- 689وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
اصل قرآن مجید محمدکے قلب پروحی کی صورت میں نازل کیا گیا:
سب سے پہلے تو آپ یہ جان لیں کہ جو بھی آسمانی کتاب آئی ہے وہ کتاب کی شکل میں نہیں بلکہ وحی کی شکل میں آئی ہے اور متعلقہ مرسل کے قلب پر نازل ہوئی ہے لہٰذا آسمانی کتب اور وحی الٰہی کاوصول کنندہ اُس مرسل کا دل ہے اور وہیں پر وہ آسمانی کتاب محفوظ ہے۔کوئی بھی کتاب چاہے وہ قرآن ہو بائبل ہو یا توریت عام کاغذ پر کتاب کی شکل میں لوگوں کے پاس نہیں لائی گئی بلکہ باطنی طور پر اللہ کے متعلقہ پیغمبر کے قلب اُتری ہے اورجو کچھ قلب میں ہوتا ہے اُس تک کسی کی بھی رسائی نہیں ہوتی۔ تو چونکہ اُس تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی اس لئے اُس میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اسی طرح قرآن جو اصل شکل میں اُترا ہے وہ حضورؐ کے قلب میں محفوظ ہے اور اُس تک کسی کی رسائی نہیں۔ تاہم جب اسے عام آدمی کے پڑھنے کے لئے تحریری شکل میں لایا گیا تو اُس کی رسائی اُس تک ہوگئی جب اُس تک رسائی ہوگئی تو آپ کوئی بھی تبدیلی کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بائبل کے پچاس ہزار سے زائد مختلف مسودے اس وقت موجود ہیں۔ لیکن اسلام اور عیسائیت میں کئی صوفیا ء کرام ہیں جو قرآن اور بائبل کو اپنے قلب میں محفوظ رکھنے کے دعویدار ہیں لیکن اللہ کاکوئی ایک بھی ولی ایسا نہیں ہے جس نے کہا ہو کہ میرے دل میں قرآن ہے آؤ اس کا موازنہ اس پرنٹ شدہ قرآن کے ساتھ کرو۔قرآن حضورﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا تو حضور ﷺ کی ذات کا حصّہ بن گیا۔ اب قرآن کو اور حضوؐر کو جُدا نہیں کیا جاسکتا ۔ جب آپ کہتے ہیں ’’محمد‘‘ تو اس کا مطلب قرآن بھی ہے اور جب آپ کہتے ہیں ’’قرآن‘‘ تو یہ حضور پاکﷺ کی ظاہری شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔علامہ اقبال کے اس شعر کا بھی یہی مطلب ہے کہ ” لوح بھی تُو قلم بھی تُوتیرا وجود الکتاب ”
جو قرآن سینہ محمد میں ہے اسی کی حفاظت کاوعدہ اللہ نے فرمایا ہے:
جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ ہم نے ہی اِس کو نازل کیا اور ہم ہی اِس کے محافظ ہیں تو وہ اس قرآن کے لئے نہیں فرمایا تھا جو آج کتابی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے اور جس کی کاپیاں آپ روزانہ شائع کر رہے ہیں ۔ قرآن کی ایک لاکھ کاپیاں اٹلی میں چھپ گئی دو لاکھ امریکہ میں چھپ گئیں تین لاکھ آسٹریلیا میں اور آپ خودبخود سمجھنا شروع ہوجائیں کہ ہر قرآن کی کاپی کی حفاظت اللہ کر رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے صرف اُس اصل قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے جو حضورﷺکے قلب میں ہے اور یہ قرآن جو آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ تو حضوؐرپاک کے پلان میں بھی نہیں تھا ۔ اس کے لئے تو حضور ﷺ نے فرمایا ہی نہیں تھا کہ اِس کو کتاب کی شکل دے دو۔ یہ تو ابو بکر صدیقؓ اور عمر بن خطاب کا مشورہ تھا کہ اس کو کتابی صورت میں لے کے آؤ؛ تو جس کا اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے حکم نہیں دیا اللہ اُس کی حفاظت کیوں فرمانے لگا ! اُس کے بعد پھر نئی نئی کہانیاں کہ اس کو بغیر وضو ہاتھ نہ لگاؤ ۔ جس دَور میں حضورؐ نے حدیثیں فرمائیں ہیں اُس دَور میں یہ قرآن تھا ہی نہیں تو ’’اِس کو وضو کرکے ہاتھ لگاؤ ‘‘والی یہ حدیث کہاں سے آئی ہے؟ مولوی آپ کو ہزاروں حدیثیں نکال دینگے کہ قرآن کو بغیر وضو کے چھوؤ مت! اب قرآن مجید میں جو بات آئی ہے وہ کچھ اور ہے ۔قرآن مجید نے کہا ہے کہ
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
سورة الواقعہ آیت نمبر 77 تا 79
تیری رسائی اُس قرآن تک جو حضور پاک ﷺ کے سینے میں ہے تب تک نہیں ہوگی جب تک تُو پاک نہ ہوجائے ۔ ناپاک لوگوں کی رسائی اُس قرآن تک نہیں ہو سکتی کیونکہ اُس دَور میں یہ کتابی شکل والا قرآن تھا ہی نہیں۔ اِس آیت کا معنی اور مفہوم جو کہ باطنی قرآن کی طرف تھا مولویوں نے ظاہری قرآن کی طرف ڈھالا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ آیت اُتری کیا اُس وقت قرآن اِس شکل میں تھا جو یہ آیت اُس کے لئے ہوتی؟ تویہ مولویوں کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں۔ آپ کا آدھے سے زیادہ دین مولویوں نے بنایا ہے اللہ نے نہیں بھیجا۔ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ اِس کو مَس نہیں کر سکتے سوائے پاکیزہ لوگوں کے۔ سلطان صاحب نے فرمایا کہ میں کسی مدرسے میں نہیں گیا میں نے قرآن کا ایک لفظ الف لے لیا الف سے اللہ اللہ کرنا شروع ہوگیا ۔ اللہ اللہ کرنے سے میرا سینہ پاک و صاف ہوگیا جب میرا سینہ اور دل پاک ہوگیا تو حضور پاک ﷺنے سینے سے سینہ لگایا سارا قرآن خودبخود اِدھر آگیا ۔ یہ ہے قرآن کا مَس ہونا۔ ناپاک ہوگا تو وہ مَس نہیں ہوگا۔ تو پرنٹڈ فارم میں جو آپ کے ہاتھوں میں کتابیں آئی ہیں اُن میں جتنا چاہے رد و بدل کردو!
موجودہ قرآن میں منسوخ شدہ آیات کی شمولیت:
جب اِس قرآن کو ترتیب دیا گیا تو جو آیتیں منسوخ شدہ تھیں وہ بھی اِس میں آگئیں اور وہی آج تمہارے لئے فتنہ فساد بن رہی ہیں ۔ ہے کوئی عالم ایسا جو یہ بتائے کہ قرآن کی جو آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں وہ کہاں ہیں؟ کچھ آیتیں جیسے جنگ ہورہی ہے اُس وقت کے لئے تھیں جنگ ختم ہوگئی تو وہ آیتیں بھی ختم بالکل ایسے جیسے ایک مہنگے والے برتن ہوتے ہیں جو آپ گھر میں لا کے رکھتے ہیں۔ کھانا کھا تے ہیں پھر صاف کرکے رکھ دیتے ہیں دوسرے برتن ایک دفعہ کے استعمال کیلئے یعنی ڈسپوزایبل۔ اسی طرح کچھ آیتیں اُس وقت کے لئے تھیں جیسے فرض کیا اللہ کی طرف سے پیغام آیا کہ یا رسول اللہ ! پہاڑ کے پیچھے دشمن ہے ۔ اب یہ آیت اُس وقت کے لئے آئی تھی آج کے دَور میں بھی اگر آپ وہ آیت پڑھیں گے اور آپ سمجھیں گے پہاڑ کے پیچھے دشمن کھڑا ہے اور آپ پہاڑ کے پیچھے جائیں گے اور دشمن نہیں ہوگا ۔ پھر کہیں گے کہ قرآن نے تو کہا تھا کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن ہے۔ پہاڑ کے پیچھے تو دشمن ہے نہیں ، کیوں نہیں ہے پہاڑ کے پیچھے دشمن ، کیونکہ یہ آپ کے لئے تو کہا ہی نہیں۔ یہ تو اُس وقت کے لئے حضور پاکﷺ سے کہا تھا ۔آج آپ نے نئی نئی کہانیاں بنا لی ہیں کافروں کو پکڑ کے مار دو ، جس کا اسلام سے تعلق نہیں اُس کو مار دو، اُن کے دلوں میں خوف طاری کرو ۔ یہ حالتِ جنگ کی بات ہے ۔ ISISنے یہیں سے لیا کہ خوف طاری کردو! لیکن یہ تو مقامِ جنگ کی بات ہے۔ اگر یہ معمول کی بات ہوتی تو پھر حضور پاکﷺ تبلیغ نہ کرتے خوف میں مبتلا کرکر کے کافروں کو مارتے ‘کسی کو مسلمان ہی نہ بناتے ۔اگر کافروں کو مارنے کا حکم ہے تو پھر آپ تبلیغ کیوں کر رہے ہیں کلمہ کیوں پڑھا رہے ہیں؟ صرف ماریں ۔ یہ فتنہ اور فساد ہے جو مولویوں نے پیدا کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں وہ بھی قرآن میں موجود ہیں۔ یہ گمراہی ہے جو ظلم سے بھی بڑھ کر ہے۔
اب جب وہ آیتیں سمجھ میں نہیں آئیں تو پھر آپ کے اکابرین نے کیا کیا ؟ اِس ملک پر حملہ کیا ‘اُس ملک پر حملہ کیا۔ کلمہ پڑھو ! نہیں پڑھتے ہو تو پھر جنگ کرو!حضورؐ پاک نے تو ایسا نہیں کیا تھا آپ نے کیوں کیا؟ فرض کیا ہم مسلمان ہیں اور عیسائی بندوقیں لے کے کہتے ہیں کہ عیسائی ہوجاؤ ورنہ مار دینگے تو ہم کہیں گے کتنا بڑا ظلم ہے؟ لیکن یہ ظلم آپ نے بھی تو کیا ہے ۔ آپ کے اکابرین نے بھی تو کیا ہے۔ محمود غزنوی نے سومنات کے مندر کے اندر سونے کی مورتی کے لئے سترہ دفعہ حملہ کیا ۔ مسلمانوں نے اُس کو اپنا ہیرو بنا لیا۔ سلام ہے آپ کی جہالت کو۔ کیا اُس نے سومنات کے مندر پر سترہ حملے اسلام کیلئے کئے تھے؟ وہ تو سونا چرانے کیلئے کئے تھے۔ بہت بڑے بڑے چور اور ڈاکو آپ کے ہیرو بنے ہوئے ہیں شیر شاہ سُوری ، کیا کارنامہ کیا ہے انہوں نے؟ تاریخ پڑھیں ۔ بس اسلامی سلطنت پھیلاتے رہو ۔ کیسے ؟ کہ لشکر لے گئے ، اسلام قبول کرو یا جنگ کرو!
تاریخ میں لکھا ہوا ہے کہ اسلام کو تلوار کے سائے میں پھیلایا گیا ہے ۔ جو اسلام تلوار کے سائے میں پھیلا ہے وہ کب کا ختم ہوچکااور جو اسلام صوفیاء نے محبت کے ذریعے پھیلایا وہ آج تک زندہ ہے
کیونکہ انہوں نے کسی پر ظلم نہیں کیا، زیادتی نہیں کی‘ کسی پر زبردستی نہیں کی۔ اللہ سے جڑنا ہے، ہندو ہے تو ہندو سہی، اللہ سے جوڑ دو۔ بھئی دین بڑا ہے یا رب بڑا ہے۔ لیکن یہ کہانی آج کے مسلمان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
حاصل کلام:
تم اُس وقت تک بھٹکتے رہو گے جب تک تم دین کورب سے بڑا سمجھتے رہو گے۔ دین منزل نہیں ہے رب منزل ہے۔جب تمہارا ہندو دھرم بھگوان سے بڑا ہوگیا تو تم گمراہ ہوگئے ۔ جب تمہاری عیسائیت خدا سے بڑی ہوگئی تم تباہ ہوگئے اور جب تمہارا اسلام اللہ سے بڑا ہوگیا اسلام ختم ہوگیا۔ نہ عیسائیت منزل ہے ، نہ ہندو دھرم منزل ہے نہ اسلام منزل ہے ۔ یہ تمام ادیان خدا تک پہنچے کے لئے راستے ہیں منزل نہیں ہیں ‘منزل اللہ ہے ۔ اصل منزل کو چھوڑ کے آپ راستے کو اپنی منزل بنا لیں تو پھر آپ گدھے ہیں۔ انجمن سرفروشانِ اسلام والے جو خود کو سرکار گوھر شاہی کا پیروکار کہتے ہیں ‘ کہتے ہیں رب اگر اسلام سے باہر ملے تو حرام ہے۔ ۔ سرکار گوھر شاہی تو سارے ادیان کے لئے آئے ہیں۔ سرکار گوھر شاہی کسی ایک دین کے لئے نہیں آئے ۔ سرکار گوھر شاہی تو اللہ کی محبت اور عشق کو لے کر آئے ہیں۔ سرکار گوھر شاہی منزل دے رہے ہیں راستہ نہیں۔ راستہ کیا ہے گوھر شاہی ۔ اور جن کو اُن سے عشق ہوجائے تو اُن کا راستہ ہی اُن کی منزل ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 12 اکتوبر 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