کیٹیگری: مضامین

دعائے مغفرت کیلئے ہاتھ اُٹھانا:

دعائے مغفرت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ہے معاف کرنا۔ آپ اللہ کو کہہ رہے ہیں کہ معاف کردو تو معاف اللہ نے کرنا ہے۔ آپ کو اگر پتہ ہے کہ یہ بندہ کافر ہے تو اللہ کو بھی پتہ ہوگا۔ اللہ کا موڈ ہوا تو معاف نہیں کرے گا۔ اور ہوسکتا ہے جس کو آپ کافر سمجھ رہے ہیں وہ کافر نہ ہوں اور آپ دعا نہ کریں تو پھر اللہ کو تو شکایت ہوگی کہ میرے پیارے بندے کیلئے اِس نے ہاتھ نہیں اُٹھائے لہٰذا ہمارے پاس محفوظ ترین طریقہ یہ ہے کہ جو بھی اِس دنیا سے رخصت ہو اور ہمارے پاس ثبوت نہ ہو کہ یہ اللہ کو ماننے والا نہیں تھا یا تھا، اگر اُس کے کفر کا ثبوت نہیں ہے تو یا تو ہم اپنا دین و ایمان چھوڑ کر اُس کی تحقیق میں لگ جائیں ساری زندگی اُس کی کھنگالیں تو ہمارے پاس اِتنا فالتو وقت تو نہیں ہے تو اللہ تعالی کو دُعا بھیج دیتے ہیں کہ اے اللہ! اِس کی مغفرت فرمادے تو اللہ خود ہی فلٹر کرلے گا۔ اب جو غلط بات ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش کے مسلمان کررہے ہیں وہ غلط بات یہ ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم ہے تو اُس کو کافر سمجھتے ہیں۔ غیرمسلم ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ وہ کافر ہی ہوگا کیونکہ

کافر تو اُس کو کہتے ہیں کہ جو رب کو جھٹلاتا ہو

دنیا میں اور بھی تو مذاہب ہیں جو رب کو مانتے ہیں۔ یہ ہندوستان پنجاب میں جو ہمارے سکھ بھائیوں کا گولڈن ٹیمپل ہے تو وہاں گولڈن ٹیمپل میں اُنہوں نے سورة اخلاص لکھی ہوئی ہے۔ اگر اُنہوں نے گولڈن ٹیمپل میں سورة اخلاص لکھی ہوئی ہے تو پھر آپ اُن کو کافر کیسے کہہ سکتے ہیں! ہم تو ہاتھ اُٹھاتے ہیں کہ اے اللہ اُس کی مغفرت فرما دے۔ اب آگے اللہ کی مرضی ہے ہم تو دعا کررہے ہیں۔ ویسے بھی اللہ کونسا ہماری ساری دعائیں قبول کرتا ہے۔ جب آپ کسی کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں اُس کیلئے نرمی ہے۔ وہ بندہ اچھا ہوگا تبھی آپ کے دل میں یہ خواہش ہے کہ اُس کیلئے ہاتھ اُٹھائیں۔ اگر کوئی بُرا ہوگا تو آپ کا دل ہی نہیں چاہے گا۔ ہم تو دعا کرتے ہیں ہم نے تو رشی کپور کے مرنے پر بھی کی تھی کہ اے اللہ اُس کی بخشش فرما دیں۔ جب انیل کپور مرجائے گا تو ہم اُس کیلئے بھی دعا کریں گے کہ اے اللہ تعالی اِس کو جنت میں جگہ عطا فرما۔ اِس انڈسٹری میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو نفرتیں اور اثبیت پھیلا رہے ہیں، انسانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں تو اُن لوگوں کیلئے فقیر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔ جو انسانیت سے پیار کرتے ہیں کسی بھی دھرم کے ہوں تو ہم ہاتھ اُٹھائیں گے۔ کسی دین میں نہ ہو تو ہمارا ہاتھ اُٹھانا ہی کافی ہے۔ کسی دین میں نہیں ہے تبھی تو ہاتھ اُٹھا رہے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے اُن کیلئے بھی تو کوئی ہاتھ اُٹھائے۔ کچھ دین کی خلاف ورزیاں ایسی ہوتی ہیں جو اللہ چاہتا ہے کہ ہم کریں جیسے کہ ایک خلاف ورزی معین الدین چشتیؒ نے کی کہ ایک روز غوثِ اعظمؓ کی بارگاہ میں خواجہ معین الدین چشتیؒ حاضر ہوئے تو اُس وقت یہ خواجہ ہند نہیں تھے۔ غوثِ اعظمؓ نے فرمایا کہ جس نے میرے پیچھے کل کی فجر کی نماز پڑھی تو وہ جنتی اور پھر کہا کہ یہ بات سُن کر کوئی آگے کسی کو نہ بتائے تو اگر کسی نے یہ بات آگے بیان کردی تو وہ جہنمی ہوجائے گا۔ اب سب ڈر گئے اور کسی نے یہ بات آگے نہیں بتائی۔ اب جب دوسرے دن فجر کی نماز کا وقت آیا اور جب غوثِ اعظم نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ جمِ غفیر ہے۔ ہزاروں لوگ پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں تو نماز کے بعد غوثِ اعظم کھڑے ہوگئے اور کہا کہ اِس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ میں نے یہ کہا تھا کہ جو کل صبح میرے پیچھے فجر کی نماز پڑھے گا وہ جنتی ہوجائے گا لیکن جس نے بھی اِن سب کو یہاں بلایا ہے کیا اُس نے میرا دوسرا قول نہیں سنا تھا کہ جو کسی اور کو بتائے گا وہ جہنمی ہوجائے گا تو ایک شخص بڑے ادب اور عجزوانکساری کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور عرض کیا کہ حضور میں نے لوگوں کو بتایا ہے میرا نام معین الدین ہے۔ غوثِ اعظم نے فرمایا کہ تم نے دوسرا قول نہیں سُنا تھا کہ بتانے والا جہنم میں جائے گا تو معین الدین چشتیؒ نے عرض کیا کہ میں نے دوسرا قول بھی سُنا تھا۔ پھر غوثِ اعظمؓ نے فرمایا کہ پھر تم نے کیوں بتایا تو اُنہوں نے کہا کہ میں نے یہ سوچا کہ ایک معین الدین چشتی ہی تو جہنمی ہوگا تو میں سب کو بتا دیتا ہوں تو میرے عوض اللہ کی اتنی مخلوق تو جنت میں چلی جائے گی تو میں نے سوچا کہ یہ جو سودا ہے یہ مہنگا نہیں ہے بہت سستا ہے۔ غوثِ اعظم اِس ادا سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے ہی اِن کو خطاب دیا کہ ہند کا خواجہ۔
کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے جیسے کہ عالمِ غیب کے راز تھے وہ ہم (یونس الگوھر) نے سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ سے سُنے۔ سرکار گوھر شاہی نے ہمیں تو نہیں فرمایا کہ کسی کو نہ بتانا لیکن اور لوگوں کو فرمایا کہ نہ بتانا۔ لیکن اگر سرکار گوھر شاہی منع فرما دیتے کہ نہ بتاوٴ تو کیا ہم چُپ رہتے! خاص طور پر جب یہ فرمایا ہو کہ ہمارا اپنا جہان ہے اُس کا نام ریاض الجنة ہے تو ہماری مرضی کہ ایک کو لے جائیں اور ہماری مرضی کروڑوں کو لے جائیں۔ اب جب اُن کی ہی مرضی ہے کہ ایک کو لے جائیں یا کروڑوں کو لے جائیں تو اُنہوں نے ہی لے کرجانا ہے ایک کو بھی اور کروڑوں کو بھی۔ جو ہم اِس سے یہ بات سمجھے ہیں وہ کچھ اور ہے۔ ہم یہ سمجھے ہیں کہ ایک کو لے جائیں یا کروڑوں کو لے جائیں تو وہ جس ایک کو لے جانے کی بات کررہے ہیں اُس کو اشارہ دے رہے ہیں کہ اگر تم نے کروڑوں کو بتا دیا تو ہم کروڑوں کو لے جائیں گے۔ اب ضرورت تو ہے کہ کروڑوں کو پتہ تو ہو کہ کوئی منزل ہے تو جستجو تو کریں، آگے پھر مالکوں کی مرضی ہے۔
جسے چاہا در پہ بلالیا
جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
نہ کہیں سے دُور ہیں منزلیں
نہ کوئی قریب کی بات ہے

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 11 جولائی 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس