کیٹیگری: مضامین

رسالتِ مصطفی کُل انسانیت کیلئے ہے:

محمد الرسول اللہ پوری انسانیت کیلئے تشریف لائے ہیں اور جب ہم یہ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ جب اللہ نے حضور کو پوری انسانیت کے ساتھ ملا کر گفتگو کی ہے تو وہاں پر نبی پاک کی حیثیت مجدد کی سی ہے ۔نبی پاک ﷺ نے خود بھی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ “میں کسی دین کو جھٹلانے نہیں آیا بلکہ اُن میں جو بگاڑ پیدا ہو گیا ہے اسے درست کرنے آیا ہوں “۔مسلمانوں کا حضورؐ سے رشتہ اُن کے دین کی وجہ سے ہے اور جو باقی ادیان ہیں اُن کیلئے اللہ تعالی نے حضوؐرکو مجدد اعظم کی طرح رکھاتاکہ باقی ادیان والے بھی حضوؐرسے رشتہ جوڑیں کیونکہ حضورﷺ اُنکے دین کو پاک اور تجدیدکر رہے ہیں ۔

فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ

سورة الاعراف آیت نمبر 157تا 159
ترجمہ : لوگوں اِن پر ایمان لے آ ؤ، ان کی عزت و تعظیم کرواور انکی مدد کرو۔ اور جو انکے ساتھ نور نیچے آیا ہے اسکی اتباع کروتا کہ تم فلاح پا جاؤ۔اے محمد ! انکو کہہ دیجئے کہ میں تمام انسانیت کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں۔میں اُسکا رسول ہوں جس کی زمین و آسمان پر بادشاہی ہے ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ وہی زندگی اور موت دینے والا ہے ۔پھر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لے آ ؤ جو تمھارے لئے ایک ماں کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ وہ ذات ہے جو اللہ اور اُسکے کلمات پر ایمان رکھتی ہے اُنکی اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا ہے جو ہدایت پر ہے اور حق بتاتا ہے ۔
رسالتِ مصطفی صرف مسلمانوں کیلئے نہیں ہے ، رسالت مصطفی ہندو، یہودی، نصاری اور ہر انسان کیلئے ہے ۔اے محمد آپ انکو کہہ دیجئے میں تمام انسانیت کیلئےمختلف قسم کے فیوض و برکات کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں۔ جن کے پاس دین ہے اُنکی دین کی درستگی کا فیض مجھ سے ہو گااور جنکا دین نہیں ہے وہ دین اسلام کو اپنا لیں جس کو میں بنا رہا ہوں ۔ اے نوع انسانی میں تم سب کیلئے رسول بن کر آیا ہوں۔یہ دین اپناؤ یا اپنے دین میں رہو میری رسالت سے فیض دونوں کو ملے گا۔ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ میں اسکا رسول ہوں جس کی زمین و آسمان پر بادشاہی ہے ۔یعنی جس کی بادشاہی زمین و آسمان پرہے وہ نبی کریم ﷺ کو کسی ایک مذہب کیلئے تو نہیں بھیجے گا۔ جسطرح اللہ تعالی کی صفت ہے کہ وہ رب العالمین ہےاسی طرح قرآن کے مطابق حضوؐر نہ صرف رحمت العالمین ہیں بلکہ رسول العالمین ہیں ۔ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖمیرے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے ، وہی زندگی اور موت دینے والا ہے ۔ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ پھر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لے آؤ۔ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وہ نبی جو تمھارے لئے ایک ماں کی حیثیت رکھتا ہے ۔ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ یہ وہ ذات ہے جو اللہ اور اسکے کلمات پر ایمان رکھتی ہے ۔ کلمات اردو میں کلام کی جمع ہوتا ہے تو جتنے بھی کلام اللہ کی طرف سے بھیجے گئےہیں یہ ذات اس پر ایمان رکھتی ہے۔ یعنی یہ محمد الرسول اللہ کی ذات اللہ سے جڑی ہوئی ہے اور جتنے بھی کلام اللہ نے بھیجے ہیں وہ سارے کے سارے کلام اسکے سینے میں ہیں کیونکہ یہ تمھارے ادیان کو درست کرنے آئے ہیں ۔کلام سے مراد یہی ہے کہ یہ زبور کا کلام ،انجیل کا کلام اور قرآن کا کلام سب محمد الرسول اللہ کے سینے میں آ گیا ہے ۔

دیگر ادیان کا علم حضوؐرکے سینہ اطہر میں :

توریت، زبوراور انجیل کا علم اللہ تعالی نے حضورﷺ کے سینے میں رکھ دیا تھا ، اس کیلئے حضور پاک نے باطن میں مشرب بنا دئیے، جیسے مشرب آدم ، مشربِ عیسوی ، مشرب موسوی اورمشرب محمدی۔انہی مشربوں کے ذریعے اُن ادیان کی تجدید ہوتی گئی ہے۔
اب یہ جو مختلف الہامی کتاب ہیں جیسے بائبل اور انجیل میں حضورﷺ کا ذکر آیا ہے ۔ اب موجودہ دور میں بائبل میں ردوبدل ہو گیاہے لیکن یہ بات ہمیں کیسے پتہ چلی کیونکہ اللہ نے وہ ساری کتابیں سینہ مصطفی میں رکھ دی ہیں ۔محمد ﷺ کی یہ ذمہ داریاں پہلے “م” محمد نے پوری کیں اور اب یہ ذمہ داریاں “م” مہدی نے پوری کرنی ہیں ۔ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اسکی اتباع کرو تاکہ تمھیں ہدایت نصیب ہو جائے۔ وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ہدایت پر ہے اور لوگوں کو حق بتاتا ہے ۔ہمارے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ موسی کی قوم کو کافر کہتے ہیں لیکن قرآن تو کہہ رہا ہے کہ ایک گروہ ابھی بھی ایسا ہے جو ہدایت پر ہے اور لوگوں کو اسی حق کے مطابق ہدایت دیتا ہے ۔یہی بات اللہ تعالی کے رسول نے اپنی اُمت کیلئے کہی کہ میری اُمت میں ایک جماعت ایسی رہے گی جو ہمیشہ حق کے ساتھ ہو گی اور یہی بات موسیٰ کی قوم کیلئے قرآن کہہ رہا ہے کہ اُن میں اب بھی ایسا گروہ موجود ہے جو حق پر ہے اور حق کے ساتھ ہدایت دے رہا ہے ۔قرآن مجید تو کہہ رہا ہے کہ موسیٰ کی قوم میں ایک جماعت ابھی بھی ہدایت پر ہے اور ہمارے علماء یہودیوں کو کافر کہہ رہے ہیں قرآن کی روشنی میں انکا یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 8 مئی 2020 کو یو ٹیو ب لائیو سیشن میں قرآن مکنون کی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس