- 989وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
چار سو سال سے کوئی کامل ذات ولی اللہ نہیں آیا ہے:
مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورة الکہف آیت نمبر 17
ترجمہ : کہ جس کو میں گمراہ کرنا چاہوں پھر وہ ہرگز نہ پائے گا ولی اور مرشد۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا قانون ہے کہ جس کو وہ گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کو کوئی ولی یا مرشد نہیں ملتا ہے ،یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جس کو ہدایت دینا چاہے گاتو پھرکسی مرشد سے ملا دے گا۔آج کے دور میں جو پڑھے لکھے لوگ پیر و مرشد کے نام سے خائف ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چار سو سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے اور کوئی کامل ذات ولی اللہ دنیا میں نہیں آیا ، مرشد ِکامل ہم نے اپنی عملی زندگی میں دیکھا نہیں ہےاور جو مرشد کے نام پر ہمیں ملے وہ بنارسی ٹھگ تھے ۔ جو مرشد کا بہروپ بھر کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ یا تو پیسے کھانے والے ہیں یا پھر عورتوں کے شوقین ہیں ، شہوت پرست اور نفس پرست ہیں ۔ نہ وہ روحانیت سے آشنا ہیں اور نہ ہی باطنی راستوں کا پتہ ہے، وہ تو سراپا شیطان ہیں ۔ جو لوگ مرشد کا لبادہ اُوڑھ کر بیٹھے ہیں اِن میں مختلف طبقات کے لوگ ہیں ، ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیاوی تعلیمات تو رکھتے ہیں لیکن دین کا علم نہیں ہے اس لئے غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں ۔پاکستان کے صوبہ سندھ میں کئی زمینداراور وڈیرے پیر بنے بیٹھے ہیں یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جیسے ممتاز بھٹو یہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ہے ، پیر پگاڑا یہ بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن پڑھے لکھے سے صرف مراد یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا کی تعلیم حاصل کی ہے کوئی ڈاکٹر بن گیا ہے کوئی انجینئر بن گیا ہے لیکن یہ دنیاوی علم کا حصول دین کو سمجھنے میں کارگر ثابت نہیں ہوتا ہے ۔ ہر آدمی جس کے اندر نفسِ امارہ ہے وہ یہی کہتا ہے میں پڑھا لکھا ہوں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے ، اگر اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے کیا پڑھا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم نے بی اے کیا ہوا ہے ۔ تو کیا بی اے کی ڈگر ی حاصل کرنے کے بعد وہ جہاز اُڑا سکتے ہیں !! جو کچھ بھی آپ نے پڑھاہے وہ علم اُسی فیلڈ کے لئے کارگر ہے ۔ کالجر ز میں جو جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں ہیں انہوں نے لوگوں کے اذہان میں یہ سوچ ڈالی ہے کہ تم جاہل نہیں ہو ، پیروں اور مرشدوں کو ماننا جاہل ان پڑھ لوگوں کا کام ہے ۔تاریخی طور پر پاکستان کا صوبہ پنجاب ولیوں سے عقیدت رکھنے والے لوگوں سے بھرا ہوا ہے ، جیسے ملتان کی سرزمین پر اتنے اولیاءا ٓئے ہیں کہ اس کو مدینتہ اولیاء کہا جاتا تھا ۔جیسے قصور میں بابا بلھے شاہ کا مزار ہے ، مظفر گڑھ میں سائیں سہیلی سرکار کا مزار ہے ، پاک پتن میں بابا فرید شکر گنج کا مزار ہے ، پنڈی میں امام بری سرکار کا مزار ہے ، شورکوٹ جھنگ میں سلطان حق باہو کا مزار ہے، کتنے اولیاء گردو نواح میں گزرے ہیں لیکن وہ زمانہ گزر گیاہے۔ داتا علی ہجویری کا زمانہ بھی بہت پرانا ہے وہ معین الدین چشتی سے فیض لینے کے لئے آئے
