کیٹیگری: مضامین

موسیقی کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟

داتا علی ہجویری صاحب کی کتاب کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ موسیقی نہ تو حلال ہے اور نہ حرام ہے جو موسیقی اللہ کے قریب کر دے وہ حلال ہے اور جو اللہ سے دور کرے وہ موسیقی حرام ہے۔موسیقی کے موضوع پر تاریخ کے مختلف ادوار سے ہوتے ہوئے زمانہ جدید تک آتے ہیں کہ موسیقی کو بہت سے لوگوں نے غلط کیوں سمجھا ہے اور کچھ احادیث میں موسیقی کے بارے میں ممانعت کا ذکر کیوں آیا ہے؟ مثال کے طور پر اگر پوچھا جائے کہ کھانا کھانا حرام ہے یا حلال؟ جواب ہوگا بیشک حلال ہے لیکن اگر آپ سب کے سامنے اپنی بیوی کے ساتھ برہنہ حالت میں کھائیں گے تو حرام ہے ۔اسی طرح کار چلانا حرام ہے یا حلال، لوگ کہیں گے کار چلانے میں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔اس آسان سے کلیہ سے بات مزید واضح ہو جائے گی

“اگر کسی کام میں حرام استعمال ہو تو اس حرام کی وجہ سے باقی کام بھی حرام ہو جائے گا”

حضور نبی کریم کے دور میں موسیقی کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے کوئی پیغام نہیں تھا ، حضور نبی کریم کے دور میں عرب قوم کی یہ روایات تھیں کہ یہ قوم ناچ گانے کی رسیا تھی اور آج بھی اگر آپ دیکھیں تو بیلی ڈانس بھی انہوں نے ہی متعارف کروایا ہے۔ رقص مشرقی طرب مغربی جیسی جدتیں ہوئی ہیں ۔

موسیقی کس صورت حال میں حرام ہے:

اگر دوران موسیقی کوئی خاتون برہنہ حالت میں ناچ رہی ہو اور ساتھ ایسا کلام گا رہی ہوجس سے لوگوں کے جذبات بھڑکیں ، جس سے شہوت کو فروغ ملتا ہو، اور انسان کے میلان میں ہوس و شہوت حملہ آور ہورہی ہو تو ایسی صورت میں وہ کلام ، وہ موسیقی ، وہ شاعری اور وہ تمام محفل حرام ہی حرام ہےکیونکہ اس موسیقی کو حرام بنایا ہے، اس کے ساتھ ناچنے والی بےحیائی اور ایسے بے حیاء کلام نے جس سے شہوت میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر اس محفل سے ناچنے والی عورتوں کو نکال دیا جائے اس کلام کو بھی نکال دیا جائے جو لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر ان کی شہوت و ہوس میں اضافہ کر رہا ہے اور صرف موسیقی رہ جائے تو پھر کیا حرام رہ گیا!!لیکن براہ راست قرآن مجید میں موسیقی کے بارے میں کوئی ممانعت موجود نہیں ہے۔

کس قسم کی شاعری حرام ہے؟

جیسا کہ ہم نے بتایا کہ حضور کے دور میں موسیقی کو حرام کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ، عورتوں کو نچانے ، شرابیں پینے کے علاوہ عرب قوم نہ صرف عورتوں کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتی تھی بلکہ ان کے شاعر اپنے قبیلے کے سرداروں کی شان میں بھی ایسا اعلی سے اعلی کلام لکھتے تھے کہ جس سے محسوس ہو کہ کسی نبی کا ذکر ہو رہا ہو یا پھر خدا کا ذکر ہو رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی شاعری کو بھی حرام کہا گیا ہے کہ جس میں انسان کی بے جا تعریف کی جا رہی ہو، یا پھر ایسا کلام بھی حرام ہے جس میں غیر اللہ کا ذکر ہو یا پھر شہوت کو فروغ ہو ۔

“صنف شاعری بذات خود حرام نہیں اگر صنف شاعری حرام ہوتی تو اللہ کا کلام قرآن شاعرانہ صورت میں نازل نہ ہوتا”

آپ قرآن مجید کی اس سورة کو پڑھیں اس میں آپ کوایسا ترنم محسوس ہو گا جیسے کے ردیف قافیہ کے ساتھ کوئی مصرع کہا جا رہا ہے۔قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ اللَّـهُ الصَّمَدُوَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔۔۔۔۔یہ اگر شاعری نہیں تو پھر کیا ہے؟ اُس دور کے عرب شعراء کو عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور اپنے کلام پر بڑا ناز تھا اللہ تعالی نے ان کی فصاحت و بلاغت کے غرور اور فنِ شاعری کو شکست دینے کے لیے قرآن مجید میں بلا کی فصاحت و بلاغت کا اضافہ فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کو منظوم طریقے پر نازل فرمایا۔ اُس وقت کے کافر یہ دیکھ کر بڑے پریشان ہوئے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہو سکتا اور وہ اللہ کے بھی منکر تھے اس لیے انہوں نے اس کلام کے بارے میں کہا یہ کسی جن کا کام ہے جو بولتا ہے۔ایسا کلام جس میں مولیٰ علی کی تعریف بیان کی جا رہی ہو ، نبی کریم کے شہزادوں کا ذکر ہو ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی فاطمہ الزہرہ کا ذکر ہو ، مولا حسن و حسین کا ذکر ہو ، غوث اعظم کا ذکر ہو ، بابا فرید ، قلندر پاک، اولیاء ، صالحین ،شہداء کا ذکر ہو کہ جن کا ذکر سن کر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے، ایسی شاعری یاایسا کلام سننا تو باعث سعادت قلبی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ

عند ذكر الصالحين تنزل الرحمة
ترجمہ: جہاں صالحین کا ذکر ہوتا ہے وہاں رحمت برستی ہے۔
في تخريج أحاديث الإحياء (1/ 145 رقم: 2109)

اللہ اور رسول کے نام کے ساتھ موسیقی کب جڑی؟

صوفیاء کرام نے موسیقی کو دین کے فروغ کے لیےاستعمال بھی کیا اور بہت سے آلات موسیقی بھی ایجاد کیے ۔جیسا کہ امیر خسرو نے بنایا، شاہ عبد الطیف بھٹائی نے بھی آلہ موسیقی بنایا۔ جس صنف موسیقی و شاعری کو آج ہم قوالی کا نام دیتے ہیں پرانے وقتوں میں یہ کلام “قول علی “کے نام سے بیان کیا جاتا تھا ۔آج وہ “قول علی “بدل کر قوالی ہو گیا ہے۔ہندو قوم موسیقی کی بڑی دلدادہ تھی ،موسیقی کا شغف رکھنے والا ہر شخص تان سین کا نام جانتا اور آج بھی آپ دیکھ لیں ان کی فلم انڈسٹری میں بہترین گانے والےفنکار موجود ہیں ،لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، کشور کمار، طلعت محمود ، محمد رفیع وغیرہ ان کا فن ان کی کلا اپنی انتہا کو پہنچا۔اس قوم میں موسیقی کا شوق ہے ایک بزرگ معین الدین چشتی جن کا اجمیر شریف میں مزار ہے انہوں نے ہندوئوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے موسیقی کے ساتھ ذکر اللہ اور نعتیں شروع کیں ،اُن کی نیت یہ تھی کہ ایک چیز ان کی من پسند لگا کر اس میں اللہ کا نام شامل کر دو جس سے وہ اس طرف راغب ہوں۔اگر شریعت کی رو سے اس کا موازنہ کریں تو یہ عمل بدعتِ حسنہ کہلائے گا ۔ بدعت ِحسنہ یہ ہے کہ وہ چیز پہلے نہیں تھی لیکن بعد میں کسی صوفی نے شروع کی اور یہ بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے اچھی اس لیے ہوئی کہ اگر وہ یہ طریقہ استعمال نہ کرتے تو اُن کے دور میں نوے لاکھ ہندو مسلمان نہ ہوتے۔وہ پالیسی جس کے ذریعے نوے لاکھ ہندوئوں نے اسلام اختیار کر لیا یہ بدعت بُری کیسے ہو سکتی ہے۔اگر یہ قوالیاں سن کر ان کے نفس پر ہوس اور شہوت کے حملے ہوتے تو کیا وہ ہندو ازم چھوڑ کر اسلام کی طرف راغب ہو جاتے!! تو یہ بدعت حسنہ ہے۔دین میں بہت ساری بدعات موجود ہیں جن کی وجہ سے دین میں اچھائی آئی ہے لہذا اُن کو تسلیم کر لیا گیا جیسا کے لائوڈ اسپیکر کا معاملہ ہے، ایک بہت لمبے عرصہ تک یہ بات چلی تھی کہ لائوڈ اسپیکر پر اذان دینا جائز نہیں ، اب یہ آپ ہی کی آواز ہے اگر بجلی کی مدد سے آگے جا رہی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟اب یہ وہی بات ہے جو علامہ اقبال نے فرمائی کہ
دین کافر فکر و تدبیر جهاد۔۔۔۔دین ملا فی سبیل الله فساد
تو بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر پہلے عمل نہیں کیا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ چیزیں عمل میں آتی چلی گئیں اور جن کی وجہ سے کسی کا ایمان بگڑا نہیں سدھر گیا تو وہ چیزیں بدعت ِحسنہ کہلاتی ہیں ۔کشف المحجوب میں داتا صاحب نے موسیقی کے باب کے علاوہ ایک باب اور بھی قائم کیا ہے جس کا نام ہے “سماع”۔

سماع کسے کہتے ہیں؟

قوالی کا جو اصل لفظ ہے وہ سماع ہے اور سماع سے مُراد سننا ہے، قوالیوں میں آلات موسیقی کے ساتھ جو ذکر الہی اور ذکر رسول کیا جاتا ہے وہ بھی سماع میں شامل ہے اور سماع میں خوبصورت آواز کے ساتھ تلاوت قرآن بھی شامل ہے ، سماع میں خوبصورت آواز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت خوانی بھی شامل ہے۔راہ سلوک میں مدارج ِروحانی طے کرنے والے سالک کو ابتداء میں سماع سے احتیاط برتنے کو کہا گیا ہے کیونکہ سماع سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو وقتی ہوتی ہے دائمی نہیں ہوتی جس سے صوفی کو دھوکہ ہو سکتا ہے۔ پہلے زمانوں میں لوگ رات رات بھر قوالیوں کی محفل میں بیٹھتے تھے اور دوران قوالی لوگوں کو حال آ جایا کرتے تھے ۔ حال کیوں وارد ہوتا ہے؟ قوالی میں اللہ ،رسول یا مولی علی کے ناموں کا مستقل ذکر ہوتا ہے ان پاکیزہ ناموں کی تکرار سے نور بنتا ہے اور وہ نور جب سننے والے لوگوں پر گرتا ہے تو چونکہ ان کے سینے منور نہیں ہوتے تو ان کے جسم بے قابو ہو جاتے ہیں اور یہ کیفیت وقتی ہوتی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ حال نماز میں یا تلاوت قرآن میں آپ پر وارد کیوں نہیں ہوتا؟ اسی لیے صوفی کو ابتدائی مدارج روحانی میں سماع سے اجتناب برتنے کو کہا جاتا ہے اور اگر بطور صوفی دوران ِسماع آپ پرحال وارد ہو تو وہ عارضی ہو گا اس کو دائمی نہ سمجھا جائے۔
وقت کے ساتھ ساتھ صنف قوالی میں مزید جدت آتی گئی اور قوالی کے مشرقی رنگ میں مغربی سازوں کو بھی شامل کیا جانے لگا اور سب سے پہلے نصرت فتح علی خان صاحب نے یہ کام کیا انہوں نے انڈین طرز قوالی کو مغربی آمیزش کے ساتھ ایسا رچایا جس سے پوری دنیا میں قوالی کی شہرت بلندیوں پر پہنچ گئی۔ لندن کے البرٹ حال میں ان کی قوالی سننے کے لیے پورا حال بھرا ہوتا ۔ان کی قوالیوں میں ہزاروں غیر مسلم افراد نے صوفی اسلام قبول کیا۔ اسی طرح غلام فرید صابری صاحب کا صوفیانہ کلام سن سن کر بھی بہت لوگ اسلام کی طرف راغب ہوئے ۔قوالی میں کوئی تو رنگ ہوگا کہ نہ تو گوروں کو کلام سمجھ آ رہا کیونکہ صوفیانہ کلام میں تو کہا جاتا ہے(علی دا ملنگ ) بس اسی تکرار کو سنتے سنتے اُس کا دل پگھل گیا ، اسلام کی کوئی بات سمجھائی نہیں جا رہی لیکن اس نام سے بننے والا نور ان کے دلوں کو متاثر کرتا ہے ۔

موسیقی کا لطیفہ نفس سے ربط:

موسیقی سے انسان کے نفس کا براہ راست تعلق ہے، ہمارے جسم میں سات لطائف ہیں جن کے نام یہ ہیں ۔لطیفہ روح،لطیفہ سری،لطیفہ اخفی،لطیفہ خفی،لطیفہ قلب،لطیفہ انا اورلطیفہ نفس۔ان ساتوں میں سے صرف ایک لطیفہ ایسا ہے جس کو موسیقی پسند ہے ساز و آواز اس کی غذا ہے ۔جب اچھی آواز ،مترنم آواز ، سر تال والی آواز نفس سنتا ہے تو نفس کھنچتا ہے ،موسیقی کی محفل دراصل نفس کی دعوت ہے نفس خود بخود اس طرف کھنچا چلا جاتا ہے ، آپ نے دیکھا ہو گا کہ موسیقی بج رہی ہو تو ہندو ہو یا انگریز یا مسلمان سب اس طرف متوجہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ہر ایک کے اندر لطیفہ نفس موجود ہے اور موسیقی نفس کے لیے ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ نفس کو موسیقی پسند ہے تو اگر اس موسیقی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کا ذکر بھی لگا دیں تو ایک غلط کام جو کہ نفس کو پسند ہے اس کے ذریعے لوگوں کو رب کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔جو لوگ موسیقی کو حرام کہتے ہیں وہ تاریخ سے واقف نہیں ہیں ،دین سے واقف نہیں ہے ،لہذا دماغ استعمال نہیں کرتے بس منہ کھولتے ہیں اور جھٹ سے حرام قرار دے دیتے ہیں ۔

اللہ نے جب آدم صفی اللہ کے جسم میں روح ڈالی تو اس نے جسم سرائیت کرتے ہی” یا اللہ” کا ذکر کیا اور اس ذکر سے جو ساز بنا وہ ذکر الہی کہلایا

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 11 جنوری 2018 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس