کیٹیگری: مضامین

دل میں دیدارِ رسول کی تمناہو اور تعلیم میسر نہ ہو تو کیا ہوتا ہے :

اوائل ِ عمری میں ایک سوال بار بار ذہن کو جھنجھوڑتا وہ یہ تھا کہ کیا ہم حضورؐ کےکم درجے کے اُمتی ہیں جیسے ہندوؤں میں اعلی نسل برہمن کہلاتی ہے پھر کھدری ہیں شودر ہیں ، تو میں یہ سوچتا تھا کہ شاید محمد ؐ کے یہاں بھی کلاس والا سسٹم ہے اور ایک بات جو مجھے بار بار تنگ کرتی تھی وہ یہ تھی کہ ہم کیوں اس زمانے میں پیدا ہوئے؟ یہ خیال آتا تھا کہ نبی پاک ﷺ کا دیدار ہو جائے اور یہ بھی خیال آتا تھا کہ وہ لوگ کتنے خوش نصیب تھے جو حضورؐ کے سامنے روزانہ بیٹھتے تھے ۔ اُن کو دیدار کے لئے ٹکریں مارنے کی ضرورت نہیں پڑی صبح شام جب جی چاہا حضورؐ کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔نماز پڑھنے جائیں تو حضورؐ کا دیدار ، کوئی بات قرآن کی سمجھ میں نہ آئے تو حضورؐ سے جا کر پوچھ لیں جب یہ باتیں ذہن میں آئیں تو میں نے اللہ سے شکوہ کیا کہ یہ سب کچھ مجھے اس لئے نہیں مل رہا ہےکیونکہ میں حضورؐ کےدو رمیں پیدا نہیں ہوا ایسا کیوں کیا تم نے ؟ میرا ذہن بغاوت پر آمادہ جب ہوا کہ میں چاہتا کہ حضورؐ کا دیدار کروں ، کبھی جی چاہتا کہ حضورؐ کو وضو کروا دوں یا اُن کے لئے کھانا لے کر جاؤں اور حضورؐ 1400 سال پہلے ہی چلے گئے ۔ پھر یہ بھی خیال آتا کہ یہ صحابہ کرام کتنے خوش قسمت ہیں اور میں اپنے اندر خامی ڈھونڈتا کہ میں اتنا خوش قسمت کیوں نہیں ہوں ؟پھر میں یہ سوچتا کہ اس میں کس کا قصور ہے پھر لڑکپن میں ہی والد صاحب کو کہا کہ یہ سارا آپ کا قصور ہے اگر آپ مجھے صحابہ کرام اور حضورؐکے دور میں پیدا کر دیتے تو میں بھی دیدار کر لیتا۔ تو والد صاحب نے کہا کہ تمھارا خیال ہے کہ میں حضورکے دور میں پیدا ہوا تھا ۔پھر یہ سوال ذہن میں اٹک گیا کہ صحابہ کرام کی جوعظمت ہے وہ انہوں نے کمائی ہے یا اُنکی جھولی میں ڈالی گئی ہے ،یا یہ اللہ کے فیصلے ہیں اگرمیں بھی اُس دور میں پیدا ہو جاتا تو میں بھی خوش نصیب ہو جاتا کہ روز حضورؐ کا دیدار کرتا ۔ اللہ نے مجھے حضورؐ کے زمانے میں کیوں پیدا نہیں کیا ؟
پھر یہ تصور کرتا ہوں کہ میں حضورؐ کے دور میں پیدا ہوگیا ہوں پھر یہ خیال آیا کہ یہ جو میرا دوست ہے کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ یہ بھی حضورؐ کےدور میں پیدا ہو کیونکہ اپنے مومن بھائی کے لئے وہی سوچنا چاہیے جو اپنے لئے سوچا ہے جب یہی دوست کے لئے سوچ لیا تو پھر مجھے اُس کے والد صاحب کا خیال آیا کہ وہ بھی حضورؐ کے دور میں پیدا ہوتے پھر اُس کے بعد یہ خیال آیا کہ دنیا میں اتنے لوگ ہیں اِن سب کو ہی اُس دور میں پیدا ہونا چاہیے تھا ۔ جب یہ خیال آیا تو پریشان ہو گیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ سارے لوگ اُسی دور میں پیدا ہو جاتے ، یہ تو ممکن نہیں ہے ۔یہ تو ایک نظام ہے جو چل رہا ہے لہذا دماغ نے یہ بات تو تسلیم کر لی کہ یہ تو ممکنات میں سے نہیں ہے لیکن اس کے بعد خیال یہ آتا تھا کہ اس سے نقصان تو ہمارا ہوا ہے ۔ اگر اللہ سب کو ایک ہی دور میں پیدا نہیں کرنا چاہتا تو پھر ہمارا یہ نقصان کون برداشت کرے گا، ہم نے تو حضورؐ کا دیدار ہی نہیں کیاہے ۔کاش ہم حضورﷺ سے براہ راست اسلام خود سنتےتو ہمیں اچھی طرح سمجھ میں آتا ، بس یہی ایک بات دل میں اٹکی ہوئی تھی کہ اس میں نقصان تو ہمارا ہوا ہے کہ ہم حضورکے دور میں پیدا نہیں ہوئے۔

اُمتیوں کی اقسام :

پھر سیدنا و ملجانا امام مہدی گوھر شاہی سے ملاقا ت ہوگئی تو آہستہ آہستہ وہ جو ذہن اُلجھا ہوا تھا اُسے سلجھنے میں آسانی ہوگئی۔ سرکار سے ملاقات کے بعد انجمن سرفرشان اسلام میں بے تحاشہ قلندر ، سلطان الفقراء ، درویش اور فقیر تھے اور سب خود کوبو علی شاہ قلندرکے مقام پر تصور کرتے تھے ۔کسی کی غو ث پاک سے ملاقات ہو رہی ہے تو کسی کی بابا فرید سے اور کوئی حضور سے ملاقات کر رہا ہے ۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھے رہتے کہ سرکار سے مل لئے پھر بھی کسی کا دیدار نہیں ہو رہا ہے ۔پھر غوث پاک کی عظمتیں سننے لگ گئے اور سرکار کی بارگاہ سے بھی سنا کہ “ جس کا ذکر قلب جاری ہو جائے وہ غوث پاک کے مریدوں میں شمار ہو گا”۔پھر فرمایا کہ غوث پاک کے دو طرح کےمرید ہیں ایک اصلی مرید جو اُن کے زمانے میں اُن کے ہاتھ پر بیعت ہوا اور ایک داخلی مرید ہے جن کو بعد میں کسی بھی طریقے سے ذکر قلب مل گیا تو وہ اُن کے حلقہ فیض میں داخل ہو جاتے ہیں ۔جب سرکار کی بارگاہ سے یہ سنا تو فوراً ذہن میں یہ خیال آیا کہ جب غوث پاک کے دو طرح کے مرید ہیں تو حضورؐ کے بھی دوطرح کے اُمتی ہونے چاہئے ایک وہ جو اُن کے دور میں ایمان لائے اور ایک وہ جو بعد میں کسی بھی طریقے سے داخل ہو گئے ۔ تو پھر میں نےسرکار کی بارگاہ سے پوچھا کہ غوث پاک کا مرید تو ذکر قلب جاری ہونے سے بن جائے گاتو کیا حضورپاک کا اُمتی بھی اسی طرح بنتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ

“ جوحضورؐ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُمتی بنا وہ اصل امتی ہے اور جو بعد میں کسی طریقے سے بھی صراط مستقیم پا گیا، حضورؐ سے اس کا تعلق جڑ گیا تو وہ حضور پاک کا داخلی امتی ہے اور داخلی اُمتی اسی ذکر قلب کے طریقے سے بنتا ہے ”

