کیٹیگری: مضامین

نبی کریم ﷺ بطور نبی اور رسول:

آج ہم ولایت و فقر کے جھوٹے دعویداروں کی بات کریں گے جس میں وہ خود ساختہ اولیاء کرام بھی آ گئے ہیں جو گھر بیٹھے یا تو کتاب پڑھ کر ولی بنے ہیں یا اُنکے آباؤو اجداد میں کوئی اکا دکا ولی بن گیا اور اسکے بعد سے گدی نشینی چلی آ رہی ہے ۔اور اس کیلئے ہم نے جس آیت کا انتخاب کیا ہے اُس آیت کو وہابی سچے ولیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔سورة توبہ کی آیت نمبر 34ہےلیکن اس کی تشریح سےپہلے اس آیت کے شانِ نزول پر بات کرنا چاہوں گا۔یہ آیت نبی کریمﷺ کو تاکید کرنے کیلئے نزول ہوئی ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں میں جو علماء ہیں ، یا جو ولی ہونے کے دعویدار ہیں آپ اُن لوگوں کو بے نقاب کریں۔ یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ صرف اسلام کے بانی نہیں ہیں ، بطورِ رسول آپ اسلام کے بانی ہیں اور بطور نبی آپ نے دیگر ادیان میں تجدید بھی فرمائی ہے ۔حضوؐرکے دو مرتبے ہیں آپ نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں ۔ بطور نبی آپ نے اہل کتاب کے ادیان میں تصیح و تجدید فرمائی ہے اور بطور رسول آپ ﷺ نے دینِ اسلام قائم کیا ہے اور دین اسلام سے ہی قرآن مجید آیا۔ لہذا قرآن کا کچھ حصّہ اُن دیگر ادیان کی تجدید کیلئے ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
سورة توبہ آیت نمبر 34

اس آیت میں اللہ تعالی مومنوں سے مخاطب ہےاور یہ مومن صرف اسلام کے مومنوں کیلئے نہیں بلکہ کسی بھی دین کے مومن ہو سکتے ہیں۔یہ خطاب اُن مومنوں سے بھی ہے جو عیسائی تھے اور یہ خطاب اُن مومنوں کیلئے بھی ہے جو یہودی تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو مومن بن گئے ہو إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ کہ اے مومنوبہت سارے احبار یعنی جو علماء ہیں اور راہب ہیں وہ انسانوں کا مال بالباطل کھاتے ہیں جن کا ان کو حق نہیں ہے۔ یہاں عیسائیوں او ر یہودیوں کے علماء کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور یہاں راہبوں سے خطاب ہو رہا ہے کیونکہ اسلام میں رہبانیت جائز نہیں ہے۔اسلام میں علماء کو رحبار نہیں کہتے اور نہ ہی اسلام میں ولیوں کو راہب کہتے ہیں۔ جو درویش ہو گئے ان کو کہا راہب ۔ راہب کا مطب ہے جس نے دنیا ترک کردی اور گوشہ نشین ہو گیا۔ گوشہ نشین اس لیے ہوا کہ یہ رب ملنے کی شرط تھی۔ عیسٰیؑ نے دنیا سے تعلق نہیں رکھا ، نہ ہی گھر بنایا اور گھومتے پھرتے رہے۔ یہی انکی ادا ان کے ولیوں میں بھی آئی۔ احبار اہلِ علم کیلئے استعمال ہوا ہے۔ یہاں عیسائیوں اور یہودیوں کے درویش کے بارے میں آیا ہے کیونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہی راہب ہوتے ہیں ۔مسلمانوں میں رہبانیت حرام ہے اس لیے مسلمانوں میں راہب نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ آیت مسلمانوں کیلئے نہیں اُتری۔ ان میں سے اکثریت ایسے احبار اور درویشوں کی ہے جو لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اس مال کے کھانے کا ان کو حق نہیں ہے۔ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ کہ لوگوں کا مال کھاتے ہیں بالباطل یعنی ان کو حق نہیں ہے۔ اگر یہودیوں ، عیسائیوں کے علما ءاور درویشوں کی واقعی ہی اللہ سے رسائی ہوتی اور وہ لوگوں کے سینے منور کررہے ہوتے تو حضورﷺ کبھی بھی ان پر تنقید نہ فرماتے ۔ حضورﷺ کا قرآن کی روشنی میں ان پر تنقید کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے علماء اور درویش باطنی تعلیم سے قاصر تھے اور صرف گدیاں اور نظرانے تھے۔ تو ان علماء اور درویشوں کی گدیاں اور نظرانے حرام ہیں یہ قرآن نے تصور پیش کیا ہے۔ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ اور اللہ کے راستے میں ان کو روکتے ہیں۔ کوئی عالم ایسا نہیں ہوگا کہ جو کہے اللہ کے پاس نہ جاؤ اور نہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کے عالم یہ کہہ سکتے ہیں ورنہ لوگ انہیں ماریں گے۔ پھر یہ علماء کیسے روکتے ہیں؟ اس کو دیکھنے کیلئے آپ کو ولایت کے جھوٹے دعویداروں کا نقشہ سمجھنا ہو گا کہ وہ کیسے روکتے ہیں۔ اب جھوٹے پیر کو سمجھنے کیلئے پہلے سچے پیر کو سمجھنا ضروری ہے۔

سچا پیر کون ہوتا ہے؟

انسان کے اندر سات لطائف ہوتے ہیں ۔ لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سرّی، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفٰی ، لطیفہ انا اور لطیفہ نفس۔ ان تمام لطائف کے ساتھ نو جثے ہوتے ہیں تو ایک انسان میں مجموعی طور پرسولہ مخلوقیں ہوگئیں۔ ان سولہ مخلوقوں کو بیدار کرنا اور اِنکے مقامات تک پہنچانا مرشدِ کامل کا فرض ہے۔ سچا مرشدِ کامل ان لطائف کی بیداری ، نورانی طاقت اور روحانی اسباق کے ذریعے بندے کی تمام اجزائے حیات کو اللہ کی ذات تک پہنچادیتا ہے پھر انسان اللہ سے واصل ہو جاتا ہے۔ تو مرشدِ کامل کا کام یہ ہوا کہ انسان کے تمام لطائف اور جثوں کو منور کرکے ان کے عالمین تک پہنچانا اور اللہ سے واصل کردینا مرشدِ کامل کا فرض ہے۔ جب بندہ مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو وہ بِک جاتا ہے۔لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سرّی ، لطیفہ خفی اور لطیفہ اخفٰی سینے کے ان پانچ لطائف کا تعلق مرسلین سے ہے۔ لطیفہ نفس کا تعلق شیطان سے ہےاور لطیفہ اناّ کا تعلق اللہ سے ہے۔ یہ سب لطیفے انسان کےجسم میں ہوتے ہیں اور پھر جب تم نے بیعت کی تو اس جسم کا تعلق مرشدِ کامل سے ہو گیا۔ اور انسان کے جسم ، توانائی اور انسان کی ہر چیز پر اب مرشد کا حق ہے۔ پھر اگر مرشد تمہیں کام پر لگائے اور ساری تنخواہ خود رکھے تو یہ اس مرشد کا حق ہے۔ کیونکہ تم نے ان پانچ لطائف کو پانچ انبیا ء سے مستفیض کرنا ہے اور تم کر نہیں سکتے۔ تم نے اپنے نفس کو شیطان سے طلاق دلانی ہے لیکن تم ایسا نہیں کرسکتے۔ اور تم نے لطیفہ انا کو اللہ کے روبرو کھڑا کرنا ہے لیکن تم یہ خود ایسا نہیں کرسکتے۔ اس لیے تم اپنے جسم کو مرشد کو بیچ دو گے کہ یہ میرا جسم آپ رکھ لو اور میرے تمام لطائف کو رب تک پہنچانا آپ کا کام ہے۔ پھر مرید کی کمائی کھانا اور اس کے پیسے لینا مرشد کا حق ہے۔ جو مرشد نہ ہو اور جھو ٹا دعویدار ہو تو وہ لطائف کو اللہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ اور جھوٹا مرشد اپنے مرید کو یہ بھی نہیں بتا تا کہ وہ اس کے لطائف کو رب تک پہنچا سکتا ہے یا نہیں پہنچا سکتا ۔ لوگ اسی مغالطے میں رہیں گے کہ یہ مجھے اللہ تک پہنچائے گا ۔ اسی مغالطے میں تمہاری مخلوقیں جسم میں ہی مر گئیں اور وہ بندہ رب تک جانے کے قابل نہیں رہا۔

جھوٹا پیر تمھارے اندر موجود ارواح کا قاتل ہے:

ولایت کا جھوٹا مدعی تمہارے تمام لطائف کو نہ پاک کرسکتا ہے ، نہ زندہ کرسکتا ہے اور نہ رب تک لے جاسکتا ہے ۔ پھر وہ مخلوقیں تمہارے جسم میں ہی ضائع ہو جائیں گی اور تم کے پاس جانے کے قابل ہی نہیں رہے۔یہ رب سے روکنا ہے۔ جھوٹاولایت کا مدعی نہ تمھارے ان لطائف کو پاک کر سکتا ہے ،نہ رب تک لے جا سکتا ہے وہ مخلوقیں تمھارے جسم میں ہی ضائع ہو جائیں گی پھر تم رب کے پاس جانے کے قابل ہی نہیں رہا لہذا یہی رب کے راستے سے روکنا ہے ۔اب ایسے جھوٹے مدعی نے رب کے راستے سے روکا اور اسکے پاس یہ طاقت نہیں تھی کہ تمھارے اندر کے لطیفوں کو منور کرے ، یہ طاقت بھی نہیں تھی کہ ان لطیفوں سے جثے نکالے ،یہ طاقت بھی نہیں تھی کہ مرید کے نفس کو شیطان سے پاک کرے،یہ طاقت بھی نہیں تھی کہ مرید کے لطیفہ انا کو رب کے روبرو کھڑا کر دے۔ ایسے لوگ جھوٹے پیر بن کر بیٹھ گئے ، نظرانے، چندے اور مرید کے مال پر نظر رکھی اُسکی زندگی برباد کر دی ، اُسکا خرمہ ایمان جلا دیا ، اُس کی ساری روحیں جل کر خاکستر ہو گئیں اب وہ رب تک پہنچنے کے قابل نہیں رہااوراس طرح یہ جھوٹا ولی و مرشد انسان کی سولہ مخلوقوں کا قاتل بن گیا۔ ایک انسان کو مارنا پوری انسانیت کو مارنا ہے اور جھوٹا ولی سولامخلوقوں کا قاتل ہوگیا۔

مرتبہ مہدیت کا جھوٹا مدعی کون ہے ؟

جھوٹے ولی نے لوگوں کو بیعت کیا ، لوگوں کی کمائی بھی کھائی لیکن اس نے لوگوں کو اللہ تک نہیں پہنچایا تو لوگوں کا مال کھانا با لباطل ہو گیا۔لوگوں کا مال تو وہ کھاسکتے ہیں جو ان کی روحوں کو رب تک پہنچائیں۔ اور جو روحوں کا قاتل ہو جائے تو اس سے بڑا گناہ کبیرا نہیں ہو سکتا۔ جو ولایت کا جھوٹا دعویدار انسان کے لطیفوں کو بیدار نہ کرسکے اور انہیں رب تک نہ پہنچا سکے تو ایسے مرشد کا مرید کی کسی بھی چیز کا استعمال کرنا حرام ہے۔ جھوٹی ولایت کا دعویدار باطنی قاتل ہے۔ اگر جھوٹے ولی کے ایک ہزار مرید ہوں گے تو وہ سولہ ہزار مخلوقوں کا قاتل ہو گا۔ یہ رب کے راستے سے لوگوں کو روکنا ہے۔ امام مہدی کا کام ساری انسانیت کی روحوں کو رب کے روبرو کرنا ہے ۔جو مرتبہ مہدی کا جھوٹا دعویدار ہے وہ پوری انسانیت کا قاتل ہو گا۔اب اس تعلیم کے زمرے میں آپ خود دیکھ لیں کہ سیدنا گوھر شاہی لوگوں کے قلوب کو منور کرکے انہیں اللہ کے روبرو فرما رہے ہیں ۔سیدنا گوھر شاہی مردہ انسانیت کو زندہ کر رہے ہیں اور یہ ایک نشانی آپ کے مرتبہ مہدیت کے صداقت کیلئے کافی ہے۔سیدنا گوھر شاہی کی نظروں سے لوگوں کو حیات جاویداں مل رہی ہے ۔جن کی ارواح مر گئیں تھیں، لطائف کی زندگی ختم ہو گئیں تھیں نظرِ گوھر سے وہاں بھی حیات ابدی آ گئی ہے ۔جنکے دل برباد ہو گئے تھے نظر گوھر شاہی نے اُنکو بھی زندہ کیا ہے اور یہ سیدنا گوھرشاہی کے امام مہد ی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ سیدنا گوھر شاہی کی ذات تو ابو الحیات ہے سیدنا گوھر شاہی کی ذات تو موت کو شکست دینے والی ذات ہے ۔آپ نے مردوں کو زندگی عطا فرمائی ہے ، ایسی زندگی جو کبھی ختم نہ ہونے والی ہو۔عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا اور سیدنا گوھر شاہی روحوں کو زندہ فرمارہے ہیں ، اس سے بڑا معجزہ، کرشمہ اور قدرت کوئی نہیں ہے ۔
جھوٹے پیر لوگوں کا مال کھاتے ہیں ، لوگ انکو تحفے تحائف دیتے ہیں ، یا پھر یہ لوگوں سے فرمائشیں کرتے ہیں تو قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں لوگوں کا مال کھانا بالباطل ہو گیا کیونکہ ان کی ارواحوں کو منور کر کے رب کے روبرو لے جانے کے بجائے ان کے قاتل بن رہے ہیں اور رب کے راستے سے روک رہے ہیں ۔ اگر یہ جھوٹے پیر اپنے مریدین کو رب تک پہنچا رہے ہوتے تو پھر مریدین کا مال کھانا جائز ہوتا ۔تو یہ ولیوں اور پیروں کو نظرانے دئیے جاتے رہے ہیں ، اگر کوئی سچا پیر ہے اور لوگوں کو اللہ تک پہنچا رہا ہے تو اُسکے لئے نظرانے کیا بلکہ تن من دھن کی بازی لگا دو تو حق ہے لیکن جو تمھیں رب تک لے جانے کے قابل نہیں ہیں اُسکے اوپر ایک پائی بھی خرچ نہ کروکیونکہ قرآن کے مطابق وہ بالباطل ہو گا۔اگر انکی واقعی اللہ تک رسائی ہوتی اور وہ لوگوں کے سینے منور کر رہے ہوتے تو کبھی بھی حضوؐر ان پر تنقید نہ فرماتے ۔حضوؐر کا ناقد بننا قرآن کی روشنی میں یہ ثابت کرتا ہے ان دیگر ادیان کے علماء باطنی تعلیم سے عاری تھے اور صرف گدیاں اور نظرانے تھے ۔اگر ایسے لوگ سینہ منور نہیں کر سکتے اور اللہ تک نہیں پہنچا سکتے تو ایسے لوگوں کا چندہ و نظرانہ لینا حرام ہے یہ تصور قرآن مجید نے پیش کیا ہے ۔اگر کوئی پیر ہونے کا دعوی کرے اور تمھارے اندر جو سولا مخلوقیں ہیں انکو انکا متعلقہ فیض نہ دے سکے ، اللہ تک نہ پہنچا سکےتو وہ سولا مخلوقوں کا قاتل ہے اور یہی لوگوں کو رب کے راستے سے روکنا ہے ۔اس بات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا ، ولی کی پہچان یہ نہیں ہے کہ اُس نے کتنی کتابیں لکھی ہیں ، ولی کی پہچان یہ بھی نہیں ہے کہ اسکو کتنی حدیثیں یاد ہیں ، ولی کی پہچان یہ بھی نہیں ہے کہ اسکا باپ کون تھا۔ جس نے ولایت کا دعوی کیا ہے جو پیر بن کا بیٹھا ہوا ہے اسے اپنی حقیقت پیش کرنا پڑے گی۔ نبی کریم ﷺ کو اللہ نے فرمایا کہ

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ
سورة القصص آیت نمبر 56
ترجمہ : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ اس کو ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ چاہیں لیکن جس کو میں چاہوں گا اس کو ہدایت دوں گا

ہدایت کا کام تو اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ نبی پاک ﷺ کو بھی اللہ نے ہدایت کی ذمہ داری نہیں دی ۔پھر آپ جھوٹے پیر ہوکے لوگوں کی قبروں کے ذمہ دار بن گئے ہو۔ یہ جھوٹے پیروں نے ہی معاشرے کو شرک اور کفر سے بھرا ہوا ہے۔

قبروں کو سجدے کا رواج کیسے آیا؟

جو گدّی نشین جگہ جگہ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جیسے سلطان باھو کے گدّی نشین ہیں اور جب لوگ ان سے جاکر سوال کرتے ہیں تو وہ گدّی کہتےہیں کہ ہم نے تجھے ان مزار والوں کے حوالے کردیا ہے اور یہی سے مانگو۔ پھر لوگ مزار کو چمٹنے لگ گئے۔ اگر لوگوں نے مزار سے ہی فیض لینا ہے تو پھر گدّی نشن کے ہاتھ پر کیوں بیعت ہوئے ہو۔اگر تم نے سلطان حق باھو سے ہی فیض لینا ہے تو پھر گدّی نشین کے آگے کیوں بیٹھیں کیونکہ اس میں گدّی نشین سے تو کوئی مدد حاصل نہیں ہوئی۔ اب لوگ مزار پر سجدے بھی کررہے ہیں ۔ اگر جھوٹے پیر کا دعوی صر ف اس کی ذات تک محدودہو تو ہوسکتا ہے وہ حق کی طرف مائل ہوجائیں ۔لیکن جو دوسرا مسئلہ ان کے ساتھ لگا ہوا ہے جیسے ان کے ہزاروں مرید ہیں اور نظرانے دے رہے ہیں ۔ وہ نظرانے جانےکا خوف اُن کو حقیقت پر آنے نہیں دیتا۔ یہ جھوٹے اور مکار لوگ ہیں کیونکہ یہ جھوٹے پیر ہزاروں لوگوں کے ایمانوں کے قاتل ہیں۔ یہ لوگ عام آدمی کی طرح گناہگار نہیں ہیں کیونکہ ان جھوٹے پیروں نے دین تباہ کیا ہے اور ایک آدمی کی سولہ مخلوقوں کا قاتل ہے اور محمد ﷺ کی شفاعت سے بھی محروم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی پاک ﷺ کے قلب کو تکلیف پہنچائی ہے۔نبی پاک ﷺ نے لوگوں کے سینوں کو منور کیا اور آپ ﷺنے اپنی اُمت کو بھی اُس سے زیادہ فیض دیا جس پر اللہ کے نبی بھی رشک کرتے تھے۔ موسٰیؑ دیدارالہی کیلئے تڑپتے تھے اور دیدار نہیں ہوا۔ لیکن حضور ﷺ کی امت میں امام ابو حنیفہ کو ننانوے دفعہ اللہ کا دیدار ہوا۔ جب حضور ﷺ کو پتہ چلتا ہو گا کہ میری اُمت کے نام پر کسی نے جھوٹی ولایت کا دعوی کیا ہے اور ہزاروں لوگوں کے ایمانوں تبا ہ اور برباد کرنے کا ذمہ دار ہے تو وہ حضور ﷺ کی امت سے خارج ہو جائے گا۔ ایسے لوگوں پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنتیں برستی ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
سورة الأحزاب آیت نمبر 57
ترجمہ : جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اللہ کی دنیا اور آخرت میں ایسے لوگوں پر لعنت ہے اور اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ ان کو بہت خطرناک عذاب ملے گا۔

جو مرتبہ مہدی کا جھوٹا دعویدار ہو گا ۔ ساری انسانیت امام مہدی کے انتظار میں بیٹھی ہے کہ امام مہدی آئیں اور ہمیں اللہ سے واصل کریں۔ اور جب امام مہدی کا جھوٹا دعویدار آجائے اور ساری انسانیت کے ایمان کو برباد کر دے ۔ جو لوگ پہلے ہی روحانی طور پر مردہ ہوں اور یہ جھوٹے دعویدار ان لوگوں کو ایسی عمیق موت پر اتار دیں کہ زندگی بھر وہ حیات کا نام ہی بھول جائیں۔ جتنے بھی مہدیت کے جھوٹے دعویدار ہیں یہ انسانیت کے قاتل گزرے ہیں۔ یہ دین، ادیان، روحانیت اور انسانیت کے قاتل تھےاور ایسے قاتل اس دنیا سے تبا ہ و برباد ہوگئے۔ روحوں کو حیات دینے والی ذات سیدنا گوھر شاہی تشریف لے آئے ہیں اور پوری کائنات کو ابدی زندگی عطا فرما رہے ہیں ۔ایک نظر گوھر شاہی ایسی زندگی بپا کرتی ہے کہ قیامت کے بعد بھی وہ ابدو آباد ہو جاتا ہے ۔ یہ حیات ابدی عطا کرنے کی جو سنت مبارکہ ہے یہ واحد عمل گوھر شاہی ان کے امام مہدی ہونے کا مصداق ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 21 جنوری 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے خطاب سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس