کیٹیگری: مضامین

سیدنا گوھرشاہی سے عیسی علیہ السلام کی ملاقات:

1997 میں سیدنا گوھر شاہی امریکہ کی ایک ریاست نیو میکسیکو میں ایک روحانی تنظیم کی درخواست پران کے ایک پروگرام میں جلوہ افروز ہوئے یہ پروگرام امریکہ کے شہر طائوس میں لامہ فاؤنڈیشن lama Foundation کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا۔ہال کے بالکل وسط میں سیدنا گوھر شاہی کرسی پر تشریف فرما ہیں اور مختلف نسلوں اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ حلقہ بنا کر سیدنا گوھر شاہی کا طواف کر رہے ہیں ۔عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا واقعہ اِسی دورے میں ہوا۔ہم نے اس واقعہ کودنیا بھر میں مشتہر کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں واپس آگئے ہیں۔
امریکہ کے دورے سے واپس انگلینڈ تشریف لائے تو یہ خبر سن کر شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص سیدنا گوھرشاہی کا انٹرویو لینےکی غرض سے آ گیا۔اورآپ سے سوال کیاکہ سنا ہے آپ کی عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ہے تو سرکار نے فرمایا اِس میں کون سی بڑی بات ہے لوگوں نے تو حضور پاک سے ملاقات کی،یہاں تک کے اللہ سے ملاقات کر لی اس وقت تم کو پریشانی نہیں ہوئی،نہ کسی نے اُن کا انٹرویو لیا۔ہم نے یہ ہی تو کہا ہے ہماری عیسیٰ سے ملاقات ہوئی ہے۔تو اس نے کہا عیسیٰ علیہ السلام سے اس دور میں ملاقات ہوناایک خاص واقعے سے منسوب ہے جس نے مجھے چونکا دیا ہے،کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی کے دور میں واپس آئیں گے اسی لیے یہ بات بھی خاص ہوگئی۔
سیدنا گوھر شاہی نے عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کے بارے میں فرمایا میں اپنے کمرے میں موجود تھا سونے کا وقت تھااس لیےکمرے کی لائٹ اتنی مدھم تھی جس میں کسی آنے والے کا چہرہ پہچان میں نہیں آسکتا،اچانک محسوس کیا کمرے میں کوئی اور بھی موجود ہے تو اس سے پوچھا تم کون ہو تو آنے والے نے کہا میں عیسیٰ ابن مریم ہوں۔پھر گفتگو میں پہچان مہدی اور پہچان عیسیٰ کی بات چل پڑی اور احادیث کے سچے اور جھوٹے ہونے کی بات ہوئی۔ سیدنا گوھر شاہی نے ارشاد فرمایا ِاِس دور میں تو ایسی ایسی حدیثیں بھی موجود ہیں کے جن کو پڑھ کر بجائے اللہ کے قریب ہونے کے انسان اللہ و رسول سے دور ہو جاتا ہے۔حضرت صاحب نے لقمہ دیا کہ امام جعفر کا قول ہے کہ جو حدیث قرآن کی بات سے متصادم ہو وہ رسول اللہ کا فرمان نہیں ایسی حدیث کو اٹھا کر دیوار پر مار دو۔ پھر یہ بات آ گئی کہ شیعہ مکتبہ فکر کے مطابق قرآن کے چالیس پارے ہیں،آپ کا کیا خیال ہے،سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے، تیس پارے ظاہر میں اور دس پارے باطن میں ہیں ، شعیہ مکتبہ فکر والوں کا کہنا ہے کہ وہ دس پارے بکری کھا گئی تھی۔بجائے خوش ہونے کے مسلمانوں کو دست لگ گئے کے قرآن کے چالیس پارے ہیں یہ کیسے کہہ دیا،ہم اگر یہ پوچھیں کے یہ جو تیس پارے آپ کے سامنے ہیں اُس وقت تو ان کا بھی کوئی تصور نہیں تھا،یہ تیس پارے تو اُس وقت بنے جب حضور کے وصال کے بعد عمر بن خطاب کو خیال آیا کہ قرآن کی آیتوں کو جمع کر کے کتابی صورت دی جائے تو وہ اُس خیال سے اس وقت کے خلیفہ ابو بکر کے پاس گئے تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ تم وہ کام کیوں کرنا چاہ رہے ہو جو حضور پاک نے نہیں کیا اگر حضور چاہتے تو خود قرآن کو تحریری شکل دینے کا حکم فرماتے۔لیکن عمر فاروق نے ابو بکر کو کسی طرح اس کام کے لیے آمادہ کر لیا،اِس کے بعد لوگوں کو اس کام پر مامور کیا گیا،حضرت علی نے بھی قرآن جمع کیااور عمر فاروق نے بھی قرآن جمع کیا،پھر اپنے جمع کیے ہوئے قرآن کو صحیح قرار دیا اور حضرت علی کے جمع کیے ہوئے قرآن کو آگ لگا دی،آج قرآن کو جلانے والے کو ہم مار دیتے ہیں جبکہ اسلام کے خلیفہ جن میں ابو بکر صدیق اور عمر فاروق جیسے لوگوں نے اس قرآن کو آگ لگا دی جو حضرت علی نے جمع کیا تھا پھر بھی وہ معتبر ہیں۔کیا یہ ہی ہے آپ کا معیار؟

سیدنا گوھر شاہی نے سمجھایاوہ دس پارے کہاں ہیں:

آپ نے فرمایاآدم صفی اللہ سے محمد رسول اللہ تک پانچ مرسل ہوئے ہیں۔آدم صفی اللہ،ابراہیم خلیل اللہ،نوح نجی اللہ،موسی کلیم اللہ،عیسیٰ روح اللہ،محمد رسول اللہ۔ہر مرسل کو اللہ تعالی نے کم از کم دو طرح کا علم دیا ایک علم ظاہری اور دوسرا علم باطن یعنی دل والا علم۔،ظاہری علم، توریت ،زبور، انجیل اور قرآن بن گیا اور باطنی علم اُن کے دلوں میں رہا،ہر مرسل نے باطنی علم آدھا اپنے پاس رکھا اور آدھا اپنی اُمت کے ولیوں کے لیے رکھا۔اِس طرح ہر نبی کے علم کے دو حصے بن گئے، پانچ مرسلین آئے اور آخر میں جب حضور آئے تو باطنی علم کے وہ دس پارے حضور کے سینے میں موجود ہیں۔اسی لیے حضور نے فرمایاانا مدینۃ العلمیہ نہیں کہا میرے سینے میں صرف قرآن ہےمدینۃالعلمسے مراد سینہ مصطفی میں بہت سارے علوم موجود ہیں،اگر صرف قرآن ہی ہوتا تو فرماتے میرے سینے میں قرآن ہے،آپ نے اپنے سینہ کے بارے میں فرمایاانا مدینۃ العلمحضورؐ کے سینہ کو قرآن کیوں نہیں کہتے۔ معلوم ہوا سینہ مصطفی میں اُن تیس پاروں کے علاوہ بھی علم ہے وہ علم وہی ہے جوآدم صفی اللہ پر بھی اترااور اُس علم سے اُن کی امت میں ولی بھی بنے،جو ابراہیم خلیل اللہ پر بھی اترا جس سے ان کی اُمت میں ولی بھی بنے،پھر وہ علم موسی،عیسی اور خود حضورؐ پر بھی اترااس طرح اس باطنی علم کے دس حصے ہو گئے۔یہ بات اسلامی حلقوں میں صدیوں سے قائم ہے کہ جب امام مہدی علیہ السلام کو تشریف فرما ہونا ہوگا توحضور پاک وہ سارا کا سارا باطنی علم امام مہدی کو منتقل فرما دیں گے۔
یہ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اس دور میں بہت سی تنظیمات جن کا تعلق تبلیغ سے ہے جو دین اورروحانیت کی تبلیغ کر رہی ہیں ان میں بہت سی جماعتیں جیسا کہ احمدیہ جماعت ہے وہ اپنے رہبر کے دعوے کی حمائیت و حفاظت میں مصروف ہیں۔وہ باتیں جو انسان عام فہم سے سیکھ لیتا ہے پہچان لیتا ہےکیونکہ عام فہم باتوں کا تعلق براہ راست انسان کی عقل سے ہوتا ہے جیسا کہ باہر گرم ہوا کے جھونکے محسوس کرکے عقل فورا کہے گی لو چل رہی ہے،لیکن دیکھا یہ گیا ہے مذہبی لوگوں میں عام فہم باتوں کا فقدان ہے۔ وہ عقل کے اندھے ہوجاتے ہِیں اُنکو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ عیسیٰ ابن مریم سے مراد اُن کی روح ہے یا اُن کا جسم ہے۔
حضور پاک کا نام محمد بن عبد اللہ لکھا گیا ہے لیکن بائبل میں محمد بن عبد اللہ نہیں لکھا وہاں صرف احمد لکھا ہوا ہے کیونکہ جس وقت بائبل اتری تھی اس وقت محمد رسول اللہ کا جسم نہیں بنا تھا اُس وقت صرف ان کی روح تھی حضورکی روح کا نام احمد ہےلہذا اُن کی روح کا نام بائبل میں آیا ہے۔اُس وقت محمد بن عبد اللہ ہی نہیں تھے اُس وقت صرف روح احمد موجود تھی۔ابلیس بہت بڑا عالم ہے دنیا میں اس سے بڑا کوئی عالم نہیں لیکن اسکا المیہ اور رونا یہ ہے کے اس کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ ظاہری ہے ابلیس کے پاس باطنی علم نہیں ہے،اُس کی وجہ یہ ہے کہ ابلیس قوم جنات میں سے ہے اورجنات میں لطائف نہیں ہوتے، لطائف صرف انسانوں میں ہوتے ہیں۔ بہت سے جنات حضور کے صحبت یافتہ بھی ہیں لیکن حضورکو ماننے یا ان سے محبت کرنے کے باوجودوہ جنات جنت میں نہیں جا سکتے کیونکہ ادنی ترین جنت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے قلب منور ہیں اور جنات میں قلب ہوتا ہی نہیں ہے لہذاابلیس ظاہری علم پر اکتفا کرنے پر مجبور ہے،لیکن اگرکوئی انسان لطائف ہونے کے باوجود صرف ظاہری علم پر ہی اکتفا کرے اورلطائف ہونے کے باوجود باطنی علم سے خود کو محروم رکھے تو یہ اس نے اپنی مرضی سے خود کومرتبہ انسان سے گرا کر ابلیس بنا رکھا ہے۔

ایک واقعہ:

نجم کبری جو بہت بڑے صوفی درویش بزرگ گزرے ہیں اُن کے ایک مرید امام رازی پر جب عالم نزع طاری ہوا تو شیطان اُن کو تنگ کرنے کی غرض سے آ گیااور پوچھا بتاؤ تم نے خداکو کیسے مانا؟توانہوں نے ننانوے دلیلیں دیں جن کو ابلیس ایک ایک کر کے رد کرتا گیا،نجم کبری نے وضو کرتے ہوئے کشف کی حالت میں دیکھا اُن کا مرید ابلیس کے سوالوں میں پھنس گیا ہے اور اُن کا وقت ضائع ہو رہا ہے تو وہیں سے پانی کا چھینٹا مارااور کہا اِس کو کہہ دے میں نے اللہ کو بغیر دلیل کے مانا۔ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے سیدنا گوھر شاہی کو امام مہدی بغیر دلیل کے مانا لیکن یہ مرتبہ مہدی کے ساتھ زیادتی ہوگی،کیونکہ مسئلہ صرف ہمارے اپنے ایمان کا نہیں ہے،ہم نے دنیا کو سمجھانا ہے اور دنیا مانتی ہے دلیل۔ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے جس ذات کو مرتبہ مہدی دیا ہو اس کی کوئی برھان یا دلیل نہ دی ہو۔ وہ برھان بھی موجود ہے اوروہ دلیل بھی موجود ہے۔لیکن جن کے دلوں کی زندگی اللہ نے ختم کر دی ہو ان کوسمجھانا،دلائل دینا بے اثر اور بے سود ہے۔قرآن میں ہے

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْـمَةِ اللّـٰهِ
سورۃ الرمز 53
ترجمہ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو

لیکن دوسری جگہ اللہ نے حضورؐ کویہ بھی کہا

خَتَمَ اللّـٰهُ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ وَعَلٰى سَمْعِهِـمْ ۖ وَعَلٰٓى اَبْصَارِهِـمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَّلَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ
ترجمہ: اللہ نے ان کے دلوں اورکانوں پرمہر لگا دی ہے،اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے،اوران کے لیے بڑا عذا ب ہے۔

کیوں اُن کو سمجھانا بے اثر ہےاس کی وجہ بھی اللہ نے بتائی کہ جس چیز نے سمجھنا ہے جس کو ہم نے فہم دینا ہے اس پرہم نے مہر لگا دی ہے ایسے لوگوں کی مثال پنکچر ٹائر کی سی ہے جس میں بڑا سا سوراخ ہے اب اس میں بار بار ہوا بھری بھی جائے گی تو کچھ دور چلنے کے بعد ہوا پھر سے نکل جائے۔قرآن مجید کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اس کو تبدیل کر دیا گیا ہے توایسے بہت سے عقل کے اندھےاور بہرے مسلمان اس کو قرآن کی توہین سمجھ لیں گے۔جبکہ قرآن مجید میں ردو بدل کا پتا کوئی چلا ہی نہیں سکتا،قرآن میں ہونے والی تبدیلی کا پتا تو اس وقت چلاتے اگر حضور نےقرآن کتابی صورت میں دیا ہوتا تواُس سے ملا کر ہونے والی تبدیلی کو دور کر لیتے ، حضور نے تو کتابی صورت میں قرآن دیا ہی نہیں لہذا جو کتاب آپ کے ہاتھ میں آئی ہے اس کا تو یہ ہی نہیں پتا کے اس میں کتنی آیات وہ ہیں جو صحیح ہیں اورکتنی آیات وہ ہیں جو منسوخ ہو چکی ہیں۔حضورپاک کے وصال کے بعد ڈیڑھ سو سال کے عرصہ تک دین اسلام کے بارے میں کچھ نہیں تحریر کیا گیا، کسی حدیث ،کسی قرآنی آیات کو تحریری شکل نہیں دی گئی اورعالم اسلام بغیر کسی تحریری کتاب کے ذریعے چلتا رہا،ڈیڑھ سال بعد اگر جو کچھ تحریر ہوا اُس کی سند کہاں سے ڈھونڈیں گے؟کیا جو قبروں میں چلے گئے ان سے پوچھیں گے؟اور جب حضور کے جانے کے ڈیڑھ سو سال بعد خر دماغ قسم کے لوگ مسلمانوں میں آگئے جنہوں نے حضور پاک کی لا تعداد مستند ترین اور ضروری احادیث کوضعیف قراردیتے ہوئے رد کر دیااور اپنے مطابق دین اسلام کا معیار قائم کیا۔
جن لوگوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو جسمانی طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے وہ کیسے مان لیں عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہو چکا ہے۔2007 میں نہ صرف یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام سیدنا گوھر شاہی سے ملنے آئے بلکہ کئی مواقعوں پرعیسیٰ علیہ السلام کی مختلف لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ہیں۔ 2008 میں کینیڈا کے شہرایڈمنٹن البرٹا کے ایکسپو میں دو چار کینیڈین خواتین عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی خواہش لیے ہمارے پاس آئیں سیدنا گوھر شاہی کا کرم ہوا اور عیسیٰ علیہ السلام وہاں آ گئے اس طرح اُن خواتین کی ملاقات عیسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا ایک اور واقعہ امریکہ کے شہر فلاڈیلفیامیں رونما ہوا،ہم کسی دوا کی تلاش میں تھے کہ ایک نوجوان سامنے سے آیا اور پوچھا کیا آپ کو دوا مل گئی،نہ آنے والے نے بتایا وہ کون ہے نہ ہم نے پوچھا کیونکہ لاشعوری طور پر ہم کو پتا تھا وہ عیسیٰ ہیں اور ہم یونس ہیں،حیرانی کا کو عنصر ہی نہیں تھا عیسی ہمارا ہاتھ تھام کر کونے کی ایک دکان میں لے گئے جہاں سے مطلوبہ چیزمل گئی پھر عیسی غائب ہو گئے۔اس کے بعد عیسی علیہ السلام سے ملیشیاء میں ملاقات ہوئی۔

ایک انتہائی خاص بات :

” ہم کو یہ ہی پتا تھا کہ حضور پاک امام مہدی علیہ السلام کو اپنا ساراعلم پیش کر دیں گے اور ابلیس اپنا سارا علم دجال کو دے دیگا۔ آج یہ بات اور کھول دیں کہ

” ابلیس اپنا سارا علم صرف دجال کو ہی نہیں دے گا بلکہ ہر وہ شخص جو امام مہدی علیہ السلام کا جھوٹا دعوی کرے گا ابلیس اس کو اپنے سینے سے لگائے گا یعنی مہدی کا جھوٹا دعوی کرنے والا ابلیس کا خلیفہ ہو گا۔مرتبہ مہدی کے جھوٹے دعویداروں کو ابلیس،دجال کا تھوڑا تھوڑا فیض دیتا ہے تاکہ گمراہی پھیلتی رہے اوردنیا میں ایسا ہو رہا ہے“

علم الکلام کی تشریح:

جتنے بھی امام مہدی کا جھوٹا دعوی کرنے والوں سے گفتگو کر کے دیکھ لیں علم الکلام کے ماہر ہیں،علم الکلام کو چرب زبانی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔درویش تو سیدھے سادھے لفظوں میں حقیقت بتا دیتا ہے لیکن مولویوں کے پاس حقیقت تو ہوتی نہیں ہاں بات کرنے کا فن سیکھا ہوتا ہے اُن کی گفتگو سن کر لوگ عش عش کرتے ہیں وہ علم یا روحانیت نہیں بلکہ علم الکلام ہے،جو دھوکہ ہے،کانوں کو سن کر مزا تو آیا لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔علم الکلام شر ہے اوردرس نظامی جس میں آدمی مولوی بن جاتا ہے اس میں یہ لازمی پڑھایا جاتا ہے۔
ہمارا مقصد دنیا کو سیدنا گوھر شاہی کے مرتبہ مہدی کی بابت بتانا ہے،جان لیجئے کہ مرتبہ مہدی کا پرچار ہم اپنی مشہوری کے لیے نہیں کر رہے،ہم پوری دنیا میں پیغام محبت کو عام کرنے کے لیے سیدنا گوھر شاہی کا تعارف اور آپ کی تعلیم کا تعارف پیش کر رہے ہیں،ہمارے ظاہری احوال،تعداد و اسباب کو دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم کمزور ہیں۔

”ابھی سیدنا گوھر شاہی نے دنیا کے سامنے ظاہر ہونا ہے،آج پیش کی جانے والی تعلیمات کو اِس دنیا میں قائم ہونا ہے۔آج دین الہی کی کتاب ہے کل دین الہی کا قیام ہوگا،آج ہم مرتبہ مہدی کی بابت دنیا کو بتا رہے ہیں ، کہ یہ ہی ذات ہے جو کالکی اوتار، مسیحائے عالم اور امام مہدی بھی ہے اور جب آپ تشریف لے آئیں گے تب اس ذات کا تصرف طاقت اور فیض کیا ہے یہ دنیا ملاحظہ کر ہی لے گی “

آج پرچار مہدی کرنے کی کاوشیں در اصل ہم اپنی عاقبت و آخرت سنوارنے کے لیے کر رہے ہیں۔اس کے لیے ہمیں مامور نہیں کیا گیا،ہم کو تو فیض مل گیا،ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں،جو فیض ہم کو ملا ہم چاہتے ہیں دنیا میں ہر اس انسان کو جو رب کا متلاشی ہے وہ فیض مل جائے کیونکہ اسی در سے ہم کو تو رب مل گیا۔ہندو ہو یا سکھ، عیسائی ہو یا یہودی، بریلوی ہو یا احمدی،یہ فیض سب کے لیے ہے جس کے مقدر میں ایمان اللہ نے لکھا ہے اس کو یہ فیض ضرور ملے گا۔ بھلے کوئی اس کو روکنے کی جتنی چاہے کوشش کرلےاگر یہ پیغام اللہ کی طرف سے ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔اگر یہ ہمارااپنادعویٰ ہے توآجاؤ ہم کو روک دواگر ہم رک جائیں تو ہم باطل ہیں،آجاؤ ہم کو مٹا دو اگر ہم مٹ جائیں تو ہم باطل ہیں۔

قرآن میں حدیث میں اشکال اور پہچان مہدی:

یہ وہ دور ہے کہ جس دور میں امام مہدی کی پہچان قرآن و حدیث کی مدد سے نہیں کی جا سکتی یہ ہی وجہ ہےاللہ نے ایسے مقامات پراپنی نشانیاں ظاہر کیں جہاں انسانی عمل دخل کی گنجائش نہیں۔اللہ کی ان نشانیوں کا مرتبہ و مقام قرآن و حدیث سے زیادہ ہے،دوسرے لفظوں میں اللہ کی نشانیاں مارشل لاء کی مانند ہیں۔جب کسی ملک میں مارشل لاء لگ جاتا ہے تو تمام حکومتی قوانین معطل ہوجاتے ہیں۔یہ ہی حیثیت ان نشانیوں کی بھی ہے کہ چانداور حجراسود میں سیدنا گوہر شاہی کا چہرہ مبارک اللہ نے چمکا دیا ان مقامات پر اللہ کی اس نشانی کے آجانے کے بعداب قرآن و حدیث معطل ہو گئے۔یہ نشانیاں اللہ کی طرف سے آئی ہیں،اور آپ حدیث سے تلاش کر رہے ہیں،یہ احادیث تو وہ ہیں جنہیں آپ خود ہی گڑھ رہے ہیں خود ہی جھٹلا رہے ہیں۔اِن احادیث کی نہ تو رسول اللہ سے کوئی تصدیق ہے،نہ آپ پر منجانب اللہ کوئی القاء یاالہام ہے۔
اللہ کی ان نشانیوں کی دلیل اوران کا ثبوت یہ ہے کہ تصویر گوھرشاہی کو دیکھ کر تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ پڑھیں توذکر قلب کی اجازت ہو جائے گی۔ اگر یہ جھوٹی نشانی ہوئی تو اس کی طرف دیکھ کر دل میں اللہ اللہ کبھی بھی شروع نہیں ہوگا۔جس تصویر کو دیکھ کر تیرے دل میں اللہ اللہ شروع ہوگیا تووہ نشانی منجانب اللہ نہیں تو اور کیا ہے۔اب فیصلہ ان نشانیوں سے ہوگا۔علامہ اقبال نے تو کب کا کہہ دیا تھا کہ قرآن و حدیث کا تو چلیپا کر دیا گیا ہے،قرآن کی عصمت کو تو تار تار کر دیا،کبھی شیعہ اس کو دبوچ لیتا ہے اور اپنا مطلب نکال لیتا ہے،کبھی وہابی کبھی اہل حدیث اس کی حرمت سے کھیلتے ہیں اور تو اور احمدی بھی اب معلم ِقرآن کہلانے لگے ہیں،ان کی فہم کا اندازہ یہاں سے لگا لیں،احمدی جن کی نظر میں ریل گاڑی دجال ہے۔اب فیصلہ تو یہ نشانیاں ہی کریں گی۔

” جب تمہیں یہ احساس ہوجائے کہ اب کوئی چارہ نہیں اب تو تباہی کی طرف جا رہے ہیں تو آزمائش کے طور پر جب چاند مشرق سے نکلے توچاند کی طرف دیکھنا۔ابھی تو آرام سے بیٹھے ہیں اور صرف خبریں سنتے ہیں کہ سریا اور عراق میں خون خرابہ ہےیا فلاں ملک میں بم پھٹنے سے تباہی ہو گئی ہے اسی لیےتوجہ نہیں دے رہے لیکن جب تباہی سامنے آجائے گی تب مدد کودوڑو گے تب یاد آئے گا کہ کسی نے بتایا تھا چاند میں تصویر گوہرشاہی سے مدد مانگو۔ابھی وقت ہے اگر تھوڑی سی بھی عقل ہے توابھی پکار لیں“

سنت کبیر نے کہا
دکھ میں سمرن سب ہی کریں۔۔۔۔۔سکھ میں کرے نہ کوئے
جو دکھ میں سمرن کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تودکھ کاہے کو ہوئے

ابھی پکارا تو وقت ہے ابھی رب بھی مل جائے گا بعد میں پکارا تو وہ آپ کی جان بچانے کی لالچ شمارہوگی۔ہم مرتبہ مہدی کوقرآن و حدیث سے ثابت تو کرسکتے ہیں لیکن قرآن وحدیث کے مطلب بگاڑ دئیے گئے ہیں اور دوسرا ہر ایک فرقہ خود کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی سچا ثابت کر رہا ہے ۔اگر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ کی نشانیاں ہمارے دعوے کی حقانیت کا ثبوت ہیں تو تم ان کی تحقیق کیوں نہیں کرتے؟ سیدنا گوھرشاہی نے پاکستان میں فرمایا کہ جب حجر اسود پر تصویر کا اعلان ہوا تب ہم کو اُمید تھی کے مسلمانوں کی غیرت جاگے گی اور وہ تلوار لے کر آئیں گے کہ اس جگہ تو ہم اللہ کو سجدہ کرتے ہیں تم نے کیسے دعوی کر دیا کہ وہاں آپ کی تصویر آ گئی ہے لیکن کوئی ایک مسلمان بھی سامنے نہیں آیا۔یہی صورتحال چاند پر تصویر گوھرشاہی کے اعلان کے وقت تھی۔اس کے علاوہ سیدنا گوھرشاہی نے متعدداخبارات میں اشتہارات دئیے کہ چانداور حجر اسود میں تصویر کا آنا منجانب اللہ ہے ہم تم کو دعوت دیتے ہیں کہ اُن کی تحقیق کی جائے اگر جھوٹ ہیں تو آگ جلائی جائے ہم پولیس مجسٹریٹ کے سامنے مناظرہ نہیں مباہلہ کے لیے تیار ہیں جو جھوٹا ثابت ہو اس کو آگ میں ڈال دیا جائے لیکن کوئی سامنے ہی نہیں آیا۔قرآن میں ہے

وَمَنْ یُعَظِّمَ شعائِرَ اللّه فَإنَّها مِن تَقْوی القلوب
سورۃ الحج آیت نمبر 32
ترجمہ: اللہ کی نشانیوں کی تعظیم وہی کرتے ہیں جن کے قلب پاک ہو چکے ہوں۔

قرآن و حدیث کی سند کیسے پرکھی جائے :

کچھ حدیثیں تو ایسی جن کو پڑھ کر انسان یہ سمجھ لیتا ہے میں منافق ہوں،جیسا کہ یہ حدیث ملاحظہ ہو اِس میں براہ راست ایسا نہیں لگے گا کہ اس کو پڑھنے سے کوئی منافق ہو جائے گا، بلکہ سینہ میں موجود باطنی علم اِس کا فیصلہ کرتا ہے کہ حضور کا نام اِن الفاظ سے منسوب ہے جبکہ اِس کو پڑھنے کے بعد باطنی کیفیت کچھ اور ہے اب یہ الفاظ درست ہیں یا باطنی کیفیت۔
وہ حدیث یہ ہے:”حضور نے فرمایا قرآن مجید کو روزآنہ دہرانے کے لیے جبرائیل میرے پاس آتے تھے،اب اس سے مراد کیا لیں،کیا قرآن کہیں لکھا ہوا تھا؟ پھر مزید اس حدیث میں یہ لکھا ہے کے جس دن زیادہ طبیعت خراب تھی اُس دن جبرائیل کے ساتھ دو مرتبہ قرآن دہرایا“۔ سوال یہ ہے کہ کہاں دہرایا قرآن تو حضورؐ کےقلب میں اتر چکا تھا۔یہ باتیں،یہ گڑ بڑ چالیس پچاس سال پرانی نہیں ہے یہ گڑ بڑ بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔ جنہوں نے قرآن کو مرتب کر کے آگے بڑھایا تو اب اُسی حساب سے اُس کو ثابت بھی تو کرنا ہے کہ حدیثوں میں یہ بھی آیا اور وہ بھی آیا۔ قرآن کے الفاظ کو بھی توڑ مروڑ دیا گیا جیسا کہ سورہ البقرہ میں آیاالم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِيناِس کو پڑھ کر یہ ہی لگتا ہے کہ ”یہ کتاب “کی بات کی جا رہی ہے جبکہ یہ تو تین حروف ہیں کتاب تو نہیں ہے،کتاب کے اصل معنی ہیں تحریر۔اس طرح کی بے شمار گڑ بڑ کی گئی ہیں۔

دلیل:

حضور ؐکے دور میں تو قرآن کتابی صورت میں تھا ہی نہیں،تو حضور نے کیسے کہہ دیا کہ قرآن کو بنا وضو کے ہاتھ نہیں لگائیں؟اس پر تو سب ہی کا اتفاق ہے کے قرآن کو عمر اور ابو بکر نے ترتیب دیا اس کی وجہ حافظوں کا شہید ہونا نہیں تھا نہ ہی حضور نے اِس کی دعا کی تھی، جنگ بدر کے معرکہ کے وقت تین سو تیرہ صحابہ تھے تو حضور نے اُن کی سلامتی کی دعا کی۔اصل بات یہ تھی کہ حضور کو یہ خوف لاحق تھا کہ جن صحابہ کو اسم ذات اللہ عطا ہوا تھا اگر وہ مارے جائیں گے تو اسم ذات اللہ آگے کیسے پہنچے گا۔
یہ حدیثوں کا دور نہیں ہے کیونکہ حدیثوں کی کوئی سند نہیں ہے۔کہتے ہیں بخاری شریف احادیث نبوی کی سب سے زیادہ مستند کتاب ہے لیکن بعد میں اُس میں بگاڑ ہوا تو اب اِس بگاڑ کو ٹھیک کرنے کے بعداس کو صحیح بخاری کہتے ہیں۔جب اتنی مستند میں بھی بگاڑ ہو گیا تو باقی کیارہ گیا۔احمدی بھی اسی طرح ثابت کرتے ہیں کہ نبی اسرائیل کے لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبریں بنا کر ان کی پرستش کی تم ایسا نہ کرنا ، یہاں سے وہ عیسیٰ علیہ السلام کا فوت ہونا ثابت کرتے ہیں۔ہماری نظر میں یہ جاہلانہ بات ہے۔قرآن کے معنوں کو توڑ مروڑ کراپنے مطلب کے معنی سب نے بنا رکھے ہیں۔ہر زبان میں ایک لفظ کےکئی معنی ہو تے ہیں،ایسا ہے ہی نہیں ایک بات کا ایک ہی مطلب ہو، قرآن کا مفہوم لغت میں دیکھ کر کبھی سمجھا نہیں جا سکتا کیونکہ اس میں سریانی زبان کے بھی الفاظ شامل ہیں جس زبان میں اللہ فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر”روکو مت، جانے دو“۔اس کو اگر اس طرح کہیں ”روکو! مت جانے دو“۔الفاظ ایک سے ہیں لہجے کی ادائیگی سے ایک ہی قسم کے الفاظ سےدوالگ الگ مطلب نکل رہے ہیں۔ایک مرتبہ کسی نےسیدنا گوھر شاہی سے پوچھا کہ آپ نے قرآن کے ترجمہ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے میں قرآن کا مترجم ہوں ایک ولی کی نظر میں قرآن کا ترجمہ کیسے ہونا چاہیے؟ سیدنا گوھرشاہی نے اس کو فرمایاقرآن کا لفظی ترجمہ کرو آپ نے تھوڑی بہت عربی اگر پڑھی ہوئی ہے تو آپ دیکھ لیں قرآن میں تین لفظ لکھے ہوں گے اور ترجمہ میں دس معنی لکھے ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی بریکیٹ میں الگ سے لکھا ہو گا اس سے مراد یہ ہے۔کیا یہ مراد خواب میں آپ کو بتائی گئی تھی؟جیسا کہ اگر لکھا ہو گا کہ جو لوگ حضور کی گستاخی کرتے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے تو بریکیٹ میں لکھا ہوگااس سے مُرادیہودی ہیں جبکہ اس آیت میں یہودی کا نام و نشان نہیں مگر لوگوں نے تو ترجمہ میں یہودی لکھ دیا۔قرآن میں یہ بھی لکھا ہے

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سورة البقرةآیت نمبر 62

کہ اگر یہ تین چیزیں، اللہ پر ایمان،یوم آخرت پر ایمان،عمل صالح،کسی میں پائی جائیں تو وہ مومن ہے۔خواہ وہ صابی ہو،یہودی ہو، مجوسی ہو، عیسائی ہو یا مسلمان اللہ نے اس کو مومن کا مقام دیا ہے۔اور اس کے لیے کہاوَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُون اورانکو کوئی خوف یا ملال نہیں ہو گا۔یہی چیز امام مہدی علیہ السلام کی پالیسی ہے اور یہی آپ کی تبلیغ و تعلیم ہے۔اب وہ کوئی بھی ہو عیسائی،مجوسی،ہندو آپ اُس کے دل میں رب کا اسم داخل فرما کر قلب میں ایمان اُتار رہے ہیں اور جب کسی کا قلب جاری ہو جاتا ہے تو پھر اس کے ہر عمل میں قلب بھی شامل ہے جس عمل میں قلب شامل ہواُسی عمل کو” عمل صالح“ کہتے ہیں۔سیدنا گوھر شاہی نےاپنی تصنیف لطیف” دین الہی“ میں لکھاہے کہ”اسم ذات اگر تیرے قلب سے ہوتا ہوا تیری روح میں داخل ہو گیا اور تیری روح اس نام کی ذاکر بن گئی تو تیرا شمار اسی میں ہے“ جس کے لیے اللہ نے فرمایاوَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوناس کو کوئی خوف کوئی غم نہیں ہو گا۔یہ باتیں قرآن ہی سے ہیں لیکن اگر کسی مسلمان کو کہہ دیں تو وہ اُن کو نہیں مانے گا،کہیں گے اس سے مراد یہ نہیں ہے۔
جیسا کہ مسلمانوں کو پتا ہی نہیں ”صابین“ کن کو کہتے ہیں،صابین ستاروں کی پوجا کرنے والوں کو کہتے ہیں۔اب ستارہ اللہ تو نہیں ہو سکتا تو پھر وہ کیا تھا جس کی صابین پوجا کرتے تھے؟آپ کی نظر میں اللہ کے علاوہ کسی کو پوجنے والے مشرک ہیں جبکہ یونان میں کچھ لوگ سورج کی پوچا کرتے ہیں اور ہندو مت کے کچھ لوگ چاند کی پوجا کرتے ہیں۔ہندوستان میں سومناتھ کا مندر بھی ہے سوم کا مطلب چاند اور ناتھ کا مطلب خدا،سومناتھ کا مطلب ”چاند والا خدا“ تو یہ لوگ چاند کے پجاری کہلاتے ہیں۔تم ان کو مشرک سمجھتے ہو،جبکہ اللہ نے ستاروں کی پوجا کرنے والوں کو قرآن میں جگہ دی ہے اور کہا ہے اگر یہ تین باتیں جس میں بھی ہیں تو وہ مومن ہیں۔کچھ ہستیاں دنیا میں ایسی آئیں جن میں طفل نوری تھا۔طفل نوری کی باطنی صورت چاند کی طرح ہے۔ طفل نوری چاند کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو باطن میں اس کے لیے لازمی ہے ساتھ کوئی ستارہ بھی ہو۔جیسا کے حضور پاک کے باطنی چاند کے لیے بی بی فاطمہ کا ستارہ تھا،غوث پاک کے لئے، پیر عبد الرزاق کا باطنی ستارہ تھا،اسی طرح امام مہدی کے ساتھ بھی ایک ستارہ ہے جس کے لیے کہا گیا کہ ایک مدد گار ہاتھ نمودار ہو گا۔یعنی وہ امام مہدی کا ستارہ ہوگا۔وہ باطنی ستارے جن ہستیوں میں آ گئے پھر ان ہستیوں کی جنہوں نے پوجا شروع کر دی وہ صابی کہلائے،یہ ستارے نہیں جو آسمان پر چمک رہے ہیں،یہ اُن باطنی ستاروں کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں میں موجود تھے۔حضور پاک نےبھی فرمایاتھا ”میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں“۔ امام مہدی علیہ السلام کے لیے حضور پاک نے فرمایا ایک دم دار ستارہ نمودار ہوگا جو پہلے کبھی نہیں آیا۔آج بھی اگر صابیوں کی نسل سے کوئی ہے تو وہ امام مہدی کے فیض کا مستحق ہو سکتا ہے۔

متعلقہ پوسٹس