محمد ﷺ زمان و مکان کے پابند نہیں :

اس طرح روحانی بالیدگی کا سفر جاری رہا اور ہم پھر ایسے مقام پر آ گئے جہاں پر ہم کو یہ سمجھ میں آیا کہ اویس قرنی اُس دور میں پیدا ہوئے تھے اور پھر بھی حضور کی ملاقات کو نہیں گئے اور بھی مقام و مرتبہ حضور سےانہیں ایسا ملا کہ مولا علی اور عمر بن خطاب کو حضور نے اپنا جبہ دے کر بھیجا کہ جاؤ یہ میرے عاشق کو دے کر آؤ، یہ تو اسلام میں دو متوازی نظام ہوگئے ایک نظام وہ ہے جو کہتا ہے کہ یہ صحابی ہیں ، ان اصحابہ میں جو مکہ میں ایمان لائے وہ اصحاب کبار ہیں اور جو مدینے میں ایمان لائے وہ اصحاب صغار ہیں اور وہ لوگ جنہیں حضور کی صحبت نہیں ملی جو اصحابہ کرام کے زمانے میں پیدا ہوئے انکا نام تابعین رکھ دیا اور وہ لوگ جوصحابہ کرام کو نہ دیکھ سکےاور تابعین کے زمانے میں پیدا ہوئے وہ تبع تابعین ہیں اب پھر اس کے نیچے عام انسان ہی بچ گئے۔دوسری طرف حضور پاک نے اویس قرنی کو بغیر ظاہری ملاقات کے اتنا بڑا مقام و مرتبہ عطا کر دیا کہ اب حضور جسمانی طور پر مدینے میں چل پھر رہے ہوں یا مسجد نبوی میں استراحت فرما رہے ہوں کیا فرق پڑتا ہے جب روحانی طور پر اتنا بڑا مقام اُس دور میں دے دیا تو وہی مقام آنے والے دور میں بھی دیا جا سکتا ہے نا! پھر ایک انقلاب بپا ہو گیا اور ہم نے اپنے آپ کو خوش بخت سمجھنا اور کہنا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ بڑا ہی اچھا ہوا کہ ہم اُس دور میں پیدا نہیں ہوئے کیونکہ اُس کا عاشق ہونے کے لیےکسی دور میں پیدا ہونا ضروری نہیں ہے، حضور تو جسمانی طور پر اس دنیا میں آ گئے ہیں اگر حضور کو جسمانی طور پر دیکھنے والے سب سے افضل ہیں تو اللہ کا تو دیدار اس طرح ہوتا ہی نہیں ہے کیونکہ وہ تو زمین پر آیا ہی نہیں ہے لہذا

“اسکی قید و اہمیت نہیں ہے کہ کوئی حضور کےدور مکہ یا مدینہ میں پیدا ہوا تو ہی بڑا عاشق رسول ہو گا ،ضرورت ہے تو ان آنکھوں اور ان روحوں کی ہے کہ وہ آنکھیں اُن روحوں کوزمین کے کسی بھی حصے سے یکلخت اٹھائیں اور حضورﷺ کے قدموں تک پہنچا دیں ”

مسلمانوں کی ذہنیت میں چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی غلامی اور محکومیت بھری ہوئی ہے ، صحابہ کرام کے غلاموں ، باہر سے مسلمان اور اندر سے یہ ذات پات میں گھرے ہوئے ذہنی مریضو ، ہندوؤں! تم آج تک غلامی کا شکار ہو تم اس بات میں جکڑے ہوئے ہو کہ صحابہ کرام سب سے افضل ہیں اور اگر یہ ہی حق ہے تو پھر یہ بڑی ہی زیادتی اور ظلم کی بات ہے ،بڑا ہی تف ہے اس فیصلے پر۔ ہم کو ہماری مرضی کے خلاف اس دور میں کیوں پیدا کیا گیا میرا کیا قصور ہے کہ مجھے حضور پاک کے دور یا غوث پاک کے دور میں پیدا نہیں کیا گیا اور صحابہ کرام کی کیا خصوصیت ہے کہ ان کو اس دور میں پیدا کیا گیا اور وہ گھر بیٹھے ہی اتنے بڑے صحابہ بن گئے، ہلدی لگی نہ پھٹکری اور کوئی فلاں رضی اللہ تعالی عنہ ہوگیا ،کوئی فلاں علیہ السلام ہوگیا ہمارے خون میں ایسا کیا زہر ملا ہوا تھا جو ہم صحابی نہیں بن سکے ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے؟ ہمیں وہ مرتبے کیوں نہیں ملے؟ ہمیں حضور کی صحبت، حضور کا قرب کیوں نہیں ملا ، ہم حضور کےدورمیں پیدا کیوں نہیں ہوئے؟ اسلام کا کوئی شیخ ان سوالوں کا جواب دے!!!
مسلمانوں تمہاری ذہنیت غلامی پر مبنی ہے، کبھی انگریزوں کے غلام ،کبھی مغلیہ سلطنت کے غلام کبھی فرقوں کے غلام ، کبھی صحابی سسٹم کے غلام کبھی اسلام کے غلام ، تم نےاللہ کی غلامی اختیار نہیں کی اسی لیے تم لعنت کی زد میں ہو ۔ اللہ تو زمین پر آیا نہیں لہذا اس کا دور نہیں ہے چلو اس کے بعد محمدؐ کا دور سب سے سب سے افضل ہے لیکن میں محمدؐ کے دور کے لوگوں سے بھی افضل بننا چاہتا ہوں ، مجھے بتاؤ اللہ کا دور کہاں ہے؟ ہم فلاں صحابی کو اپنے سے افضل نہیں کہیں گے ، ہم عمر بن خطاب کو افضل نہیں بد نصیب کہیں گے کیونکہ وہ حضورﷺ کے دور میں پیدا ہو کر بھی محروم رہا ۔
میرا ایمان میرا تعلق باللہ ادوار کا نہیں اُس ذات کا محتاج ہے کیونکہ مرتبہ اور زمانہ بڑا نہیں ہے اللہ بڑا ہے۔ وقت اور زمانہ بڑا نہیں محمد رسول اللہ بڑا ہے تو پھر محمد رسول اللہ تو آج بھی موجود ہیں ، کیا اللہ نے محمد کو اس بات میں قید کیا ہوا ہے کہ بس ایک ہی علی بنانا دوسرا بنایا تو مشرک ہو جاؤگے ، کوئی عثمان غنی جیسا نہ بننے پائے کیا اللہ کے خزانہ اور اس کے فیض و برکات میں اتنی طاقت نہیں کہ دو عثمان و ابوبکر یا دو علی وعمر بنا سکے؟ اللہ تو ہر شے پر قادر ہے تو پھر تم ایک علی پر اکتفا کیوں کرتے ہو؟ وہ تو ہر شے پر قادر ہے تو پھر ایک ابو بکر کیوں پیدا ہو گا ، وہ تو ہر شے پر قادر ہے تو ایک لال شہباز قلندر کیوں ہوگا، ایک سلطان الفقراء کیوں ہوگا ایک داتا کیوں ہوگا ہم نے کیا بگاڑا ہے؟

ایک سوچ ۔۔۔وقت اور زمانے کا محتاج بننے سےاللہ کا محتاج بننا افضل ہے:

زمانے کی سوچ کو بدلنا ہے آگے لے کر جانا ہے ، زمانے اور وقت کی محتاجگی سے نکالنا ہے۔ فلاں افضل ہے تو ہم کیا کریں جو خزانے اللہ نے ان کے سینے میں رکھے ہمارے اندر بھی اللہ نے وہی خزانے رکھے ہیں ۔ اللہ نے اگر ہمیں اس دور میں نہیں پیدا کیا اور اس دور میں ہمارا پیدا ہونا بھی اسی کی مرضی سے ہے تو ہم گھاٹے میں رہنے والے نہیں ہیں ۔اللہ نےکہا

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا
سورۃ العصر آیت نمبر 1 تا 3
ترجمہ : زمانے کی قسم ! انسان خساے میں ہے ، اس خسارے سے مومن ہی بچ پائیں گے۔

وَالْعَصْرِ یہ جو زمانہ گزر رہا ہے اس کی قسم، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ انسان خسارے میں ہے(وہ خسارا کہ جس سے انسان کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا)۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا اس خسارے سے وہ بچ جائیں گے جو مومن بن گئے۔انسانیت ہر قسم کے خسارے میں مبتلا ہے اور اللہ تعالی نے اعلان کر دیا کہ جو مومن ہو گیا وہ ہر قسم خسارے سے پاک ہے یعنی جن کے قلب میں ایمان آگیا وہ تمام خساروں سے بچ جائیں گے۔

حضورؐ کے دیدار کےلئے وقت اور زمانے کی قید نہیں :

اچھا میرے دل میں نور آگیا میں مومن ہوں لیکن اس کا کیا ہو گا کہ عثمان غنی کو تو روزآنہ حضور کا دیدار ہوتا تھا مجھے کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ خسارہ تو رہ گیا جبکہ اللہ نے تو کہا مومن ہر قسم کے خسارے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کا جواب ہے کہ جب اندر کی آنکھ کھلے گی تو روز دیدار کرنا ۔حضور کو مسلمانوں نے دیکھا نہیں ہے اور قبر میں حضور کی شبیہ دکھائی جائے گی کیا یہ زیادتی نہیں ہے؟ کہ حضور کو دیکھا ہی نہیں تو کیا جواب دیں گے!دنیاوی امتحان میں اگر کوئی ایسا سوال شامل کر دیا جائے جو کہ ٹیکسٹ بک میں نہیں ہے تو امتحان دینے والے اس کا جواب کہاں سے لائیں گے اس لیے وہ سوال امتحان سے نکال دیا جاتا ہے۔ اگرمسلمانوں نے حضور کی شبیہ دیکھی ہی نہیں تو اس کا جواب وہ کیسے دیں گے؟ اسی لیے سرکار گوھر شاہی نے فرمایا تھا ” حضور کے دیدار کے بغیر امتی نہیں بنتا ” قبر میں سوال امتی سے کیے جائیں گے کہ اس ہستی کے بارے میں تو دنیا میں کیا کہتا تھا۔
تعلیم اور فیضان گوھر شاہی پکار رہا ہے کہ آجاؤ حضور کے دیدار کے لیے وقت اور زمانے کی قید نہیں ہے، یہ دیدار سب کے لیے ہے ، جو جو مراتب حضور کے دور میں حاصل کیے جا سکتے تھے وہ تمام مراتب اس دور میں بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں ، اگر نہیں تو یہ اللہ کے نظام میں خلل واقع ہوجائیگا۔ نا انصافی تصور کی جائیگی،لیکن اللہ تو منصف مزاج ہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جو مراتب وہ حضور کے دور میں تھے وہی مراتب اللہ آج نہ دے پائے ، اجی حضور ہی تو تشریف لے گئے ہیں نا اللہ تو نہیں گیا دینے والا تو اللہ ہے، حضور تو بانٹنے والے ہیں اور وہ آج بھی بانٹ رہے ہیں ، آج بھی دین، روحانیت اور تصوف میں وہ مقام مل سکتا ہے جو اُس دور میں ملا کرتا تھا، اگر آپ یہ نہیں مانتے تو یوم محشر زیادہ دور نہیں ہے!

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی 17 اگست 2017 کی یوٹیوب پر لائیو سیشن سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس