلب کی نبوت اور علم آدم صفی اللہ کو عطا ہوا تھا ، لطیفہ روح کی نبوت اور علم ابراہیمؑ کو عطا ہوا تھا، لطیفہ سری کی نبوت اور علم موسیؑ کو عطا ہوا تھا،لطیفہ خفی کی نبوت اورعلم عیسیٰ کو ملی تھی اور آخر میں خاتم النبین محمد الرسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے ذاتی اسم ، اسم ذات اللہ عطا فرمایا ۔ اسم ذات اللہ ، اللہ کا ذاتی نام ہے ۔ نبی کریمؐ سے پہلے اللہ تعالی نے کسی نبی یا مرسل کو دیدار کا علم عطا نہیں فرمایا تھا ۔ سب کو صفاتی اسم ہی عطا ہوئے تھے ، صفاتی اسم کا ذکر کیا اور جس صفت کا وہ ذکر کر رہے تھے اُس صفت تک اُن کی رسائی ہو گئی لیکن اللہ کی ذات تک نہیں پہنچ سکے، اللہ کی ذات جو عرش الہی، عالم وحدت میں تشریف فرما ہے وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا ۔ جس نے بھی دیکھا یہی کہا کہ اللہ نور ہے لیکن محمد الرسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے اسم ذات اور دیدار کا علم عطا فرمایا جس کی بدولت آپؐ آخری رسول ہونے کے باوجود پہلے رسول ہوئے جس کو اللہ کا دیدار عطا ہوا ۔ آپﷺ کے طفیل یہ اسم ذات اور دیدار کی تعلیم آپ کے اُمتیوں کو عطا ہوئی اور اس اُمت کےولی بھی اللہ کے دیدار تک پہنچ گئے۔ کئی اولیاء کرام ہے جنھوں نے اللہ کا دیدار کیا ہوا ہے جیسے ابراہیم بن ادھم کہتے ہیں میں نے ستّر دفعہ اللہ کا دیدار کیا ہے، امام ابو حنیفہ جن کے ہم مقلد ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ کا نناوے مرتبہ دیدار کیا ہے ، سلطان صاحب بھی فرماتے ہیں کہ جب چاہوں اللہ کا دیدار حاصل کر لیتا ہوں ۔ اور پھر نبی کریمﷺ کی تعلیم جس میں ایک درجه ایمان بیان کیا گیا ، درجہ اسلام اور ایک درجہ احسان بیان کیا گیا ، درجہ احسان یہی ہے کہ جب تم اللہ کی عبادت کرو تو اس عبادت کی کوالٹی یہ ہو کہ اُس عبادت کے دوران تمھیں اللہ کا دیدار ہو جائےاور جو اس درجے پر پہنچ گئے کہ نماز پڑھیں تو اللہ کا دیدار ہو جائےاُن کو اللہ تعالی نے محسن کہا ہے جس کا قرآن میں کچھ اسطرح ارشاد ہے کہ
إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ
سورة الاعراف آیت نمبر 56
یعنی اگر کوئی مجھے ڈھونڈ رہا ہے تو میں محسنین کے قرب میں ہوں اُن کے پاس چلے جاؤ۔ ہر مرسل کو جو اسم عطا ہوا انہوں نے اپنے زمانے میں اپنے اُمتیوں کو دیا یہ اسم اُن کے قلب میں گیا اور وہ مومن بن گئے اور اُن مرسلین کے چلے جانے کے بعد اس اسم کو پھیلانے کی ذمہ داری اُن کی اُمت کے ولیوں کو ملی ۔ پھر جو لوگ اُن ولیوں سے منسلک ہوتے گئے وہ اسم ان کے اندر بھی جاتا رہا اور وہ بھی مومن بنتے رہے ۔ جب اس اسم کے قلب میں جاگزیں ہونے کی تعلیم ناپید ہو گئی تو اُمتوں میں فرقے بننا شروع ہو گئے ،کوئی سنی ، کوئی شیعہ، کوئی وہابی ، کوئی دیو بندی بن گیا اور اُن کا اللہ سے رابطہ ٹوٹ گیا ۔
پانچوں مرسلین کے زریعے ہر ایک لطیفے کی تعلیم متعارف ہوئی:
اللہ سے رابطہ اُس انسان کا جڑتا ہے کہ جس کے قلب میں اللہ کے کسی بھی اسم کا نور آ جائےاور مستقل اللہ کا نور بنتا رہے ۔ آدم صفی اللہ کو اللہ تعالی نے قلب کی تعلیم عطا فرمائی کہ اس قلب کو منور اور بیدار کر کے ہمیں کیا روحانی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور کونسے عالم تک ہم روحانی طور پر سفر کر سکتے ہیں ۔ پھر روحانیت کے اس علم کو مزید بڑھاتے ہوئے اللہ تعالی نے ابراہیمؑ کو لطیفہ روح کا علم دے کر بھیجا ۔ لطیفہ قلب کی رسائی عالم ملکوت تک ہے جو کہ فرشتوں کا عالم ہے۔ جن لوگوں کو اللہ سے محبت ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی اپنی محبت کرنے والوں سے عالم ملکوت میں گفت و شنید کرتا ہے ، اللہ تعالی کی آوازیں عالم ملکوت میں آتی ہیں ۔ جن لوگوں کے قلب جاری ہو جاتے ہیں اور جثے نکل جاتے ہیں وہ اپنی مسجدوں میں بیٹھ کر نمازیں پڑھ رہے ہیں اور اُن کا لطیفہ قلب عالم ملکوت میں بیٹھا ہوا اس بات کا انتظار کر رہاہے کہ کب اللہ کی طرف سے محبت کا جملہ سننے کو ملے۔جب اللہ تعالی خطاب فرماتے ہیں تو لطیفہ قلب اس کو یہاں بھیج دیتا ہے ۔عالم ملکوت محبت کا عالم ہے ۔ لطیفہ روح ایک نعمت کی طرح ہے جس کااگر ٹائم مشین سے موازنہ کریں تو کچھ نہ کچھ مماثلت مل جائے گی ۔مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ جب معراج پر تشریف لے کر گئے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو نماز پڑھائی تھی ، وہ نماز جسموں کو نہیں بلکہ روحوں کو پڑھائی تھی۔ اگر ہم لطیفہ روح کو منور اور بیدار کر لیں تو ہم بھی اُس نماز میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ جسموں سے نماز پڑھنا شریعتِ محمدی کہلاتا ہے اور روحوں کے ساتھ نماز پڑھنا شریعتِ احمدی کہلاتا ہے ۔ ہماری علماء اسی بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں کہ عیسیٰ جب آئیں گے تو کس کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر شریعت ِ احمدی پر عمل کرتے ہیں ، شریعت ِ محمدی صرف انسانوں کے لئے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ؐ کو امام الانبیاء بھی کہا جاتا ہے ۔ جب تم بھی اپنی روح کو منور کر کے بیت المامور میں پہنچ جاؤ گے تو تم بھی شریعتِ احمدی میں شامل ہو جاؤ گے۔ جو نماز حضورپاک نے شب معراج میں پڑھائی تھی وہ بیت المامور میں روز پڑھائی جاتی ہے اور اُس کے امام محمد الرسول اللہ ہیں ۔
نمی دانم چہ منزل بود ،شب جائے کہ من بودم۔۔۔۔بہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
خُدا خود میرِ مجلس بود ، اندر لا مکاں خسروؔ۔۔۔۔۔محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
جب لطیفہ روح بیدار ہو جاتا ہے تو اصلی کعبہ جو بیت المامور میں ہے ، جہاں انبیاء کے دائیں اور بائیں اور نبی کریمؐ کی امامت میں نماز پڑھنے کا ڈھب اور سلیقہ آ گیا تو پھر آپ کا مرتبہ فرشتوں سے بڑھ جائے گا۔ اب جب لطیفہ روح کے زریعے شریعتِ احمدی میں داخل ہو گئے اوربیت المامور میں نماز پڑھنے لگ گئے اُس کے بعد اللہ تعالی نے اس راستے کو اور کشادہ فرمایا اور موسیؑ کو لطیفہ سری کا علم دے کر بھیجا ۔لطیفہ سری کا مطلب راز کھولنے والی روح ، سورة الکہف میں اللہ تعالی نے موسیؑ اور خضر ؑ کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ موسی ؑ کو لطیفہ سری کی نبوت عطا فرمائی جس کی وجہ سے اُن میں تجسسِ سّر الہی پیدا ہوا ۔ اللہ تعالی کے جمیع اسرار اُن کو معلوم ہوں لہذا وہ علم باطن کی کھوج میں لگ گئے کیونکہ نبوت راز کھولنے والی روح کی تھی ۔ پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ باطنی علم کی کھوج ہے تو خضرؑ کے پاس چلا جا ، جب خضر ؑ کے پاس گئے تو پھر وہاں انہوں نے باطنی علم دیکھا۔ پھر اللہ تعالی نے عیسیٰ کو بھیجا اور اُن کو لطیفہ خفی کی نبوت عطا فرمائی۔ لطیفہ خفی وہ روح ہے جو چُھپی ہوئی طاقتوں اور چُھپی ہوئی ارواح سے مدد لینے کا طریقہ جانتی ہے ۔اُس کا تعلق عالم وحدت کے پردے سے ہے ، لطیفہ خفی کی وجہ سے انہوں نے چُھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کیا اورلنگڑے لولےکو چلنا سکھایا ، اندھوں کو دیکھنا سکھایا ، گونگوں اوربہروں کو بولنا اور سننا سکھایا ۔ اُس کے بعد نبی کریمؐ کو اللہ تعالی نے پانچوے لطیفے ، لطیفہ اخفی کی تعلیم اور نبوت عطا فرمائی یعنی جو چھپی ہوئی چیز ہے اُس کا بھی بھید ۔ جو چھپا ہوا عالم ہے اس کا بھید اللہ کی ذات ہے ، حضوؐرکے زریعے اللہ کی ذات تک رسائی ہو گئی ۔
اب یہ جتنے بھی علوم آئے ہیں یہ کتابوں میں نہیں آئے، ہرمر سل کو اللہ تعالی نے دو طرح کا علم دیا ایک ظاہری اور ایک باطنی ، جو ظاہری علم تھا وہ کتابوں میں آ گیا جو باطنی علم دیا وہ اُن کے سینوں میں رہا اور ایک دل سے دوسرے دل میں روحانی طور پر منتقل ہوا ۔جسطرح ای میل بھیجیں تو وہ کسی کو نظر نہیں آتی ہے لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے دوسرے شخص کے پاس پہنچ جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالی بھی روحانی طور پر نورکو، نظر کو منتقل کرتا ہے ۔ اب ان ظاہری ایجادات کے ہونے کی صورت میں کسی عالم کو یہ جرات نہیں ہونی چاہیےکہ ان باطنی علوم کا انکار کرے۔ اگر قرآن ایک سینے سے دوسرے سینے میں باطنی طور پر منتقل ہو جاتا ہے تو اس پر شک نہ کرو کیونکہ بڑی بڑی کتابیں اایک آئی فون سے دوسرے آئی فون میں بناء کسی تار کے منتقل ہو رہیں ہیں ۔ یہ باطنی تعلیم کے نکات ہیں جس کو ہم روحانی سائنس کہتے ہیں ، ہم نے ان علوم کو آسان زبان میں سمجھانے کی ذمہ داری اُٹھائی ہے تاکہ دور حاضر کی زبان میں یہ لوگوں تک پہنچائیں کیونکہ یہ علم علماء کے پاس نہیں ہے بلکہ یہ علم فقراءو درویش کے سینے میں ہوتاہے اُس کو اپنے مرشد سے ملا اور مرشد کو اپنے مرشد سے ملا ، اسطرح سینہ بہ سینہ ایک سلسلہ چلتا ہوا آرہا ہے ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھرسے 18 مئی 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