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پير کامل کاملاں را رهنما
یہ الفاظ معین الدین چشتی کے لکھے ہوئے ہیں ۔ اب کئی سو سال گزرنے کی وجہ سے اُن ولیوں کی تعلیم کیا تھی یہ بات بھی معاشرے سے نکل گئی ۔ ایک تعلیم کتاب میں ہوتی ہے اور ایک تعلیم معاشرے کے اندر رائج العمل ہوتی ہے ، جیسے داڑھی رکھنا ہمارے معاشرے میں موجود ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ چیزیں پھر معاشرے سے پھر نکلنا بھی شروع ہو جاتی ہیں اور شدت پسندی بھی آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ جیسے آج سے بائیس تئیس سال قبل کونڈے کا رواج تھا لیکن صرف کونڈے کا ہی معلوم تھا کس لئے مناتے ہیں یہ نہیں پتہ تھا لیکن جب سیدنا گوھر شاہی سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ یوم امام جعفر صادق کے پیدائش کا دن ہے ۔ اسی طرح دورود اور فاتحہ کروانے میں بھی ایک رسم بنائی ہوئی ہے کہ صرف حلوہ اور پوری ہو گی۔ جسطرح محرم الحرام میں حلیم بنتی ہے ۔لہذا پنجاب کے معاشرے میں اولیاء کا ایک سلسلہ چلتا ہوا آرہا تھا جس کی وجہ سے اُ س معاشرے میں یہ چیز موجود تھی کہ ولی بہت ضروری ہوتے ہیں ، ابتدائی دنوں میں جو وہ اولیاء موجود تھے تو لوگوں کو فیض بھی ہوتا تھااور لوگ اللہ والے بھی ہو جاتے تھے لیکن اُن کے چلے جانے کے بعد اُن کے ماننے والوں کی نسلوں میں صرف یہ بات رہ گئی کہ پیر پکڑنا چاہیے، پیر کی تعلیم کیا ہو گی ، اُس سے فیض کیا ہو گا یہ نہیں پتہ ۔تعلیم وہیں معدوم ہو گئی اور یہ تصور کہ پیر پکڑنا یہ چلتا رہا ۔ ان میں زیادہ تر وہی لوگ تھے جو کبھی اسکول نہیں گئے بس پیر پرستی میں تھےلیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ مرشد کیوں پکڑا جاتا ہے اور مرشد کیوں ضروری ہے اور جن کو انہوں نے مرشد بنایا ہوا تھا وہ بھی جاہل تھے ، نہ دین کا پتہ تھا، نہ علم روحانیت و طریقت کا پتہ تھا لہذا پیران ِ عظام مریدوں کو جو حکم دیتے وہ کر لیتے تھے ۔ جب لوگ کالجز اور یونیورسٹی گئے ہیں اور وہاں جماعت اسلام جیسی تنظیموں سے واسطہ پڑا تو انہوں نے اُن کے اذہان میں یہ ڈالنا شروع کر دیا کہ اب تم پڑھ لکھ گئے ہو پیر پرستی چھوڑ دویہ شرک ہے ، یہ کفر اور بدعت ہے ۔ جب وہ لوگ واپس اپنے گاؤں دیہات گئے اور دیکھا کہ واقعی یہ پیر شریعت اور اسلام کے مطابق تو نہیں ہیں یہ تو بدعت اور شرک ہو رہا ہے لہذا وہ متنفر ہوتے چلے گئے اور پھر ایسے ایسے لوگ اسلام کے نام پر جاہل بنے جیسے ڈاکٹر اسرار احمد انہوں نے قرآن کی اُس آیت جس سے وسیلہ ثابت ہوتا ہے اُس سے وسیلے کو ہی جھٹلا دیا ۔
ایک طرف تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرقہ واریت بہت بُری چیز ہے لیکن اس کے جو دلائل لوگوں کے پاس ہیں وہ اصل نہیں ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ فرقہ واریت کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو مارتے ہیں لہذا یہ ختم کر کے ایک ہو جاؤ۔ جو لوگ یہ کہتے کہ فرقہ واریت نہیں ہونی چاہیے وہ خود فرقہ واریت کا شکار ہیں ۔فرقہ واریت نہیں ہونا چاہیے لیکن میں سنی ہی رہوں گا، شیعہ بھی یہی کہتا ہے کہ فرقہ واریت نہیں ہونا چاہیے لیکن میں شیعہ ہی رہوں گا۔ ان جملوں سے پتہ چل رہا ہے کہ میرا فرقہ درست ہے تم سب اس میں شامل ہو جاؤ یہ فرقہ واریت ختم ہونا ان کی نظر میں ہے ۔ نہ وہابی صحیح ہے ،نہ بریلوی صحیح ہے اور نہ دیو بندی صحیح ہے ، صحیح صرف وہ ہے جو حضورﷺ کے دور میں تھا ۔ حضورﷺ کے دور میں کوئی فرقہ نہیں تھا بلکہ اُمتی تھے۔ فرقہ واریت سے اُس وقت تک جان نہیں چھڑا پاؤگے جب تک فرقوں کو چھوڑ کر اُمتی نہیں بن جاؤ گے۔
اللہ ہدایت مرشد کے زریعے عطا کرتا ہے :
ہدایت کے لئے تو اللہ نے قرآن مجید میں کہہ دیا ہے کہ میں جس کو ہدایت نہیں دینا چاہتا اُس کو مرشد عطا نہیں کرتا ہوں اور یہ اللہ کا طریقہ ہے ۔ ہدایت تو اللہ نے دینی ہے لیکن وہ ہدایت مرشد کے زریعے ملتی ہے ، براہ راست اللہ سے کسی کو ہدایت نہیں ملی ۔قرآن میں ہے کہ
وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ : اللہ جس کو مومن بنانا چاہتا ہے تو اُس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے ،
وہ ہدایت اللہ کسی مرشد کے زریعے ہی دیتا ہے اور وہ مرشد اللہ کے حکم سے اسم ذات کے نور کی شکل میں ہدایت تیرے قلب میں داخل کرے گا۔گدی نشینوں کے اندر بھی لوگ پیر اور ولی بنے بیٹھے ہوئے ہیں ، مولویوں اور مفتوں نے بھی اپنی دُکانیں چمکا رکھی ہیں اور فیض نامی کوئی شے ان کے پاس نہیں ہے ۔نہ کوئی انڈیا میں ولی ہے اور نہ ہی پاکستان میں کوئی ولی ہے کیونکہ ولایت تو ختم ہو چکی ہے ۔ جو بھی دو چار باتیں روحانیت کی کر لیتا ہے لوگ اسے مرشد اور اللہ کا ولی مان لیتے ہیں ۔ اللہ کا ولی وہ ہوتا ہے جس کے اوپر روزانہ تین سو ساٹھ اللہ کی تجلیات گرتی ہیں ۔ ولی اللہ وہ ہوتا ہے جس نے اللہ کا دیدار کیا ہوا ہو، کتابیں پڑھ کر کوئی اللہ کا ولی نہیں بنتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ نے اپنے دوستوں کی جو پہچان بتائی ہے وہ یہ کہ اللہ مومنوں میں سے دوست بناتا ہے ۔ اللہ اُن لوگوں میں سے ولی بنائے گاجو پہلے سے مومن ہوں گے
اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ
سورة البقرة آیت نمبر 257
ترجمہ : اللہ مومنوں میں سے ولی بناتا ہے اورظلمات سے نکال کر نور کی طرف گامزن کرے گا۔
نسوں میں جو شیطان کی نار دوڑ رہی ہے اس کو ظلمات کہتے ہیں ، یعنی اللہ تمھاری نسوں میں سے ظلمات کو نکالے گااور تمھیں نور کی طرف گامزن کرے گا۔اور نور کسطرح ملے گا یہ بات بھی قرآن مجید میں موجود ہے کہ
أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ
سورة الزمر آیت نمبر 22
ترجمہ : جس نےاسلام کے لئے اپنی شرح صدر کر لی تو اُسے اپنے رب کی طرف سے نور میسر ہو گا۔
یعنی ولایت شرح صدر کرنے والوں کو عطا ہوتی ہے ، انسانی جسم میں سات لطیفے ہیں جس میں قلب، سری، اخفیٰ، خفی ،روح ،انا شامل ہیں ان لطائف کو بیدار کرکے ذکر و فکر میں لگانا ، پھر اُن کے جثے نکالنا ۔ سب سے پہلے تو اپنے جسم کو نماز پڑھائے گاپھر اپنے قلب کو نماز میں داخل کرنا ہے ، لطیفہ قلب کا تعلق عالم ملکوت سے ہے اور یہ تمھاری نماز کو اپنی آواز کے زریعے عرشِ الہی تک پہنچائے گا۔اس کی اپنی رسائی عالم ملکوت تک ہے لیکن آوا ز کی رسائی عرش الہی تک ہے جسطرح اگر آپ کمرے میں بند ہوں تو آپ کی رسائی کمرے سے باہر نہیں ہے لیکن آپ کی آواز تو باہر جا سکتی ہے اسی طرح لطیفہ قلب کی آواز بھی عرش الہی پر گونجتی ہے ۔ بغیر مرشد کے کوئی اپنے دل کو منور نہیں کر سکتا ، بغیر مرشد کے اپنے نفس کو پاک نہیں کر سکتا تو پھر بغیر مرشد کے اپنی جثوں کو نمازیں کیسے پڑھائے گا۔یہ کام مرشد کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے اور ایسے مرشد چار سو سال سے آئے نہیں ہیں ۔ آج کے اس دور میں اہل فرقہ سیدنا گوھر شاہی کی تعلیم سننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں اور جو سن لیں وہ جا نہیں سکتے ۔کیونکہ سیدنا گوھر شاہی کے پاس فیض دینے کے جو فیض و کرشمات اور انداز ہیں وہ دنیا میں پہلے کبھی آیا نہیں ہے۔ جو چیز چھتیس سالوں میں عطا ہوتی تھی وہ چھتیس سیکنڈ میں عطا فرما دیتے ہیں ۔ جو مدد کے لئے پکارے کہ گوھر شاہی مجھے اللہ چاہیے میری مدد کریں تو آپ خود اس کے پاس تشریف لے آتے ہیں ۔ اگر تم کسی حقیقی مرشد سے ٹکرا گئے تو پھر یہی کہو کہ مرشد ہی سب کچھ ہے ۔چار سو سال کا عرصہ ہو گیا ہے کہ کوئی کامل ذات مرشد نہیں آیا ہے اس لئے لوگ مشکوک ہو گئے ہیں کہ مرشد کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کو مرشد بنا کر اللہ تک پہنچ سکتے ہیں تو مرشد بنانے کی کیا ضرورت ہے وہ تو تمھارے نبی بھی ہیں ۔ سارے فرقے حضوؐر کو ہی نبی مانتے ہیں لیکن وہ کہاں تک پہنچے ہیں کسی کی بھی حضورﷺ تک رسائی نہیں ہے اور رسائی کے لئے وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔تمھاری اللہ تک رسائی نہیں ہے ا س لئے تمھیں وسیلے کی ضرورت ہے اور اگر حضوؐر تک بھی رسائی نہیں ہے تو پھر ان کاوسیلہ کیسے کام آئے گا۔ اگر عام لوگوں کی رسائی حضور تک ہوتی تو علی کو مولیٰ بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔اللہ تک تمھاری رسائی نہیں ہے اس لئے تمھیں وسیلے کی ضرورت ہے ۔ دنیا کا بھی یہ دستور ہے کہ دنیاوی تعلیم کے لئے اسکول و کالج جارہے ہو اور اساتذہ کی عزت بھی کر رہے ہو لیکن دین کے معاملے میں تمھیں کسی روحانی استاد کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ اگر مرشد کی ضرورت نہیں ہے اور قرآن پڑھ کر ولی اور مومن بن جاؤ گے تو پھر یونیورسٹی اور کالج بھی بند کر دو اس کے بجائے لائبریری کھول لو اور کتابیں پڑھ پڑھ کر ڈاکٹر اور انجینئر بن جاؤ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوہر سے 26 فروری 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سےماخوذ کیا گیا ہے ۔